Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

7 - 19
چھے خوف
محترم مدثر خلیل جھنگوی

قیمتی چیزوں کی حفاظت کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے اور ممکنہ حد تک ان کے ضائع ہو جانے اورلُٹ جانے سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اور پھر اگر انسان کو کسی طرح اس بات کا علم ہوجائے کہ کچھ دشمن تمہارے قیمتی اسباب کو ہمہ وقت لُوٹنے اور چُرانے کی فکر میں ہیں تو اس خبر کا یقین کر لینے کے بعد کس قدر خوف لا حق ہو جائے گا اور حفاظت کی ممکنہ تدابیر کا کیسا اہتمام اور احتیاط میں کیسا غُلو ہونے لگے گا ؟ ادنی تا مل سے یہ بات بخوبی سمجھ آسکتی ہے۔

سب سے قیمتی سرمایہ
ایک مومن کے لیے سب سے زیادہ قیمتی اس کا سرمایہٴ ایمان وعمل ہے، جس کی بنیاد پر اسے دنیا و آخرت میں کام یابی و ناکامی کے مراحل طے کرنے ہیں ۔اگر چہ دنیاوی مال و متاع اور مادی اسباب اپنی جگہ ایک حد تک اہمیت اور ضرورت رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت سے پہلو تہی اور غفلت واعراض محمود نہیں،لیکن دائمی اور ابدی کامیابی و ناکامی میں ان کو بنیاد ہر گز نہیں بنایاگیا۔

حضرت عثمان رضی الله عنہ کا ایک قیمتی فرمان
چناں چہ حضرت عثمان کا وہ فرمان جو”الاستعداد لیوم المعاد“میں ذکر فرمایا گیا ہے، ایک مومن کے لیے لائق اعتناء امور کی وضاحت کرتا ہے، جس کو قدرے توضیح و تشریح کے ساتھ زیب قرطاس اور ہدیہٴ قارئین کیا جاتا ہے۔

وقال عثمان رضی اللہ عنہ:انّ المُوٴمن فی ستّ انواع من الخوف احدھا من قبل اللہ تعالیٰ اَنْ یّاخُذ منہ الایمان، والثّانیِ من قِبَلِ الحَفَظة أَنْ یکتُبوا علیہ ما یُفتضح بہ یوم القیامة،والثالث من قبل الشیطنِ اَن یُّبطل عملَہ، والرابع من قبل ملک الموت ان یاخذہ فی غفلة بغتة، والخامس من قبل الدنیا ان یغترّ بہاوتَشغُلَہ عن الآخرة، والسّادس من قبل الاھل والعیال ان یشتغل بہم، فیشغلونہ عن ذکراللہ تعالیٰ․

حضرت عثمان کا فرمان ہے:یقینا مومن کو چھے قسم کا خوف (ہمہ وقت )رہتا ہے، پہلا خوف خدائے بے نیاز سے کہ کہیں (میرے کسی گناہ کے سبب )ایمان نہ سلب فرمالے۔دوسرا خوف کراماًکا تبین کی طرف سے رہتا ہے کہ وہ اس کے خلاف ایسے گناہ لکھ لیں جو قیامت کے دن رسوائی کا سبب بن جائیں ،تیسرا خوف شیطان سے کہ ایسی تدبیر نہ کر لے جس کی وجہ سے اس کی نیکیاں بر باد کردے ،چوتھا خوف موت کے فرشتہ سے کہ کہیں اچانک غفلت میں نہ آدبوچ لے ، پانچواں خوف دنیا سے کہ اس کو خود میں مبتلا کر کے آخرت سے غافل کردے اور چھٹا خوف اہل و عیال سے (بھی ) کہ کہیں ان کی مشغولی اسے اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے ۔

پہلا خوف
ان سب میں سے پہلا خوف باقی انواع خوف سے زیادہ اہمیت رکھتاہے کیوں کہ ایمان ہی وہ بنیادی سرمایہ ہے جس کے وجود یا عدم پر ہمیشہ کی جنت یا دوزخ کا مدار ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمن ایمان کا حملہ اس وقت نہایت شدید ہوتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت کلمہ کی تلقین کا حکم فرمایا:

”اُحْضُرُوْا مَوتَاکُمْ و لَقِّنُوْھُمْ: لا الٰہ الا اللہ، وبَشِّروھم بالجنة، فان الحَلِیَم من الرِّجال و النِّساء یتحیّر عند ذالک المصرع، وانّ الشیطن قرب مایکون من ابن آدم عند ذلک المصرع“․(کنز العُمّال)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو (مسلمان)قریب المرگ ہوں ان کے پاس رہو اور ان کو کلمہ لا الہ الااللہ کی تلقین کرو اور ان کو جنت کی خو ش خبری دو، کیوں کہ اس سخت وقت میں بڑے بڑے عقل مند مرد و عورت حیران رہ جاتے ہیں اور شیطان اس وقت انسان کے ساتھ سب اوقات سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔

نزع کے وقت انسان کی حالت
امام شعرانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے کتاب مختصر تذکرہ قرطبی میں تحریر فرمایا ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ جب انسان نزع کے عالم میں ہوتا ہے تو دو شیطان اس کے دائیں اور بائیں آکر بیٹھتے ہیں، داہنی جانب والا اس کے باپ کی شکل میں ہوتاہے اور اس سے کہتاہے کہ بیٹا !میں تجھ پر مہربان و شفیق ہوں ، نصیحت کرتا ہو ں کہ تو نصاری کا مذہب اختیار کر کے مرنا، کیوں کہ وہی بہترین مذہب ہے اور بائیں جانب والا شیطان میت کی ماں کی شکل میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ بیٹا !میں نے تجھے اپنے پیٹ میں رکھا ،دودھ پلایا ،گود میں پالا ،میں تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ یہود کا مذہب اختیار کر کے مرنا، کیوں کہ وہی بہترین مذہب ہے ۔(ذکرہ ابو الحسن الفاسی )اور یہی مضمون تقریباًامام غزالی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”الدرة الفاخرہ فی کشف علوم الآخرة“ میں رقم فرمایا ہے ۔

جس میں یہ ہے کہ جب انسان نزع روح کی ایسی شدید تکلیف میں مبتلا ہوتاہے کہ بڑے بڑے عقلاء و حکماء کی عقلیں اس وقت بیکار ہوتی ہیں تو انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان اپنے اعوان و انصار کو لے کر پہنچتا ہے اور یہ سب ان لوگوں کی شکلوں میں ہوتے ہیں جو اس سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس کے خیر خواہ اور دوست احباب تھے اور صالح و متقی سمجھے جاتے تھے ۔پھر اس سے کہتے ہیں کہ ہم تجھ سے پہلے اس موت کی گھاٹی سے گزر چکے ہیں، اس کے نشیب و فراز سے واقف ہیں، اب تیرا نمبر ہے، ہم تجھے خیر خواہانہ مشورہ دیتے ہیں کہ تو یہود کا مذہب اختیار کرلے کہ وہی خیرالادیان ہے۔اگر میت نے ان کی بات نہ مانی تو دوسری جماعت اس طرح دوسرے احباب و اقربا کی شکل میں آکر کہتی ہے کہ تو نصارٰی کا مذہب اختیار کرلے ،کیوں کہ وہ مذہب ہے جس نے موسیٰ علیہ السلام کے مذہب کو منسوخ کیاہے۔

موت کے وقت ثابت قدمی کا نسخہ
پس اسی طرح ہر مذہب و ملّت کے عقائدِباطلہ اس کے دل میں ڈالتے ہیں، چناں چہ جس کی قسمت میں دین حق سے پھر جانا لکھا ہوا ہے وہ اس وقت ڈگمگا جاتا ہے اور باطل کے مذہب کو اختیار کر لیتا ہے، اس لیے قرآن کریم میں یہ دعاتلقین فرمائی گئی ہے :﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً﴾․

ترجمہ:اے ہمارے پروردگار! ہمارے قلوب کو ہدایت کے بعد باطل کی طر ف مت کر اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطافرما۔

خدا کا شکر کریں
خداوندِ کریم کا کس قدر انعام و احسان ہے کہ اس نے ہمیں دولت ایمانی سے مالا مال کیا ہے اوراس کے حصول کے لیے ہمیں کچھ محنت و مجاہدہ نہ کرنا پڑا،اگر خدانخواستہ ہمیں اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز کیا جاتا تو کفروشرک کی اندوہ ناک وادیوں میں بھٹک رہے ہوتے اور پھر کبھی بھی دوزخ سے چھٹکارا نصیب نہ ہوتا ،لیکن کتنے غم کی بات ہے کہ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سے حضرات ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے کلمہ گوگھرانے میں آنکھ کھولی، پیدا ہوتے ہی اللہ اکبر کی دلکش صدا نے اس کی لوح قلبی پر خداوندِعظیم کی کبریائی کے نقش چھوڑے، لیکن ظاہری صورت و سیرت اور اعمال واخلاق سے ان کے پوشیدہ جوہر ایمان کا اندازہ مشکل ہو جاتاہے ۔ہم ذرا سوچیں تو سہی کہ ہم اپنے ایمان کو داغ دار ہونے سے کتنا بچاتے ہیں اور ہمارے معمولات میں حفاظت ایمانی کے لیے کیا کچھ ہے ؟!!اور کچھ نہیں تو آخری درجہ کی بات! کم ازکم کبھی مراقب ہو کر اورسنجیدگی سے سوچا ہی ہوکہ اس وقت کیا بنے گا جب نزع روح اور سکراتِ موت کی شدید ترین تکلیف ہوگی، اس ہول ناک منزل میں دشمنوں کے لشکر کا حملہ اور وہ بھی دشمنوں کے لباس میں نہیں، بلکہ ماں باپ اور احباب و اقربا کے بھیس میں، خیر خواہانہ مشورہ کے اندازمیں ․․․․․․․․اس مجموعہ کا تصور کریں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید ایک آدمی بھی اس منزل میں ثابت قدم نہ رہے، لیکن #
        دشمن چہ کند چوں مہربان باشد دوست

رحمن کی رحمتیں
اس رحمن نے اس موقع پر بھی اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے گناہ گاروں کو بے آسراو تنہا نہیں چھوڑا، چناں چہ جہاں شیطان لعین بہکانے اور گم راہ کر نیکی کوشش کرتا ہے وہاں ملائکہ رحمت بھی بشارتیں لے کر نازل ہوتے ہیں۔

قرآن پاک میں ہے :
﴿الذین آمنو ا وکانوا یتقون﴾ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہی۔

﴿لہم البشری فی الحیٰوة الدنیا والآخرة﴾ ان کے لیے خوش خبری ہے حیات دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

اولیاء الله کے لیے خوش خبریاں
آخرِ آیت میں یہ جو فرمایا گیا کہ اولیا کے لیے دنیا میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی ،آخرت کی خوش خبری تو یہ ہے کہ موت کے وقت جب اس کی روح کواللہ تعالیٰ کے پاس لے جایا جائے گا اس وقت اس کو خوش خبری جنت کی ملے گی۔

اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے فلانے !کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ میں جبرئیل ہوں اور یہ سب تیرے دشمن شیاطین ہیں تو ان کی بات نہ سن !اپنے دین حنیف شریعت محمدیہ ابراہمیہ پر قائم رہ۔

سورة فصلت میں ایک جگہ پر فرمایا:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَةُ …نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِیْمٍ ﴾

ترجمہ:جن لوگوں نے اقرار کرلیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر مستقیم رہے، ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور تم جنت پر خوش رہو، جس کا تم سے وعدہ کیا جایا کرتا تھا، ہم تمہارے رفیق تھے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے اور تمہارے لیے اس میں جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا موجود ہے، نیز تمہارے لیے اس میں جو مانگو گے موجود ہے، یہ بطور مہمانی ہوگا رب غفور کی طرف سے ۔

فرشتوں کا نزول اور وہ خطاب جو اس آیت میں آیا ہے حضرت ابن عباس  نے فرمایا کہ موت کے وقت ہوگا اور حضرت قتادہ  نے فرمایا کہ محشر میں قبروں سے نکلتے وقت ہوگا اور وکیع بن جراح نے فرمایا کہ تین وقتوں میں ہوگا، اول موت کے وقت، پھر قبروں کے اندر، پھر محشر میں قبروں سے اٹھتے وقت۔

استقامت کامطلب
استقامت اور ملائکہ کے متعلق مختلف تفسیریں حضرات صحابہ وتابعین سے منقول ہیں ،البتہ ایک تفسیر حضرت سیدنا صدیق اکبر  کی بیان فرمودہ ہے کہ استقامت سے مراد ایمان و توحید پر استقامت ہے ۔اور امام ابن کثیر  حضرت زید بن اسلم  سے یہ تفسیر نقل کرتے ہیں ۔

”فرشتے اس کو بشارت دیں گے بوقت موت اور قبر میں اور جس وقت کہ وہ قیامت کو اٹھے گا۔“

اس روایت کو ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے اوریہ تفسیر تمام تفسیروں کی جامع ہے اور یہی بہتر ہے اور ایسا ہی ہوگا ․(ابن کثیر )

موت کے وقت کید شیطانی میں مبتلا ہونے کے اسباب
مذکورہ آیات اور روایات ِ حدیث سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ شیطان لعین نزع کے نازک وقت میں انسان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے خطرناک انداز سے حملہ آور ہوتا ہے اور انسان ازخود اس کے مکر و فریب سے بجز رحمت الٰہیہ کے بچ نہیں سکتا کہ اللہ کریم ہی فرشتوں کے ذریعے اس کو دفع کردے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مومن کے لیے کس قدر لمحہ فکر یہ ہے اور کیسی وحشت ناک گھاٹی سے دو چار ہونا ہے ، اسی لیے کا ملین کو یہی دعا مانگتے دیکھا اور سنا ہے، مولیٰ کریم !ہمارا خاتمہ ایما پر کردیجیو۔

فرشتوں کی مدد کس کے لیے ہو گی؟
اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ فرشتوں کی اعانت انہی لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اقرار کریں اور پھر اس پر مستقیم بھی رہیں،اب جو لوگ سرے سے ایمان ہی نہ لائیں اور اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اقرار ہی نہ کریں وہ تو پہلے ہی شیطان کے جال میں گرفتار ہیں، لہٰذا موت کے وقت بھی رہیں گے ۔ایسے لوگ رحمت خداوندی اور بشارت وامداد ملائکہ سے محروم بلکہ غضب الہٰی اور وعیدو عذاب کی صورتوں سے ہم کنا رہوں گے اعاذنا اللہ منہا․

مقام غور تویہ ہے جو لوگوں ایمان کی دولت سے نوازے گئے، مگر اس پر مستقیم نہ رہے وہ بھی اس رحمت اور امداد ملائکہ سے محروم ہوں گے ۔

استقامت کے درجات
پھر مستقیم رہنے کے چند درجات ہیں، ایک تویہ ہے کہ معاذاللہ ایمان ہی کھو بیٹھے۔ دوسرے یہ کہ ایسے معاصی اور گناہوں میں منہمک اور ان پر مصر رہے جس سے ظاہر ہو کہ اس کے دل میں خدا کا خوف نہیں، جو روح ہے ایمان اور استقامت کی ،ایسے لوگ بھی اس وقت کید شیطانی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

متعدد واقعات ایسے ہیں جن سے مختلف گناہوں کے سبب بوقت موت کید شیطانی میں مبتلا ہونا ظاہر ہوتا ہے امام شعرانی نے ”مختصر تذکرہ “میں اس قسم کے بہت سے واقعات تحریر فرمائے ہیں، جن میں چند یہ ہیں ۔

ایک دلال جو ہمیشہ اور ہر وقت اپنے تجارتی کاروبار میں ایسا مشغول رہتا تھا کہ نماز و عبادت کا دہیان بھی کبھی نہ آتا تھا، اسے مرنے کے وقت کلمہ کی تلقین کی گئی، مگر اس کی زبان پر تجارتی حساب اور انگلیوں پر اسی کا شمار تھا، کلمہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوئی، اسی میں گزر گیا۔

ایک شخص کو لوگوں نے مرتے وقت کلمہ کی تلقین کی تو اس نے کہا مجھے اس پر قدرت نہیں، کیوں کہ میں زبان سے اپنے پڑوسیوں کوایذا پہنچاتا تھا۔

اسی طرح ایک شخص کو بوقت نزع تلقین کی گئی تو کہا کہ مجھے یہ کلمہ پڑھنے کی قدرت نہیں۔ لوگوں نے کہا کہ غور کرو کہ کس گناہ کے سبب یہ صورت ہوئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی عمر میں ایک مرتبہ زنامیں مبتلا ہوگیا تھا۔اعاذنا اللہ منہ

تنبیہ:یہ صورت بظاہر اس وقت پیش آتی ہے کہ آدمی بے فکر ی کے ساتھ گناہ پر اصرار کرتا رہے، ورنہ ایساکون ہے جو کبھی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوا ہو۔ البتہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰ ة والسلام قبل از نبوت اور بعداز نبوت صغائروکبائر سے معصوم رہتے ہیں ۔

فرشتے ان جگہوں میں حاضر نہیں ہوتے
حضرت میمونہ بنت سعد فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ !کیا غسل کی حاجت والا آدمی بغیر غسل کے سورہے تو کوئی حرج ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا :مجھے پسند نہیں کہ وہ بلا وضو کے سو جائے، کیوں کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں سوتے ہوئے موت آجائے تو اس کے پاس جبرئیل علیہ السلام نہ آویں گے ۔

حدیث مذکور سے ثابت ہوا کہ جن چیزوں سے فرشتوں کو نفرت ہے وہاں وہ نہیں جاتے اور مرنے والا فرشتوں کی امداد و اعانت سے محروم رہ جاتا ہے اور ایسی حالتمیں شیطان کی چالوں میں پھنس جانا کچھ بعید نہیں، وہ چیزیں جن کے ہوتے ہوئے فرشتے نہیں آتے ان میں مشہوریہ ہیں۔

(شوقیہ)کتا ،جان دار کی تصویر ،بجنے والا زیور،غسل کی حالت والاآدمی، خواہ مرد ہویا عورت یا وہ عورت جس کے ایام حیض ونفاس ختم ہوچکے ہوں ،جس کی وجہ سے اس پرغسل واجب ہوجاتا ہے، بغیر کسی عذر مقبول کے محض سستی اور تساہل کی وجہ سے غسل میں اتنی تاخیر کریں کہ نماز قضا ہونے لگے۔

نوٹ۔بعض اوقات عورتیں بچہ کی ولادت کے بعد چالیس دن تک بلا غسل کیے رہتی ہیں، جب کہ عورتوں کا دم نفاس چالیس دن سے پہلے بھی رک جاتا ہے اور ان پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور نماز روزہ وغیرہ، جو ممنوع تھے، ان کی ممانعت ختم ہو چکی ہوتی ہے، معلوم ہوا کہ چالیس دن (چہلہ نہانا)ضروری نہیں ہے، بلکہ جب خون رک جائے تو فورا غسل واجب ہو جاتا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ جس گھر میں عورت ننگے سر بیٹھی ہو وہاں بھی رحمت کے فرشتے نہیں آتے، یہ سب روایات” شفاء الاسقام فیما تنفر عنہ الملائکة الکرام “میں مستند حدیث کے حوالہ کے ساتھ مذکور ہیں ۔

افسوس ہے کہ آج کل مسلمانوں میں بھی شوقیہ کتا پالنے اور تصویریں رکھنے کا رواج عام ہوگیا ہے اور شاید ہی کبھی خیال گزرا ہو کہ ہم نے اپنے گھروں میں شیاطین کو مسکن دے رکھا ہے اور فرشتوں کو داخل ہونے سے روک رکھا ہے ،کس قدر گھبراہٹ کا منظر ہوگا نزع روح کا، جب انسان عالم تکلیف میں ہوگا اور شیاطین اپنوں کا روپ دھار کر اسلام سے برگشتہ کرنے کی تدابیر کررہے ہوں گے اور ہم رحمت کے فرشتوں کی امداد واعانت کے محتاج اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے لیے خود کو پیش کر چکے ہوں گے ․اللہ تعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان کا مل پر فرمائے ۔آمین!
Flag Counter