مساجد ومدارس کو سوئی گیس بم سے نشانہ بنانے کی افسو ناک کوشش
مولانا محمد حنیف جالندھری
جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
الله رب العزت نے وطن عزیز پاکستان کو 1950ء کی دہائی میں سو ئی گیس کی نعمت سے نوازا تھا۔ یہ وہ نعمت ہے جو پاکستان کو کسی غیر ملک سے خریدنی نہیں پڑتی، بلکہ یہ قدرت کا انمول عطیہ مفت میں عنایت کیا گیا ہے ۔ پاکستان میں سوئی گیس کا استعمال1950ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہو گیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یعنی گذشتہ50 سال سے زائد عرصہ کے دوران مساجد ،مدارس اور دیگر دینی اداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کی طرح کی جارہی تھی ۔ ہم لوگ عرصہٴ دراز سے حکومتِ وقت سے یہ مطالبہ کرتے آرہے تھے کہ چوں کہ مساجد او رمدارس فلاحی ادارے ہیں جوحکومت کی امداد کے بغیر گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے لوگوں کی دینی ضروریات پوری کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے ۔ اس لیے ان دینی اداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کے مقابلہ میں رعایتی نرخوں پر ہونی چاہیے۔ ہمارے اس دیرینہ جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کے بجائے حکومتِ پاکستان کے ذیلی ادارے ”اوگرا“ نے 22 ستمبر2012ء سے مساجد، مدارس اور دیگر دینی اداروں کوعام گھریلو صارفین کے زمرے سے نکال کر، اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر ان دینی اداروں پر ناقابلِ برداشت معاشی بوجھ ڈال دیا ہے۔ چناں چہ مساجد ودینی مدارس میں گیس کنکشن حاصل کرنے کا خرچہ3000 روپے سے بڑھا کر31000 روپے کر دیا ہے ، یعنی سروس لائن کی رقم 1500 روپے سے بڑھا کر 5000 روپے اور سیکیورٹی کی رقم00 15 روپے سے بڑھا کر26000 روپے کر دی ہے یعنی اگر کوئی اپنی کوٹھی یا مکان پر گیس کنکشن لگوائے تو اسے محض 3000 روپے دینے ہوں گے او راگر الله کے گھر کے لیے گیس کنکشن لیا جائے تو 31000 روپے دینے ہوں گے ۔ عام گھریلو صارفین کے لیے سوئی گیس کے تین نرخ ہیں یعنی 100 روپے فی یونٹ،200 روپے فی یونٹ اور 500 روپے فی یونٹ۔ لیکن مساجد ومدارس وغیرہ کے لیے ایک ہی نرخ ہے، یعنی 500 روپے فی یونٹ ۔ وہ جتنی بھی گیس استعمال کریں گے ان کو ساری مقدار پر 500 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کرنا ہو گی ۔ ان دینی اداروں کو سستے نرخوں یعنی 100 روپے فی یونٹ اور 200 روپے فی یونٹ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ عام گھریلو صارفین کے لیے کم سے کم بل کی رقم تقریباً 200 روپے ہے اور گذشتہ ماہ تک مساجد ومدارس وغیرہ کے لیے بھی کم سے کم بل کی رقم 200 روپے ہی تھی، مگر حکومت کے ذیلی ادارے ”اوگرا“ نے اسلام دشمنی میں ظالمانہ طور پر 22 ستمبر2012ء سے دینی اداروں کے لیے کم سے کم بل کی رقم 200 روپے سے بڑھا کر 3600 روپے کر دی ہے۔ مساجد میں وضو کے گرم پانی کے لیے تین ماہ یعنی دسمبر،جنوری اور فروری میں سوئی گیس استعمال کی جاتی ہے، باقی 9 ماہ یعنی مارچ سے نومبر تک مساجد میں گیس کا استعمال نہیں ہوتا۔ چناں چہ ان نو ماہ کے دوران گیس استعمال نہ کرنے کے باوجود 3600 روپے ماہ وار کے حساب سے نو ماہ کا کم از کم بل32400 روپے ادا کرنا ہو گا اور اس کے علاہ گیس کے استعمال کے حساب سے بھی فی یونٹ پانچ سو روپے مزید ادائیگی بھی کرنی پڑے گی۔
مساجد ومدارس کے ساتھ یہ ظالمانہ او رغیر مساویانہ طرزِ عمل اسلام دشمنی اور ظلم کی انتہا نہیں تو او رکیا ہے ؟ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی اس مملکت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگوں کی دینی ، علمی روحانی اور اسلامی روایات پوری کرنے کے لیے مساجد ومدارس کے جملہ اخراجات اور انتظامات ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی۔ اگر ریاست تمام تر بوجھ اور ذمہ داری اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تو کم از کم بجلی اور گیس کی سہولت تو مفت مہیا کی جاتی، لیکن یہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی اس ریاست میں دین ہپر عمل کرنے کو روز بروز مشکل سے مشکل بنایا جارہا ہے، جب کہ گناہ کرنا دن بدن آسان سے آسان تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ وہ چیزیں جن کی وجہ سے نسلِ نو کے بہکنے اور بے راہ روی کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں انہیں سستا کیا جارہا ہے ، ان تک رسائی آسان ہوتی چلی جارہی ہے اور وہ ہر آدمی کی پہنچ میں ہیں، لیکن وہ دینی مدارس جو اس قوم کے بچوں اور بچیوں کو علومِ نبوت سے روشناس کروانے والے ہیں اور وہ مساجد جو ایک مسلمان کی ایمانی اور روحانی زندگی کے لیے از حد ضروری ہیں ان کا انتظام مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے۔
حکومت کے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کے بارے میں عوام الناس میں مختلف قسم کی آرا پائی جاتی ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اس عالمی استعماری ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت دینِ اسلام سے نسبت رکھنے والی ہر علامت ، ہر ادارہ اور ہر مرکز دشمن کا ہدف ہے اور وہ ہر اس عمل کو روکنا چاہتے ہیں جو اسلام کے غلبے او رمسلمانوں کی کام یابی کی ضمانت دیتے ہوں اور جن کے ذریعے لوگ دین سے مزید قریب ہو سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی مساجد میں بم دھماکے کرواکر لوگوں کو خوف زدہ کر دیا جاتا ہے او رانہیں مسجدوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کبھی دینی مدارس کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے ، مدارس کی کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے ، مدارس کے اساتذہ وطلباء کو شہید کیا جاتا ہے ، مدارس پر بلاجواز چھاپے مارے جاتے ہیں ، مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اب ایک وار گیس کے بلوں کی شکل میں کیا گیا۔ اس سے قبل بجلی کے بلوں میں بھی غیر علانیہ طو رپر اس قسم کی وارداتوں کومحسوس کیا گیا او راب گیس کے بلوں کی شکل میں نقب زنی کی کوشش کی جارہی ہے ،جسے ان شاء الله کسی صورت میں کام یاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جب کہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ واردات کسی ایسے بے دین ، سیکولر اور قادیانی مزاج بابو کے شاطرانہ دماغ کا شاخسانہ ہے جس نے مساجد ومدارس کو ہدف بنا کر مسلمانوں کے ایمان وعقیدے اور مذہبی وابستگی پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے، لیکن الله کی ذات سے امید ہے کہ اس ملک کے کروڑوں اہلِ ایمان اس کوشش کو ناکام بنا کر دم لیں گے۔
اس ظالمانہ فیصلے کی اطلاعات ملنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنے کے لیے ابتدائی مرحلے میں ہم نے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات کو جمع کرکے باہمی مشاورت کی اور حکمت عملی طے کر لی ہے کہ اس ظالمانہ جسارت کی ہر سطح پر، ہر طریقے سے ہر ممکنہ مزاحمت کی جائے گی ۔ ابتدائی مرحلے میں ہم صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، وفاق وزیرِپٹرولیم پاکستان اور چیئرمین ”اوگرا“ سے خطوط، مضامین، اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور مساجد ومدارس کے سوئی گیس بلوں میں اضافہ کو واپس لیا جائے او راس ظالمانہ وجانب دارانہ فیصلہ کے ذمہ داروں کو معطل کرکے عبرت ناک سزا دی جائے۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس اقدام پر سوموٹو نوٹس لیں، تاکہ اربابِ مساجد ومدارس اور پوری قوم میں پایا جانے والا اضطراب ختم ہو سکے۔