Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

13 - 19
جنسی بے راہ روی کی روک تھام
مولانا اسرار الحق قاسمی

گزشتہ دنوں ایڈز سے متعلق کچھ نئی رپورٹیں منظر عام پر آئیں جن سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بعض ممالک میں تو یہ مرض تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔اگرچہ اس مرض پر قابوپانے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اسباب جو ایڈز کی وجہ بنتے ہیں ان کے سد باب کے لیے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی جارہی ہیں۔مثال کے طورپر ایڈز پھیلنے کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب جنسی بے راہ روی کو قرار دیاجاتاہے، بلکہ ایڈز پھیلنے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ ہرجہت سے جنسی بے راہ روی کو ختم کرنے کی جدوجہد کی جاتی۔یعنی ایسے تمام راستوں کو، جو عوام الناس کو زناتک پہنچاتے ہیں، بند کیاجاتا،لیکن معاملہ اس کے برعکس دکھائی دے رہا ہے کہ ایسے ماحول کی زیادہ ہمت افزائی کی جارہی ہے جس کے ذریعہ سے فحاشی اور زناکاری کو مزید بڑھاوامل رہاہے۔

بے حیائی ایک ایسی برائی ہے جو انسان کو زناکاری تک لے جاتی ہے۔جس معاشرے میں جس قدر بے حیائی ہوگی ، اتنی ہی زیادہ اس معاشرے میں زناکاری بھی ہوگی اور قسم قسم کے خطرناک جرائم بھی پائے جائیں گے۔بے پردگی و جنسی بے راہ روی کے سبب معاشرتی زندگی میں جو فساد برپاہوا ہے ، اس کے خطرناک نتائج سامنے آرہے ہیں ۔اب یہاں اس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس تعلق سے موثر کن کوششیں کی گئی ہیں؟کیا بے حیائی کو مٹانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہوئی ہے؟

اسلام نے جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لیے بے حیائی پر لگام لگائی ہے ۔اسلام نے صنف نازک کی عصمت و عفت کو بڑی اہمیت دی ہے، تاکہ خواتین بھی اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور مردبھی ان کے ناموس کے تحفظ کی جدوجہد میں پیچھے نہ رہیں۔اس طرح جہاں خواتین محفوظ ہوں گی وہیں معاشرہ بھی طرح طرح کی برائیوں سے بچا رہے گا۔ صنف نازک کی عزت وعصمت کے تحفظ کے لیے اسلام نے پورا ایک نظام تشکیل دیا ہے ۔اس کے لیے خواتین کو ہدایت کی گئی کہ وہ پردے کا لحاظ کریں ۔ اللہ تعا لی ارشاد فرماتا ہے ”اے نبی !اپنی بیویوں ،بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں کو بتادیجیے کہ (باہر نکلیں تو اپنے (چہروں ) پر پلو لٹکاکر گھونگھٹ نکال لیا کریں ۔اس طرح وہ آسانی کے ساتھ پہچان لی جایا کریں گی اور ستائی نہ جائیں گی اور اللہ بڑا ہی پردہ پوش اور مہربان ہے “۔(الاحزاب : 59)اس آیت کے ذریعہ خواتین کو پردے کی تاکید کی گئی ہے اور اس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کے ستائے جانے سے بچ جائیں گی ۔ خواتین کو ایسے ملبوسات اور زیورات پہن کر باہر نکلنے یا ان کو لوگوں کو دکھانے سے بھی منع کیا گیا ہے جو ہیجان انگیز ہوں ۔ ارشاد باری ہے ” اور بناوٴسنگھار نہ دکھاتی پھرو،جس طرح پہلے جاہلیت کے دور میں اپنے حسن و سنگھار کی نمائش کرتی تھیں“۔(الاحزاب 32)

حسن وسنگھارکی نمائش خواتین کے لیے ممنوع ہے ۔ کیوں کہ حسن ونگار سے متعلق چیزیں مردوں کے دلوں کو لبھانے والی اور ان کی ہیجانی خواہش کو بھڑکانے والی ہیں۔ اگر بناؤ سنگھار اپنے شوہروں کے لیے کیا جائے تو درست ہے ،مگر اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس کا اظہار کسی اجنبی مرد کے سامنے نہ ہوپائے ۔ باری تعالی ارشاد فرماتاہے ”اور اپنے پاؤں زمین پر اس طرح مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت (زیوروں کی جھنکار ) لوگوں کو معلوم ہوجائے“۔ (النور : 31)

قرآن مجید کی مذکورہ آیات اس بات کی متقاضی ہیں کہ خواتینِ اسلام پردے کا پورا اہتمام کریں اور دنیا دار عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور فیشن پر توجہ نہ دیں ۔ کیوں کہ ان کے نتائج بڑے بھیانک ہوتے ہیں ۔ عہد حاضر میں بے پردگی کے نتائج نہ صرف مغربی ممالک میں پائے جا تے ہیں، بلکہ اب بے پردگی کے خطرناک مناظر افریقی و ایشیائی ممالک میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں کہ جہاں عورتیں شرم و حیاکا پیکر ہوا کرتی تھیں، اب وہاں عورتیں بے حجاب ہوکر سڑکوں پر آگئیں، آفسوں میں ، ہوٹلوں میں اور دیگر شعبوں میں اپنے حسن کی نمائش کرنے لگیں۔پہننے کے لیے ایسے فیشن پر مبنی ملبوسات کا استعمال کیا جا نے لگا جو خواہشات نفسانی کو بھڑکانے والے ہوتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ بد کاری و فحاشی کھلے چھپے خوب ہونے لگی ۔ فیشن کی نمائش کے شوق نے فضول خرچی کو بھی بڑھاوادیاہے ۔چناں چہ وہ ستر، جو بہت کم رقم کے کپڑوں میں ڈھانپا جا سکتا تھا ،اب اس کے لیے ہزاروں روپے خرچ کیے جاتے ہیں ۔ اس پر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہزاروں روپے خرچ کر نے کے باوجود ستر پوشی کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔

” ستر پوشی “ خواتین کی عصمت و عفت کے لیے انتہائی ضروری ہے ، اس لیے اسلام نے ستر پوشی کے بارے میں سخت تاکیدکی ہے ۔ ارشاد باری ہے ” اور اپنے ستر کی حفاظت کرو“۔ (النور31)

ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی حضرت اسماء  باریک کپڑے پہنے آپ کے سامنے آئیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فوراً منھ پھیر لیا اور فرمایا کہ ” اسماء! جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے علاوہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے “ جو عورتیں سترپوشی کی رعایت نہیں کرتیں اور ہیجان انگیز لباس پہنتی ہیں ، ان کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” وہ عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی رہتی ہیں ، دوسروں کو رجھاتی پھرتی ہیں اور خود بھی دوسروں پر ریجھتی ہیں ، ناز سے لچکے کھاتیں اور گردن کو بل دیتی ہوئی چلتی ہیں، وہ نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی ، سر اور سینہ کو خاص طور سے چھپانے کا حکم کیا گیا ہے۔ ارشاد باری ہے ” اور اپنے سینوں پر دوپٹوں کے آنچل ڈالے رہیں۔“ (النور : 31)

در اصل جسم کے یہ حصے صنف مخالف کے لیے انتہائی کشش رکھتے ہیں ، پھر سینہ سے اوڑھنی کے سر کنے کا بھی خدشہ لگا رہتا ہے ، اس لیے سر اور سینہ کے ڈھانپنے میں زیادہ احتیاط برتی جائے اور کسی طرح کی لاپرواہی نہ ہوجائے ۔

عورتو ں کے لیے پردہ کو لازم کر دینے ، انہیں عمومی بناؤ سنگھار سے روکنے اور ستر پوشی کا اہتمام کرنے سے متعلقہ احکام کے پیچھے خواتین کی عزت وآبرو کے تحفظ کا مقصد کا رفرما ہے اور انہیں بھیانک نتائج سے محفوظ رکھنا ہے ۔ موجودہ زمانے میں اگرچہ یہ بات چاہے کتنی ہی عجیب کیوں نہ لگے کہ جس فیشن اور بے پردگی کو معیار ِزندگی تصور کیا جا تا ہے اور سادہ لباس ، پردہ اور عورتوں کے گھروں میں رہنے کو پسماندگی کہا جا تا ہے ، اسے اسلام عورت کی عزت بتا تا ہے ، کیوں کہ حقیقت یہی کہ صنف نازک کی عزت و آبرو کا تحفظ پردہ اور ستر پوشی میں ہے ۔ بے پردگی کا نتیجہ زنا کاری و بد کاری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، جو انتہائی فحش کام ہے اور انسان کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دینے والا ہے ۔ اس لیے فرمایا گیا ” زنا کے قریب بھی مت جاؤ ،بلاشبہ وہ بے حیائی کا کام ہے “۔اخلاقی تعلیم اور آخرت کا خوف دلانے کے باوجود بھی اگر کوئی نہ مانے اور زنا جیسا فحش عمل کر بیٹھے تو اس کے لیے سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ اگر زانی یا زانیہ شادی شدہ ہیں تو انہیں سنگسار کیے جانے کا حکم ہے اور اگر غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے مارے جائیں گے ۔ بعض ملکوں وتہذیبوں میں زنا کاری اگر رضامندی کے ساتھ ہے تو معیوب نہیں ، لیکن اسلام کے نزدیک چاہے زنا بالجبر ہو یا بالرضا ہو ،دونوں صورتوں میں زناجائزنہیں ہے ۔

یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ مسلم خواتین کی بڑی تعداد بھی آج کل دوسری اقوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فیشن کو اختیارکررہی ہے اور گھر سے باہر آکر اپنے جسموں کی نمائش میں فخر محسوس کررہی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ مسلم معاشرے میں اسی طرح کی برائیاں اوروارداتیں سامنے آرہی ہیں جس طرح غیر مسلم معاشروں میں آتی ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ زناکاری ایڈز تک پہنچاتی ہے، اس کے ذریعہ زندگی کا سکون بھی ختم ہوجاتا ہے۔ زناکاری کا نقصان صرف دنیا کی زندگی میں ہی نہیں، بلکہ آخرت میں بھی زناکارشخص کو سخت سزاکا سامنا کرنا پڑے گا۔
Flag Counter