امام المناظرین حضرت مولانا عبدالستار تونسوی رحمہ اللہ
مولانا مدثر جمال تونسوی
آہ عالم اسلام ایک اور عظیم سایہٴ رحمت سے محروم ہوگیا، جن کا علمی وتحقیقی مقام عرب وعجم کے علماء کے ہاں مسلّم تھا،آخر کار وہ بھی لاکھوں اہل ایمان کو روتا ہوا چھوڑکر عالَم آخرت کی طرف روانہ ہوگئے۔ یقینا قارئین کرام سمجھ چکے ہوں گے کہ میری مراد امام المناظرین، استاذالمحققین، ترجمان اہلسنت، ناموس صحابہ واہلبیت کرام کاسچاومخلص داعی ومبلغ اور عظیم محقق ومصنف، مناظروں کی دنیاکے بے تاج بادشاہ، شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنی اور امام اہلسنت مولانا عبدالشکور لکھنوی کے شاگردرشید حضرت مولانامحمدعبدالستارتونسوی ہیں، جو اَب ”مدظلہ العالی“ کے عرفی دعائیہ کلمات کے بجائے” رحمة اللہ علیہ“ اور”نَوَّراللہ مرقدَہ“ کے کلمات سے یادکیے جارہے ہیں۔مجھ جیسابے بضاعت اس باکمال صاحب علم وعمل اور صاحب شجاعت وروحانیت کے متعلق کیالکھ سکتا یابیان کرسکتا ہے ؟ حضرت کی قائم کردہ تنظیم اہلسنت کے ہی ایک شاعر جناب عبدالکریم خاکی کے الفاظ میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ #
لکھ نہیں سکتا یہ خاکی اُن کی پوری منقبت
جومیرے ہے دل کے اندر، تونسوی عبدالستار
ایک مرتبہ جب حضرت تونسوی حرمین شریفین میں تحفظ مسلک اہلسنت اور رداہل تشیع کے موضوعات پر دروس ارشاد فرمارہے تھے تو ایک درس میں مہتمم دارالعلوم دیوبند حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی صاحب بھی اچانک شریک ہوگئے اورکافی دیرتک آپ کادرس سماعت فرماتے رہے، اختتام درس پر حضرت قاری صاحب نے حضرت تونسوی صاحب کوگلے لگا کر اُن کی پیشانی پربوسہ دیا،پھر جب حضرت تونسوی نے یہ بتایاکہ ناچیزآپ کاادنی شاگرد ہے اور دارالعلوم دیوبند میں آپ سے ابن ماجہ شریف پڑھی ہے تو حضرت قاری طیب قاسمی صاحب نے فرمایا:
آج آپ کے درس سے ہم بہت مستفید ہوئے… آپ تو میرے استادمعلوم ہوتے ہیں۔“
حضرت تونسوی رحمہ اللہ کے حالات زندگی پرایک تفصیلی کتاب آپ کی حیات میں ہی آپ کے ایک صاحب علم نواسے مولانا عبدالحمید تونسوی نے ترتیب دی ہے ، ذیل میں اسی کتاب کی روشنی میں حضرت کے کچھ حالات زندگی اور تعلیمی ودینی خدمات کاکچھ تعارف پیش کیاجاتا ہے۔
حضرت تونسوی کی ولادت باسعادت 3رمضان المبارک 1344ھ بمطابق 18 مارچ 1926ء شب جمعة المبارک بوقت سحر بمقام تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہوئی۔رمضان المبارک میں حضرت کی پیدائش ہونے کی وجہ سے بعض اقرباء نے آپ کا نام ”محمد رمضان“ تجویز کرنا چاہا مگر آپ کی والدہ ماجدہ نے اس وقت اس راز کو ظاہر کیا کہ ان کے والد محترم نے مجھے ان کی پیدائش سے قبل بتایا تھا کہ متعدد بار خواب میں مجھے بیٹے کی خوشخبری سنائی گئی پھر جمعرات کی شب ایک بتانے والے نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک بیٹا عطا کریں گے جس کا نام” محمد عبد الستار“ رکھا جائے۔ چناں چہ آپ کا نام نامی ”محمد عبد الستار“ تجویز ہوا۔ اور شہر تونسہ کی طرف نسبت کی وجہ سے” تونسوی“ مشہور ہوئے۔
آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی ” مولانا حکیم حاجی اللہ بخش صاحب “ (م 1971ء ) ہے جو کہ نہایت نیک سیرت ، پاکباز، خاموش طبع، ذاکر و شاغل، اور ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ شرافت و سخاوت اور شرم وحیا میں نمایاں شان رکھتے تھے، تعلیم و تدریس اور طب یونانی آپ کے محبوب مشغلے تھے۔ ضلع ڈیرہ غازی خان کے مختلف سکولوں میں تدریسی فرائض سر انجام دئیے۔آج تک پورے علاقے میں ان کے بالواسطہ یا بلا واسطہ شاگرد انکی تدریسی مہارت کے گن گاتے ہیں۔
حضرت تونسوی رحمة اللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور معمولی نوشت و خواندگی تونسہ شریف میں ہی والد بزرگوار کے زیرسایہ ہوئی، آپ نے ناظرہ قرآن پاک محترم حافظ محمد عثمان صاحب تونسوی سے پڑھا، درجہ کتب کی تعلیم کے لیے آپ کوحضرت خواجہ محمدسلیمان تونسوی چشتی کی درگاہ کے جانشین خواجہ محمود تونسوی کے قائم کردہ” مدرسہ محمودیہ“ میں داخل کیا گیا۔ اُس وقت مدرسہ مذکورہ علم و عرفان کا مرکز تھا، تشنگان علم دوردراز سے سفر کی صعوبتیں برداشت کر کے تونسہ میں آ کر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، مدرسہ محمودیہ میں نامور علماء کرام فارسی و عربی، فقہ و منطق ، فلسفہ و کلام اور تفسیر و حدیث کی تعلیم دیتے تھے۔ حضرت والا نے فارسی وصرف کی کتب ماہر علوم فارسی حضرت مولانا خالق داد صاحب سے پڑھیں، دیگر نحو و فقہ کی کتابیں حضرت مولانا احمد جراح صاحب ، حضرت مولانا اللہ بخش صاحب، اور ادب کی کتب استاذ الادب حضرت مولنا غلام رسول صاحب سے پڑھیں، منطق و معقول اور فلسفہ کے فنون جامع المعقول حضرت مولانا عبد الستار صاحب شہلانی مدظلہ فاضل ریاست رام پور سے حاصل کیے، اور فقہ، میراث، تفسیر و حدیث کی مبسوط کتب استاذ العلماء شیخ الحدیث حضرت مولانا خان محمد صاحب فاضل دارالعلوم دیوبند سے پڑھیں، ابتدائی کتب سے لے کر دورہ حدیث تک تمام علوم و فنون کی تکمیل ”جامعہ محمودیہ تونسہ “میں ہی کی۔
اگرچہ بظاہررسمی تعلیم مکمل ہوگئی تھی مگر آپ علمی پیاس بجھانے کے لیے اپنے اساتذہ کے مشورے سے 1945ء کے اواخر میں دارلعلوم دیوبندتشریف لے گئے، جہاں اُس وقت شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمة اللہ علیہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم کے انمول جوہر لٹا رہے تھے، حضرت شیخ مدنی دارالعلوم میں آسمان علم و معرفت کے آفتاب عالم تاب تھے گویا ایک شفاف آئینہ کو آفتاب جہاں تاب کے سپرد کر دیا گیا۔
دارالعلوم دیوبند میں حضرت تونسوی نے 1946ء میں دورہ حدیث پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ گویا قدرت نے موصوف کو دو بار دورہ حدیث شریف کی سعادت عطا فرمائی ہے۔ علم حدیث سے محبت اور عشق نبوی صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو بار بار فرامین رسالت صلی الله علیہ وسلم پڑھنے پر برانگیختہ کیا، جس کے نتیجے میں آپ علم و عمل کی درسگاہ سے کندن بن کر نکلے، آپ کا اکتساب علوم حدیث میں اس جان گداز محنت سے مقصود مقام نبوت صلی الله علیہ وسلم اور گواہان نبوت کی علمی و برہانی وکالت میں مہارت تامہ حاصل کرنا تھا، اللہ تعالیٰ نے بہت جلد آپ کو اس نعمت سے بہرہ ور فرمادیا۔دارالعلوم دیوبند میں جن اساطین علم و فن اور اکابر اساتذہ سے آپ نے علم حدیث میں کسب فیض کیا ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے بخاری شریف و ترمذی شریف، شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے ابو داوٴد شریف اور شمائل ترمذی، استاذ الحدیث حضرت مولانا بشیر احمد صاحب سے مسلم شریف، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سے ابن ماجہ شریف اور استاذ الحدیث حضرت مولنا فخر الحسن صاحب سے نسائی شریف پڑھیں، علاوہ ازیں موٴطا امام مالک، موٴطا امام محمد اور طحاوی شریف علی الترتیب استاذ الحدیث حضرت مولانا عبد الخالق صاحب ( بانی دارالعلوم کبیر والا) حضرت مولنا نافع گل صاحب اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب آف اکوڑہ خٹک سے پڑھیں اور یوں علوم دینیہ سے سیراب ہو کر فیضیاب ہوئے۔
پھر قابل ذکر بات یہ ہے کہ دارالعلوم کے نظام الاوقات کے علاوہ آپ کو حضرت مولنا شبیر احمد عثمانی سے بھی استفادہ کا موقعہ ملا چونکہ حضرت مولانا علامہ عثمانی صاحب کی رہائش دیوبند ہی میں تھی تو آپ وقتاً فوقتاً ان کے پاس جا کر فن تفسیر و حدیث سے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے۔ حضرت تونسوی فرمایاکرتے تھے کہ حضرت اقدس علامہ شبیر احمد عثمانی عظیم مفسر، نامور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ صاحب البیان بھی تھے، آپ کے علمی کمالات میں ”تفسیر عثمانی و فتح الملہم شرح صحیح مسلم “ نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔
دارالعلوم کے زمانہ طالب علمی میں ایک دن حضرت تونسوی نے اپنے استاذ حضرت مدنی سے شیعہ و سنی کے نزاع پر مختلف سوالات کیے جس کے جوابات حضرت مدنی نے بڑی فراخدلی سے دئیے، اور اس موضوع پرطویل گفتگو ہوئی۔ بعد از کلام حضرت مدنی نے فرمایا ” مولوی عبد الستار! آپ کا ذوق قابل داد ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ یہاں سے فراغت کے بعد لکھنو چلے جاوٴ، وہاں امام اہل سنت علامہ عبد الشکور صاحب لکھنوی سے ضرور استفادہ کرو، ان شاء اللہ آپ کے تمام اشکالات رفع ہو جائیں گے“۔ حضرت مدنی نے یہ بات کئی بار ارشاد فرمائی۔
حضرت تونسوی نے ظاہری علوم و معارف کے استفادہ کے ساتھ باطنی اصلاح و تربیت کے لیے بھی حضرت مدنی ہی کو اپنا مربی و مرشد بنا لیا اور یکم شعبان المعظم 1366ھ کو حضرت شیخ الاسلام سے سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت فرمائی۔ حضرت تونسوی کا فرمان ہے کہ :
ہم نے ایسا عارف باللہ ، مجاہد کبیر، محدث یگانہ، پایا تو شیخ العرب والعجم حضرت اقدس سید حسین احمد مدنی کو پایا۔ سال بھر کے مشاہدے میں مجھے حضرت کی حیات طیبہ کا کوئی عمل جب خلاف سنت نظر نہ آیا تو دل نے گواہی دی کہ ایسا شیخ کامل پھر نہیں مل سکے گا۔ اسی لیے ناکارہ نے اپنا ہاتھ بحر شریعت اور خضر طریقت کے دست حق پرست میں دے کر انہی کے زیر فیضان نظر رہنے کا فیصلہ کر لیا “
بعد ازاں دارالعلوم سے فراغت کے بعد حضرت مدنی کے مشورے کے مطابق حضرت امام اہل سنت لکھنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ انہوں نے 1351ھ کو لکھنو میں ایک خصوصی ادارہ ” دارالمبلغین “ کے نام سے قائم کیا جس میں فارغ التحصیل ذی استعداد علماء کرام کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ حضرت تونسوی اپنے علمی و تحقیقی ذوق کی تکمیل کے لیے وہاں پہنچے اور حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مدعا بیان کیا اور ساتھ ہی حضرت مدنی کا حوالہ بھی دیا کہ انہوں نے آپکے ہاں بھیجا ہے۔ حضرت لکھنوی یہ سن کر بے حد مسرور ہوئے اور فرمایا کہ :” شیخ مدنی کا حکم علی الرأس والعین مگر ہمارے دارالمبلغین میں داخلہ کے لیے فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ صلاحیت و استعداد اولین شرط ہے۔ مزید برآں اس موضوع سے جس قدر دلچسپی ہو گی اتنا ہی فائدہ ہو سکے گا“۔
چناں چہ حضرت تونسوی کا داخلہٴ امتحان ہوا۔ آپ کی علمی صلاحیت اور دلچسپی دیکھ کر حضرت لکھنوی بہت خوش ہوئے اور داخلہ کا حکم جاری فرمایا۔ اسطرح موصوف اس بحر محیط کے غوّاض بن کر مزیدعلم کی دولت سمیٹنے لگے۔ 14اگست 1947ء یوم قیام پاکستان کے نادر موقع پر آپ دارالمبلغین لکھنو میں نادرہ روزگار شخصیت سے مستفید ہو رہے تھے۔ حضرت تونسوی نے وہاں کے نصاب کے مطابق آیات قرآنیہ، مشکوة المصابیح ، فن مناظرہ کی تربیت، روافض کے عقائد ، مطاعن ، مسائل، اعتراضات اور ان کے جوابات ، کتب شیعہ کی مکمل معلومات و دلائل، حضرت لکھنوی سے پڑھے اور خداداد صلاحیت اور غیر معمولی کاوش کو بروئے کار لا کر بہت جلد دارالمبلغین کے طلباء میں ممتاز مقام حاصل کر لیا اور آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ امام اہل سنت حضرت لکھنوی کے تلامذہ میں سے حضرت تونسوی ایسے انمول جوہر ثابت ہوئے کہ جنہوں نے اپنے شیخ کی تربیت کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا، نصف صدی سے زائد عرصہ تک اپنے آپ کو صحابہ کرام کے دفاع و وکالت کی خدمت کے لیے وقف کیے رہے ۔ فن مناظرہ ہو یا مسند خطابت ، میدان تحقیق ہو یا دفاع صحابہ کا مشن… حضرت تونسوی ، فکر لکھنوی کی حقیقی تصویر تھے، اگر انہیں ”حضرت لکھنوی کا علمی جانشین “یا ”فکر لکھنوی کا امین“ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
حضرت تونسوی نے تعلیمی فراغت کے بعد تدریس وتعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا، دس سال اپنے مادرعلمی مدرسہ محمودیہ میں ابتدائی کتب سے لے کر بخاری شریف تک تمام کتب کی نہایت شاندار انداز سے تدریس فرمائی، مناظرانہ ومحققانہ ذوق تو تھا ہی مگر ادب عربی سے بھی گہری واقفیت تھی اور دوران تدریس طلبہ آپ کو”شیخ الادب“ کے لقب سے یادکرتے تھے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے بے پناہ جذبے اور جستجوئے صداقت کے لیے طویل مطالعاتی سفرفرمایا، اہل تشیع کی اصل کتابوں تک رسائی اور ان کے نامور اہل علم کے خیالات جاننے کے لیے ایران وعراق کا کٹھن سفرفرمایا، ان ملکوں کے مشہور مشہور شہروں اوروہاں موجود کتب خانوں میں موجود کتابوں کاگہری نظر سے مطالعہ کیا، وہاں کے اہل علم سے براہ راست مکالمے کیے ان کے خیالات سے واقفیت پیدا کی، ان کی اصل کتب اپنے ساتھ لائے۔ یہاں تک کہ اس موضوع پر عرب وعجم کے علماء میں مستند اتھارٹی قرار پائے، علماء حرمین کو اس نازک مسئلے کی طرف آپ نے توجہ دلائی، انہی کی سفارش پر ایک کتاب”بطلان عقائد الشیعہ“ کے نام سے عربی زبان میں تالیف کی جسے اہل عرب مشائخ نے لاکھوں کی تعداد میں چھپواکر تقسیم کیا، حرمین میں آپ کے دروس کاسلسلہ جاری کیاگیا، جس میں بڑے بڑے شیوخ وعلماء نے آپ سے استفادہ کیا۔ اللہ تعالی نے متعدد مرتبہ آپ کو حج کی سعادت سے نوازا۔ ملک پاکستان کے طول وعرض میں دینی وتبلیغی خدمات کے علاوہ بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ کے اسفار فرمائے۔ فن مناظرہ میں یدطولی حاصل تھا ملک بھر میں درجنوں عظیم الشان مناظرے فرمائے اور ہرمناظرے میں فریق مخالف ناکام ہوکر شکست سے دوچارہوا اور آپ ہرجگہ حق کاعلم لہراتے اور پرچم صداقت بلند کرتے رہے۔ بقول شاعر #
وہ جس سے کفروشرک کے ایواں لرز اٹھے
ہے آج الف ثانی کی للکار تونسوی
ہے سرفراز وسربلند خاک دیوبند
اس خاک کے انوار کااظہار تونسوی
حضرت تونسوی سے استفادہ کرنے والے ہزاروں شاگرد علماء ہیں چند نامور اصحاب کے ناموں سے حضرت تونسوی کے عظیم مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ، امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی شہید، حضرت مولانا محمد مسعود ازہرمدظلہ، مولانا اعظم طارق شہید، حضرت مولانا عبداللہ شہید، حضرت شیخ الحدیث صوفی محمد سرور جامعہ اشرفیہ لاہور۔
حضرت اقدس تونسوی رحمہ اللہ پر یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہے کہ انہیں دین کے ہر شعبے میں کام کرنے کا موقع ملا، تبلیغ، تدریس و تصنیف اور تقریر و تحریر کے ساتھ ساتھ ملکی و ملی خدمات ، ان کی تاریخ کے درخشندہ باب کی حیثیت رکھتی ہے، اکابرین دیوبند کی محبت و مصاحبت سے انہیں دیگر علوم کے ساتھ ساتھ جہاد کا ذوق اور جذبہ بھی حاصل ہوا ۔ حضرت فرماتے تھے کہ:
” ایک عرصے تک میرے قلب و جگر میں یہ حسرت انگڑائیاں لیتی تھی کہ کسی طرح میدان کارزار میں اتر کر عملاً جہاد فی سبیل اللہ میں شرکت کی جائے، علاوہ ازیں اس اہم فریضہ سے سبکدوش ہونا، جذبہ جہاد و حریت کو اجاگر کرنا اور اپنے اکابر کے مشن کو عملاً نسل نو تک پہنچانا ناممکن ہے “
یہ حضرت کی ایسی دیرینہ خواہش تھی کہ جس کی تکمیل بظاہر بہت مشکل نظر آتی تھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین افغانستان سے احیاء جہاد کا کام لیااور جب علمائے امت نے اس کے حقیقی جہاد ہونے کا فتوی دے دیا تو حضرت نے باوجود پیرانہ سالی کے افغانستان جاکرعملی طورپرجہاد میں شرکت فرمائی، وہاں محاذ جنگ کے خط اول پر تشریف لے گئے اور مجاہدین سے پرجوش خطاب فرمایا۔
آخر میں حضرت تونسوی کے مسلک وفکر کی عمومی جھلک دیکھنے کے لیے حضرت شیخ تونسویکے وہ الفاظ ملاحظہ فرمالیں جو اپنی تقاریر میں اِتمام حجت کے لیے اکثر و بیشتر فرمایا کرتے تھے کہ :” میں نے تحقیق مسائل اور صراط مستقیم کی جستجو میں اپنی ساری زندگی گزار دی ہے، لوگوں نے گھر بیٹھ کر بلا تحقیق فیصلے کر لیے اور بزعم خود اپنے اجتہاد اور ذاتی رائے سے عوام الناس کو رسومات و بدعات کی ڈگر پر چلانے میں پورا زور لگا رکھا ہے، جب کہ میں نے تحصیل علم کے لیے ہزاروں میل لمبے سفر کیے، میں نے خدا کے دروازے پر مکة المکرمہ اور سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے روضہ اطہر پرمدینہ منورہ بارہا حاضری دی، سیدنا حضرت علی کے مسکن و مدفن ( کوفہ ، نجف) تک پہنچا، سیدنا حضرت حسین کے مزار پرانور پر کربلا معلی بھی گیا، امام ابوحنیفہ اور محبوب سبحانی حضرت شاہ عبد القادر جیلانی کے مزاروں کی زیارت کی۔ میں نے پاکستان وہندوستان کی کتب پڑھیں، عراق و ایران، ترکستان و لبنان ( بیروت ) اور عربستان کی کتابوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا، اہل سنت و اہل تشیع کی کتب اصلیہ کا بھی تحقیقی جائزہ لیا۔ آج منبر رسول صلی الله علیہ وسلم پر خدا کے قرآن کو گواہ کر کے حلفاً کہتا ہوں کہ اہل سنت والجماعت حنفی دیوبندی مسلک کے تمام عقائد ومسائل کتاب و سنت کے مطابق ہیں“۔اسی طرح ایک موقع پرایک سوال کے جواب میں حضرت تونسوی نے ارشاد فرمایا کہ” دارالعلوم دیوبند ایک تحریک کا نام ہے جس کے منشور میں تعلیمِ کتاب اللہ، التزام بالسنت،تصوف اور اعلاء کلمة اللہ ( جہاد ) شامل ہے۔“
حضرت تونسوی رحمة اللہ علیہ کی حیات طیبہ کے دیگر بہت سے اہم پہلو ہیں جو اس مختصر تحریر میں نہیں آسکے، اگر موقع ملا تو ان شاء اللہ کسی اور مجلس میں کچھ دیگر خدمات کامختصرتعارف پیش کروں گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی حضرت تونسوی کی قبر مبارک کو انوارات سے بھر دے، انہیں کروٹ کروٹ راحت وآرام نصیب فرمائے اور حضرت کے صاحبزادگان مولاناعبدالغفار تونسوی، مولانا عبدالجبار تونسوی، مولانا عبداللطیف تونسوی، اور مولانا محمد عمر فاروق تونسوی صاحبان کو اس موقع پر صبر جمیل عطا فرمائے اور انہیں اپنے والد محترم کے دینی وعلمی مشن کو احسن انداز سے جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ایں دعا از من وازجملہ جہاں آمین باد