Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

1 - 19
سُنت میں دین ہے
عبید اللہ خالد
ماہ ربیع الاول کو خاص مناسبت خاتم الانبیا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش اور وصال سے ہے۔ چناں چہ دنیا بھر کے مسلمان اس مہینے کو ایک خاص انداز سے مناتے ہیں۔

آج ربیع الاول کا مہینہ ایک جشن او رایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ آقا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی محبت اپنی جگہ مقدم، مگر اس جشن میں محبت کے تقاضوں اور ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ محبت اور عقیدت کے اصل معیار کو فراموش کر دیا گیا ہے اور اب شدت کے ساتھ ایسے امور کا ارتکاب کیا جارہا ہے جو نہ صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ کی لائی ہوئی شریعت کے خلاف ہیں بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں کرنے سے منع فرمایا ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زندگی،آپ کے اقوال، آپ کے افعال ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جن کاموں کے کرنے کا حکم فرمایا جن کاموں کو پسند فرمایا ہے وہ کام کیے جائیں او رجن کاموں کو ناپسند فرما کر ان سے روکا ہے ، ان کاموں کو یک سر چھوڑ دیا جائے۔ جو کام محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پسند او رحکم کے مطابق ہے، وہی شریعت اور دین ہے، الله کی رضا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت کا ذریعہ بھی… اورجو کام محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پسند اور حکم کے خلاف ہے ، وہ شریعت اور الله کی رضا ہے اور نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت کا ذریعہ۔ البتہ جو عمل نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے حکم اور عمل کے خلاف ہے وہ شیطان کا بہکاوا اور گم راہی ہے ، خواہ وہ عمل بہ ظاہر کتنا ہی جاذب نظر اور پُرکشش ہو۔

ایک جانب تو مسلمانوں کا یہ طرز عمل ہے تو دوسری جانب وہ قوتیں بھی اپنا زور دکھا رہی ہیں جو خاتم االانبیا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سے عداوت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے حقیقی ورثا یعنی علمائے کرام سے بغض رکھتی ہیں۔ چناں چہ پے درپے اس قسم کی حرکتیں کی جارہی ہیں ، جن سے سنت کی عظمت اور سنت کی پیروی کرنے والوں کی قدر کو کم سے کم کرکے بالکل ہی ختم کر دیا جائے۔ کوئی بھی سنت ہو ، جس کا تعلق فرد کی انفرادی زندگی سے ہویا اجتماعی سے ، خانگی اور نجی زندگی سے ہو یا معاشی ومعاشرتی پہلو سے، ہر زاویے سے سنت سے بے پروائی کا مزاج پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ ایک آزمائش بھی ہے ان مسلمانوں کے لیے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عشق کرتے ہیں، محبت رکھتے ہیں ؛یہ امتحان ہے ان ایمان والوں کے لیے جو الله ورسول کو دنیا کی ہر شے سے مقدم رکھتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ربیع الاول کا پیغام بھی یہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو آقائے نام دار حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا نمونہ بنالیں۔ آپ صلی الله علیہ و سلم نے جو پسند فرمایا اسے اختیار کر لیں اور جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا، اس سے رک جائیں۔ کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ہر حکم اور ہر عمل دین ہے، اور اس سے باہر گم راہی اور نقصان!
 خشوع وخضوع والی نماز

مولانا محمد نجیب قاسمی
	
 پچھلا صفحہ  ►
◄  اگلا صفحہ 
    فہرست   

قیام، قرآن کی تلاوت، رکوع، سجدہ اور قعدہ وغیرہ نماز کا جسم ہیں اور اس کی روح خشوع وخضوع ہے۔ چوں کہ جسم بغیر روح کے بے حیثیت ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ نمازوں کو اس طرح ادا کریں کہ جسم کے تمام اعضاء کی یکسوئی کے ساتھ دل کی یکسوئی بھی ہو، تاکہ ہماری نمازیں روح، یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں۔ دل کی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات ووساوس سے دل کو محفوظ رکھیں اور اللہ کی عظمت وجلال کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی کوشش کریں۔ جسم کے اعضا کی یکسوئی یہ ہے کہ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں، بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی وفروتنی کی ایسی کیفیت طاری کریں جیسے عام طور پربادشاہ کے سامنے ہوتی ہے۔

قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں نماز کو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کرنے کی بار بار تعلیم دی گئی ہے، کیوں کہ اصل نماز وہی ہے جو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کی جائے اور ایسی ہی نماز پر اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا اور آخرت کی کام یابی عطا فرماتے ہیں، جیسا کہ مندرجہ ذیل قرآن کریم کی آیات اور احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے۔

”یقینا وہ ایمان والے کام یاب ہوگئے جن کی نمازوں میں خشوع ہے۔ “ (سورہٴ الموٴمنون 1، 2)

”صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کیا کرو۔ بے شک وہ نماز بہت دشوار ہے ،مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ بھی دشوار نہیں۔“ ( البقرہ 45)

”تمام نمازوں کی خاص طور پر درمیان والی نماز (یعنی عصر کی) پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔“ ( البقرہ 248)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اقامت سنو تو پورے وقار، اطمینان اور سکون سے چل کر نماز کے لیے آؤ اور جلدی نہ کرو۔ جتنی نماز پالو پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کرلو۔“ (صحیح بخاری )

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، پھر (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:” جاؤ! نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔“ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھ کر آئے، پھررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو آکر سلام کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ! نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔“ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔ “ (صحیح بخاری)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”جو مسلمان بھی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتاہے، پھر خوب خشوع کے ساتھ نماز پڑھتا ہے جس میں رکوع بھی اچھی طرح کرتا ہے تو جب تک کوئی کبیرہ (بڑا) گناہ نہ کرے، یہ نماز اس کے لیے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور یہ فضیلت ہمیشہ کے لیے ہے۔ “ (صحیح مسلم)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرتاہے، پھر دو رکعت اس طرح پڑھتا ہے کہ دل نماز کی طرف متوجہ رہے اور اعضا میں بھی سکون ہو تو اس کے لیے یقینا جنت واجب ہوجاتی ہے۔“ (ابوداوٴد)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف اس وقت تک توجہ فرماتے ہیں جب تک وہ نماز میں کسی اور طرف متوجہ نہ ہو۔ جب بندہ اپنی توجہ نماز سے ہٹالیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجہ ہٹالیتے ہیں۔“ (نسائی)

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔“ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے ادا نہ کرنا“ ( غرض اطمینان و سکون کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بدترین چوری قرار دیا)۔ (مسند احمد، طبرانی)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لیے نواں حصہ، بعض کے لیے آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔“ (ابوداوٴد، نسائی، صحیح ابن حبان)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہا نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کی طرف دیکھتے ہی نہیں جو رکوع اور سجدہ کے درمیان یعنی قومہ میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔“ (مسند احمد)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاجو رکوع اور سجدہ کو پوری طرح سے ادا نہیں کررہا تھا۔ جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوگیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو محمد صلی الله علیہ وسلم کے دین کے بغیر مرے گا۔ (بخاری)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ نماز میں گھوڑے کی دُم کی طرح اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔ (مسلم)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا اور نیز اس بات کا حکم فرمایا کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔ (بخاری، مسلم)

حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا کوّے کی طرح ٹھونگے مارنے سے (یعنی جلدی جلدی نماز پڑھنے سے) اور درندہ کی کھال بچھاکر نماز پڑھنے سے اور اس سے کہ کوئی شخص مسجد میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر کرلے، جیسے کہ اونٹ (اپنے اصطبل) میں ایک خاص جگہ مقرر کرلیتاہے۔ (مسند احمد، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جس چیز کا علم لوگوں سے اٹھا لیا جائے گا وہ خشوع کا علم ہے۔ عنقریب مسجد میں بہت سے لوگ آئیں گے، تم ان میں ایک شخص کو بھی خشوع والا نہ پاؤگے۔ (ترمذی)

نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کا طریقہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان بآواز ہوا خارج کرتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے، پھر جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو وہ واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور اقامت پوری ہونے کے بعد پھر واپس آجاتا ہے، تاکہ نمازی کے دل میں وسوسہ ڈالے۔ چناں چہ نمازی سے کہتا ہے یہ بات یاد کر اور یہ بات یاد کر۔ ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو باتیں نمازی کو نماز سے پہلے یاد نہ تھیں، یہاں تک کہ نمازی کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں۔“ (مسلم۔ باب فضل الاذان )

شیطان کی پہلی کوشش مسلمان کو نماز سے ہی دور رکھنا ہے، کیوں کہ نماز اللہ کی اطاعت کے تمام کاموں میں سب سے افضل عمل ہے۔ لیکن جب اللہ کا بندہ‘ شیطان کی تمام کوششوں کو ناکام بناکر اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو شروع کردیتا ہے تو پھر وہ نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے، چناں چہ وہ نماز میں مختلف دنیاوی امور کو یاد دلاکر نماز کی روح سے غافل کرتا ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کرے کہ جن سے نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں ۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے چند اسباب ذکر کیے جارہے ہیں۔ اگر ان مذکورہ اسباب کو اختیار کیا جائے گا تو ان شاء اللہ شیاطین سے حفاظت رہے گی اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں گی۔

نماز شروع کرنے سے پہلے
1... جب مؤذن کی آواز کان میں پڑے تو دنیاوی مشاغل کو ترک کرکے اذان کے کلمات کا جواب دیں اور اذان کے اختتام پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھ کر اذان کے بعد کی دعا پڑھیں۔
2... پیشاب وغیرہ کی ضروریات سے فارغ ہوجائیں، کیوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”کھانے کی موجودگی میں(اگر واقعی بھوک لگی ہو) نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس حالت میں جب پیشاب پائخانہ کا شدید تقاضہ ہو۔“ (صحیح مسلم)
3... بسم اللہ پڑھ کر سنت کے مطابق اس یقین کے ساتھ وضو کریں کہ ہر عضو سے آخری قطرے کے گرنے کے ساتھ اس عضو کے ذریعہ کیے جانے والے صغائر گناہ بھی معاف ہورہے ہیں اور وضو کی وجہ سے اعضا قیامت کے دن روشن اور چمک دار ہوں گے، جن سے تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اپنی امت کے افراد کی شناخت فرمائیں گے۔
4... صاف ستھرہ لباس پہن لیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِد﴾․ ”اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت ایسا لباس زیبِ تن کرلیا کرو جس میں ستر پوشی کے ساتھ زیبائش بھی ہو۔ “ (سورہٴ الاعراف 31) نیز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ “ (مسلم)

﴿وضاحت﴾: تنگ لباس ہرگز استعمال نہ کریں، احادیث میں تنگ لباس پہننے سے منع فرمایا گیا ہے۔ نیز مرد حضرات پائجامہ یا کوئی دوسرا لباس ٹخنوں سے نیچے نہ پہنیں ، احادیث میں ٹخنوں سے نیچے پائجامہ وغیرہ پہننے والوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔

5... جو چیزیں نماز میں اللہ کی یاد سے غافل کریں، ان کو نماز سے قبل ہی دور کردیں۔
6... اپنی وسعت کے مطابق سخت سردی اور سخت گرمی سے بچاؤ کے اسباب اختیار کریں۔
7... شور وغل کی جگہ نماز پڑھنے سے حتی الامکان بچیں۔
8... مرد حضرات فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجدوں میں اور مستورات گھر میں ادا کریں۔
9... صرف حلال روزی پر اکتفا کریں، اگرچہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔
10... نماز میں خشوع وخضوع پیدا ہوجائے ، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں۔

نماز شروع کرنے کے بعد
1... نہایت ادب واحترام کے ساتھ اپنی عاجزی وفروتنی اور اللہ جلّ شانہ کی بڑائی، عظمت اور علو شان کا اقرار کرتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھاکر زبان سے اللہ اکبر کہیں، دل سے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اور وہی جی لگانے کے لائق ہے، اس کے علاوہ ساری دنیا حقیر اور چھوٹی ہے اور دنیا سے بے تعلق ہوکر اپنی تمام تر توجہ صرف اسی ذات کی طرف کریں جس نے ہمیں ایک ناپاک قطرے سے پیدا فرماکر خوب صورت انسان بنادیا اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اس دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔
2... ثنا، سورہٴ فاتحہ، سورہ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، جلسہ وقومہ کی دعائیں، التحیات، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود اور دعاؤں وغیرہ کو سمجھ کر اور غور وفکر کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ پڑھیں، اگر تدبر وتفکر نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا معلوم ہو کہ نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔
3... اس یقین کے ساتھ نماز پڑھیں کہ نماز میں اللہ جلّ شانہ سے مناجات ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت انس کی حدیث میں گزرا ۔ نیز دوسری حدیث میں ہے کہ سورہ ٴفاتحہ کی تلاوت کے دوران اللہ تبارک و تعالیٰ ہر آیت کے اختتام پر بندہ سے مخاطب ہوتا ہے۔
4... اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، نیز بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں۔
5... سجدہ کے وقت یہ یقین ہو کہ میں اس وقت اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔“ (مسلم)
6... نماز کے تمام ارکان واعمال کو اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کریں۔
7... نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز ادا کریں۔
8... نماز میں خشوع وخضوع کی کوشش کے باوجود اگر بلا ارادہ دھیان کسی اور طرف چلا جائے تو خیال آتے ہی فوراً نماز کی طرف توجہ کریں۔ اس طرح بلا ارادہ کسی طرف دھیان چلا جانا نماز میں نقصان دہ نہیں ہے (ان شاء اللہ) ، لیکن حتی الامکان کوشش کریں کہ نماز میں دھیان کسی اور طرف نہ جائے۔

وضاحت… نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لیے کثرت سے اللہ کے ذکر کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے، اس لیے صبح وشام پابندی سے اللہ کا ذکر کرتے رہیں ،کیوں کہ ذکر شیطان کو دفع کرتا ہے اور اس کی قوت کو توڑتا ہے، نیز دل کو گناہوں کے زنگ سے صاف کرتا ہے۔

اہم گزارش: نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے اور نماز کی قبولیت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی شرط اخلاص ہے کیوں کہ اعمال کی قبولیت کا انحصار نیت اور ارادہ پر ہوتا ہے، جیسا کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث میں ہے: ”اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی…“ لہٰذا نماز کی ادائیگی سے، خواہ فرض ہو یا نفل، صرف اللہ جل شانہ کی رضامندی مطلوب ہو۔ دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز نہ پڑھیں، کیوں کہ دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھنے کو احادیث میں فتنہٴ دجال سے بھی بڑا فتنہ اور شرک قرار دیا گیا ہے۔

٭... حضرت ابو سعید خدری  فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا : ضرور۔ یا رسول اللہ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”شرکِ خفی‘ دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو اور نماز کو اس لیے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔“ (ابن ماجہ۔ باب الریاء والسمعة)

٭... حضرت شداد بن اوس  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:” جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔“ (مسند احمد ۔ج 4، ص125)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین۔ 
Flag Counter