Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

4 - 19
آبروئے اِسلام حضراتِ صحابہٴ کرام
مفتی مکرم محی الدین قاسمی

نسبت وصحبت دو ایسے عوامل ہیں جو کسی انسان کی تربیت وشخصیت سازی میں اور قدرو منزلت کے میدان میں کیمیا اثر رکھتے ہیں، منسوب الیہ کی عظمت منسوب کی عزت افزونی کا باعث ہوتی ہے اور مصاحَب کی صحبت کے اثرات مصاحِب میں منتقل ہوتے ہیں، یہ تعلق کبھی اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ ایک کی عظمت وتوقیر دوسرے کے احترام کے مترادف اور ایک کی گستاخی وبے ادبی دوسرے کی اہانت کے ہم معنی ہوتی ہے، یہ نسبت ہی کا کرشمہ ہے کہ بیت اللہ آغازِ دنیا ہی سے مخلوق کا قبلہ وکعبہ اور روئے زمین کے دیگر خطوں سے مبارک ومحترم قرار پایا اور یہ نسبت ہی کی کارستانی ہے کہ گوشت پوست کی بنی، صرف ایک اونٹنی کی بے حرمتی عذابِ خداوندی کی آمد کا پروانہ اور ایک پوری قوم کی ہلاکت کا پیش خیمہ بنی، یہ صحبت ہی کی برکات ہیں کہ سگِ اصحابِ کہف کو تاقیام قیامت، شہرت وجاودانی نصیب ہوئی، غرض نسبت جس قدر عالی اور صحبت جتنی کامل ومکمل ہوگی منسوب ومصاحب اسی تناسب سے عزت وتکریم کے لائق ہوگا۔

یہ امر اہلِ ایمان کے نزدیک ہرقسم کے شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ پوری کائنات میں رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہی افضل واکمل ترین ہے، مربیانہ نقطہٴ نظر سے اور رجال سازی کے اعتبار سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا کوئی ثانی اور نظیر نہیں، لمحہ بھر کی صحبت اور پل بھر کی روٴیت بھی سینکڑوں نیک سرشتوں کے ایمان وانقلاب کا باعث بن گئی، صحبت ونسبت کی یہ تاثیر کچھ اس قدر معجزانہ تھی کہ اس دولت کا ہر نصیبہ ور اپنی جگہ صاحبِ بزم اور سینکڑوں کی ہدایت کا سرچشمہ اور قلب ونگاہ کی ٹھنڈک کا سامان تھا #
        خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
        کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

تاریخِ اسلام میں یہ مقدس گروہ، صحابہ کرام کے باعظمت لقب سے جانا جاتا ہے، نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم سے ان کی صحبت ومعیت کا یہ رشتہ اس درجہ مضبوط تھا کہ بحیثیتِ مجموع صحابہ کا لقب گویا ان کے لیے بجائے علم (اسم خاص) ہوگیا، یہ وہ مقدس جماعت تھی جس کی وفاداری ووارفتگی کی دہائی وشہادت غیروں نے دی، ان کا وجود بجائے خودنبوتِ حقہ کی دلیل تھا، جو ایک دفعہ ہاتھ میں ہاتھ دیتا ہمیشہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہوکر رہ جاتا، جذبہٴ سرفروشی وجانثاری کی انتہا یہ کہ ناممکنات تک کو سر کرلینے کا حوصلہ، ایفائے عہد کا یہ عالم کہ آخری سانس تک اس کی پاس داری کا خیال وتلقین، عشق وعقیدت کی معراج یہ کہ جسم سے نکلنے اور جسم سے ہوکر گزرنے والی اشیاء تک سے تعلقِ خاطر، مشن سے وابستگی کی یہ حالت کہ مال ودولت سے لے کر باپ بیٹے تک کے تمام رشتے ناطے قربان، ادب کا یہ عالم کہ نظریں بھر کر محبوب کو دیکھنا بھی دشوار، رشتہ محبت کی حمیت وغیریت کا مظہر یہ کہ ادنیٰ گستاخی پر بھی عفو وحلم کے سارے تقاضے برطرف، اطاعت واتباع کا یہ جذبہ کہ عبادات، عادات، سے لے کر اتفاقات تک کی پیروی، فدائیت ایسی کہ اپنی جان بخشی کے عوض پائے اقدس میں کانٹے کی چبھن تک ناگوار، وصال وہم نشینی کی کیفیت یہ کہ لمحہ بھر کے لیے ناگہاں جدائی بھی دوبھر اور تشویش کا باعث؛ غرض یہ چند مجمل اشارات ہیں جن میں صحابہ کرام کی فداکارانہ ومخلصانہ کارناموں کی ایک طویل داستان پوشیدہ ہے ۔یہ حضرات درحقیقت اسلام کی عملی تصویر ہیں، چمنِ اسلام کی باغ وبہار انہیں کے دم سے قائم ہے، ان سے محبت، حرارتِ ایمانی کے وجود اور سلامتِ فکر وعقل کی دلیل اور ان سے بغض وکینہ رکھنا اور ان پر نکتہ چینی کرنا، بدباطنی، گم راہی، بدخصلتی کور مغزی کا ثبوت ہے، ان سے محبت رسول سے محبت اور ان سے بغض رسول سے بغض ہے، یہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کے قلوب تقوی وطہارت سے لبریز تھے، ان کے دلوں کی تختیاں نہایت شفاف تھیں، نفسانی آلائشوں سے پراگندہ وآلودہ نہ تھیں، ان کے اخلاص ونیت پر کسی طرح کا شبہ خود آدمی کے اخلاص وایمان پر سوالیہ نشان لگادیتا ہے، ان کے کارہائے زندگی کو ہدف وتنقید کا نشانہ بنانا، ایک طرف فرمانِ نبوی سے انحراف ہے اور دوسری طرف ناقد کے ذہنی اختلال اور بیماریٴ خرد کی عکاس ہے، بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بعض ایسے عناصر جگہ پاچکے ہیں جو کسی نہ کسی حیثیت سے توہینِ صحابہ کے مرتکب ہیں، ایک فرقہ ایسا ہے جس کے یہاں صحابہ کی زائد از ایک لاکھ جماعت سے سوائے اکہرے یا دوہرے ہندسے کے چند مٹھی بھر افراد کے کوئی مسلمان ہی نہیں، یہ فرقہ اس اعتبار سے سنگین اور خطرناک نہیں کہ اس کے بغضِ صحابہ کا پہلو واضح اور ہرہوش مند کے لیے اجتناب ودوری کا داعی ہے، امت کے درمیان ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو صحابہ کے تعلق سے موقع شناس، مطلب برآء، بلکہ خود غرض واقع ہوا ہے۔

بعض صحابہ اس کے یہاں معیارِ حق ہیں، جب کہ دوسرے بعض لائق اعتناء نہیں ہیں، بلکہ بارہا یہ بوالعجبی بھی دیکھنے کو ملی کہ ایک ہی قسم کے صحابہ بعض مسائل میں حجت رہے اور بعض میں نہیں، اس فرقے کے کوئی ایسے واضح اور بے لچک اصول نہیں جن کو سنجیدگی کے ساتھ برتا جاتا ہو، گویا یہ لوگ جدھر ہری ادھر چری کی مثل پرگام زن ہیں، ایک طبقہ ہے جو مشاجراتِ صحابہ (صحابہ کے باہمی اختلافات) سے نالاں نظر آتا ہے، وہ ان صحابہ کو قلم وقرطاس کی عدالت میں لاکر مقدمہ بازی وفیصلہ سازی سے کام لیتا ہے، صحابہ کی ایک جماعت پر فردِ جرم عائد کرتا ہے اور دوسری جماعت کو پروانہ برأت وصداقت دینا چاہتا ہے، اس کے کٹہرے میں بعض صحابہ کو بطور ِمجرم وحق تلف پیش کیا جاتا ہے اور بعض کو بصورتِ داد طلب وفریاد رس۔ یہ ایک ایسا نفوذ پذیر زہر ہے جو رفتہ رفتہ پورے صحابہ پر سے اعتماد کو متزلزل کردیتا ہے، جب چودہویں صدی کے عام انسانوں کی طرح عوامی عدالت میں ان کے کارناموں پر آزادانہ جرح ونقد کی جائے تو یہ ضروری نہیں کہ ایک آدمی کی ماہرانہ وکالت یا کام یاب پیروی دوسرے وکیل کے یہاں بھی قابلِ قبول، تشفی بخش اور قرینِ عقل ہو۔

چناں چہ یہ بدترین صورتِ حال ماضی قریب میں رونما ہوئی کہ مشاجراتِ صحابہ کے موضوع کو مہر بند رکھنے کے بجائے جب عوامی موضوع بنایا گیا اور رطب ویابس تاریخی روایات کے سہارے کھلے بندوں ان پر بحث ومباحثہ ہوا تو امت کا ایک طبقہ حب علی میں بغض معاویہ کا مرتکب ہوا اور دوسرا ٹولہ حبِ معاویہ میں بغض علی کا مجرم ہوا، خلافت وملوکیت اور اس کا جواب حقیقت خلافت ملوکیت اس کی زندہ اور تازہ مثال ہے۔

ایک فریق حضرت علی کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے حضرت معاویہ کے موقف کو صد فی صد مبنی برغلط اور گھناوٴنا قرار دیتا ہے، اس کے بالکل بالمقابل دوسرا فریق حضرت معاویہ کی تائید کرتے ہوئے حضرت علی کی خلافت ہی کو سرے سے غیر آئینی قرار دیتا ہے، ملاحظہ ہو: حضرت معاویہ کی خلافت اس نوعیت کی خلافت نہ تھی کہ مسلمانوں کے بنانے سے وہ خلیفہ بنے ہوں اور اگر مسلمان ایسا کرنے پر راضی نہ ہوتے تو وہ نہ بنتے، وہ بہرِحال خلیفہ ہونا چاہتے تھے، انہوں نے لڑ کر خلافت حاصل کی۔ (خلافت وملوکیت: 158) جملہ صحابہ وتابعین امتِ مسلمہ کی زمامِ قیادت وسربراہی حضرت معاویہ کے دستِ مبارک میں دینے اور ان سے بیعت کرنے پر بخوشی دلی آمادہ تھے، بخلاف ان کے پیش رو حضرت علی کے، جنھیں زمام قیادت وسربراہیٴ ملت، سبائی بلوائیوں اور حضرت عثمان کے قاتلوں نے اپنے زور سے دلوائی تھی اور کم وبیش نصف امت نے ان کی بیعت سے اس بنا پر انکار کردیا تھا۔ (حقیقت خلافت وملوکیت:215) گورنر شام ہونے کی حیثیت سے حضرت معاویہ کا خون عثمان کے قصاص کے لیے اٹھ کھڑے ہونا انتہائی غیر آئینی تھا۔ (ماحصل خلافت وملوکیت:125) حضرت علی نے بے بس ومجبوری کی بنا پر یا دانستہ حضرت عثمان کے قصاص خون سے غفلت کی۔ (ماحصل حقیقت خلافت وملوکیت: 144)

اندازہ لگائیے اس طرح کا مواد موجودہ سیاسی پسِ منظر میں امت کے ہاتھوں پہنچے گا تو صحابہ کرام کے تعلق سے ان کے دل ودماغ میں کیا تاثر پیدا کرے گا؟ موجودہ دور کے بدترین سیاسی ماحول میں اس کا نتیجہ بس یہی تو ہوگا کہ صحابہ کرام کی ذواتِ قدسیہ اوچھے سیاسی تنقیدوں اور بے لگام مبصروں، تجزیہ نگاروں کی بے ضرورت موشگافیوں کا نشانہ بنیں گی اور یہ صورتحال رفتہ رفتہ امت میں بے دینی بے اعتمادی کے مزاج کو جنم دے گی، جس سے نہ صرف اخروی محرومی ہاتھ آئے گی، بلکہ ہمیشہ کے لیے دنیاوی ترقی و عروج کی راہ ہی مسدود ہو جائے گی۔

والواقع ان التشکیک فی عدالة الصحابة رضی اللہ عنہم لاینتج الاالتشکیک فی الدین واصولہ․ (تکملہ فتح الملہم: 61/5) ذیل میں مناقب صحابہ کا تذکرہ طوالت کا باعث ہوگا اس لیے اختصاراً دومتعلقہ عناوین پر قدرے وضاحت کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معیارِ حق ہونا مشاجراتِ صحابہ کے تعلق سے جمہورِ امت کا موقف۔

صحابہ معیارِ حق: معیارِ حق، نمونہٴ عمل، لائقِ اتباع، بڑے گہرے معنی رکھنے والے الفاظ ہیں، کتاب وسنت اور اجماعِ امت کی تائید کے بغیر ان کے مقتضیات کو تسلیم کرلینا ناممکن ہے، اس لیے ذیل کی سطور میں کتاب وسنت اور اجماعِ امت کے حوالے سے صحابہ کی بابت معیارِ حق ہونے کو واضح کیا جاتا ہے۔

آیاتِ قرآنی: سورہٴ توبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور جو مہاجرین اور انصار (ایمان لانے میں سب امت سے) سابق اور مقدم ہیں اور (بقیہ امت میں) جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ (ایمان لانے میں) ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب (اللہ) سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور) یہ بڑی کام یابی ہے۔ (توبہ: 10) علامہ ابنِ قیم آیاتِ کریمہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: ارشاد ِخداوندی میں انفرادی اور اجتماعی ہر دو اعتبار سے صحابہ کرام کے لائقِ اتباع ہونے کا حکم مذکور ہے، رضائے خداوندی کا پروانہ ہر ایک صحابی اور ان کے متبع کے لیے ہے اور تمام ہی صحابہ اپنے بعد والوں کے اعتبار سے سابق اور مقدم ہیں، وکل الصحابة بالنسبة الی من بعدھم․ (اعلام الموقعین: 168/4) حافظ موصوف اتباعِ صحابہ کے ضروری ہونے کے مضمون کو مخصوص منطقی پیرایہ میں نقل فرماتے ہیں: صحابہ کی اتباع رضائے خداوندی کا موجب ہے اور رضائے خداوندی کے درپے رہنا واجب ہے، پس ان کی اتباع بھی واجب اور ضروری ہے ۔(اعلام الموقعین: 166/4) سورہٴ توبہ ہی میں ہے: اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو (توبہ: 119) بے شمار سلف کا کہنا ہے کہ صادقین سے مراد حضراتِ صحابہ کرام ہیں، کوئی آدمی خواہ کئی ایک مسائل میں ان کی اتباع کرتا ہو؛ اگر وہ کسی ایک بھی مسئلہ میں مجموعی طور پر حضراتِ صحابہ کی مخالفت کرتا ہے تو اس کو اس خاص مسئلہ میں صحابہ کی معیت وموافقت حاصل نہیں، قرآنی حکم صحابہ کرام کی معیت مطلقہ یعنی کامل اور ہر ہر مسئلہ میں معیت اختیار کرنے کا ہے، نہ کہ مطلق معیت کا اور کسی ایک اعتبار سے ان کی معیت پر اکتفا کرلینے کا۔ (اعلام الموقعین:170/4)

احادیثِ نبوی صلى الله عليه وسلم: احادیث میں بھی بڑی صراحت کے ساتھ مقامِ صحابہ کا بیان ہے، مناقبِ صحابہ کا تفصیلی بیان کتبِ احادیث کے متعلقہ ابواب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، یہاں صرف ان احادیث کے ذکر کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے جن سے بحیثیتِ مجموعی، تمام ہی صحابہ کا معیارِ حق ہونا واضح ہوتا ہے، مشہور اور زبان زد حدیث ہے، میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں، ان میں سے جن کی بھی تم اقتدا کرلو گے، راہ یاب ہو جاوٴ گے، اس حدیث پر اگرچہ ائمہ فن نے سخت کلام کیا ہے، حتی کہ اس کو موضوع تک قرار دیا گیا ہے۔

تاہم اس حدیث کا مضمون بے شبہ ثابت ہے اور انتہائی صحیح روایات سے موٴید ہے، مسلم شریف کی معروف حدیث ہے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنا سرِمبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور ارشاد فرمایا: ستارے آسمان کے لیے بچاوٴ اور محافظ ہیں، جب تارے مٹ جائیں گے (جھڑ جائیں گے) تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بات آجائے گی (یعنی قیامت برپا ہو جائے گی)، میں اپنے صحابہ کے لیے بچاوٴ ہوں، جب میں چلا جاوٴں گا تو میرے اصحاب پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی ان کو مختلف آزمائشوں کا، جنگوں کا اور دیہاتیوں کے ارتداد کا سامنا کرنا پڑے گا)، میرے صحابہ میری امت کے لیے ڈھال ہیں، جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے (بدعات وحوادث کا ظہور ہوگا، فتنوں کا زور ہوگا) ۔(مسلم شریف مع تکملہ: 300/5)

حدیثِ مذکور کے ذریعہ علامہ ابن قیم کا اتباعِ صحابہ پر استدلال، ملاحظہ ہو: اس ارشادِ گرامی میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بعد کی امت کے لیے صحابہ کی حیثیت ونسبت ویسی ہی قرار دی جیسی خود آپ صلى الله عليه وسلم کی نسبت وحیثیت صحابہ کے لیے تھی اور جیسے تاروں کی نسبت آسمان کی طرف ہوتی ہے، پس تشبیہ مذکور سے جیسے اہلِ زمین کا تاروں سے ہدایت پانا اور صحابہ کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع کا واجب ہونا معلوم ہو رہا ہے، ایسے ہی غیر صحابہ کے لیے صحابہ کی اتباع کا وجوب بھی مستفاد ہو رہا ہے۔ (اعلام الموقعین:176/4)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ عالی ہے: میرے صحابہ کی مثال کھانے میں نمک جیسی ہے ۔(احمد) یعنی کھانے کی درستگی جس طرح نمک پر موقوف ہوتی ہے، امت کی صلاح وفلاح بھی صحابہ ہی کی اتباع میں مضمر ہے۔ (اعلام الموقعین:177/4) اس کے علاوہ علامہ ابن القیم نے اپنی مذکورہ وقیع المرتبت تصنیف کی جلد رابع میں دسیوں وجوہات کے ذریعہ اقوال وفتاوائے صحابہ کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔

اجماعِ امت: ذیل میں معتبر علماء کے نقول ملاحظہ ہوں: ابنِ کثیر (متوفی: 747ھ) فرماتے ہیں: اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک سارے صحابہ کرام عدل ومعتبر ہیں۔ (صحابہٴ رسول:181) علامہ ابن الصلاح عثمان بن عبدالرحمن تقی الدین ابوعمرو (متوفی: 643ھ) فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام کی ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی عدالت کے بارے میں سوال بھی نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ یہ ایک طے شدہ مسئلہ ہے، قرآن وسنت کی نصوص اور اجماعِ امت، جن لوگوں کا معتبر ہے ان کے اجماع سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم بہترین امت ہو، جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہو۔ بعض علماء نے فرمایا: کہ مفسرین حضرات کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت اصحابِ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (صحابہٴ رسول از نور عالم خلیل امینی مدظلہ: 182)

عدالتِ صحابہ کا اور صحابہ کا معیارِ حق ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوتی ہیں یا ان سے خطاوٴں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا ہے یہ خاصہ ومنصب تو انبیاعلیہم السلام کا ہے، صحابہ کا نہیں؛ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے، مگر جب ان کوتنبہ ہوا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے، جہاں تک اجتہادی خطاوٴں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ،تاہم پوری امت کا یہ متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ ”من حیث المجموع“ حق اور صواب صحابہ ہی کی جماعت میں منحصر رہا ہے، اب کبھی نہیں ہوا اور نہ ایسا ہونا کبھی ممکن ہی ہے کہ حق پوری جماعتِ صحابہ سے اوجھل رہا ہو اور بعد کے لوگوں نے اس کو دریافت کیا ہو، یہ گمراہ کن موقف، ان نصوص کے صدق ویقین ہی پر سوالیہ نشان لگادیتا ہے جن میں مناقبِ صحابہ بیان ہوئے ہیں، یہ عندیہ اور یہ امکانِ وہمی، حساً، عقلاً اور شرعاً ہر سہ اعتبار سے لایعنی اور ناقابلِ فہم ہے۔

ومن المحال علی من ھذا شانھم ان یخطئوا کلھم الحقَّ ویظفر بہ المتاخرون ولوکان ھذا ممکنا لانقلبت الحقائق، وکان المتاخرون آئمة لھم یجب علیھم الرجوع الی فتاویھم وأقوالھم، وھذا کما انہ محال حساً وعقلا فھو محال شرعاً، وباللّٰہ التوفیق․ (اعلام الموقعین: 174/4) والمحظور انما ھو خلو عصرھم عن ناطق بالصواب واشتمالہ علی ناطق بغیرہ فقط، فھذا ھو المحال․ (201/4)

صحابہٴ کرام نہ تو معصوم تھے اور نہ فاسق، یہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کسی سے بعض مرتبہ بتقاضائے بشریت دو ایک یا چند غلطیاں سرزد ہوگئی ہوں؛ لیکن تنبیہ کے بعد انہوں نے توبہ کرلی اور اللہ نے انہیں معاف فرمادیا، اس لیے وہ ان غلطیوں کی بنا پر فاسق نہیں ہوئے، یہ مفہوم جمہور اہلِ سنت کے نزدیک درست ہے ۔(حضرت معاویہ از مولانا مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ: 131/130)

مشاجراتِ صحابہ : صحابہ کے درمیان رونما ہوئے باہمی محاربات ونزاعات کے تعلق سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے کئی ایک اسباب ہیں: (الف)مسئلہ کی اہمیت ونزاکت سے صرفِ نظری (ب)تاریخی اور تشریعی روایات میں عدم تمیز (ج)موجودہ سیاسی ماحول پر قیاس۔

الف: مشاجراتِ صحابہ کا مسئلہ، اس اعتبار سے بڑا نازک ہے کہ اس معاملہ میں ذرا سی بے احتیاطی اور افراط وتفریط کا اثر براہِ راست عدالتِ صحابہ پر پڑتا ہے، خطاوٴں اور لغزشوں کا بے تاویل ،بے بنیاد اور بے سوچے سمجھے انتساب عدالتِ صحابہ ہی کو مجروح کر کے رکھ دیتا ہے اور بالآخر دین پر ہی سے انسان کے اعتماد کو اُٹھا دیتا ہے ،حالاں کہ سنت اللہ کے مطابق حفاظتِ دین اور شریعتِ مصطفویہ (علی صاحبھا التسلیم) کو ان باخدا انسانوں کی وساطت سے اپنی اصلی شکل پر برقرار رکھنے کا ذمہ خود پروردگارِ عالم نے لیا ہے، اس لیے وہ تمام مفروضے، جن سے دینِ اسلام کے اس پہلے قافلہ کی پوزیشن مجروح ہوتی ہو، از خود باطل قرار پاتے ہیں۔

عدالتِ صحابہ کا مسئلہ خالصةً عقیدہ کا مسئلہ ہے، فروعی مسئلہ نہیں کہ اس کو اجتہادات کا محور یا معرکة الارا بنایا جائے، شروع ہی سے یہ مسئلہ عقائد کی کتابوں میں جگہ پاتا رہا ہے، عصمتِ انبیاء کے عقیدہ کے بعد عدالتِ صحابہ کے عقیدہ کا تذکرہ موٴلفین کتب عقائد کا گویا مشترکہ وطیرہ رہا ہے، اس لیے مشاجرات ِصحابہ سے متعلقہ تاریخی روایات میں تنقیح وتحقیق کا معیار وہی ہونا چاہیے، جو عقائد واحکام سے متعلقہ روایات کا ہے ،اس معاملہ میں کم زور وبے اصل روایات کو قطعاً درخورِ اعتنا سمجھنا ہی نہیں چاہیے اور قوی روایات کا صحیح محمل تلاش کرنا چاہیے، حضرت مفتی شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں: علمائے اسلام کی تاکید ہے، عقائد واحکام اور حلال وحرام کے باب میں تاریخی روایات ناقابلِ احتجاج ہیں، چوں کہ مشاجراتِ صحابہ کا تعلق عقیدے سے ہے، اس لیے علماء نے کہا ہے کہ کتاب وسنت اور اجماعِ امت سے اس کا ثبوت ضروری ہے۔ (مقام صحابہ: 23، بحوالہ صحابہ رسول: 248)

تاریخی اور تشریعی روایات میں عدم تمیز: اہلِ علم پر یہ امر مخفی نہیں کہ مقدم الذکر دونوں طرح کی روایات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے، اس فرق کا خود وہ گروہ بھی قائل ہے جو مشاجراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو موضوعِ بحث بناتا ہے، تاریخی روایات میں رواة کے معاملے میں بڑے توسع اور اغماض سے کام لیا جاتا ہے، بہت سے وہ رواة جو تشریعی (عقائد واحکام سے متعلقہ) روایات میں ناقابلِ اعتماد قراردیے گئے ہیں، فن تاریخ میں ان کو امام تسلیم کیا گیا ہے، ایسے ہی بہت سے ائمہ اسلام علم حدیث اور روایاتِ احکام کے میدان میں بڑے ہی محتاط، باریک بین اور سخت گیر دکھائی دیتے ہیں، جب کہ علم تاریخ میں ان کے تیور کچھ اور ہی نظر آتے ہیں، یہی ابنِ کثیر جن کا بحث وتحقیق اور جرح ونقد کے حوالے سے بڑا شہرہ ہے، البدایة والنہایة میں ان کی شان کچھ اور ہی نظر آتی ہے، یہ تفریق اور توسع دراصل اس لیے بھی گوارا کرلیا گیا ہے کہ تاریخی روایات سے کوئی عقائد اور احکام تو ثابت کرنا نہیں، صرف عبرت ونصیحت کا سامان بہم پہنچانا اور تجارب اقوام سے فائدہ حاصل کرنا ہے، ظاہر ہے یہ مقصد نسبةً توسع اور وسعتِ نظری کا متحمل ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مقام صحابہ)

غلط فہمی کی بنا پر مشاجراتِ صحابہ کے مسئلہ کو خالص تاریخی مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے اور تنقیح روایات کے معروف اصولوں کو پس پشت ڈال کر بعض تاریخی روایات کے سہارے خیالات کا ایک شیش محل تعمیر کرلیا گیا ہے، حالاں کہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ یہ عقیدہ کا مسئلہ ہے ،جیسا کہ سابق میں اس کو واضح کیا جاچکا ہے۔

موجودہ سیاسی ماحول پر قیاس: صحابہ کے وہ باہمی محاربات، جو ناقابلِ تردید روایات سے ثابت ہیں، جیسے جنگِ صفین، جنگِ جمل وغیرہ، ان سے عظمتِ صحابہ کے معاملہ میں بعض حضرات کو مغالطہ یوں پیدا ہوگیا ہے کہ انہوں نے خیرالقرون کو اپنے دور کی سیاست پر قیاس کرلیا ہے، وہ تمام عوامل ومحرکات جو موجودہ دور کے سیاستدانوں کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن سکتے ہیں، پہلی صدی کی ہستیوں میں بھی باور کرلیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں دنیاداری، ہوسِ جہاں بانی، خوش آمدی، قانون شکنی جیسے بھاری بھرکم عوامل کا ان حضرات کی طرف انتساب کرنا پڑا، اس قیاس کے مبنی برغلط ہونے کے لیے یہی نکتہ بہت کافی دلیل ہے کہ اس مزعومہ کا بالواسطہ نشانہ صحبتِ بافیض بنتی ہے، کیوں کہ دونوں ہی طرف اپنے بہت سے صحابہ موجود تھے، جو ایک عرصہ تک صحبت با اثر سے بہرہ ور ہوئے تھے، پھر اس سے مناقبِ صحابہ سے متعلقہ نصوص کی صداقت پر بھی حرف آنے لگتا ہے۔

جمہور امت کا موقف: اس سلسلہ میں چند نصوص ملاحظہ ہوں، صحابہٴ کرام کا تذکرہ بھلائی ہی کے ساتھ کرنا ضروری ہے، جو مشاجرات ان کے مابین رونما ہوئے ان میں بعض تو بالکل بے بنیاد اور بے اصل ہیں اور جن کا واقعی ثبوت ہے تو اس کی عمدہ تاویل وتوجیہ ہمارا فریضہ ہے؛ کیوں کہ کتاب اللہ میں ان کی توصیف ومنقبت، قطعی بھی ہے اور سابق بھی اور بعد کی تاریخی روایات متاخر بھی ہیں اور قابلِ تاویل، بلکہ بعض قابلِ رد بھی۔ (شرح فقہ اکبر: 86)

حضرت امام شافعی کا فرمان ہے: یہ ایسے خون ہیں، جن سے ہمارے ہاتھوں کے رنگین ہونے کو اللہ نے بچالیا ہے تو اب ہم اپنی زبانوں کو بھی ان سے آلودہ ہونے نہ دیں گے، امام احمد سے حضرت علی وعائشہ کی باہمی جنگ کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب میں بس یہ آیت پڑھی، یہ ایک امت تھی جو گذر گئی ،اس کے لیے اس کے اعمال، تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ۔(البقرہ: 140) (حوالہٴ سابق)

حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے کیوں کہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ ہوا وہوس پر، یہی اہل سنت کا مذہب ہے۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول)

یہ اکابر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا وہوس، کینہ وحرص سے پاک صاف ہوگئے تھے، ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے (مکتوب: 67 دفتر دوم، نیز ملاحظہ ہو، مفصل ومفید مکتوب: 36/ دفتر دوم)

اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے، کلیم عاجز نے کیا ہی خوب کہا #
        بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم
        بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
Flag Counter