Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

16 - 19
امام کا معیار
محترم نصیر احمد خان، کراچی

صحیح مسلم میں ابو مسعود انصاری  سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم و خلاصہ یہ ہے کہ امامت کے لیے زیادہ اہل وموزوں شخص وہ ہے۔ جس کا کتابُ اللہ کے بارے میں علم اور اس کے ساتھ شغف و تعلق دوسروں پر فائق ہو اور عمل بھی ہو۔سنت اور شریعت کا علم سب سے زیادہ ہو اور باعمل بھی ہو۔ تقویٰ والا اور صالح ہو ۔اگر ان تین معیاروں کے لحاظ سے کوئی فائق اور قابل ترجیح نہ ہو تو پھر جو کوئی عمر میں بڑا اور بزرگ ہو وہ امامت کرے ۔

اپنے میں سے بہتر کو امام بنایا جائے
حضرت عبداللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جو اچھے اور بہتر ہوں ان کو اپنا امام بناؤ ،کیوں کہ تمہارے رب اور مالک کے حضور وہ تمہارے نمائندے ہوتے ہیں ۔

امام کے لیے صحیح معیار اور راہ نما اصول یہی ہے کہ اس کی نماز ہلکی اور سبک ہو اور ساتھ ہی مکمل اور تام بھی، یعنی ہر رکن اور ہر چیز ٹھیک ٹھیک اور سنت کے مطابق ہو۔ (معارف الحدیث ،ج3،ص222)

امام کی ذمے داری
حضرت عبداللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلمنے فرمایا جو شخص جماعت کی امامت کرے اس کو چاہیے کہ خدا سے ڈرے اور یقین رکھے کہ وہ (مقتدیوں کی نماز کا )ضامن یعنی ذمہ دار ہے اوراس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال ہوگا، اگر اس نے اچھی نماز پڑھائی تو پیچھے نماز پڑھنے والے سب مقتدیوں کے مجموعی ثواب کے برابر اس کو ثواب ملے گا اور مقتدیوں کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی اور نماز میں جو نقص اور قصور ہوگا اس کا بوجھ تنہا امام پر ہوگا ۔

مقتدیوں کی رعائت
حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہیے کہ ہلکی نماز پڑھائے، کیوں کہ مقتدیو ں میں بیمار ،کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں (جن کے لیے طویل نماز کے باعث زحمت ہوسکتی ہے )اور جب کسی کو اپنی نماز پڑھنی ہو تو جتنی چاہے لمبی پڑھ لے ۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم )

امام کے اوصاف
امام میں مندرجہ ذیل اوصاف پائے جانے چاہئیں:
1... اس شخص میں خود امامت کی خواہش نہ ہو (کوئی دوسرا شخص اگر اہلیت نہ رکھتا ہوتو پھر خواہش کرنا درست ہے )۔
2... جب اس سے افضل شخص امامت کے لیے موجود نہ ہو تو بھی آگے نہ بڑھے ۔
3... امام دین دار ہو، افضل علم رکھنے والا ہو ۔ایسے لوگ اپنی نماز اور مقتدیوں کی نماز کو سمجھتے ہیں اور نماز کو خراب کرنے والی باتو ں سے گریز کرتے ہیں ۔
4... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس نے قرآن کی حرام کردہ چیزوں کا حلال جانا وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا ۔لوگوں کو جائز نہیں کہ ایسے شخص کو امام بنائیں ۔مطلب یہ ہے کہ باعمل عالم ااور قاری ہو اور اللہ سے ڈرنے والاہو ۔
5... امام لوگوں کی عیب جوئی اور غیبت سے اپنی زبان کو روکے۔ دوسروں کو نیکی کی تلقین کرے اور خود بھی نیک عمل کرے دوسروں کو برائی سے منع کرے اور خود بھی باز رہے ۔نیکی اور نیک لوگوں سے محبت کرے بدی اور برے لوگوں سے نفرت کرے ۔ دنیاکی حرص اور طمع اس میں نہ ہو ۔اللہ تعالیٰ کی خوش نودی طلب کرنے والا ہو ۔حلیم او ر صابر ہو ۔ شروفساد سے دور رہے۔ لوگ اس پر نکتہ چینی کریں تو صبر کرے ۔اگر کوئی جاہل اس کے ساتھ برائی سے پیش آئے تو برداشت کرے۔ ایسے لوگو ں سے کنارہ کرے۔ بحث و مباحثہ نہ کرے ۔امامت جیسے عظیم المرتبت کام کو اپنے لیے آزمائش سمجھے اور ہمیشہ اس کے پیش نظر امامت کی عظمت اور مرتبت رہے۔ اپنی اصلاح کی ہر وقت فکر رہے ۔
6... نماز مختصر پڑھائے، اس طرح کہ ارکان پورے ادا ہو ں اور خیال کرے کہ جو لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہیں ان میں کمزور ،ضعیف اور بیمار بھی شامل ہیں، اس لیے اپنے آپ کو کمزور ،ناتواں لوگوں میں شمار کرے ۔
7... فضول اور بے فائدہ گفتگوں نہ کرے۔ امام کی حالت دوسرے لوگوں سے الگ ہے، جب وہ محراب پر کھڑے ہوں تو اس وقت سمجھنا چاہیے کہ میں انبیا علیہم السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے مقام پر کھڑا ہوں اور رب العالمین سے کلام کررہا ہوں ۔
8... اپنے آپ کو مقتدیوں سے برتر نہ سمجھے ۔کوئی شخص اس کی برائی کرے یا غلطی ظاہر کرے تو اسے برا نہ سمجھے ۔ہٹ دھرمی اورضد نہ کرے۔ اس بات کو پسند نہ کرے کہ لوگ اس کی تعریف کریں ۔تعریف اورمذمت دونوں کو برا سمجھے ۔
9... لباس صاف ستھرا اور خوراک پاک ہو ۔اس کے لباس سے اتراہٹ اور بڑائی ظاہر نہ ہو اور اس کی نشست میں غرور کی جھلک نہ ہو ،لگائی بجھائی نہ کرتا ہو، لوگوں کے راز کی حفاظت کرے، پردہ دری نہ کرے،کسی سے کینہ نہ رکھے، خیانت کا ارتکاب نہ کرے ۔
10... امام کے لییضروری ہے فتنہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے، نہ فتنہ کو تقویت پہنچائے، باطل پرستوں کے خلاف اہل حق کی مدد کرے ۔اگر اس کی وجہ سے لوگوں میں فتنہ و فساد پھیلنے کا خدشہ ہو تو کنارہ کش ہو جائے اور محراب چھوڑ دے ۔

امام کی تقرری کا حق
امامت میں وراثت نہیں ہے ۔امام مقرر کرنے کا حق اول بانی مسجد کو ہے، پھر اس کی اولاد و اقارب کو، پھر نمازیوں کو اور اہل محلہ کو ہے کہ وہ امام مقرر کریں، لیکن امام میں اہلیت کا ہونا شرط ہے ۔اگر بانی مسجد نے کسی کو امام بنایا اور وہ امامت کی صلاحیت نہیں رکھتا اور نمازیوں نے اس سے لائق تر (بہتر )امام رکھ دیا تو و ہی امام مقرر ہوگا جس کو نمازیوں نے مقرر کیاہے۔

مندرجہ بالا مضامین میں نے کتا ب”مسائل رفعت قاسمی (جدید)“ جس کے موٴلف مولانا رفعت قاسمی صاحب (مفتی و مدرس درالعلوم دیوبند)سے نقل کیے ہیں ۔مفتی صاحب نے کتاب میں یہ مضامین نہایت تفصیل اور دلیل کے ساتھ لکھے ہیں، لیکن میں نے ضرورت کے مطابق مختصراً اور آسان زبان میں لکھ دیے ہیں۔ اگرکسی نے تفصیل دیکھنی ہے یا کہیں غلطی کا ارتکاب لگے تو وہ کتا ب سے دیکھاجاسکتا ہے ۔ان شاء اللہ تشفی ہوجائے گی ۔
Flag Counter