Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

11 - 19
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دار الافتا جامعہ فاروقیہ کراچی

مسجد کی اشیاء کا جلسہ جلوسوں میں استعمال کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں مفیتان کرام ان مسائل کے بارے میں کہ زید ایک بڑی جامع مسجد کا امام وخطیب ہے او رمسجدکے تمام انتظامات واختیارات زید کے ہاتھ میں ہیں ، ایک دن عمر ومسجد میں آیا اور زید کو بغیر بتائے مسجد کے اسپیکر کے ایمپلیفائر (Amplifire) لے کر چلا گیا ( بعد میں وجہ یہ بتائی کہ ہماری مذہبی تنظیم حرمت رسول صلی الله علیہ وسلم کے متعلق ریلی نکال رہی ہے، اس لیے ایمپلیفائر سے اسپیکر منسلک کرکے حرمت رسول صلی الله علیہ وسلم کے نعرے لگا ئیں گے، باجود اس کے کہ جمعہ کا دن تھا اور وعظ وبیان بھی بہت سخت متاثر ہوا کیا عمر کے لیے ایسا کرنا جائز تھا؟

نیز کیا امام کو اختیار ہے کہ مسجد کی کوئی چیز مسجد کے باہر کے کاموں میں استعمال کرنے کی اجازت دے دے؟

جواب… مسجد کی اشیاء موقوفہ، اس کے مائک، اسپیکر یا ان کے ایمپلیفائر کو مسجد کے کاموں میں ہی استعمال کرنا چاہیے ، جلسے جلوسوں کے لیے مساجد کی موقوفہ اشیاء استعمال کرنا درست نہیں اور نہ عمرو کا مذکورہ فعل جائز ہے اور نہ ہی مسجد کے امام اور متولی کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ مسجد کی موقوفہ اشیاء کو مسجد کے علاوہ باہر کے کاموں میں استعمال کرنے کی اجازت دیں۔

مقدس اوراق کو قصداًنہ اٹھانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں : اگر کسی نالی یا گندی جگہ مقدس اوراق یا اخبار جس پر الله کا نام ہو، آدمی قصداً اس کو چھوڑے، کیا یہ شخص کافر ہو گا یا نہیں؟

آج کل عموم بلویٰ کی وجہ سے اگر آدمی ان اوراق کو چھوڑ دے، یہ کہتے ہوئے ” کہ آخر کتنے اوراق کو اٹھاوں گا“ کیا اس سے آدمی گناہ گار تو نہیں ہوتا۔

جواب…،۔ واضح رہے کہ وہ اوراق جن پر قرآنی آیات یا احادیث مبارکہ یا الله اور رسول کا نام لکھا ہو ان کا احترام ہر مسلمان پر لازم وضروری ہے ، ایسے اوراق کو گندی جگہ پھینکنا یا ایسی جگہ رکھنا جہاں ان کی بے حرمتی ہوتی ہے ناجائز ہے ، جن اوراق پر احادیث نبویہ یا قرآنی آیات لکھی ہوں ان کو گندی جگہ سے قصدانہً اٹھانے سے سخت گناہ گار ہو گا او ران کے علاوہ دیگر اخبارات، واشتہارات اگر نیچے پڑے ہوں جن میں دینی مضامین وغیرہ ہوں، ان کا احترام بھی ضروری ہے اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی وجہ سے نہ اٹھا سکے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔

نماز میں وضوء ٹوٹ جانا
سوال… کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں مفتیان کرام کہ:
ایک شخص جو کہ امام کی اقتدا میں ہے اس کو درمیان نماز حدث لاحق ہو گیا وہ ایک رکعت ادا کرچکا تھا ، پھر وہ جاتا ہے اور وضو کرکے جب واپس آتا ہے تو امام دور رکعت مزید پڑھا چکا ہوتا ہے ، تو اب وہ شخص چاہتا ہے کہ میں دوبارہ نئے سرے سے نماز پڑھنے کے بجائے بنا کر لوں تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہو گا؟ خواہ ایک رکعت رہ جائے یا دورہ جائے یا تین رہ جائیں ، بہرصورت اس کا مکمل طریقہ کیا ہو گا؟

جواب… نماز میں وضو ٹوٹ جائے تو وضو کے بعد اس پر بناء کے لیے چند شرائط ہیں جن کی رعایت کیے بغیر بناء صحیح نہ ہو گی ، ذیل میں ان شرائط کو بیان کرکے پھر بناء کا طریقہ لکھا جاتا ہے وہ شرائط یہ ہیں:
٭...وہ حدث غیر اختیاری طور پر لاحق ہوا ہو ( یعنی جان بوجھ کے وضو نہ توڑا ہو)
٭...وہ حدث موجب وضو ہو ، موجب غسل نہ ہو ۔
٭...وہ حدث ایسا نہ ہو جو کبھی کبھار شاذ ونادر واقع ہوتا ہو ، پس اگر ایسا کوئی حدث لاحق ہوا مثلاً بے ہوش ہو گیا یا مجنون ہو گیا تو اب اس پر بناء جائز نہیں۔
٭... جیسے ہی وضو ٹوٹے فوراً وضو کے لیے چلا جائے، حتی کہ اس رکن کو بھی پورا نہ کرے جس میں وضو ٹوٹا ہے۔
٭...وضو کے لیے جانے کے بعد سے لے کر دوبارہ نماز میں شامل تک کوئی غیر ضروری کا م نہ کرے، لہٰذا اگر قریب ترین جگہ جہاں وہ وضو کر سکتا تھا اسے چھوڑ کر دور والی جگہ وضو کرنے چلا گیا تو نماز فاسد ہو گئی۔
٭...اس دوران کوئی ایسا کام نہ کرے جو نماز کے منافی ہو ، لہٰذا اس دوران اگر کسی سے بات کر لی، چاہے اشارے سے ہی کیوں نہ ہو یا کچھ کھا پی لیا تو نماز فاسد ہو گئی ، اس پر بناء جائز نہیں۔
٭... وضو کے بعد واپس آتے ہوئے راستے میں کوئی رکن ادانہ کرے، لہٰذا اگر واپسی میں چلتے ہوئے قراء ت کی تو نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی۔
٭... اس حدث کے بعد کوئی دوسرا حدث لاحق نہ ہو جائے، مثلاً وضو کرنے گیا ( اور اس نے موزوں پر مسح کیا ہوا تھا) او رمسح کی مدت پوری ہو گئی، یا تیمم کیا ہوا تھا او رپانی نظر آگیا تو اب دوبارہ سے نماز پڑھنی ہو گی۔
٭...اگر یہ صاحب ترتیب ہے تو اس کو پہلے کی کوئی فوت شدہ نماز نہ یاد آجائے، پس اگر پہلے کی کوئی فوت شدہ نماز یاد آگئی تو ترتیب کی رعایت کی وجہ سے یہ نماز اس کی فاسد ہو جائے گی ، پہلے فوت شدہ نماز پڑھے پھر یہ نماز پڑھے۔
٭... وضو کرنے کے بعد اگر یہ مقتدی ہے او رامام نماز سے فارغ نہیں ہوا ہے تو امام کے ساتھ جاکے شریک ہو جائے او راگر امام نماز سے فارغ ہو چکا ہو تو اسے اختیار ہے چاہے پہلی جگہ چلا جائے یا وہیں نماز پوری کرلے۔
٭... اور اگر یہ شخص امام ہے تو کسی ایسے شخص کو اپنا خلیفہ بنائے جو امامت کا اہل ہو ، لہٰذا اگر عورت کو یا نابالغ کو امام بنا دیا تو سب کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

بناء کا طریقہ یہ ہے کہ جب یہ وضو کرکے واپس آجائے تو جس رکن میں حدث لاحق ہوا تھا اس رکن سے نماز شروع کرے اور پہلے جو امام نے اس کے بعد نماز پڑھائی ہے وہ پڑھے ، اس کے بعد اگر امام نماز سے فارغ نہیں ہوا ہے تو اس کے ساتھ شریک ہو جائے ، مثلاً امام دوسری رکعت میں کھڑا ہوا او رمقتدی کا وضو ٹوٹ گیا ہے، جب یہ وضو کرکے آیا تو امام چوتھی رکعت کے قیام میں تھا تو اب یہ پہلے دوسری رکعت پڑھے پھر تیسری رکعت پڑھے ، اب اگر امام مثلاً قعدہ اخیرہ میں ہے تو چوتھی رکعت پڑھ کر امام کے ساتھ شامل ہو جائے او راس کے ساتھ ہی سلام پھیرلے اور اگر اس کے امام تک پہنچنے سے پہلے ہی امام نے سلام پھیر لیا تو اپنی نماز اسی طریقے سے مکمل کر لے۔

اور چوں کہ یہ شخص مقتدی کے حکم میں ہے اس لیے یہ دوسری ، تیسری اور چوتھی رکعت میں نہ قراء ت کرے گا اور نہ اس پر کسی سہو کی وجہ سے سجدہ سہو لا لازم ہو گا، لہٰذا کوشش کرے کہ یہ رکعات مختصرکرکے پڑھے تاکہ امام کے ساتھ نماز میں شامل ہو سکے۔

قضائے عمری کے مروجہ طریقے کی شرعی حیثیت
سوال … کیا فرماتے ہیں مفیتان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مولانا صاحب ہر سال جمعة الوداع کو نماز جمعہ کے بعد چار رکعت نفل نماز ( قضاء عمری) کے نام سے جماعت سے پڑھاتا ہے او رباقاعدہ اس نماز کے پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے او رمولوی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ نماز صرف ان پابند نمازی حضرات کے لیے ہے جنہوں نے خدانخواستہ کوئی نماز ناپاکی کی حالت میں پڑھی ہو یا کپڑے ناپاک تھے اور ان کو اس کا پتہ نہ چلا ہو تو اس نماز (قضاء عمری) کی اس طرح کوئی اصل ہے ؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب…قضاء عمری کا مذکورہ طریقہ درج ذیل وجوہات کی بناء پر شرعاً جائز نہیں:

مذکورہ طریقہ شرعاً ثابت نہیں اور نہ ہی شریعت میں اسکی کوئی اصل ہے۔ علی سبیل التداعی نوافل کی جماعت کرانا مکروہ ہے۔ قضا نماز کو مخفی طور پر پڑھنا چاہیے ، جب کہ مذکورہ طریقے میں علی الاعلان لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ فوت شدہ فرائض کی قضاء بھی فرض ہے ، جب کہ مذکورہ طریقہ میں نفل کی نیت سے نماز پڑھی جاتی ہے اور نفل پڑھنے سے فرض کی قضاء ذمہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ قضاء نمازوں سے متعلق اصول شرعی یہ ہے کہ جتنی نمازیں فوت ہو جائیں ان سب کی قضاء لازم اور ضروری ہے ، ایک نماز تمام عمر کی قضاء نمازوں کے لیے کافی ہو جائے ، شرعاً اس کی کوئی اصل نہیں۔

چالیس دن تک ہر جمعرات کو میت کے لیے قرآن خوانی کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان ملت اس مسئلہ کے بارے میں کہ موجودہ د ور میں یہ رواج بن چکا ہے کہ اکثر گھروں میں میت کے موقع پر چالیس دن گزرنے تک ہر جمعرات قرآن خوانی کروائی جاتی ہے (میت والے گھر میں ) اگر اہل خانہ قرآن خوانی اپنے گھرمیں نہ کروائیں یا کوئی اس قرآن خوانی میں نہ آئے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے ۔ مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ قرآن خوانی کرواناکیسا ہے؟ نہ کروانے پر یا اس قرآن خوانی میں نہ جانے پر تنقید کا نشانہ بنانا کیسا ہے؟ مہربانی فرماکر قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب… میت کے لیے ایصال ثواب، دعا واستغفار کرنا قرآن وسنت سے ثابت ہے او رمیت کے لیے اس کی مثال اس تحفہ کی سی ہوتی ہے جسے پاکر اسے راحت وفرحت ملتی ہے ۔ ایسے میں کوئی بھی نیک عمل کرنے سے پہلے میت کو اس کا ثواب پہنچانے کی نیت کر لی جائے تو اس عمل کا ثواب الله جل شانہ میت کو پہنچادیتے ہیں اور وہ عمل کوئی بھی ہو سکتا ہے مثلاً: قربانی کے دنوں میں میت کی طرف سے قربانی کی نیت کرنا ، حج وعمرہ کا ثواب ایصال کرنا، اسی طرح نفلی روزہ، نماز، تلاوت قرآن، صدقات وغیرہ کا ثواب ایصال کرنا، البتہ کوئی خاص دن مقرر کرکے قرآن خوانی کا اہتمام کرنا اور پھر جونہ آئے اسے تنقید کانشانہ بنانا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے اور جو چیز شریعت کے مزاج کے خلاف ہو او رثابت نہ ہو ، اس کو اپنی طرف سے شروع کرنا صحیح نہیں۔

اس طرح قرآن خوانی میں قباحت یوں بھی ہے کہ لوگ چند روز قرآن وغیرہ پڑھ کر میت کو بھلا دیتے ہیں جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ چالیس دنوں کے بعد آئندہ مستقبل میں بھی میت کو یاد رکھا جائے او رمختلف نیک اعمال کرکے میت کو ایصال ثواب پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔
Flag Counter