Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

15 - 19
مکتب اداس ہے !
محترم اعجازمنگی

نجی چینلوں پر پہلے دن اور اخبارات میں دوسرے دن یہ خبرآئی کہ ”دہشت گردوں کے ہاتھوں کراچی میں عالم دین قتل “۔اس میں کوئی شک نہیں کہ استاذ الحدیث محمد اسماعیل کراچی کے ایک جیدعالم دین تھے ۔مولانا اسماعیل جو 1980کی دہائی میں قلت آب والے صوبے بلوچستان سے کراچی آئے تھے ۔مگر ساحل سمندر والے اس شہر میں انہیں پانی کی نہیں، بلکہ علم کی پیاس لائی تھی ۔ان کے پاس نایاب کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا ۔مگر ان کا ذہن بھی ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا ۔ایک ایسا کتب خانہ جس میں موجود تھی بہت ساری کتابیں ۔وہ کتابیں جو لکھنے اور چھپنے سے محروم ہوگئیں ۔ اس لیے یہ صرف ایک عالم کا قتل نہیں، بلکہ ان کتابوں کا بھی قتل ہے جو مولانا محمد اسماعیل نہ لکھ پائے ۔ان کتابوں کے لیے انہوں نے کتنی ورق ریزی کی تھی۔ کتنے نوٹس لیے تھے۔ یہ بات صرف مولانا محمد اسماعیل کے قریبی دوستوں کو معلوم ہوگی کہ انہوں نے پہت ساری کتابوں کے نام سوچ رکھے تھے ۔ایک عالم صرف علم کا بیٹا ہی نہیں ہوتا وہ علم کی ماں بھی ہوتا ہے ۔اس کے ذہن کے بطن میں کتابوں کے بچے علمی اور تحقیقی طور پر پرورش پاتے رہتے ہیں ۔مگر نائن ایم ایم کی دو گولیوں نے نہ صرف ایک عالم؛ایک استاذ؛ایک نیک شخص اور ایک اچھے انسان کا ہی نہیں، بلکہ ان کتابوں کو بھی شہید کردیا جو شائع ہونے کی منتظر تھیں ۔ایک عالم علم کا آبشار ہوا کرتا ہے ۔مولانا محمد اسماعیل کی شہادت سے وہ پانی کاکاریز بھی سوکھ گیا جو بہتا رہتا تھا، جس کے بہاؤ سے طالب علم اپنی پیاس بجھایا کرتے تھے ۔مولانا اسماعیل حدیث کے عالم تھے ۔انہیں وہ بہت ساری حدیث یاد تھیں جن میں ذخیرہ آب کو ضائع کرنے والے کے لیے گناہ کی شدت بیان کی گئی تھی ۔وہ اپنے خطبات اور بیانات میں بتایا کرتے تھے کہ ایک کنویں کو ضائع کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا ؟کراچی کے گناہ گار دہشت گردوں نے علم کی اس جھیل کو سکھانے کا جرم کیا ہے جو دن بہ دن بڑھ رہی تھی ۔جوہر پل کشادہ ہورہی تھی، اب وہ جھیل ایک مٹی کی چھوٹی سی قبر کی صورت ہمیشہ علم کے اس عظیم نقصان کی یاد دلاتی رہے گی جو جہالت کے ہاتھوں ہوا ۔وہ جہالت جو اپنے وجود میں بہت بڑا جرم ہواکرتی ہے ۔اور جو جب تک رہتی ہے تب تک جرم کرتی رہتی ہے ۔اس شہر میں جہالت کے ہاتھوں ہونے والے جرائم کی تعداد اتنی ہے کہ اگر اس کی صرف فہرست بھی بنائی جائے تو کئی کتابیں وجود میں آجائیں۔

اسلام کی ابتدا جس لفظ سے ہوئی وہ لفظ ہے ”اقرا“یعنی پڑھو۔علم روشنی ہے ۔جہالت اندھیراہے۔اس شہر کے اندھیرے نے مولانا اسماعیل کی صورت ایک اور چراغ علم کو گل کردیا۔یہ ایک شخص کا نہیں، بلکہ ایک روشن مشعل کا قتل ہے ۔اس قتل پر اندھیرے کے پاسبان اتنے خوش نہیں ہوں گے جتنا علم کو افسوس ہوگا ۔کیوں کہ یہ علم ہی ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ”ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے “۔جس طرح ایک انسان کے چلے جانے سے زندگی کا کارواں نہیں رکتا، ویسے ہی ایک عالم کی شہادت سے علم کے رواں دواں سر چشمے نہیں سوکھتے ۔لیکن اس کے باوجودایک عالم کا قتل پورے علم کا قتل ہوا کرتا ہے۔اس حوالے سے مولانا اسماعیل کے قاتلوں نے ایک عالم کو نہیں، بلکہ پورے علم کو قتل کیا ہے۔

اور اپنے عالم کے قتل پر یہ شہر بڑے عرصے تک اداس رہے گا۔یہ شہر جو دو کروڑ نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے، مگر دو کروڑ لوگوں کے ساتھ اس شہر کے الگ الگ رشتے ہیں۔کراچی ایک شہر ہونے کے باوجود دو کروڑ لوگوں کے لیے الگ الگ شہر کی حیثیت رکھتاہے۔تاجر کا کراچی وہ نہیں جو ایک بھتے خورکاہے۔بھتے خور کاکراچی اور بیوپاری کا کراچی الگ ہے۔اسی طرح ایک صحافی کا اور ایک سیاست دان کا کراچی الگ ہے ۔بہت سارے لوگ بہت سارے کراچیوں کے مالک ہیں ۔ایک طالب علم کا کراچی اور ایک عالم کا کراچی وہ نہیں جو ایک کرائے کے قاتل کا ہے۔

ایک عالم کا کراچی پرچی مافیا کی جنت نہیں ۔ایک عالم کا کراچی جدید ترین شاپنگ مالز والا کراچی نہیں ۔ایک عالم کا کراچی لینڈ مافیا کا کراچی نہیں ۔ایک عالم کا کراچی دہشت گردوں کی پھلتی پھولتی بستی نہیں ۔ایک عالم کا کراچی ایک مکتب ہے ۔ اس کراچی میں ہمیں تو ہر قدم پر چھوٹی بڑی اور نئی پرانی گاڑیوں کی قطاریں نظر آتی ہے۔ ا س کراچی میں ہمیں سرمائے کا سیلاب نظر آتا ہے، لیکن آپ اس شہر کو ایک عالم کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ کو ئی یہ شہر مقتل نہیں بلکہ مکتب نظر آئے گا ۔اس لیے شدید بدامنی کے باوجود اس شہرمیں علم کے لیے آنے والے نوجوان سہراب گوٹھ پر مٹی سے اٹی ہوئی کوچوں سے اترتے ہیں ۔اور ہر روز کینٹ اسٹیشن پر اپنے چھوٹے بیگوں میں بہت بڑے خواب بھر کر پاکستا ن کے چھوٹے شہروں سے نوجوان اترتے ہیں اور اترتے ہی وہ ساحل سمندر نہیں جاتے ۔وہ ان مکتبوں کا رخ کرتے ہیں جو رقبے کے لحاظ سے بڑے نہیں ہوتے، مگر پھر بھی وہاں پر علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے ۔علم کے طالبوں کے لیے یہ شہر سرمائے اورسیاست کی آماج گاہ نہیں۔ ان کے لیے تو کراچی بہت ساری کتابوں اور بہت سارے عالموں اور بہت سارے طالب علم دوستوں کا دیس ہے ۔علم کی پیاس رکھنے والے اس شہر کی مہنگی مارکیٹوں کے داموں سے تو کیا ناموں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے ۔ان کے لیے کراچی ”پارک ٹاور“اور”ڈولمین“شاپنگ سینٹر نہیں بلکہ وہ دارالعلوم ہیں جہاں جھنجھاتی اور دھواں جھاڑتی ہوئی پھٹی پرانی بسیں جایا کرتی ہیں ۔ان طالب علموں کے لیے کراچی وہ پوشیدہ ریسٹورنٹس نہیں جو سارا دن بندر ہتے ہیں اور سورج غروب ہوتے ہوئے کھلتے ہیں اور ساری رات کھلے رہتے ہیں۔ جہاں کھانے کی ورائٹی کم اور پینے کی ورائٹی زیادہ ہوا کرتی ہے ۔وہ طالب علم آپ کو چائے خانوں پر بھی نظر نہیں آئیں گے۔وہ طالب علم بہت زیادہ ہیں، مگر پھر بھی کم نظر آتے ہیں ۔کیوں کہ وہ اپنے وقت کا ہر پل کسی باتونی شخص کی محفل کے بجائے کسی عالم کے پاس گزارتے ہیں ۔ان کا زیادہ تر وقت کتب خانوں میں کٹتا ہے ۔ان کی زندگی میں علم اور عبادت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا ۔یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کے اعتقادوں کے ساتھ اتفاق کریں ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم ان کے مسلکوں سے متفق ہوں ۔مگر ان کے دلوں میں علم کی پیاس اور علم کے حصول کے لیے ان کی روحوں میں موجود سچائی ہمیں ان کے لیے عزت کاجذبہ پیدا کرتی ہے اور ہم اشخاص کا نہیں، بلکہ ان جذبات کا احترام کرتے ہیں ، جوجذبات ان کے وجودوں میں موج زن رہتے ہیں۔

یہ شہر جو بہت ہی نازک توازن کے ساتھ اپنا وجود قائم رکھنے میں کام یاب رہتا آیا ہے وہ کب کا ایک طرف لڑھک چکا ہوتا، اگر اس میں موجودجہالت کو بیلنس کرنے کے لیے اہل علم کا وزن موجود نہ ہوتا۔ اس حوالے سے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ جہالت پورے شہر کو نگل لیتی اگر اس شہر کے ساتھ علم والا کراچی نہ جڑا ہوتا۔ اہل علم کا کراچی مسلسل مزاحمت میں ہے ۔ وہ اپنے وجود کی مجموعی طاقت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ صرف پیسہ اور پاورہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ علم اورعرفان کا مقام ہر چیز سے بلند ہوا کرتا ہے ۔ مولانا محمد اسماعیل کی زندگی کی کہانی اس جدوجہد کی داستان تھی۔ وہ اس کراچی کا باشندہ نہیں تھا جس کراچی کے نجی چینلوں پر بیکار بحث کرنے والے اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں۔ ان کا کراچی علم کا کراچی تھا۔ ظاہر ہے کہ عالم کا کراچی علم کا شہری ہی ہوا کرتا ہے ۔ وہ علم کا شہر اپنے بے حد اہم اور قیمتی شہری کی شہادت پراداس ہے۔ آپ کو بازاروں اور بھڑکیلی مارکیٹوں والے کراچی کے چہرے پر غم کی شکن تک نظر نہیں آئے گی۔ مگر بلند وبالا عمارات سے ذرا دور ایک بہت ہی بڑا کراچی بھی بستا ہے ۔ وہ کراچی جو مکمل طو ر پر مکتب ہے۔ جو جدید اور مہنگے کپڑوں والا نہیں، بلکہ پرانی اور نایاب کتابوں والا کراچی ہے ،وہ کسی سیاسی عامل کا نہیں، بلکہ ایک عالم باعمل کا کراچی ہے۔ اس عالم کا وہ شہر علم اپنے تمام تر علما اور طالب علموں کے ساتھ بے حد اداس ہے۔
        اداس ہیں اس شہر کے موسم سرما کی سرد صبحیں اور نیم گرم دن !
        اداس ہیں اس شہر کی مختصر سی باتیں اور نیم روشن راتیں!!
        اداس ہیں اس شہر کے ساری روشن قندیلیں اور منور چراغ!!
        اداس ہیں اس شہر کی ساری کتابیں اور ان کے اوراق !!!!
        اداس ہیں وہ سارے مکتب جو علم کی خوش بو سے معطر رہتے ہیں!!!!!

مرزا غالب نے لکھا تھا کہ:
        ہر اک مکاں کو ہے مکیں سے شرف اسد
        مجنون جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

جس طرح دیوانوں کی موت پر ویرانے اداس ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح جنگل مجنون کے مرنے پر اداس ہو گیا تھا ویسے ایک عالم کی موت پر مکتب شہر اداس ہو گیا ہے۔

اور نہ معلوم مقتل میں بسا ہوا یہ شہر مکتب ایک عالم کے قتل پر کب تک اداس رہے گا؟؟؟؟ (بشکریہ، روز نامہ امت کراچی)
Flag Counter