ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2010 |
اكستان |
|
کے حکم سے اُس کے عزیزوں کو ختم کراتے رہے ، حتیّٰ کہ تخت ِسلطنت کے لیے شاہی خاندان کے آدمی ڈھونڈنے پڑتے تھے کیونکہ وہ بکثرت قتل ہو گئے تھے یہ سب باتیں تاریخ کی کتابوں میں مفصل موجود ہیں۔ ہمارے اکابر نے اپنے پدرِ رُوحانی حضرت شاہ عبد العزیز صاحب کے زمانہ ہی میں سلطنت ِ اسلامیہ کے بقاء کی مسلح جدو جہد شروع کردی تھی۔ اُنہوںنے ابتدائی استحکام کے لیے صوبہ ٔ سرحد کے علاقہ کا انتخاب کیا کیونکہ اُس جانب شمال میں بخارا اَور مغرب میں افغانستان اَور سلطنت ِ عثمانیہ ترکیہ تھی،اُن سے امداد لی جاسکتی تھی۔ اِس طرح پشت محفوظ ہوتی اَور سپلائی بھی جاری رہتی۔ حضرت سیّد احمد شہید نے وُلَا ةِ بخارا وغیرہ کو امدادکے لیے خطوط تحریر فرمائے۔ (دیکھیں اُن کے مکتوبات) دُوسری طرف اندرونِ ملک بھی ایسے ہی خطوط تحریر فرماتے رہے لیکن اُن کی تحریک نادان جاہ پسند پٹھان سرداران کی وجہ سے ناکام ہوئی۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے سید احمد شہید رحمہ اللہ کی حکومت کو حکومت مُوَقَّتَہ (یعنی ضرورت کے تحت وقتی حکومت) فرمایاہے جو شاہ دہلی کے پاس پہنچ کر ختم ہوجاتی اَور خوبصورتی سے اُن کے حوالہ کردی جاتی ۔ اِسی طرح اُن کے بعد آنے والے تمام حضرات کے پیش نظر پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا غلبہ رہا ہے حتی کہ حضرت شیخ الہند اَور حضرت مدنی کی پوری جماعت کا دور آیا۔ اُن کے نزدیک مسلمانوں کی فلاح کی وہی صورت قابلِ ترجیح تھی جس میں پورے ہندوستان میں مسلمانوں کا عمل دخل ہو۔ یہ حضرات اصحاب ِ رُوحانیت تھے۔ اِن سے مل کر غیر مسلم مانوس ہوتے تھے اَور عہد ِ قدیم میں اِن ہی جیسے حضرات کا عمل دیکھ کر قوموں کی قومیں داخلِ اسلام ہوتی آئی تھیں۔ اِس لیے یہ ہندو سے اَور اُس کی اکثریت سے خائف نہیں تھے۔ اُن کے نزدیک ہندو مسلم تفریق اَور اکثریت واقلیت کا سوال انگریزی دور کی پیداوار تھی۔ اِس بارے میں انگریز مبصرین کے بیانات جو کبھی کبھی شائع ہوجاتے تھے اِس کی واضح دلیل ہیں۔ جو حضرات ہندوستان میں داعیانِ اِسلام گزرے ہیں مثلاً حضرت خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہ ٔ جو اَکابر ِ دیوبند کے سلسلہ چشتیہ میں جدِا مجدہیں، ہندؤوں کو مسلمان کرتے رہے۔ اُن کے بعد اَور