بنگلہ دیش کا سفر
تحریر: مولانا عمار خالد، نگران شعبہ تحفیظ جامعہ فاروقیہ کراچی، مسئول وفاق المدارس العربیہ پاکستان
جمعرات5 جنوری2012ء کوبعد نماز فجر بنگلہ دیش روانگی کے لیے ائیرپورٹ روانہ ہوئے، ائیرپورٹ تک حضرت والد صاحب، مفتی حماد ہم راہ تھے ،یہ حضرت شیخ کے ہم راہ میرا پہلا بیرون کا سفر تھا، امیگریشن کا مرحلہ مکمل کرواکر جہاز میں پہنچے ہمارا سفر آرام دہ رہا الحمدلله،9:15 پر جہاز نے اڑان بھری اور ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد ڈھاکا کے حضرت شاہ جلال ائیرپورٹ پہنچے۔ ائیرپورٹ پر وہیل چیئر کی قلت کے سبب جہاز پرہی انتظار کرنا پڑا۔ جہاز سے نکلے تو میزبان مفتی نعمت الله صاحب ، مولوی حبیب الرحمن صاحب اور دیگر رفقاء موجود تھے، ڈھاکہ ائیرپورٹ سے باہر نکلے توکثیر تعدادمیں علمائے کرام موجود تھے، الحمد لله ، اب ہمارا سفر ائیرپورٹ سے دارالعلوم سحبانیہ کی طرف شروع ہوا۔ مشہور ومعرف ٹریفک جام سے ہوتے ہوئے ہم دارالعلوم سحبانیہ پہنچے، مولانا عبدالمجید صاحب ناظم دفتر وفاق المدارس العربیہ پاکستان بھی ایک دن پہلے وہاں پہنچ چکے تھے، سفر کی وجہ سے کچھ تھکن ہو گئی تھی ،اس لیے کھاناکھا کر آرام کیا۔ رات کو دارالعلوم دیوبند کے صدر قاری حضرت مولانا ابوالحسن اعظمی صاحب نے حضرت زید مجدہ ملاقات کی، ملاقات میں پرانے واقعات اور یادیں دونوں حضرات نے ذکر کیں۔ ملاقات دیر تک جاری رہی، اللہ بڑوں کا سایہ تا دیر ہم پر قائم فرمائے (آمین)۔
6 جنوری کو صبح چوں کہ جمعہ تھا اورمولانا عبدالمجید صاحب کی ملاقات یہاں کے وفاق،وفاق المدارس بنگلہ دیش کے حضرات سے طے تھی لہٰذا صبح نو بجے ان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد جمعہ کی تیاری شروع کی۔مغرب کے بعد دارالعلوم سحبانیہ کے حفاظ کی دستار فضیلت کی تقریب تھی، جس میں شرکت کے لیے حضرت شیخ اور دیگراحباب دارالعلوم سحبانیہ سے روانہ ہوئے، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب زیدمجدہ کا بیان شروع ہوا ،مدارس اور طلبہ کے عنوان پربیان ہوا ، اس کے بعد حضرت مولانا ابوالحسن اعظمی صدر قاری دارالعلوم دیوبند نے دعا سے قبل تلاوت فرمائی ماشاء الله بہت خوب صورت آواز الله نے عطا فرمائی ہے، تلاوت کے بعد حضرت شیخ الحدیث مولانا عزیز الحق صاحب اور وفاق المدارس العربیہ بنگلہ دیش کے صدر، دارالعلوم معین الاسلام آٹھ ہزاری چاٹگام کے مہتمم اور شیخ الحدیث احمد شفیع صاحب دامت برکاتہم نے دعا فرمائی پھر حضرت شیخ زید مجدہ نے حفاظ طلبہ کو دستار فضیلت عطا فرمائی، احقر او رمولانا عبدالمجید صاحب کو بھی حضرت نے دستار فضیلت عطا فرمائی ۔ الحمدلله
سات جنوری کو مولانا محبوب الحق صاحب، جو حضرت شیخ الحدیث مولانا عزیز الحق کے منجھلے صاحب زاد ہ ہیں، کہ ہم راہ ڈھاکا کے معروف مقامات دیکھنے کے لیے نکلے، اس سفر میں ہمارے ساتھمفتی نعمت الله صاحب کے صاحب زادے محترم حذیفہ اور مولوی محبوب الحق کے بھانجے محترم عبدالعزیز اور محترم عبداللطیف بھی تھے، یہ دونوں حضرات مدینہ منورہ سے تشریف لائے تھے، ڈھاکہ میں معروف مقامات کے اس سفر میں سب سے پہلے ہم ڈھاکا کے مشہور میوزیم گئے، میوزیم سے فارغ ہو کر بیت المکرم مسجد گئے واقعی بہت عظیم مسجد تھی، بہت وسیع رقبہ پر یہ واقع ہے، مسجد کے نیچے مکمل بازار ہے، مختلف انواع واقسام کی چیزیں اس میں موجود ہیں۔
اس کے بعد ڈھاکہ کے تبلیغی مرکز کاکریل آئے، یہاں عصر کی نماز ادا کی ، ماشاء الله بہت پرسکون اور روحانی ماحول تھا ،اس کے بعد واپس دھان منڈی میں ایلیفنٹ روڈ پر اپنی رہائش پر پہنچے ،جیسے ہی ہم اپنی جگہ پر پہنچے تو تنویر احمد صدیقی صاحب کی گاڑی، جوان کو ائیرپورٹ لینے گئی ہوئی تھی، پہنچ گئی، ان سے ملاقات کی، بہت خوش ہوئے، پھر حضرت سے ملاقات ہوئی ۔
آٹھ جنوری کو ہمیں بذریعہ ہیلی کاپٹر نواکھالی جانا تھا۔ ائیرپورٹ 9:30 پہنچے، لیکن موسم اور دھند کی وجہ سے تاخیر ہوئی ا ور ائیرپورٹ پر ہی انتظار کیا، ٹھیک گیارہ بجے ہم ہیلی کاپٹر میں بیٹھے، یہ میرا پہلا اتفاق تھا ہیلی کاپٹر کا، شروع میں اڑتے وقت کچھ گبھراہٹ سی ہوئی، لیکن الحمدلله عافیت رہی، بنگلہ دیش واقعی ایک خوب صورت ملک ہے، بس حسن انتظام کی کمی ہے، ہیلی کاپٹر سے جو مناظر الله رب العزت نے دکھائے وہ تحریر میں نہیں لائے جاسکتے، تاوقتیکہ آدمی خود دیکھ نہ لے۔ دوران سفر راستہ میں نقشہ بتانے والے سسٹم میں خرابی ہوئی، جس کی وجہ سے یہیں ایک گاؤں میں اترنا پڑا، جب ہیلی کاپٹر وہاں اترا تو کوئی نہیں تھا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے، وہ خرابی اگرچہ کچھ ساعت میں ٹھیک ہو گئی، لیکن لوگوں کی خوشی ہیلی کاپٹر کو دیکھنے کی قابل دید تھی، پھر وہاں سے روانہ ہوئے اور نوا کھلی پہنچے، وہاں علما کی ایک بڑ ی تعداد موجود تھی ،الحمدلله حضرت شیخ کا فقید المثال استقبال کیا گیا سینکڑوں کی تعداد میں لوگ موجود تھے ،ہیلی پیڈ سے اجتماع گاہ کی طرف بذریعہ گاڑی روانہ ہوئے، وہاں حضرت شیخ الحدیث مولانا احمد شفیع صاحب دامت برکاتہم کا بیان جاری تھا، جناب تنویر احمد صدیقی اورمفتی نعمت الله صاحب، مولانا عبدالمجید صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے صدر قاری ابوا لحسن اعظمی صاحب نے حضرت کا استقبال کیا یہ حضرات بذریعہ گاڑی ایک دن پہلے ڈھاکہ سے آگئے تھے۔ حضرت شیخ نے وضو فرمایا اور پھر بیان کے لیے اسٹیج پر تشریف لے گئے، دور دراز سے آئے سینکڑوں علماء کے سامنے حضرت شیخ کا بیان شروع ہوا،حضرت نے للہیت اور الله رب العزت کی بندگی پر بیان فرمایا اور اللہ والوں سے علما کاتعلق قائم کرنے پر زور دیا اور توبہ کی طرف توجہ دلائی اور مزید اپنی قیمتی نصائح بھی فرمائیں۔ پھر وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔
ٹھیک45 منٹ میں ہم ڈھاکا کے حضرت شاہ جلال ائیرپورٹ پر تھے۔رات کو بنگلہ دیش کے معروف پاکستانی تاجر حافظ قمر صاحب اور ان کے صاحب زادہ بھی تشریف لائے، وہ کھانا بھی ساتھ لائے تھے، جامعہ میں پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل ان کے علم میں لائی گئی، الله تعالیٰ حافظ احمد قمر شہید کی شہادت کوقبول فرمائے۔ آمین۔
9 جنوری کو حضرت کا بیان علما میں صبح کو طے تھا ،حضرت نے اپنے بیان میں تصوف کو اپنی زندگی میں شامل کرنے پر زور دیا اور فرمایا کہ علما اب اس کا بالکل اہتمام نہیں کرتے، اس کا اہتمام ہونا چاہیے، شام کو دارالعلوم سحبانیہ کا تفصیلی دورہ کیا، مفتی نعمت الله صاحب کے ہم راہ ماشاء الله مدرسہ میں ایک مثالی نظم وضبط قائم ہے ،ہر شعبہ کے اساتذہ اپنے کام میں مستعدی سے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ الحمدلله مفتی نعمت الله صاحب کو الله رب العزت نے خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔
دس جنوری کو احقر اور تنویر احمد صدیقی صاحب مولوی محبوب الحق صاحب کے ہم راہ لال باغ کے مدرسہ او رمشہور باغ دیکھنے گئے، وہاں لا ل باغ میں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے، جس میں انیسویں اور بیسویں صدی کے بادشاہوں کے سکے، تلواریں ا ور ابتدائی زمانے کی بندوقیں رکھی ہوئی ہیں ۔ کچھ قرآنی نسخے بھی اس دور کے رکھے ہوئے ہیں، وہاں سے فارغ ہو کر واپس اپنی رہائش پر آئے، مولوی محبوب الحق صاحب راستے میں اس دور کی باتیں اور اس دوران پیش آنے والے حالات سناتے رہے ۔
واپس پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا، نماز ادا کی، نماز سے فارغ ہو کر کھانا کھایا، چوں کہ اب چاٹ گام کا سفر تھا، اس لیے مولوی حبیب خان، مولوی یونس صاحب، مفتی نعمت الله صاحب اور مولوی طاہر محمود اور ان کے صاحب زادے او رمفتی نعمت الله صاحب کے ایک رفیق، سفر میں ہم راہ تھے، کھانے سے فارغ ہو کر یہ حضرات ائیرپورٹ کی جانب روانہ ہوئے ڈھاکا سے چاٹ گام45 منٹ کا سفر ہے، لیکن اس سے آگے اٹھ ہزاری دو گھنٹے کے فاصلہ ہے سفر شروع ہوا، چاٹ گام کوچٹاگانگ بھی کہتے ہیں، ایئر پورٹ پر اترے تو یہاں مولوی عتیق صاحب مولوی عنایت الله صاحب بذریعہ بس پہنچ گئے تھے، یہ حضرت ایئر پورٹ کے باہر انتظار فرما رہے تھے، ایئرپورٹ پر عصر کی نماز ادا کی، نماز سے فارغ ہو کر یہ فیصلہ ہوا کہ مغرب کی نماز کا وقت قریب ہے، اس لیے حضرت نے فرمایا کہ ہم مغرب پڑھ کر روانہ ہوں گے، مغرب کی نماز کے بعد مفتی نعمت الله صاحب نے حضرت کو یخنی اور کباب ڈبل روٹی کے ساتھ پیش کیا، حضرت نے نوش فرمایا، پھر روانہ ہوئے ،راستہ میں ٹریفک کے مسائل یہاں بھی ڈھاکہ سے مختلف نہیں ہیں، لیکن جو آدمی ڈھاکہ کا سفر کر چکا ہو اس کے لیے یہ کچھ بھی نہیں، لیکن بہرحال یہ ایک مسئلہ ہے ، چاٹ گام بنگلہ دیش کا تجارتی شہر ہے یہاں بہت بڑی بندرگاہ ہے جو بہت فعال ہے اور سامان کی نقل وحمل یہاں سے ہوتی ہے۔ سفر چلتا رہا، تقریباً2 گھنٹے کے سفر کے بعد طلبہ نظر آنے شروع ہوئے، ماشاء الله دارالعلوم آٹھ ہزاری میں داخل ہوئے، ایک پرکیف منظر تھا الله اکبر! صرف دورہ حدیث میں اس سال طلبہ کرام کی تعداد2000 ہزار ہے، الحمدلله حضرت زیدمجدہ کاطلبہ نے بہت پر جوش استقبال کیا، حضرت نے بیان شروع کیا اور فرمایا کہ طلبہ اپنی اصلاح کی جانب بھی بھرپور توجہ دیں او راہل تصوف سے تعلق کو مضبوطی سے جوڑیں۔ اس کے بعد طلبہ اور علماکو اجازت حدیث بھی عطا فرمائی۔
گیارہ جنوری کوسردی اچھی خاصی تھی، لیکن طلبہ فجر سے قبل تالاب میں اس طرح نہارہے تھے جیسے گرمی کا موسم ہو ، صبح فجر کی نماز اد اکی، نماز کے بعد مدرسہ کا دورہ کیا اور بانیان دارالعلوم معین الاسلام آٹھ ہزاری کے قبرستان گئے ، بزرگوں کی قبر پر فاتحہ پڑھی، الحمدلله دل کو عجیب سکون اور فرحت ملی، شیخ الحدیث حضرت مولانا احمد شفیع صاحب سے اجازت حدیث حاصل کی ، حضرت مولانا احمد شفیع صاحب نے مولانا طاہر سحبان محمود، تنویر احمد صدیقی ،محمد بن طاہر محمود اور عمار خالد کو اجازت حدیث مرحمت فرمائی، عبارت حضرت مولانا طاہر محمود صاحب نے پڑھی ، الله رب العزت ان کی زندگی میں، ان کے علم میں، ان کی صحت میں برکت عطا فرمائے۔ آمین ۔
مدرسہ سے ہم لوگ 9 بجے روانہ ہوئے، حضرت شیخ الحدیث مولانا احمد شفیع صاحب خود رخصت کرنے کے لیے حضرت الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کو تشریف لائے ، ہم چٹا گانگ کے حضرت شاہ امانت ایئرپورٹ پر پہنچے، مختصر انتظار کے بعد ڈھاکہ کی جانب سفر شروع ہوا،دوران سفر مولانا طاہر محمود صاحب سے بنگلہ دیش کے حالات پر گفتگو ہوتی رہی، ان کے کئی سفر بنگلہ دیش کے ہو چکے ہیں۔
بارہ جنوری پاکستان واپسی کا سفر تھا۔ قاری عبدالکبیر صاحب اب تک ہونے والے حضرت کے بیانات کی مکمل سی ڈی لے آئے، الله ان کو جزائے خیر عطا فرمائے ، ایئرپورٹ جانے کی تیار ی کی، کراچی 4:55 پر پہنچے، ایئرپورٹ پر حضرت شیخ کے لیے وہیل چیئر کا انتظام تھا، عافیت سے امیگریشن سے فراغت ہوئی ، ایئرپورٹ سے جامعہ کی جانب روانہ ہوئے، راستہ میں رش نہیں تھا، جس کی بدولت جلدی منزل پر آگئے، جامعہ میں اساتذہ کرام اور والد صاحب نے استقبال کیا ۔