Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

3 - 19
مسئلہ معاش اور اسلامی تعلیمات
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
متوازن معیشت
مارکیٹ کوسرمایہ داروں کے تسلط اوردیگرمفاسدسے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے معیشت کے حوالے سے بیان کردہ احکامات سے واقف ہوں اوران پرعمل پیراہوں،تاکہ شخصی آزادی اورمارکیٹ کی آزادفضاکے درمیان توازن اورمعاشرہ کی آزادی کے درمیان بھی توازن قائم ہوسکے۔

اسلام کے بتائے ہوئے احکام میں سود،قماراورسٹہ بازی کی حرمت خاص اہمیت رکھتی ہے،کیوں کہ یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے سے مال وسرمایہ سمٹ کرصرف چندسرمایہ داروں کے ہاتھوں میں آجاتاہے،تاریخ گواہ ہے کہ سرمایہ داری اورمادیت کاطوفان انہی مذکورہ بالااسباب کے نتیجے میں برپاہوا،اورآج پورے خطہ ارضی کواپنے لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ذخیرہ اندوزی، قافلوں کی شہرمیں آمدسے قبل ہی خریدوفروخت،شہری کادیہاتی کے لیے معاملہ اورتمام بیوعات فاسدہ اورباطلہ کی حرمت کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان سے مارکیٹ کی فطری اصول متاثرہوتے ہیں،رسدوطلب کے قوانین معطل ہوکرچندسرمایہ داروں کے ہاتھ کھلونا بن کررہ جاتے ہیں۔ (تکملة فتح الملھم، کتاب البیوع، المذھب الاقتصادی الاسلامی: 312,311/1)

ذاتی منافع کے محرک پرعائد اسلامی پابندیاں
اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی منافع کے محرک کو بالکل آزاد چھوڑدیاگیا ہے،جس کے نتیجے میں وہ خرابیاں پیداہوئیں جن کاذکرگذشتہ سطورمیں کیاگیا،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ذاتی منافع کے محرک پرجوپابندیاں عائد ہوتی ہیں وہ تین طرح کی ہیں:

خدائی پابندیاں
سب سے پہلے تواسلام نے معاشی سرگرمیوں پرحلال وحرام کی کچھ ایسی ابدی پابندیاں عائد کی ہیں جوہرجگہ اورہرزمانے میں نافذالعمل ہیں،یہ پابندیاں نہ صرف عقل انسانی کے موافق ہیں،بلکہ وحی الہی کے ذریعہ سے ان کوابدی حیثیت بھی دی گئی ہے،تاکہ کوئی مادہ پرست اورفاسدالعقل شخص اپنی عقلی تاویلات فاسدہ کے ذریعے ان سے چھٹکاراحاصل کرکے معیشت اورمعاشرے کوناہمواریوں میں مبتلانہ کرسکے ۔

تکملة فتح الملہم میں ان پابندیوں کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے: ”فلایجوز لأحد من المکتسبین أن یکسب المال بطریقة غیر مشروعة من الربو، والقمار، والتخمین، وسائرالبیوع الفاسدة، أو الباطلة“․ (تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع،المذہب الاقتصادی الإسلامی:312/1،مکتبة دارالعلوم کراتشی)

یعنی” کسی تاجرکے لیے یہ جائزنہیں کہ وہ سود،قمار،سٹہ بازی اوردیگرتمام بیوع فاسدہ وباطلہ کے غیرمشروع طریقہ سے مال کمائے“۔ (کیوں کہ یہ چیزیں عمومااجارہ داریوں کے قیام کاذریعہ بنتی ہیں)۔

حکومتی پابندیاں
تمام حالات میں جب کہ معاملات ہدایات الہٰیہ کی روشنی میں انجام دیے جارہے ہوں تواسلام معاشی سرگرمیوں میں حکومت کومداخلت کی اجازت نہیں دیتا،البتہ اگرکوئی عمومی مصلحت ہو،یاکوئی اپنی ذاتی اجارہ داری قائم کررہاہوتوحکومت وقت تاجروں پرایسی پابندیاں عائدکرسکتی ہے،جن سے معیشت ناہمواری کاشکارہونے سے بچ جائے۔

چناں چہ ایک مرتبہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بازارتشریف لائے تودیکھاکہ ایک شخص کوئی چیزاس کے معروف نرخ سے بہت کم داموں میں فروخت کررہاہے ،توآپ نے اس سے فرمایا:”إماأن تزیدفی السعر،وإماأن ترفع من سوقنا“․(إمام دارالہجرة،مالک بن أنس،مؤطاالإمام مالک،کتاب البیوع،باب الحکرة والتربص،ص:591،قدیمی،کراچی)
(ترجمہ)”یاتم دام میں اضافہ کرو،ورنہ ہمارے بازارسے اٹھ جاؤ“۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہواکہ حکومت کسی مصلحت کے تحت کوئی پابندی عائدکرسکتی ہے؛کیوں کہ مارکیٹ میں اگرکوئی معروف نرخ سے کم قیمت پرخریدوفروخت کرے تواس سے دیگرتاجروں کے لیے جائزنفع کاراستہ بندہوسکتاہے،لہذااس سے کہاگیایاتم معروف نرخ پرفروخت کرو،ورنہ یہ بازارچھوڑکرچلے جاؤ۔البتہ یہ ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے عائدکردہ پابندیاں قرآن وسنت کے کسی حکم سے متصادم نہ ہوں،وگرنہ وہ پابندیاں قابل التفات وقابل عمل نہیں ہوں گی، کیوں کہ اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے کہ خدائی احکام کے مقابلہ میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں،جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے: ”لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“․((التبریزی، الخطیب، ولی الدین ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ، مشکاة، المصابیح، کتاب الامارة والقضاء، الفصل الثانی، (رقم الحدیث: 3696) :8/3، دارالکتب العلمیة،بیروت،1424 ھ۔2003م))
(ترجمہ):”خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں“۔

اخلاقی پابندیاں
اسلامی تعلیمات میں قدم قدم پرانسان کویہ بتایاگیاہے کہ معاشی سرگرمیاں اوران سے حاصل ہونے والے مادی فوائدانسان کی زندگی کامنتہائے مقصودنہیں،بلکہ وجہ تخلیق آدم اخروی زندگی کی لازوال کام یابیوں کاحصول ہے،اگرکائنات کے کسی بھی خطے میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اوراحکام کامکمل نفاذہوتووہاں سے اشتراکیت،شیوعیت اورسرمایہ داریت کے تمام زہریلے اثرات ختم ہوجائیں گے،جس کے نتیجہ میں وہاں ظلم،قساوت اورنفس پرستی سے پاک معیشت وجودمیں آئے گی۔(تکملة فتح الملہم،کتاب البیوع،المذہب الاقتصادی الإسلامی،تدخل الأخلاق:313/1، مکتبة دارالعلوم کراتشی)

اسلام نے تجارت ومعیشت کوپاکیزہ اورصاف ستھرارکھنے کے لیے جوضوابط وقوانین مقررکیے ہیں وہ نہ صرف دنیامیں حلال رزق کے حصول کاذریعہ ہیں،بلکہ آخرت میں اعلی درجات کاباعث بھی ہیں۔

عقیدہ ،اخلاق اور معیشت
اسلام نے معیشت کی بنیادعقیدہ اوراخلاق پررکھی ہے اوروہ تجار کوفہمائش کرتاہے کہ اللہ ان کے ہرڈھکے چھپے کوہروقت دیکھتا اور جانتا ہے: ﴿ إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباً﴾(النساء:1)

اسلام تمام مسلمانوں کوآپس میں بھائی قراردے کران کویہ تعلیم دیتاہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسندکریں جوانہیں اپنے لیے پسندہے:”لایؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ مایحب لنفسہ“․ (البخاری،الجامع الصحیح،کتاب الإیمان،باب من الإیمان أن یحب لأخیہ مایحب لنفسہ۔(رقم الحدیث:13)
(ترجمہ)”تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے (مسلمان)بھائی کے لیے وہی پسندنہ کرے جو اپنے لیے پسندکرتاہے،،۔

غورفرمائیں!جب ایک مسلمان دوسرے کے لیے وہی پسندکرے گاجواس کی اپنی پسندہے توپھریہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ ناپ تول میں کمی کرکے،یاعیب داراورناقص چیزفروخت کرکے زیادہ اورکھرے مال کی قیمت وصول کرے اوریوں اپنے بھائی کامعاشی استحصال کرے،اسلام تواپنے ماننے والوں کواس بات کی تعلیم دیتاہے کہ وہ عیوب کوچھپاکرچیزوں کوفروخت نہ کریں،ورنہ ان کایہ عمل نہ صرف ان کے کاروبارسے برکت کوختم کردے گا،بلکہ اللہ کی لعنت کاباعث بھی بن جائے گا،حدیث شریف میں اس مضمون کویوں بیان فرمایاگیاہے:”من باع عیبا لم یبینہ، لم یزل فی مقت اللہ، أولم تزل الملائکة تلعنہ“․(القزوینی،أبوعبداللہ محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب من باع عیبا فلیبینہ(رقم الحدیث:2247):578/3،دارالجیل،بیروت 1418ھ)
(ترجمہ)”جس کسی نے کوئی شے فروخت کی،جس کے عیب پراس نے خریدارکوآگاہ نہیں کیاتھا،تووہ ہمیشہ اللہ کے غصہ میں رہے گا،یافرشتے ہمیشہ اس پرلعنت کرتے رہیں گے“۔

اسی طرح اسلامی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ خریدوفروخت کرنے والابااخلاق ہو،نرم خوئی اس کی طبیعت میں رچی بسی ہوئی ہو،دوران معاملہ عزت نفس کادامن ہاتھ سے جانے نہ دے،ایسے افرادکے لیے زبان نبوت سے ان الفاظ میں دعاکے الفاظ واردہوئے ہیں:”رحم اللہ رجلا اسمحا إذا باع وإذا اشتری وإذا اقتضی“․(البخاری، أبوعبداللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح،کتاب البیوع، باب: السھولة والسماحة فی الشراء، والبیع ومن طلب حقا فلیطلبہ فی عفاف، (رقم الحدیث :2075) ، ص:412،دارالکتاب العربی)
(ترجمہ)”اللہ کی رحمت ہواس شخص پرکہ جب کبھی بیچے،خریدے یاقرض لینے کامطالبہ کرے تونرم گوئی سے کرے اوردرگزرکرے“۔

ذیل میں ہم کچھ خدائی قیودات اوراخلاقی پابندیوں کاذکرکرتے ہیں:

ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
معیشت کے عمل کوصاف شفاف رکھنے اوراجارہ داریوں سے حفاظت کے پیش نظراسلام نے ذخیرہ اندوزی(Hoarding)کواس کی تمام انواع واقسام کے ساتھ ممنوع قراردیاہے اوراسلامی حکومت کواس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ ا س ملعون عمل کوروکنے کے لیے دخل اندازی کرے۔

جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کرے اور پھر مارکیٹ میں اپنامال اپنی مرضی کی قیمت پرفروخت کرے،اسے خطاکار اورملعون قراردیاگیاہے،ارشادنبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:”من احتکر یرید أن یتعالی بہاعلی المسلمین فہوخاطیٴ“․ (النیسابوری، ابوعبد اللہ محمد بن عبداللہ الحاکم، المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع،(رقم الحدیث:2211، :145/2،قدیمی کراچی)
(ترجمہ)”جس نے ذخیرہ اندوزی اس ارادہ سے کی کہ وہ اس طرح مسلمانوں پراس چیزکی قیمت چڑھائے وہ خطاکارہے“۔

دوسری روایت میں ہے: ”الجالب مرزوق والمحتکر ملعون“․ (القزوینی، ابوعبد اللہ محمد بن یزید، سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات،باب الحکرة والجلب (رقم الحدیث: 2153): 518/3،دار الجیل،بیروت )
(ترجمہ)”تاجرکو(اللہ تعالی کی طرف سے)رزق دیاجاتاہے اورذخیرہ اندوزی کرنے والالعنتی ہے“۔

اسلام کے قانون تجارت نے ذخیرہ اندوزی کی تمام ممکنہ صورتوں کوبھی مردودقراردیاہے،دورحاضرمیں سرمایہ داربسااوقات کسی جنس کومکمل طورپرمارکیٹ سے خریدتے ہیں،یاپھروہ جنس صرف ان کے کارخانے اورمل میں بنتی ہے،اسے ذخیرہ کرلیتے ہیں،پھربعدازاں اپنی مرضی سے رسدوطلب میں عدم توازن قائم کرکے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں،کچھ عرصہ قبل وطن عزیزمیں آٹے اورچینی کابحران اس کی واضح مثالیں ہیں کہ حکم رانوں اورچندسرمایہ داروں کی ملی بھگت سے غریب ایک ایک لقمے کوترس گئے تھے۔

ذخیرہ اندوزی کی مہذب صورتیں
موجودہ دور میں ذخیرہ اندوزی کی مندرجہ ذیل مہذب صورتیں رائج ہیں:

شرکت قابضہ
ایسی شرکت میں پیداواری کاروبارکے اکثرحصص حصہ دارہی خریدتے ہیں،لہذاوہ کسی شے یاخدمت کی پیداواری حداورقیمت اپنی مرضی سے معین کرتے ہیں اوریوں خریداروں کااستحصال کرتے ہیں۔

اوماج
یہ ایک ایسااستحصالی طریقہ ہے جس میں چندکمپنیاں مل کرایک وحدت(Uonit)قائم کرتی ہیں،جس سے اشیا کی پیداواراورقیمتوں پران کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے ،وہ اپنی مرضی سے اشیا کی پیداوارکوبڑھاتے اورگھٹاتے ہیں،مارکیٹ میں ضرورت کے باوجودصرف قیمتیں بڑھانے کے لیے اسے گوداموں میں اسٹاک کردیاجاتاہے اور قیمتیں چڑھ جانے کے بعد بیچا جاتا ہے۔

وحدت قیمت
سرمایہ دارانہ نظام کی ”آفات“ میں سے یہ بھی ہے کہ چندمل مالکان یاکارخانہ دارمل کرکسی شے کی بازارمیں ایک قیمت طے کرلیتے ہیں، چوں کہ وہ شے ان کے علاوہ کوئی اورنہیں بناتا،تواس متعین قیمت سے کم پرکہیں اورسے دست یاب نہیں ہوتی،جس کی وجہ سے گاہک ان کی من مانی قیمت پرخریداری کرنے پرمجبورہوجاتاہے،یوں اس طرح سرمایہ دارعوام کااستحصال کرکے اپنے نفع کازیادہ سے زیادہ حصول ممکن بنالیتے ہیں۔

سودکی حرمت
دنیاکے قدیم اورجدیدمعاشی نظریوں میں سودکومرکزی حیثیت حاصل ہے،سرمایہ دارانہ نظام نے پورے معاشی ڈھانچے اورکاروباری لین دین کوکچھ اس طرح ترتیب دیاہے کہ سودبین الاقوامی طورپرمعاملات میں جزولاینفک کی حیثیت اختیارکرچکاہے،معاشی تعلقات کے انفرادی اور اجتماعی تمام پہلو اس کینسرمیں مبتلاہوچکے ہیں۔

سوداوراس کی تمام اقسام، حتی کہ شبہ سودسے بھی مسلمانوں کومنع کیاگیاہے،مسلمان ہونے کے باوجودکسی کے لیے یہ ہرگزروانہیں کہ وہ سودی معاملات میں ملوث ہو،اللہ نے سودکی حرمت کونہایت واضح الفاظ میں بیان فرمایاہے: ﴿وَأَحَلَّ اللّہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾․(البقرة:275)

اس جرم میں ملوث افرادکوشدیدترین وعیدسنائی گئی ہے، قرآن مجیدمیں ارشادربانی ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہ﴾․ (البقرة:278)
(ترجمہ)”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو،اورسودکی باقی (تمام رقم)چھوڑدو،اگرتم واقعی ایمان دارہواوراگرتم نے ایسانہ کیا،تواللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو“۔

سودی معاملات میں کسی بھی طرح ملوث ہونے والے پراللہ نے لعنت فرمائی ہے،اللہ کے رسول کاارشادہے:”لعن اللہ آکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، و قال:ہم سواء“․(القشیری،أبوالحسن مسلم بن حجاج، صحیح مسلم،کتاب المساقاة، باب لعن آکل الربوا وموکلہ، (رقم الحدیث:4093)، ص:697، دارالسلام، الریاض)
(ترجمہ)”اللہ نے سودخور اورسودکھلانے والے اورسودی دستاویز لکھنے والے اوراس کی گواہی دینے والوں پرلعنت کی ہے اورفرمایاکہ اللہ کی لعنت میں وہ سب برابرہیں“۔

سودی معاملات اورسودخواری کی شناعت وقباحت بیا ن کرتے ہوئے فرمایا:”الرباسبعون حوبا أیسرہانکاح الرجل أمَّہ“․ (العبسی، أبوبکرعبداللہ بن محمدبن أبی شیبہ، المصنف، کتاب البیوع والأقضیة، (رقم الحدیث:22437) :319/11، المجلس العلمی 1327ھ)
(ترجمہ)”سودکے سترگناہ ہیں،(یعنی اس کے گناہ کے ستردرجے ہیں)اس کاکم تردرجہ آدمی کااپنی ماں سے ہمبستری کرناہے“۔

ملاوٹ سے ممانعت
کسب معاش کی جدوجہدکے دوران حصول دولت کی بعض آسان راہیں بھی نکلتی ہیں،اشیائے صرف کی کوالٹی کوتبدیل کرکے گھٹیااورمعمولی شے کوصحیح داموں میں فروخت کرنا،ملاوٹ سے کام لیناعصرحاضرمیں ہنراورنفع آوری کابہترین ذریعہ بن چکاہے،اسلام میں اس طرح کے عمل کونہایت قبیح اورانسانیت سوزقراردے کرممنوع قراردیاگیاہے،حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ملاوٹ کرنے والوں کوانتہائی شدیدوعیدسنائی ہے:”من غش فلیس منا“․ (القشیری،أبوالحسین مسلم بن مسلم بن الحجاج بن مسلم، صحیح مسلم،کتاب الإیمان، باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم: من غش فلیس منا․ (رقم الحدیث:283)، ص:57، دارالسلام،الریاض 1419ھ)
(ترجمہ)”جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں“۔

مدینہ منورہ میں ایک بازارسے گزرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے غلہ کے ڈھیرکی نچلی سطح کو گیلاپاکر اس کے تاجرسے ارشاد فرمایا: ”أفلاجعلتہ فوق الطعام کی یراہ الناس“․(حوالہ سابق)
(ترجمہ)”گیلی گندم کواس ڈھیرکے اوپرکیوں نہیں ڈالتا تاکہ لوگ اسے بہ آسانی دیکھ سکیں؟“۔

بغیرعیب بتائے شے کوفروخت کرنے سے منع کیاگیاہے: ارشاد نبوی ہے: ”لایحل لمسلم باع من أخیہ بیعا فیہ عیب إلا بینہ“․ (القزوینی،أبو عبداللہ محمد یزید، سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب من باع عیبا فلیبینہ․ (رقم الحدیث:2246 ) :578/3، دارالجیل ،بیروت)
(ترجمہ)”کسی مسلمان کے لیے جائزنہیں کہ وہ بغیربتائے کسی عیب دارچیزکودینی بھائی کے ہاتھ فروخت کرے“۔

غرض اسلام نے ملاوٹ اوردھوکہ دہی کے تمام چوردروازوں کو بندکرکے ایک مامون اورپاکیزہ معیشت کاماحول فراہم کیاہے۔

رشوت اورسٹہ بازی کی ممانعت
آج کی معاشی زندگی میں رشوت معاشرہ کاایک جزولاینفک بن چکاہے،لوگ اسے آسان اورسہل ذرائع آمدنی میں شمارکرتے ہیں،اسلام نے اسے ان الفاظ میں ممنوع قراردیا:”لعن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم الراشی والمرتشی“۔(الترمذی، أبوعیسی محمد بن عیسی بن سورة، سنن الترمذی،کتاب الأحکام، باب ماجاء فی الراشی والمرتشی فی الحکم،(رقم الحدیث:1337):335/2دارالکتب العلمیة،1421ھ)
(ترجمہ)”رشوت لینے اوردینے والے پراللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے“۔

جوا،سٹہ ،قماربازی،شراب سازی وشراب فروشی،زنااورمحرکات زنااوردیگرمخرب اخلاق کام، جن سے معاشرے کااخلاقی معیارپست ہوتا ہے، اسلام ایسے ذرائع آمدنی ووسائلِ دولت کوکسب معاش کے اسباب کے طورپراختیارکرنے سے منع فرماتاہے،موجودہ دورمیں لاٹری،ریس،سٹہ بازی کی مختلف صورتیں جنہیں جدید ترین سائنٹیفک بنیادوں پر رواج دیا گیا ہے، وہ بھی اسلامی نقطہ نظرسے ممنوع قرارپاتی ہیں،قرآن مجیدمیں ارشادباری تعالی ہے: ﴿إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہ﴾․(المائدہ:90)
(ترجمہ)”بے شک شراب ،جوا،بت اور(پانسے)جوئے کے تیرسب ناپاک ہیں اورکارشیطان ہیں،ان سے بچو“۔

اجرت زنا کی حرمت
زناکاری کو بطورذریعہ معاش اپنانے سے منع کر تے ہوئے حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے زناکاری کی اجرت کوناجائزقراردیا،حضرت ابومسعودانصاری فرماتے ہیں:”إن رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نہی عن ثمن الکلب ومہر البغی وحلوان الکاہن“․ (النسائی، أبوعبدالرحمن أحمدبن شعیب، سنن النسائی، کتاب الصید والذبائح، النہی عن ثمن الکلب (رقم الحدیث: 4303)الجزء الرابع:215/4،دارالمعرفة،بیروت 1422ھ)
(ترجمہ)”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ،زناکی اجرت اورکہانت کامعاوضہ لینے سے منع فرمایاہے“۔

اسی طرح فلم سازی،فلم فروشی ،ٹی وی،وی سی آراورجرائدکے ذریعہ مخرب اخلاق مناظراورلٹریچرکی ترویج واشاعت ،ڈانسنگ کلب اورتھیٹر، غیراخلاقی کام اورجان داروں کی تصویرسازی وغیرہ تمام مخرب ایمان واخلاق ذرائع آمدن سے اسلام منع کرتاہے۔حضور صلی الله علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے: ”إن اللہ إذاحرّم شیئا حرّم ثمنہ“․ (الدارمی، أبوحاتم محمدبن حبان بن أحمد بن حبان، صحیح ابن حبان کتاب البیوع، ذکر الخبر الدال علی أن بیع الخنازیر والکلاب محرم، ولایجوز استعمالہ،(رقم الحدیث:4938): 313/11، مؤسسة الرسالة)
(ترجمہ)”اللہ تعالی نے جس چیزکوحرام کیاہے اس کی قیمت کوبھی حرام فرمایاہے“۔ (جاری)
Flag Counter