Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

12 - 19
اصلاحی جلسوں کی اصلاح ضروری
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی

ایک وہ دور بھی تھا کہ سال کے کسی حصہ میں، ایک یا دودفعہ پورے علاقہ میں جلسہ کی ندا لگائی جاتی، اس سے عوام کے ذہنوں میں جلسہ کا ایک تاثر بھی قائم تھا،اس کا اہتمام بھی ہوتا تھا، لیکن فی زمانہ مدارس کی تنظیموں وتحریکوں کی کثرت ہوچکی ہے، جس کا اثر آئے دن جلسوں کی شکل میں ظاہر ہورہا ہے، عوامی شعور کی بیداری کے لیے جلسوں کی کثرت مضر نہیں ہے، عوام کے لیے نافع ضرور ہیں، لیکن اس میں دیگر ذرائع سے جو خرابیاں در آرہی ہیں اس پر بند لگانا ضروری ہے، تاکہ ان کی نافعیت میں مزید اضافہ ہو۔

فرائض وواجبات سے غافل افراد کے لیے اس طرح کی محفلوں سے فرائض پر آمادہ کرنا، واجبات کے لیے تیار کرنا، عوام کی اعتقادی وعملی خامیوں کی اصلاح کی فکر کرنا انتہائی کار آمد ہے، باعمل علماء کی باتیں عمل کے لیے مہمیز ثابت ہوں گی، بعض احباب کا نعرہ ہوتا ہے کہ جلسوں، وعظوں، تقاریر سے دین نہیں آتا، لیکن درحقیقت علمائے کرام کی تقاریر سے عوام کی بداعتقادی کا خاتمہ ہوتا ہے، بے عملی پر کاری ضرب لگتی ہے، کسی کے انکار سے ان جلسوں کی معنویت ختم نہیں ہوتی، چند افراد مل بیٹھ کر علماء سے کچھ سننیکو کوئی جلسہ سے تعبیر کرتا ہے، کوئی کسی اور محفل وغیرہ کے نام سے، نام کے فرق اور انداز کی تبدیلی سے عملی روح یکسر مفقود نہیں ہوتی، اسی لیے بلاوجہ علماء کی ہونے والی ان تقاریر کو بے معنی وبے مطلب قرار دے کر عوام کا علماء سے اعتماد اٹھا دینا یہ کوئی کار آمد عمل نہیں۔

جلسہ کے لیے مقام کا تعین انتہائی اہم مرحلہ ہے، راستہ وغیرہ چھوڑ کر مختلف فیہ مقام سے ہٹ کر انتخاب کیا جائے تو کوئی اعتراض ہی نہیں، اگر راستہ روک کر یا راستے کا کچھ حصہ جلسے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، جس سے راہ رو کے لیے آمدو روفت میں خلل واقع ہورہا ہے تو یہ جلسہ کے مقاصد کے منافی عمل ہے،کیوں کہ جلسہ سے نبی پاک صلى الله عليه وسلم کی سیرت بیانی ہوگی، نبوی اتباع کی دعوت دی جائے گی، اور آپ صلى الله عليه وسلم نے امت کو راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی ایمان کی شاخ ہے، کی تعلیم دی ہے اور ہم راستہ میں رکاوٹ کھڑی کر کے سیرت بیان کررہے ہیں، لہٰذا فقہائے کرام نے لکھا ہے: ”من یبیع ویشتری علی الطریق، ولم یضر قعودہ للناس، لسعة الطریق لا بأس بہ، وان أضر بہم فالمختار انہ لا یشتری منہ اذا لم یجد المشتری لا یقعد، فکان الشراء منہ اعانة علی المعصیة“․ (عالمگیری 441/22 شاملہ)

جو شخص راستہ پر بیٹھ کر خریدو فروخت کررہا ہو، راستہ کے کشادہ ہونے کی بنا پر اس کے بیٹھنے سے راہ رو کو کوئی تکلیف نہ ہو تو اس سے سامان خریدنے میں کوئی حرج نہیں، اگر اس کے بیٹھنے سے لوگوں کو تکلیف ہو تو پسندیدہ قول یہ ہے کہ اس سے سامان نہ خریدا جائے، اس لیے کہ جب وہ خریدار نہ پائے گا تو وہاں نہ بیٹھے گا اور اس حالت میں اس سے خریدنا گناہ میں تعاون ہے۔ اور سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے گناہ پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے، نیز اس طرح سڑکوں، شاہ راہوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے اصلاحی جلسے کیے جائیں تو غیروں میں اسلام کے تئیں کیا تاثر قائم ہوگا؟

ایک دفعہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین راستہ کے درمیان بیٹھ کر گفتگو میں مصروف تھے، آپ صلى الله عليه وسلم نے اس طرز عمل سے منع فرمایا: ”ایاکم والجلوس بالطرقات فاعطوا الطریق حقہ“․ (الحدیث) راستے میں بیٹھنے سے پرہیز کرو اور راستہ کا حق ادا کیا کرو۔

بعض مقامات پر جلسوں کا انعقاد عوامی تعاون کے ذریعہ ہوتا ہے، ہر آدمی سے حسب استطاعت تعاون لیا جائے جو وہ خوش دلی سے دے تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن کچھ علاقوں میں دیکھا گیا کہ تعلقات کی بنیاد پر زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے، صرف رسید پھاڑ کر تھمادی اور چل دیے، نہ ہی معطی کی خوش دلی کا لحاظ اور نہ ہی طریقہٴ کار کی درستگی کی جانب توجہ، بیچارہ معطی شرما شرمی میں اپنی عزت کا خیال کرتے ہوئے پیسے تو دے دیتا ہے، لیکن تنہائی میں اس طرز عمل سے دل مسوس کررہ جاتا ہے، جب وصول کنند گان سے اس طرز عمل کی بابت استفسار کیا جائے تو ان کا عمومی جواب ہوتا ہے کہ اس کے بغیر دینی کام کیسے ہوگا؟ یادرکھنا چاہیے کہ دینی کام اصل نہیں ،بلکہ دینی کام دینی طریقہ پر ہو یہ عین مقصود ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”ألا لا یحل مال امریٴ مسلم إلا بطیب نفس منہ“․ (الحدیث) آگاہ ہوجاوٴ، کسی انسان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال ہی نہیں۔ نیز یہ بھی غور کیا جائے کہ یہ جلسے کن وسیع مقاصد کے لیے منعقد کیے، جارہے ہیں، مقصد برآری کے لیے صحیح طریقے اپنائے جائیں تو زیادہ نفع بخش رہے گا۔

ابھی کچھ دنوں سے جلسہ گاہوں میں ایک نئی رسم راہ پکڑتی نظر آرہی ہے، وہ یہ کہ مقررین کی واردین خصوصی اور حفاظ کرام طلبہ کی گل پوشی کی جاتی ہے اور اس کے لیے جلسہ کا اہم ترین وقت ضائع کیا جاتا ہے، اب یہ گل پوشی ذاتی مال سے ہورہی ہے یا ملت کے اموال سے؟ بہرصورت یہ شکل اسراف میں تو داخل ہے اور ثانی الذکر میں اس کی قباحت مزیددو چند ہوجاتی ہے، اس لیے کہ ملت نے ذمہ دارانِ مدارس کے حوالے مال اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ عوام کا مال بے دریغ جائز وناجائز کی تمیز کیے بغیر صرف کریں، علمائے کرام کی نگرانی میں منعقدہ جلسے عوام کی اصلاح کا ذریعہ ہوتے ہیں، یا یہ کہ جلسے خود رسوم ورواج میں جکڑ دیے جائیں، ہمارے اس عمل سے آنے والی عوام میں کیا تاثر قائم ہوگا؟ نیز دیگر تقریبات میں علماء خود گل پوشی کو اسراف شمار کریں تو کون عمل کے لیے آمادہ ہوگا؟

رات کا وقت ہے، کوئی سونے کی تیاری کررہا ہے، کوئی کسی اور کام کے لیے یکسو ہونا چاہتا ہے، لیکن بار بار اس کے کانوں سے پوری قوت کے ساتھ ایک آواز ٹکرا رہی ہے، جس کی بنا پر وہ سونے سے تو قاصر رہا ہی، ساتھ ہی وہ کوئی اور کام بھی نہیں کرپائے گا، آواز کی بلندی کے لیے جب سے اس آلہ کی ایجاد ہوئی اور اس کا بے دریغ استعمال شروع ہوا ہے، اسی وقت سے جلسہ گاہ کے قریب لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے، یہاں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہم کا ایک گراں قدر اقتباس زیادہ موزوں رہے گا، چناں چہ وہ رقم طراز ہیں: ”ایذ ارسانی کی ان بے شمار صورتوں میں سے ایک انتہائی تکلیف دہ صورت لاوٴڈ اسپیکر کا ظالمانہ استعمال ہے․․․․ لاوٴڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان کی آواز دور تک پہنچانا تو برحق ہے ،لیکن مسجدوں میں جووعظ وتقریریں یا ذکر وتلاوت لاوٴڈ اسپیکر پر ہوتی ہیں، ان کی آواز دور تک پہنچانے کا کوئی جواز نہیں ہے․․․․“لاوٴڈ اسپیکر کا ظالمانہ استعمال نہ صرف یہ کہ دعوت وتبلیغ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، بلکہ اس کے الٹے نتائج برآمد ہوتے ہیں، اس سلسلے میں مفتی صاحب دامت برکاتہم نے چند نصوص کی جانب اشارہ کیا ہے، حضرت عائشہ نے ایک مقرر کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی آواز آہستہ کرنے کی تلقین کی تھی، اسی طرح عطاء بن ابی رباح کا مشہور مقولہ ہے کہ عالم کو چاہیے کہ اس کی آواز اس کی اپنی مجلس سے آگے نہ بڑھے․․․․ ․ احادیث وآثار کی روشنی میں تمام فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ تہجد کی نماز میں اتنی بلند آواز سے تلاوت کرنا جس سے کسی کی نیند خراب ہو ہرگز جائز نہیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر کی چھت پر بلند آواز سے تلاوت کرے جب کہ لوگ سورہے ہوں تو تلاوت کرنے سے گناہ گار ہوگا۔ (ذکر وفکر:28)

وقت کے سلسلے میں مقولہ مشہور ہے، الوقت اثمن من الذہب کہ سونے سے زیادہ قیمتی وقت ہے، اگر سونا ضائع ہوجائے تو دوبارہ کمایا جاسکتا ہے لیکن اگر وقت ضائع ہوجائے تو اس کے دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی شکل ہی نہیں، بقول امجد کے۔
        کیا وقت گزر رہا ہے نادانی میں
        بیٹھے ہیں نچنت عالم فانی میں
        جس عمر پہ ہے گھمنڈ اتنا ہم کو
        ہے دھوپ میں برف یا نمک پانی میں

اخبارات میں اشتہارات میں ”ظہر بعد“ ”عشاء بعد“ جلسہ کے آغاز کا اعلان کیا جاتا ہے، لیکن بالعموم ایک گھنٹہ تاخیر سے جلسہ کا آغاز ہوتا ہے، جب جلسے کی ابتداء ہی وقت پر نہیں ہوتی تو اختتام بھی وقت پر نہیں ہوگا، اگر علماء ہی جن کا وقت عوام سے کہیں زیادہ قیمتی ہے، یونہی ضائع کریں گے تو اس سے عوام کو کیا پیغام ملے گا؟ نیز متعین کردہ وقت کی حیثیت گویا وعدہ کی سے ہے اور وعدہ کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”المومن إذا وعد وفا“، کہ مومن وعدہ کرتا ہے تو وفائی کرتا ہے، اس لیے کسی مومن کے شایانِ شان وعدہ خلافی نہیں ہے، البتہ کسی خاص عذر کی بنا پر وقت میں تبدیلی ہو تو قبل از وقت اطلاع دی جائے، تاکہ کسی کو زحمت نہ ہو، بعض دفعہ مجمع کی قلت وقت پر اجلاس کے شروع ہونے میں روکاٹ بنتی ہے، حالاں کہ عوام کی کثرت پیشِ نظر نہ ہونا چاہیے، بلکہ تھوڑے ہی افراد سنیں اور باعمل بنیں تو بھی جلسہ کی کام یابی کے لیے کافی ہے۔

عموماً جلسوں میں تنظیموں تحریکوں اور مدارس کا ایسا خاکہ پیش کیا جاتا ہے، جس سے یہ محسوس ہو تا ہے کہ یہی ایک تنظیم اور یہی ایک مدرسہ کار آمد ہے، بقیہ کوئی تحریک ومدرسہ کام کے لائق نہ رہا، نیز حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی بھی سعی نامسعود کی جاتی ہے، ایسے حفاظ کی دستاربندی کردی جاتی ہے جو ایک پارہ بھی صحیح نہیں سناسکتے، گویا ان کے نزدیک تعلیم اصل نہیں، بلکہ عوام کے روبرو اپنی کار گردگی دکھلا کر عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانا مقصد اصلی ہے، اور تو اور ایسی تفصیلات جلسہ میں پیش کی جاتی ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، گویا جلسہ عوامی اصلاح سے زیادہ اپنی قصیدہ خوانی کے لیے منعقد کیا گیا ہو۔

رات ودن کو جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی قرار دیا ہے، وہیں رات کے کچھ اور دن کے کچھ اعمال متعین کردیے ہیں کہ رات کو ہم نے آرام کرنے کے لیے بنایا ہے اور دن کوہم نے معاش کے لیے خاص کیا، ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے نیند کا تذکرہ کرتے ہوے فرمایا: ہم نے نیند کو تمہارے لیے تمام مشقتوں اور تھکان کے خاتمہ کا ذریعہ بنایا ہے، کہ دن بھر کا تھکا ماندہ رات کی ایک نیند سے پھر سے کام کے لیے چاق وچوبند ہوجاتا ہے، اس فطری تقسیم کے باوجود اگر کوئی رات میں جائز کاموں میں مصروف رہے، یا دینی کاموں میں مشغول رہے تو فقہائے کرام نے اس کی اجازت دی ہے، نیز دینی تعلیم کے لیے رات کے جاگنے کو علماء نے پسندیدہ قرار دیا ہے، (قرطبی129/9 شاملہ)

البتہ عشا بعد گفتگو اور بلاوجہ اوقات کے ضیاع کو احادیث میں ناپسندیدہ قرار دیا ہے، ادھر کچھ عرصہ سے راتوں میں طویل جلسوں کا انعقاد عمل میں آرہا ہے، ایساطویل جلسہ کہ جس سے عوام کی فجر خطرہ میں پڑجائے، بالکل نا پسندیدہ قرار پائے گا، اس لیے کہ ان جلسوں کا مقصود قصہ گوئی یا کہانیاں سنانا نہیں، بلکہ یہ جلسے عوام کو فرائض پر آمادہ کرنے کا ذریعہ ہیں، نہ کہ فرائض سے غافل کرنے کا، لہٰذا جلسوں کا اختتام ایسے وقت ضروری ہے جس سے عوام بہ سہولت فجر کی نماز ادا کرسکیں، اتنی تاخیر تک جلسوں کا تسلسل عوام کی صحت کے لیے بھی مضر ہے اور مقررین کی لیے بھی زحمت کا ذریعہ، اس لیے کہ راتوں میں جاگنے سے صحت بری طرح متاثر ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے جلسوں میں پائی جانے والی خامیوں کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور ان جلسوں کی نافعیت میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین!
Flag Counter