Deobandi Books

ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2012

اكستان

22 - 64
محنت کی یہاں تک کہ اُس کی حقیقت حاصل کی کہ اِیمان کیا ہے تقوی کیا ہے خشیت کیا ہے اللہ سے تعلق کیا ہے توکل کیا ہے اُس کے حقائق اُن کو حاصل ہوئے اَور حقائق پر خدا کی طرف سے وعدہ ہے تو ہم بھی صرف اِلفاظ تک محدود نہ رہیں۔ 
 جتنے وعدے آپ قرآن میں پڑھتے ہیں وہ سارے وعدے اِلفاظ پر نہیں ہیںبلکہ حقائق پر ہیں اَور فرمایا کہ جب فساد اِتنا بڑھ جائے گا ،بگاڑ اِتنا عام ہوجائے گا ،فطرت مسخ ہوجائے گی، اِتنی زیادہ اِنسانیت کے اَندر جو قبولیت کی صلاحیت ہے چھن جائے گی تو پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اِن الفاظ کی      بے قدری نہیں ہونے دیں گے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک اِنسان فجر میں اُٹھے گا قرآنِ پاک کھولے گا پڑھنے کے لیے تو اِلفاظ غائب ہوں گے اللہ اُٹھا لیں گے کہ اَب بگاڑ اِتنا بڑھ گیا فساد اِتناعام ہوگیا زندگیوں میں اِتنی زیادہ غلط چیزیں داخل ہوگئیں دِل اِتناسیاہ ہو گیا اَب قبولیت کی اِستعداد ہی ختم ہو گئی تو اَب اِن اِلفاظ کی بے قدری نہ ہو ۔تو قرآنِ پاک کے اِلفاظ کا محفوظ رہنا کتابوں میں باقی رہنا اَوراق پر، یہ اِس بات کی دلیل ہے یہ اِس بات کی اُمید دِلاتا ہے کہ اَبھی حالات اِتنے ناسازگار نہیں ہوئے فساد اِتنا عام نہیں ہوا بگاڑ اِتنا عام نہیں ہوا کہ ہم کوشش کریں اَور اِن الفاظ کی حقیقت کو حاصل نہ  کرسکیں تو یہ قرآن کا محفوظ رہنا اللہ کے طرف سے ایک بہت بڑا اِنعام ہے اِس اُمت پر اَور قرآن کے طفیل میں ہر چیز محفوظ ہے ۔
 آج سے نوے سال پہلے جرمنی میں جو عیسائی پادریوں کا ایک بہت بڑا سمینار ہوا تھا تو اُنہوں نے یہ کہا تھا کہ دیکھیے قرآن کے بارے میں مسلمانوں کا دعوٰی ہے کہ جوں کا توں جیسے اُترا تھا محفوظ ہے بائبل حقائق ڈھونڈ تی رہتی ہے تو ہمیں کوئی ایسی چیز تلاش کر نی چاہیے کہ ہم کہہ سکیں کہ قرآن میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔ اُنہوں نے مراکش سے اِنڈونیشیا تک کے سارے قرآنِ پاک جن جن ملکوں سے حاصل کر سکتے تھے حاصل کیے لاکھوں کی تعداد میں اَور جائزہ لیا اُس کا، یہ تو اُنہیں مِلا کہ کسی جگہ جیسے کمپوزنگ میں کچھ حصہ رہ جاتا ہے یا کتابت میں رہ گیا ہو یا کوئی چیز چھوٹ گئی ہو لیکن یہ نہیں مِلا کہیں پر کہ یہاں پر لفظ کوئی اَور ہے دُوسرے قرآن میں لفظ کوئی اَور ہے، ایسا ایک جگہ بھی نہیں ملا ۔اَور بائبل کا
Flag Counter