دنیا کے دو بڑے فتنے
مولانا سید محمدیوسف بنوری
آج کل دنیا طرح طرح کے فتنوں کی آما ج گاہ بنی ہوئی ہے ، ان سب فتنوں میں ایک بنیادی اور بڑا فتنہ ”پیٹ“ کا ہے ، شکم پروری وتن آسانی زندگی کا اہم ترین مقصد بن کر رہ گیا ہے ، ہر شخص کا شوق یہ ہے کہ لقمہٴ تر اس کی لذت کام ودہن کا ذریعہ بنے اور یہ فتنہ اتنا عالم گیر ہے کہ بہت کم افراد اس سے بچ سکے ہیں ، تاجر ہو یا ملازم، اسکول کا ٹیچر ہو یا کالج کا پروفیسر، دینی درس گاہ کا مدرس ہو یا مسجد کا امام، اس آفت میں سب ہی مبتلا نظرآتے ہیں، ہاں! فرق مراتب ضرور ہے ، زہد وقناعت، ورع وتقویٰ اور اخلاص وایثار جیسے اخلاق وفضائل اور ملکات کا نام ونشان نہیں ملتا، اسی کانتیجہ ہے کہ آج پورا عالم ساز وسامان کی فراوانی کے باوجود حرص وآز، طمع ولالچ اور زر طلبی وشکم پروری کی بھٹی میں جل رہا ہے او رکرب واضطراب، بے چینی وبے اطمینانی او رحیرت وپریشانی کا دھواں چہار سمت پھیلا ہوا ہے ۔
دراصل اس فتنہٴ جہاں سوز کا بنیادی سبب یہی ہے ، جس کی نشان دہی رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی ، آخرت کا یقین بے حد کمزور اور آخرت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور تقریباً خم ہو چکا ہے ، مادی نعمتیں اور ان کا تصور اس قدر غالب ہے کہ روحانی قدریں مضمحل ہو چکی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسانوں کی چھوٹائی ، بڑائی، عزت وذلت او ربلندی وپستی کی پیمائش ﴿ان اکرمکم عندالله اتقاکم﴾ کے پیمانے سے نہیں ہوتی ، بلکہ ”پیٹ اور جیب“ کے پیمانے سے ہوتی ہے ، مادیت کے اس سیلاب میں پہلے ایمان ویقین رخصت ہوا، پھر انسانی اخلاق ملیامیٹ ہوئے، پھر اسوہٴ نبوت سے وابستگی کمزور ہو کر ”اعمال صالحہ“ کی فضا ختم ہوئی، پھر معاشرت ومعاملات کی گاڑی لائن سے اتری، پھر سیاست وتمدن تباہ ہوا اور اب مادیت کا یہ طوفان انسانیت کو بہیمیت کے گڑھے میں دھکیل رہا ہے ، انفرادی بے اصولی اور آوارگی وبے راہ روی اور بے رحمی وشقاوت کا وہ دور دورہ ہے کہ الامان والحفیظ․
الغرض اس ”پیٹ“ کے فتنے نے ساری دنیا کی کایا پلٹ ڈالی ہے، دنیا بھر کے عقلا ”پیٹ“ کی فتنہ سامانی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں وہ اس فتنہ کے ہول ناک نتائج کا تدارک بھی کرنا چاہتے ہیں، مگر صد حیف کہ علاج کے لیے ٹھیک وہی چیز تجویز کی جاتی ہے جو خود سبب مرض ہے ، درحقیقت انبیا علیہم السلام ہی انسانیت کے نباض ہیں او رانہیں کا تجویز کردہ علاج اس مریض کے لیے کار گر ہوتا ہے۔
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے اس ہول ناک مرض کی صحیح تشخیص بہت پہلے فرما دی تھی ، چناں چہ ارشاد فرمایا:” بخدا! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ قطعاً نہیں ، بلکہ اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا پھیلائی جائے ، جیسا کہ تم سے پہلوں پر پھیلائی گئی ، پھر تم پہلو ں کی طرح ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو، پھر اس نے جیسے ان کو برباد کیا، تمہیں بھی برباد کر ڈالے۔“ (بخاری ومسلم)
لیجیے! یہ تھا وہ نقطہٴ آغاز، جس سے انسانیت کا بگاڑ شروع ہوا ، یعنی دنیا کو نفیس اور قیمتی چیز سمجھنا اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس پر جھپٹنا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ایک جامع نسخہٴ شفا بھی تجویز فرمایا، جس کا ایک جزاعتقادی ہے اور دوسرا عملی۔
اعتقادی جزیہ ہے کہ اس حقیقت کو ہر موقع پر مستحضر رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہم چند لمحوں کے مہمان ہیں ،یہاں کی ہر راحت وآسائش بھی فانی ہے اور ہر تکلیف ومشقت بھی ختم ہونے والی ہے ، یہاں کے لذائذو شہوات، آخرت کی بیش بہا نعمتوں او رابدالآباد کی لازوال راحتوں کے مقابلہ میں کالعدم اور ہیچ ہیں۔ قرآن کریم اس اعتقاد کے لیے سراپا دعوت ہے اور سینکڑوں جگہ اس حقیقت کو بیان فرمایا گیا ہے ۔ سورہٴ اعلیٰ میں نہایت بلیغ مختصر او رجامع الفاظ میں اس پر متنبہ فرمایا:” (کان کھول کر سن لو! کہ تم آخرت کو اہمیت نہیں دیتے) بلکہ دنیا کی زندگی کو (اس پر ) ترجیح دیتے ہو، حالاں کہ آخرت (دنیا سے ) بدر جہابہتر اور لازوال ہے۔“ (سورہٴ اعلیٰ:17,16)
اور عملی حصہ اس نسخہ کا یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری میں مشغول ہوا جائے او ربطور پرہیز کے حرام او رمشتبہ چیزوں کو زہر سمجھ کران سے کلی پرہیز کیا جائے اور یہاں کے لذائذ وشہوات میں انہماک سے کنارہ کشی اختیار کی جائے ، دنیا کا مال واسباب، زن وفرزند، خویش واقربا اور قبیلہ وبرادری کے سارے قصے زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت سمجھ کر صرف بقدر ضرورت ہی اختیار کیے جائیں ، ان میں سے کسی چیز کو بھی دنیا میں عیش وعشرت اور لذت وتنعم کی زندگی گزارنے کے لیے اختیار نہ کیا جائے اور نہ یہاں کی عیش کوشی کو زندگی کا مقصد او رموضوع بنایا جائے۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
”عیش وعشرت سے پرہیز کرو ، کیوں کہ الله کے بندے عیش پرست نہیں ہوتے۔“
تعجب ہے کہ اگر کسی ڈاکٹر کی رائے ہو کہ دودھ، گھی، گوشت، چاول وغیرہ کا استعمال مضر ہے تو اس کے مشورے او راشارے سے تمام نعمتیں ترک کی جاسکتی ہیں ، لیکن خاتم الانبیا صلی الله علیہ وسلم کے واضح ارشادات اور وحی آسمانی کے صاف احکام پر ادنیٰ سے ادنیٰ لذت کا ترک کرنا گوارا نہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی آل واصحاب کرام کی زندگی او رمعیار زندگی کو اول سے آخر تک دیکھاجائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا کی نعمتوں سے دل بستگی سراسرجنون ہے ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کا قصہ مروی ہے کہ کچھ لوگوں پر ان کا گزر ہوا، جن کے سامنے بھنا ہوا گوشت رکھا تھا ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا:”محمد صلی الله علیہ وسلم ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔“ مہینوں پر مہینے گزر جاتے، مگر کاشانہ نبوت میں نہ رات کو چراغ جلتا، نہ دن کوچولہا گرم ہوتا، پانی او رکھجور پر گزر بسر ہوتی، وہ بھی کبھی میسر آتیں، کبھی نہیں، تین تین دن کا فاقہ ہوتا، کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھے جاتے او راسی حالت میں جہاد وقتال کے معرکے ہوتے۔ الغرض زہد وقناعت، فقر وفاقہ، بلند ہمتی وجفاکشی اور دنیا کی آرائشوں سے بے رغبتی اورنفرت وبے زاری سیرت طیبہ کا طغرائے امتیاز تھی، اپنی حالت کا اس ” پاک زندگی“ سے مقابلہ کرنے کے بعد ہم میں سے ہر شخص کو شرم آنی چا ہیے۔ ہمارے یہاں سارا مسئلہ روٹی اور پیٹ کا ہے او روہاں یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ زندگی بالقصد اختیار کی گئی تھی، تاکہ آئندہ نسلوں پر الله تعالیٰ کی حجت پوری ہو جائے، ورنہ آپ صلی الله علیہ وسلم چاہتے تو آپ کو من جانب الله کیا کچھ نہ دیا جاسکتا تھا؟ مگر دنیا کا یہ سازوسامان ، جس کے لیے ہم مرکھپ رہے ہیں، الله تعالیٰ کی نظر میں اس قدر حقیر وذلیل ہے کہ وہ اپنے محبوب ومقرب بندوں کو اس سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے، بعض انبیا علیہم السلام کو عظیم الشان سلطنت بھی دی گئی، مگر ان کے زہد وقناعت اور دنیا سے بے رغبتی اور بے زاری میں فرق نہیں آیا، ان کے پاس جو کچھ تھا ، دوسروں کے لیے تھا، اپنے نفس کے لیے کچھ نہ تھا۔
الغرض یہ ہے”فتنہ پیٹ“ کا صحیح علاج، جو انبیا علیہم السلام اوربالخصوص سید کائنات صلی الله علیہ وسلم نے تجویز فرمایا او راگر انسان ” پیٹ کی شہوت“ کے فتنہ سے بچ نکلے تو ان شاء الله”شہوت فرج“ کے فتنہ سے بھی محفوظ رہے گا کہ یہ خرمستی پیٹ بھرے آدمی کو ہی سوجھتی ہے ، بھوکا آدمی اس کی آرزوکب کرے گا؟ ان ہی دو شہوتوں سے بچنے کا نام اسلام کی اصطلاح میں تقویٰ ہے، جس پر بڑی بڑی بشارتیں دی گئی ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ضعیف مریض کو بقائے حیات کے لیے ہلکی پھلکی، معمولی غذا کا مشورہ دیا جاتا ہے او رزبان کے چسکے سے بچنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے، تاکہ مطلوبہ اعلیٰ ”صحت“ نصیب ہو ، بس یہی حیثیت اسلام کی نظر میں دنیا کی ہے۔