Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاوّل 1434ھ

ہ رسالہ

5 - 19
قدیم قرآنی مصاحف
اور ملتِ اسلامیہ کی قرآنی خدمات کا تعارف
مولانا محمد بلال بربری
زیر نظر تحریر مشہور زمانہ شخصیت علامہ محمد زاہد کوثری  کے مضمون ”مصاحف الأمصار وعظیم عنایة ھذہ الأمة بالقرآن الکریم فی جمیع الأدوار“کا ترجمہ ہے۔

علامہ  کی علمی وتحقیقی شخصیت کی قدر دانی وہی حضرات کر سکے جوخود علم و تحقیق کے دبستان سے وابستگی رکھتے تھے، اور جنہوں نے علامہ  کی تحریرات میں اس جوہر گراں مایہ کا ادراک کر لیا تھا۔ علامہ کی مستقل تصنیفات اور متفرق تحریرات علامہ کے ذوق تحقیق کی عکاس ہیں۔

ہر علمی شخصیت کے موافقین اور مخالفین ہر زمانے میں موجود رہے ہیں، چناں چہ اس روایت سے علامہ  کو بھی سابقہ پڑا اور علمی میدان میں آپ  کے بھی مخالفین اور موافقین دونوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔گو کہ علامہ  کا طرز تحریرکچھ شدت آمیز ہے، لیکن یہ علمی پختگی کی وہی قابل تعریف قسم ہے جس کو علمی تصلب کہا جاتا ہے۔اردو دان اہل علم عربی زبان سے ناآشنائی کے باعث دیگر عرب عبقری شخصیات کی طرح علامہ  کی تحریرات سے بھی کما حقہ استفادہ نہیں کرسکے، لہٰذا علامہ  کی شخصیت کا تحقیقی پہلو ان کی نظر سے اوجھل رہا ہے۔ علامہ  کے شائع شدہ مضامین کے مجموعے بنام ”مقالات الکوثری“ سے ایک مضمون کا ترجمہ جملہ اہل علم کے لیے عموماً اور اردو دان طبقے کے لیے خصوصاً پیش خدمت ہے۔اگرچہ کسی بھی زبان کا ترجمہ، خواہ کسی زبان میں کیا جائے، اس کے اصل قالب کی مکمل ترجمانی بہرحال نہیں کرسکتا، تاہم فی الجملہ اس کے مقاصد کے سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔(از مترجم)

تاریخ انسانی میں گزری امتوں میں سے کسی امت نے بھی اپنی آسمانی کتاب کی اس قدر حفاظت نہیں کی، جس قدر اس امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلوة والسلام )نے قرآن کریم کی حفاظت ، قرآن کریم کی تدریس اور ہر اس علم و فن کی تدوین کا اہتمام کیا، جس کا قرآن کریم سے براہ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق تھا۔ یہ اہتمام اسلام کی صبح نو سے تاحال جاری ہے اور جب تک خداوند تعالیٰ نے چاہا، یہ اہتمام اسی طرح جاری رہے گا۔ اس طرح باری تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وہ وعدہ سچ کردکھایاجو اس فرمان گرامی میں باری تعالیٰ نے فرمایا تھا: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہ لَحَافِظُوْنَ ﴾ (سورة الحجر:9)

کیا کبھی تاریخ میں ایسی مثال گزری ہے کہ کسی امت نے مدتوں گزر جانے کے باوجود کسی سماوی کتاب کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا ہوکہ اس کو چھوٹوں اوربڑوں، جوانوں اور بوڑھوں سب نے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا ہو ؟اور پھر ان میں کسی خاص جگہ کی تحدید نہ ہو، بلکہ شہروں، بستیوں اور دیہاتوں سب جگہ یہ ایک عام معمول بن گیا ہو؟یہاں تک کہ اگربڑے بڑے شہروں سے دور کسی دیہات میں بھی کوئی قاری ایک کلمے میں بھول چوک سے غلط پڑھ لے تو وہاں بھی ایسا شخص دست یاب ہو جو اس کی غلطی پر اس کو تنبیہ کر کے درست کلمے کی طرف اس کی راہ نمائی کر سکے۔ سوائے قرآن کریم کے اس طرح کسی اور کتاب کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔

جس روز سے قرآن کریم نازل ہوا، اسی وقت سے اس امت نے اس کی حفاظت کا انتظام کر رکھا ہے اور تمام اسلامی ممالک میں مدتوں سے اس کے حفظ کا دستورعام چلا آرہا ہے۔اس بات میں صرف وہی شخص شک کر سکتا ہے جو چاشت کے وقت سورج کے موجود ہونے میں شک کرے یا واضح حقائق میں اپنی کسی نفسانی غرض کی وجہ سے اس بات کو مشکوک ظاہر کرنے کی کوشش کرے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم قرآن کریم کے ایک ایک حصے کے نزول کے بعد اس کی حفاظت کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام  کو قرآن کریم سیکھنے ، سکھانے ، یاد کرنے اور سینوں میں محفوظ کرنے کی خصوصی ترغیب فرمایا کرتے تھے اور اس ترغیب میں ان کو یوں ارشاد فرماتے :

” خیرکم من تعلّم القرآن وعلَّمہ “۔
ترجمہ:” تم میں بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن کریم سیکھے اور لوگوں کو سکھائے“۔

اس سلسلے میں کئی ایک صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔

قرآن کریم کے تھوڑا تھوڑا نازل ہونے نے صحابہ کرام  کے قرآن کریم کے حفظ کرنے اور اس کے احکام کی معرفت حاصل کرنے کو بھی بہت آسان کر دیا تھا۔ باری تعالیٰ کے اس فرمان گرامی میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے:﴿وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأہ عَلٰی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلاً﴾․ (سورة الاسراء:106)۔

مجلس نبوی میں اس وقت کتابت کر سکنے والوں کی تعداد چالیس سے متجاوز تھی،ان میں سے کاتبین وحی قرآن کریم کے نزول کے فوراً بعد ہی صحابہ کرام  کی موجودگی ہی میں اس ذکر حکیم کو صفحہٴ قرطاس پر منتقل کر لیا کرتے تھے۔ خود صحابہ کرام  اس سلسلے میں وحی لکھنے اور لکھوانے میں حسب استطاعت وقدرت جلدی فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام  آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے صبح شام اس کی تلاوت کیا کرتے تھے ، تاکہ جس طرح آیت نازل ہوئی ہے، اسی طرح سینے میں محفوظ ہو جائے(اور اس میں کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے)۔اسی اہتمام اور عنایت کا نتیجہ تھا کہ کفار مسلمانوں پر طرح طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے، جیساکہ باری تعالیٰ نے ان کی یہ باتیں قرآن کریم میں ذکر فرمائی ہیں۔ ارشاد گرامی ہے:﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا إِنْ ھٰذَا إِلاَّ إِفْکُ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہ عَلَیْہِ قَوْمٌ آخَرُوْنَ فَقَدْ جَاءُ وْا ظُلْمًا وَّزُوْرًا وَقَالُوْا أَسَاطِیْرُ الْأَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَھَا فَھِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَةً وَّأَصِیْلًا ﴾ ۔ (سورة الفرقان:5)

صحابہ کرام  میں سے جن فقرائے صحابہ کرام  کے گھر بار نہ تھے، مسجد نبوی کا صفہ ان کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا اور وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی نگرانی میں قرآن کریم پڑھتے پڑھایا کرتے تھے ۔یہ سب کچھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے انہیں قرآن کریم یاد کرنے اور سیکھنے سکھانے کی ترغیب فرمانے کا نتیجہ تھا،یہاں تک کہ مسجد نبوی میں ان کی تلاوت سے ایک بھنبھناہٹ کی آواز گونجا کرتی تھی۔انہی کے بارے میں باری تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ﴾ ۔(سورة الکہف:38)

صفہ نامی چبوترا صرف ناداروں کے ٹھہرنے کی ہی جگہ نہ تھی، بلکہ قرآن کریم حفظ کرنے اور اس کے احکام کی درس و تدریس کا باقاعدہ مدرسہ بھی تھا۔انہی اہل صفہ میں سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے کئی ایک کو مختلف قبائل کی طرف انہیں قرآن پڑھانے اور دینی تعلیمات سکھلانے کے لیے روانہ بھی فرمایا تھا۔مدینہ منورہ (زادھا اللّٰہ شرفًا)میں جب ہجرت سے قبل آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر  کو اہل مدینہ کو قرآن کریم سکھلانے کی غرض سے روانہ فرمایا تھا، اسی وقت سے وہاں قرائے کرام کا ایک گھر تھا ،جہاں قرائے کرام باہر سے آکر ٹھہرا کرتے تھے۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک طرف قراء صحابہ  میں سے چنیدہ اشخاص کو قرآن کریم سکھلانے کے لیے مختص فرما رکھا تھااور دوسری طرف لوگوں کو حکم فرمایا تھا کہ وہ ان کے پاس جا کر قرآن کریم سیکھیں، چناں چہ مدینہ منورہ قرائے کرام سے بھر گیا تھا۔انہی میں سے آپ صلی الله علیہ وسلم قرائے کرام کی جماعتیں نومسلم قبائل کی طرف قرآن کریم پڑھانے، اور دین سکھلانے کی غرض سے بھیجا کرتے تھے۔ان قرائے کرا م کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی۔ان کے اسمائے گرامی سیرت کی مفصل کتابوں اور صحابہ کرام  کے حالات پر مشتمل کتابوں میں ذکر کیے گئے ہیں۔ان میں سے صرف بئر معونہ کے واقعے میں دھوکے سے شہیدکیے جانے والوں کی تعدادتقریباً ستر تھی۔اس واقعے سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ پہنچا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسلسل ایک ماہ تک فجر کی نمازمیں دعائے قنوت پڑھ کران دھوکہ دہندگان قبائل یعنی قبیلہٴ رعل ،قبیلہٴ ذکوان اور قبیلہٴ عصیہ کے لیے بددعا فرمائی تھی۔

اس اندوہ ناک حادثے کے بعد صحابہ کرام  کا قرآن کریم کے حفظ کرنے کااہتمام مزید بڑھ گیا تھا۔ قرآن کریم کی تدریس میں صحابہ کرام  کا عام معمول یہ تھا کہ وہ چند چند آیات کر کے سکھلایا کرتے تھے، چند سورتیں ایک کو اور چند سورتیں دوسرے کو پڑھاتے ، تاکہ ہر کوئی اپنے اپنے سبق کو اچھی طرح یاد کرلے اوراس طرح ہر ممکن طریقے سے حفاظ کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔بعض ان میں سے ایسے تھے جن کو مکمل قرآن کریم یاد تھا اور بعض ایسے تھے جنہیں چند سورتیں یاد ہوتیں، جن میں ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی شریک ہوتے، اس طرح قرآن کریم کا بقیہ حصے کا حفظ مختلف جماعتوں پر تقسیم تھا۔جنہوں نے قرآن کریم یاد نہیں کیا تھا، ان میں سے بھی اکثر کی حالت یہ تھی کہ اگر کسی قاری کو قرآن کریم کی کسی آیت میں غلطی ہو جاتی تو وہ اس قاری کو تنبیہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔یہ ان کی تلاوت کی کثرت اور اس پر مداومت کا نتیجہ تھا۔ بعض حفاظ کرام عام جہری نمازوں اور خاص طور پر فجر کی نماز میں امامت کرتے ہوئے سات بڑی بڑی سورتوں میں سے کسی کی تلاوت کیا کرتے تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بعض صحابہ کرام  مثلاً حضرت عثمان  اور حضرت تمیم داری جیسے حضرات کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک رکعت میں پورا قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔تابعین  میں سے امام ابو حنیفہ  کے بارے میں بھی منقول ہے کہ آپ  نے ایک رکعت میں پورے قرآن کریم کی تلاوت فرمائی ہے۔اسلاف میں ایسے حضرات کی تعداد تو بہت ہے جن کے بارے میں یوں منقول ہے کہ وہ ہرسال رمضان المبارک میں ساٹھ قرآن کریم ختم فرمایا کرتے تھے۔ اہل علم میں سے جو حضرات قدرے سُست تھے، ان کا بھی ایک ماہ میں ایک قرآن کریم ختم کرنے کا عام معمول تھا۔ان میں بھی غلبہ ان حضرات کا تھا جو ایک ہفتے میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔

باری تعالیٰ نے اہل عرب صحابہ کرام  کو جوقوتِ حافظہ مرحمت فرمائی تھی، اس کی وجہ سے اُنہیں قرآن کریم کا یاد کرنا بہت سہل تھا۔اہل عرب کو قصائد ، خطبات ، شواہد اور امثال کا اس قدر ذخیرہ سینوں میں محفوظ تھا کہ اس نے اقوام عالم کو انگشت بدنداں کردیا تھا اور اپنی قوت حافظہ کا سکہ منوالیا تھا۔البتہ جو بیمار دل اور بے جا بغض رکھنے والے ہیں، اُنہیں اس واضح بات کے تسلیم کرنے میں بھی تردد رہا ہے۔اہل عرب کے اس عمومی رویے ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کے یاد کرنے میں ان کا کیا حال ہوگا ،جس نے ان کے دلوں کو موہ لیا تھا اور اس کے الفاظ کی بلاغت اوراس کے معانی کے اس زورِ بیان نے جو قرآن کریم کے حکیم اور سزاوار حمد و ثنا کی طرف سے نازل شدہ ہونے کا اعلان کرتا ہے، ان کی بصیرت کو خیرہ کر دیا تھا ؟!

آپ صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ہر سال جبریل علیہ السلا م کے ساتھ رمضان المبارک میں قرآن کریم کا ایک مرتبہ دور فرمایا کرتے تھے۔ اور جس سال آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم رفیق اعلیٰ سے جاملے، اس سے پچھلی رمضان آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہ دور فرمایا تھا۔

دور اس طرح ہوتا ہے کہ پہلے ایک شخص پڑھے اور دوسرا سنے، اس کے بعد دوسرا پڑھے اور پہلا سنے، اس لیے کہ لفظ” معارضة“(جو کہ حدیث شریف میں وارد ہے) مشارکت (یعنی دو طرفہ ہونے )کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس طرح درحقیقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہر سال جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کی تعداد دو ہوئی اورسن وفات سے پچھلی رمضان اس کی تعداد چار ہوئی۔آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس طرح دو مرتبہ دور کرنے سے معلوم ہو گیا کہ اب رفیق اعلیٰ سے ملاقات کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام  کو جمع فرمایا اور ان کے سامنے آخر ی مرتبہ پورا قرآن کریم پیش فرمادیا۔

اس آخری مرتبہ جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرآن کریم صحابہ کرام  کو سنایا، وہ قرآن کریم کی انہی دیگر قر آت متواترہ ہی کا حصہ ہیں جو مختلف طبقات میں منقول چلی آرہی ہیں، لہٰذا ان میں سے کسی ایک حرف کے انکار پر بھی کفر کا حکم لاگو ہوگا۔البتہ ان قر آت متواترہ میں سے بعض وہ ہیں جن کا متواتر ہونا عوام کو بھی واضح طور پر معلوم ہے اور بعض وہ ہیں جن کا علم خاص قراء ماہرین ہی کو ہے ، عوام کو ان کا علم نہیں ۔چناں چہ پہلی قسم کی قرء ات میں سے کسی کا انکار بالاتفاق کفر ہو گا، جب کہ دوسری قسم کی قرء ات کا انکار اس وقت کفر شمار ہو گا جب دلائل کے قائم کردینے کے باوجود بوجہ عناد کوئی شخص ان کا انکار کرے،لہٰذا قرء ات سبعہ یا قرء ات عشرہ متواترہ کی تحقیر و تضعیف بہت ہی خطرناک معاملہ ہے،اگرچہ شوکانی اور صدیق حسن خان قنوجی نے اس کی جسارت کی ہے۔جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ فن قرء ات کے شیخ امام شمس الجزری  نے باقاعدہ قرء ات عشرہ کے راویوں کے اسمائے گرامی اپنی کتاب ”منجد المقرئین“ میں طبقہ در طبقہ شمار فرمائے ہیں، جس کی روشنی میں ہر صاحب عقل پر قرء ات عشرہ کا جملہ طبقات میں تواتر بلا شک و شبہ واضح ہوجاتا ہے۔مزید یہ کہ امام جزری  نے ہر طبقے کے تمام رواة کا احاطہ نہیں کیا ہے۔

شوکانی  اور قنوجی کا ابن جزری کی طرف منسوب کلام کے ذریعے نتیجے کے طور پراپنے فاسد گمان کو ثابت کرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔آپ ابن جزری کی خود اپنی کتاب ”المنجد“کی عبارت دیکھیے، جو تواتر کے متعلق انہوں نے تحریر فرمائی ہے۔ ابن جریر نے ابن عامر کی بعض قرء ات کے متعلق جو کچھ کہا ہے، وہ بھی ایک نری لغزش ہے، جو ماقبل میں بیان کردہ دو اقسام میں سے دوسری قسم سے ہے۔یہی کچھ حال زمخشری کی رائے کا بھی ہے جو انہوں نے کشاف میں ذکر کی ہے، اللہ ہمیں ان لغزشوں سے محفوظ فرمائے۔ابن جریر فن قرء ات میں ماہر نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی اس کو صحیح طرح پڑھا پڑھایا ہے اور ان کی لغزش کا سبب بھی ان کی یہی لاعلمی ہے، جیسا کہ فن قرأت کے ماہرین نے ان پر تبصرہ فرمایا ہے۔

یہ بالکل بجا ہے کہ مصحف متواتر میں سورتوں اور آیات کی ترتیب، ترتیب نزولی کے موافق نہیں ہے، بلکہ یہ ترتیب متواتر وہی ہے جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے وفات سے قبل آخری مرتبہ صحابہ کرام  کے سامنے جو قرآن کریم سنایا ، اس میں پیش فرمائی تھی۔ اس سے قبل آپ صلی الله علیہ وسلم کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی آپ صلی الله علیہ وسلم سورتوں اور آیات کے درمیان اس کی جگہ ارشاد فرما دیا کرتے تھے،جیسا کہ یہ بھی قرآن کریم کی اجزاء بندی کے متعلق صحیح حدیث میں منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سورتوں کی باقاعدہ ترتیب صحابہ کرام  کے سامنے بیان فرمائی تھی۔

حاصل یہ کہ درست تحقیق کے مطابق سورتو ں کی باہمی ترتیب بھی اسی طرح توقیفی ہے ،جس طرح آیات کی باہمی ترتیب توقیفی ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے ، اس لیے کہ سورتوں اور آیات کی ترتیب کے بغیر مرتب انداز میں قرآن کریم صحابہ کرام  کے سامنے پیش کیسے فرمایا جاسکتا تھا؟ قرآن کریم مکمل طور پر چمڑے کے رقعوں ، ہڈیوں اور پتوں وغیرہ پر عہد نبوی ہی میں لکھا جا چکا تھا اور ان تمام اجزا کی( جنہیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں تحریر کیا گیا تھا) صحابہ کرام  اپنے گھروں میں حفاظت فرمایا کرتے تھے،نیز انہیں یاد بھی کرتے رہتے تھے،بلکہ اسی طریقے کے مطابق، جس کو ہم نے ماقبل میں بیان کیا، صحابہ کرام  کی ایک بڑی تعداد نے مکمل قرآن کریم حفظ کر رکھاتھا۔(فتح الباری،ج:9،ص:43 میں ابن حجر نے ان حفاظ کی تعداد29 بتلائی ہے،جنہیں مکمل قرآن کریم یاد تھا۔

بعض صحابہ کرام  سے اس سلسلے میں حفاظ صحابہ کرام  کی جو تعداد مروی ہے،وہ راوی کے اپنے علم اور کسی خاص قبیلے میں ان کی پائی جانے والی تعداد کے مطابق ہے۔ جو شخص بھی اس سلسلے میں ان روایات کا تتبع کرے گا ،وہ اس بات میں شک نہیں کر سکتا۔ عرصہ قبل جو کچھ ہم نے علوم قرآن کریم کے متعلق تقریر قلم بند کروائی تھی ، اس میں اس خاص موضوع کے متعلق تفصیل سے بحث کی تھی۔ (علوم القرآن کے موضوع پر علامہ کوثری کی مستقل تصنیف موجود ہے، جس میں آپ نے اصولِ تفسیر، اسبابِ نزول، نسخ ِ آیات، جمع قرآن اور اس پر اٹھنے والے اشکالات کے جواب، قرآن کریم کے رسم الخط، کتب قرأت وتفسیر ، طبقاتِ قراء ومفسرین اور روایت ودرایت وغیرہ موضوعات پر گراں قدر مباحث رقم کی ہیں)

ایک ہی مصحف میں تمام سورتوں اور آیات کا جمع کرنا عہد نبوی میں اس وجہ سے ممکن نہیں ہو سکاتھا کہ آخری وحی الٰہی کے نزول اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے رفیق اعلیٰ سے مل جانے کی مدت بہت تھوڑی تھی اور واضح بات ہے کہ نزول قرآن کریم ہی کے زمانے میں ایک مصحف میں جمع ہونے کا تصور ہو بھی کیسے سکتا ہے؟عہد صدیقی میں صحابہ کرام  کی ایک بڑی جماعت کی زیر نگرانی، ہر سورت علیحدہ مصحف اور اوراق میں آیات کی ترتیب کے ساتھ حضرت زید بن ثابت  کے خط سے تحریر ہوئی۔کتابت کا طرز وہی رکھا گیا جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں تحریر کیا گیا تھا،جب کہ دو گواہوں کے ذریعے یہ ثابت بھی ہو جاتا کہ یہ تحریر آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ہوئی ہے۔یہ طرز عمل درحقیقت آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے اور صحابہ کرام  کی موجودگی میں ہونے والی طرز کتابت کی حفاظت میں بطور مبالغہ اختیار کیا گیا تھا۔یہاں گواہوں کی ضرورت اصل قرآن کریم کے الفاظ کے ثبوت کے لیے ہرگز نہ تھی، اس لیے کہ حفاظ صحابہ کرام  کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ حضرت خزیمہ  کی حدیث سے بھی واضح طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ شہادت ان لکھے ہوئے قطعات کے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے لکھے ہوئے ہونے پر لی جاتی تھی۔

جنگ یمامہ میں صحابہ کرام  کی ایک بڑی تعداد کا بیک وقت شہید ہو جانا،حضرت عمر  کی اس رائے کا باعث تھا کہ قرآن کریم کوصحف میں نقل کردیا جائے۔حضرت ابو بکر صدیق  کا اس بارے میں اول تردد کرنا اس اندیشے کی بنا پر تھا کہ پھر قرآن کریم کی حفاظت کے لیے ،قرآن کریم یاد کرنے سے زیادہ انحصار کتابت پر ہوجائے گا اور لوگ قرآن کریم یاد کرنے میں سستی برتنے لگیں گے ۔ یہ تردد اس لیے نہیں تھا کہ آپ  قرآن کریم کی نفس کتابت میں کوئی حرج محسوس کر رہے تھے۔خود باری تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿رَسُوْلٌ مِّنَ اللهِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَہَّرَةً ﴾(سورة البینة:2)

اس آیت کریمہ کے ہوتے ہوئے قرآن کریم کے صحف میں نقل کرنے پر تردد کا تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے؟

صحابہ کرام  عام یاجنگی اسفار کے دوران اپنے ساتھ قرآن کریم کا کوئی حصہ مکتوب صورت میں اس لیے نہیں رکھتے تھے کہ کہیں دشمن اس کو پاکر اس کی بے حرمتی نہ کریں، نیز اس بارے میں وہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کو مدنظر رکھتے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دشمن کی سرزمین میں قرآن لے کر جانے سے ممانعت فرمائی تھی۔ جنگ یمامہ کے شہداء قراء صحابہ کرام  بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی اسی ممانعت کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی موجودگی میں لکھی ہوئی قرآنی تختیاں اپنے گھروں میں چھوڑ کر جنگ پر روانہ ہوئے تھے۔ ممکن تھا کہ قرآن کریم کوان تختیوں سے صحف میں منتقل کرنے سے پہلے اسی طرح کا کوئی اور حادثہ رونما ہو جائے اورپھر قرآن کریم کے جمع کرنے میں حفاظ صحابہ کرام  کی یاد داشت کی مدد سے قرآن کریم منتقل کیا جائے ، اس طرح وہ رسم الخط جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام  کی موجودگی میں اختیار کیا گیا تھا ،ضائع ہوجائے۔درحقیقت حضرت عمر  کی پیش کردہ تجویزکی بنیاد یہی ہے۔اسی تجویز پر ابو بکر صدیق سمیت تمام صحابہ کرام  کا اتفاق بھی ہوگیا، اس طرح حضرت زید  کے خط سے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کی زیر نگرانی ہر ہر سورت کی آیات علیحدہ علیحدہ مصاحف میں جمع کر دی گئیں، چناں چہ ان متفرق صحیفوں سے سینکڑوں مصاحف تحریر کیے گئے۔

جب اسلامی فتوحات کی کثرت ہوئی اور دور دراز شہروں میں تلاوت میں اغلاط کثرت سے پیش آنے لگیں،تب صحابہ کرام  کاحضرت عثمان  کے عہد مبارک میں اجماع ہوا کہ حضرت ابو بکر صدیق  کے صحیفوں کے ذریعے معروف قراء کی نگرانی میں چند مصاحف تیار کیے جائیں اور انہیں مسلم علاقوں کی طرف روانہ کیا جائے،تاکہ تمام شہروں کے لوگ اپنے اپنے مصاحف کا صحابہ کرام  کی نگرانی میں تیار شدہ مصاحف سے تقابل کر کے اپنی اغلاط درست کرسکیں، اور تلاوت وکتابت کے سلسلے میں بھیجے گئے مصحف کی اتباع کریں، نیز دیگر تمام مصاحف جنہیں مختلف افراد نے انفرادی طور پر تحریر کیا ہے اور اس میں غلطی کے شکار ہوئے ہیں، ان کو چھوڑ دیں۔اس پر کسی صحابی نے انکار نہیں فرمایا، بلکہ خود ابی ابن کعب کتابت میں حضرت زید  کے جملہ مددگاروں میں سے ایک تھے۔

ذہبی کو جو یہ اصرار ہے کہ حضرت ابی بن کعب  کی وفات پہلے ہو چکی تھی تو یہ ان کا وہم ہے۔بلکہ ان سے بڑھ کر حضر ت ابن مسعود  نے (باوجود یہ کہ انہوں نے کتابت کا کام سپرد نہ کیے جانے پر کچھ برا منانے کا اظہار کیا تھا)اس اہم کام میں مفوضہ جماعت کی موافقت اور مدد فرمائی،جیسا کہ منقول ہے کہ جب ان کی خدمت میں کچھ لوگ کسی سلسلے میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ان کی راہ نمائی کرتے ہوئے فرمایا: ”قرآن کریم تمہارے پیغمبر کی طرف سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا ہی“۔حضرت زید بن ثابت  وہ مرکزی شخصیت تھے، جنہیں کتابت کا یہ کام بنیادی طور پر سپرد ہواتھا، ان کے ساتھ حضرت عثمان  کے عہد میں ایک جماعت بھی معاونت کرتی تھی۔اسی طرح عہد صدیقی میں بھی حضرت زید  ہی کا کتابت میں مرکزی کردار تھا۔لہٰذا اگر حضرت عثمان  نے حضرت زید  کو قرآن کریم کی نقل و کتابت کا کام سپرد کیا تھا تو اس پر حضرت ابن مسعود  کے ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی، اس لیے کہ عہد صدیقی میں وہ یہ کام انجام دے چکے تھے۔ان دونوں زمانوں میں حضرت زید  کے اختیار کی وجہ یہی تھی کہ وہ کتابت وحی کے لیے جملہ کاتبین وحی میں سے سب سے زیادہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ملازمت اختیا ر کیے ہوئے تھے،نیز وہ جوان تھے، زور بازو رکھتے تھے اور رسم الخط بھی بہتر جانتے تھے، لہٰذا وہی زیادہ موزوں تھے،بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  اور حضرت عثمان  دونوں کے لیے مصحف کریم کی کتابت میں حضرت زید  کو چننے میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی پیروی بھی تھی۔ کتابت قرآن کریم میں ان کی طویل ممارست اور مشق کی وجہ سے انہیں رسم الخط کو ایک ہی طرز پر رکھنے میں بھی مہارت ہو چکی تھی اور کتابت قرآن کے تمام ادوار میں ایک ہی رسم الخط کا رکھنا انتہائی مطلوب تھا۔اس مشقت آمیز عمل کے لیے معمر صحابہ کرام  کا انتخاب ان پر بے جا بار رکھنے کے مترادف تھا۔حضرت ابن مسعود  کے فضل و کمال، ان کے سابق الاسلام ہونے اور قرآن کریم کے علوم و معارف دا نی میں ان کی وسعت کاکسی صحابی کو کوئی انکار نہیں تھا، لیکن صحابہ کرام  نے اس سلسلے میں ان کے ناخوش ہونے کا کوئی سبب نہیں پایا، مزید برآں وہ کوفہ میں ایک انتہائی اہم کام میں پہلے سے ہی مصروف تھے۔ اہل کوفہ کو دین اسلام کی فقہ پڑھانا اور قرآن کریم سکھلانا ان کے مشاغل تھے،لہٰذا کوفہ سے چند سالوں کے لیے ان کا دور رہنا اس علم کی نشر و اشاعت کے لیے کسی طرح بھی موزوں نہیں تھا، جس علم کا انہوں نے کوفہ میں بیج ڈالا تھا۔بلکہ اس کے برعکس ضروری تھا کہ وہ کوفہ میں اس کی آب یاری کرتے رہیں، تاکہ آنے والے دور میں اس کے پھل سے اُمت فیض یاب ہوتی رہے۔ (جاری)
Flag Counter