Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 19
علم کی حقیقی طلب کے چار بنیادی اصول
اخلاص و للّٰہت،مسلسل محنت ،بلندی ہمتی اورادب و احترام
متعلم محمد فیاض مبارکپوری
علم کی حقیقی طلب، جوہر طالب علم کا خاصہ ہونا چاہیے کے لیے طالب علم میں ادب کا جوہر ضرور ہونا چاہیے۔

ادب
علم کی مسلسل محنت کے ساتھ بلند ہمتی اور اس کے ساتھ استاذ ، کتاب ، اور آلات علم کا ادب ،بھی انتہائی ضروری ہے ،جیساکہ امام طبرانی نے روایت نقل کی: ”وتواضعوا لمن تعلّمون منہ“․

”جس سے علم سیکھو اس کے ساتھ ادب اور تواضع سے پیش آؤ“۔

حضرت تھانوی  فرماتے ہیں جس قدر استاذسے محبت ہوگی اور جتنا استاذ کا ادب و احترام ہوگا اسی قدر علم میں برکت ہوگی ،عادةاللہ ہے کہ استاذراضی نہ ہوتوعلم نہیں آسکتا۔(اصلاح انقلاب امت)

حضرت تھانوی نے یہاں تک لکھا ہے کہ استاذ کا ادب تقویٰ میں داخل ہے ،جو اس میں کوتاہی کرے گا وہ متقی نہیں ہوگا ،حالاں کہ تقویٰ کی زیادتی علم میں زیادتی کا سبب ہے ۔(التبلیغ)

اساتذہ کرام کے آداب
طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے استاذوں کا غایت درجہ احترام کرے ،حدیث میں آیا ہے کہ ”جن سے علم حاصل کرو ان سے تواضع سے پیش آؤ۔“

اپنے شیخ کو سب سے فائق سمجھے ،حضرت امام ابو یوسف  کا مقولہ ہے کہ جو اپنے استاذکا حق نہیں سمجھتا وہ کبھی کام یاب نہیں ہوتا ۔

استاذ کی رضا کا ہر وقت خیال رکھے ،اس کی ناراضگی سے پرہیز کرے ،اتنی دیر اس کے پاس بیٹھے بھی نہیں ،جس سے اس کو گرانی ہو ۔

استاذسے اپنے مشاغل میں اور جو پڑھنا ہے اس کے بارے میں خاص طور سے مشورہ کرتا رہے ۔

اس سے نہایت احترا ز کرنا چاہیے کہ شرم و کبر کی وجہ سے اپنے ہم عمر یا اپنے سے عمر میں چھوٹے سے علم حاصل کرنے میں پس وپیش کرے، حضرت اصمعی کہتے ہیں جو علم حاصل کرنے کی ذلت نہیں برداشت کرے گا وہ عمر بھر جہل کی ذلت برداشت کرے گا ۔

تحصیل علم کے تین آداب کو ملحوظ رکھا جائے تب صلاحیت نکھرتی، استعداد جلا پاتی اور علمی اور روحانی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں ۔استاذ کا ادب۔ مسجداور درس گاہ کا ادب اورکتاب کا ادب۔

اور حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب فرماتے ہیں: علمی استعداد سات چیزوں پر موقوف ہے :ذہنحافظہمحنت آلات علم، یعنی کتاب، کاغذاور تپائی وغیرہ کا ادب استاذ کاادب دعا ترک منکرات۔

ان میں سب سے زیادہ اہم چیز ترک منکرات ہے ،اس لیے کہ علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے ،وہ اتنی بڑی دولت صرف اسی کو عطافرماتے ہیں جو اس کی ہرنافرمانی کو چھوڑ کراس سے محبت کا ثبوت پیش کرے ۔ (جواہر الرشید)

حکیم الا مت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ادب واحترام
حضرت والا کو اپنے اساتذہ سے اتنا شدید تعلق تھا کہ دوسروں کو نہ تھا ،بس یوں کہا جائے کہ عشق تھا ،چناں چہ فرمایا کرتے کہ میں نے پڑھنے میں کبھی محنت نہیں کی ،جوکچھ اللہ تعالیٰ نے عطافرمایا اور الحمداللہ!میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے کسی بزرگ کو ایک منٹ کے لیے بھی ناراض نہیں کیا اور جتنا میرے قلب میں بزرگان دین کا ادب ہے شاید ہی کسی کے دل میں اتنا ہو ۔

شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب 
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریا فت کرنی ہوتی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو اپنے استاذ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری کے مکا ن کے دروازہ پر جا کر بیٹھ جاتے ،جب حضرت گھر سے باہر نکلتے تو اس وقت دریافت کرتے اور یہ تقریباًروزانہ ہی کا معمول تھا ۔(آداب المتعلمین )

روشنائی کا ادب
حضرت مجدد الف ثانی  ایک روز بیت الخلا میں تشریف لے گئے، اندر جاکر نظر پڑی انگوٹھے کے ناخن پر ایک نقطہ روشنائی کا لگاہوا ہے ،جو عموماً لکھتے وقت قلم کی روانی دیکھنے کے لیے لگایا جاتا ہے ۔ فوراً گھبرا کرباہر آگئے اور دھونے کے بعد تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اس نقطہ کو علم کے ساتھ ایک تلبس ونسبت ہے ۔اس لیے بے ادبی معلوم ہوئی کہ اس کو بیت الخلا میں پہنچاوٴں۔ یہ تھا ان حضرات کا ادب ،جس کی برکت سے حق تعالیٰ نے ان کو درجات عالیہ عطا فرمائے تھے ،آج کل اخبار و رسائل کی فراوانی ہے ۔ان میں قرآنی آیات، احادیث اور اسمائے الہیہٰ ہونے کہ باوجود گلی کو چوں ،غلاظتوں کی جگہوں میں بکھرے ہوئے نظرآتے ہیں ۔العیاذباللہ العظیم ،معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی دنیا، جن عالمگیر پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے، اس میں اس بے ادبی کا بھی بڑا دخل ہے۔ (مجالس حکیم الامت)

حروف کلمات کا ادب
حضرت کے پاس ایک چمڑے کا بیگ تھا او ر چمڑے میں لفظ (محمد اشرف علی ) کندہ کرادیا تھا، اس کا حضرت (تھانوی )اتنا ادب کرتے تھے کہ حتی الامکان نیچے اور جگہ بے جگہ نہ رکھتے تھے۔(حسنعزیز)

روشنائی کا ادب
ایک مرتبہ لفافہ پر روشنائی گرگئی تھی تو اس پر یہ لکھ دیا کہ ”بلا قصد روشنائی گر گئی“ اور وجہ بیان فرمائی کہ یہ اس لیے لکھ دیا کہ قلت اعتنا پرمحمول نہ کریں، جس کا سبب قلت احترام ہوتاہے ۔(الفصل للوصل )
        نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
        ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی

اگر آپ دنیا وآخرت میں عزت اور رضائے الہی کے طالب ہیں تو اپنے اندر یہ صفات پیدا کیجیے ۔

اخلاص۔لغواور بیکار امور سے اجتناب۔ علم پر عمل۔ اخلاق حسنہ کو زندگی کا لازمی جز بنائیں۔ تواضع اور عجز اپنے اندر پیدا کریں۔ وقت کی قدر کریں۔ کھیل کود اور سیر وتفریح میں اپنا وقت گزارنے سے اجتناب کریں۔ بلند ہمتی کا مظاہرہ کریں اور علم و عمل میں درجہ کمال تک پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ مسلسل رات دن ایک کرکے محنت کریں۔ مطالعہ کریں، اپنے آپ کو مطالعہ کا عادی بنالیں کہ مطالعہ کے بغیرچین نہ آئے ۔نمازوں کا اہتمام تکبیراولیٰ کے ساتھ کریں ،امام ابویوسف  سترہ سال امام ابو حنیفہ  کے درس میں فجر سے پہلے حاضر ہوتے تھے، کبھی تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی ۔

پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کولکھنے کابھی عادی بنائیں، مضامین اور مقالات اردو عربی میں لکھنے کی مشق کریں ،تاکہ علم لوگوں تک پہنچایا جا سکے اور عصر حاضر میں یہ بہت ضروری ہے ۔

اللہ رب العزت ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی مکمل سعی پیہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اسلاف کو بہترین صلہ عطا فرمائے اور ہم سب کے لیے علم کو نجات کا باعث بنائے ،ناکہہمارے اوپر حجت ۔

(آمین یارب العٰلمین )
Flag Counter