Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 18
شریعت اسلامیہ کی جامعیت
شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی

آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ (علی صاحبہا الصلوٰة والتحیة) جس طرح آخرت کی فلاح وانجام کے ذرائع اور اسباب کو بتلاتی ہیں ، اسی طرح اس دنیاوی زندگی کی فلاح وبہبودی پر بھی پوری روشنی ڈالتی ہیں، وہ جس طرح روحانیت او رملکیت کی دشوار گزار گھاٹیوں میں راہ نمائی کرتی ہیں، اس طرح مادیت اور بہیمیت کی اصلاح اور درستی کی راہوں میں بھی مشعل ہدایت بنتی ہیں ، وہ جس طرح مخلوق کو خالق اور اس کی رضا وخوش نودی سے دو چار کرتی ہیں ، اسی طرح مخلوقات کے آپس کے تعلقات کو بھی نہایت استوار اور مہذب بناتی ہیں ، وہ جس طرح شخصی اور انفرادی اخلاق واعمال کی درستی کی ذمہ دار ہیں ، اسی طرح اجتماعی زندگی اور سیاسی ترقیات کی بھی کفیل ہیں ، وہ اگر ایک طرف تدبیر منزل اور سیاسات مدنیہ کی اصلاحی اسکیم پیش کرتی ہیں تو دوسری طرف اعتقادات حقہ او رحِکم بالغہ کی طرف بھی ہدایت کرتی ہیں ، انہوں نے اگر اوہام وشکوک اور عقائد باطلہ کا قلع قمع کر دیا ہے تو دوسری طرف بے کاری، گدا گری ، آرام طلبی، اسراف ،ظلم وستم، کمزوروں اور ضعفاء کے ستانے (وغیرہ) کوبھی جڑ سے کھود ڈالا ہے، غرض یہ کہ عالم انسانی کی روحانی اورجسمانی زندگی اورترقی کی جس قدر ضرورتیں اور حوائج تھیں ، خواہ اس عالم سے تعلق رکھتی ہوں یا آئندہ پیش آنے والے عالم سے وابستہ ہوں ، ان میں مکمل ہدایات اور رہنمائی موجود ہے۔

قرآن کو اٹھا کر دیکھیے، اگر ایک جگہ ﴿اقیموالصلوٰة واتواالزکوٰة﴾ کا حکم ہے تو دوسری جگہ ﴿ واعدوالھم ما استطعتم﴾․ ارشاد ہے، اگر کہیں ﴿ یا ایھا الذین امنوا اذکروا الله ذکراً کثیرا﴾ فرمایا گیا ہے ، تو دوسری جگہ ﴿اصلحوا بین اخویکم اور ﴿لاتنابزوا بالالقاب﴾ وغیرہ آداب معاشرت کا ذکر کیا گیا ہے ، اگر کہیں حج، روزہ اور زکوٰة کے احکام ذکر کیے گئے ہیں تو دوسری جگہ جہاں بانی اورحدود وقصاص، تعزیر ونکاح، طلاق وخلع، جنگ وصلح کے قوانین بتلائے گئے ہیں ، اگر کہیں اعمال واموال کی اصلاحی تدبیریں، زہد وریاضت کی عمدہ صورتیں بتائی گئیں تو دوسری جگہ عقائد حقہ اور علوم صادقہ کی تعلیمات موجود ہیں، اگر کہیں امم ماضیہ اور اقوام عالم کی تاریخ پیش کرکے عبرت دلائی گئی ہے تو دوسری جگہ زمینوں اور اقالیم کی جغرافیائی حالتوں اور ان کی آیات وغیرہ کو نظر وفکر اور غور سے دیکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، اگر ایک جگہ فلکیات اور نجوم وکواکب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو دوسری طرف نفسیات کو پیش کیا گیا ہے، اگر ایک جگہ فلسفہٴ جمادات، نباتات، حیوانات، عنصریات ، طبعیات اور مابعد الطبعیات کو سمجھایا گیا ہے تو دوسری جگہ حکمت ابدان ونفوس اور روحانیت ، عالم ملکوت، مافوق الحسیات وغیرہ کو روشن کیا گیاہے۔

الحاصل، مذہب اسلام اور اس کے علوم وتعلیمات ایک جامع اورمکمل روشنی ہے جس میں ہر قسم کی اصلاح او رہر نوع کی ہدایتیں موجود ہیں ، وہ ان مذاہب کی طرح ناقص مذہب نہیں ہے جن میں انسانی نجات کے ایک پہلو کاتکفل کیا گیا ہے او ردوسرے پہلوؤ ں سے اعراض اور بے توجہی برتی گئی ہے۔

حضور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تئیس سالہ زندگی او رتعلیمات کو ملاحظہ فرمائیے کہ کس قدر جامع واقع ہوئی ہیں ، اگر ایک طرف آپ اصول خلافت وسلطنت جمہوریت اور آداب حکمرانی ، تدابیرمملکت، حل وعقد ، صلح وجنگ وغیرہ عمل میں لاتے اور تعلیم فرماتے ہیں تو دوسری طرف سیاست منزل، تہذیب اخلاق ، آراستگی آداب ، خاندانی معاملات ، گھرانوں کے آپس کے تعلقات کواعلیٰ پیمانے پر عمل میں لاتے ہوئے لوگوں کوسکھلاتے ہیں ، اگر کبھی آں جناب علیہ الصلوٰة والسلام مسند قضا او رکرسی انصاف وفصل خصومات ، قطع منازعات پر جلوہ افروز ہوتے ہوئے ججی او رچیف جسٹسی کے فرائض کو انجام دیتے او رامت کو ان کا درس دیتے ہوئے فیصلہ جات کے دستور العمل کی تعلیم کرتے ہیں تو کبھی قواعد تقنین، استخراج مسائل، افتاء واقعات، استنباط احکام عمل میں لاتے ہوئے لوگوں کو لا (Law) اور قانون کا ماہر بناتے ہیں۔

اگر کبھی آپ کرسی احتساب وفوج داری میں بیٹھے ہوئے حدودوقصاص ، تعزیز وحبس ، حزب وطرد، تادیب وغیرہ مجرموں، قانون وغیرہ کو ہاتھ میں لینے والوں ، اہل فسق وفجور، اصحاب بغی وعدوان، ارباب منکرات، قانون شکنی کرنے والوں وغیرہ پر جاری فرماتے ہوئے طرق سیاست اہل بدعات، قواعد احتساب ، ذرائع سدمنکرات، مداخل شہوات وغضب ، تعدی وغضب روکنے او رتھامنے کے قوانین کی تعلیم فرماتے ہیں تو کبھی خوش الحانی اور عمدہ طریقہ پر قرآن خوانی کرتے ہوئے قلوب وارواح کو زندہ کرتے اور قواعد قرات وتجوید ، مخارج حروف اور صفات اظہار واخفا وغیرہ کی تعلیم دیتے ہیں، کبھی اورادوادعیہ، نوافل، نماز، روزہ ، شب بیداری وتہجد گزاری، ذکر وفکر ، اعمال روحانی وغیرہ میں مستغرق ہوتے ہوئے انوار ربانیہ کو جلوہ افروز اورملائیکہ روحانیہ کو جذب کرتے اور مادی ظلمات اور نفسانی کثافتوں کو دور کرتے ہوئے حاضرین بارگاہ کی غفلتوں اور پراگندگی کو دفع کرتے ہیں ۔ کبھی ان طرق ذکر وفکر وغیرہ کی تعلیم او ران کا تصفیہ اور تزکیہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ، تو کبھی اسرار ذات وصفات وافعال واحکام الہٰیہ اور بے غایت وبے نہایت علوم وحقائق کو بیان فرماتے ہوئے لوگوں کو علوم وحقائق، فلسفہ الہیات اور حکم حقیقیہ کی تعلیم کرتے ہیں ، اگر کبھی آپ ممبر وعظ ونصیحت پر جلوہ فرماتے ہوئے دلوں اور روحوں میں زلزلہ ڈالتے ہیں او رترغیب وترہیب کے میدان میں اتر کر دوزخ کے عذاب ، قبر اور حشر ونشر کے ہول ناک منازل، حساب او رمیزان وپل صراط کے جاں گداز مصائب ومشکلات، جنت کی اعلیٰ درجہ کی نعمتیں او راس کے مقامات عالیہ اور ان کے ذرائع واسباب کا ذکر کرکے کافروں کی زناروں کو تڑواتے، نافرمانوں اورعاصیوں سے توبہ کراتے ، سخت دلوں کو موم بناتے اورمادی دنیا او راس کے تعلقات سے زاہدواور متنفر کرتے ہوئے حق شناسی کی تعلیم وتلقین فرماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، تو کبھی میادین جنگ ، احد ، بدر، حنین، تبوک وغیرہ میں اتر کر مورچہ بندی ، صف آرائی، تربیت افواج، قتل وقتال، فتح وشکست وغیرہ خدمات سپہ سالاری وجرنیلی انجام دیتے ہوئے لوگوں کو مکمل فوجی تعلیم دیتے ہیں، اگر آپ ماہر اقتصادیات او راستاد معاشیات بن کر کبھی تجارات، صناعات، کسب معیشت ، ذراعات وغیرہ کی تعلیمات او رترغیبات دیتے ہوئے اقتصادیات کی تلقین،بے کاری اور گدا گری کی قباحتیں ذکر فرماتے او ربیع وشرا،مزارعت ومساقات ، سلم واجارہ ، رہن وحوالہ ، کفالت وشرکت، وقف ودیعت وغیرہ ضروری معاملات کے قوانین بتاتے اور تعلیم دیتے ہیں تو کبھی فرائض رسالت وسفارت انجام دیتے ہوئے تبلیغ اور دعوت فرماتے اور دنیا کی قوموں اور بادشاہوں کو حق پرستی اور حقیقی اصلاح ونجات کی طرف بلاتے ہیں ، لوگوں کو حسب استعدادِ قابلیت اطراف عالم کی طرف بھیجتے ہیں ، اقوام عالم کے قلوب کو مائل کرنے او ران کی ارواح کو مسخر کرنے کی عمدہ سے عمدہ تدبیریں عمل میں لاتے ہیں ، اگر کبھی روحانی مرشد کامل بن کر ارشاد وتلقین، تزکیہ وتجلیہ عمل میں لاتے ہوئے اپنی روحانی طاقت او رتوجہ قلبی سے لوگوں کے دلوں اور روحوں سے نفسانی کدورتوں اور مادی آلائشوں کو دور کرتے او راس کی تعلیم دیتے ہیں او رکبھی جسمانی امراض اور ابدانی اقسام کے معالجہ کرنے والے خواص، عقا قیر وادویہ اورامراض کی تشخیص کرنے والے او راس کی تعلیم دینے والے نظر آتے ہیں۔

الغرض، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تئیس سالہ زندگی اورآپ کی تعلیمات پر اگر غور سے نظر ڈالی جائے اور آپ کی تعلیمات پر توجہ کی جائے تو اس قدر جامع اور کامل نظر آئے گی کہ جس کی نظیر کسی راہ بر او رکسی ہادی میں ملنی دشوار بلکہ محال ہے ، آپ کی صداقت اور کمالات کے متعلق جو کچھ غیر مسلموں نے لکھا ہے او رجو کچھ آپ کی سچی اور بے لوث مکمل تعلیمات پر مخالفین نے رائے زنی کی ہے ، اگر ہم جمع کریں تو ایک طویل دفتر ہو جائے، مگر بطورمشتے نمونہٴ از خروارے، ہم ”مسٹر طامس کارلائل“ کا وہ مقولہ نقل کرتے ہیں جو اس نے اپنی تصنیف ”ہیروزاینڈ ہیروورشپ“ میں لکھا ہے ، وہ کہتا ہے:

” صاف شفاف قلب او رپاکیزہ روح رکھنے والے محمد صلی الله علیہ وسلم دنیوی ہواوہوس سے بالکل بے لوث تھے، ان کے خیالات نہایت متبرک اوران کے اخلاق نہایت اعلیٰ تھے، وہ ایک سرگرم اور پرجوش ریفارمر تھے، جن کو خدا نے گم راہوں کی ہدایت کے لیے مقرر کیا تھا، ایسے شخص کا کلام خود خدائی آواز ہے، محمد صلی الله علیہ وسلم نے انتھک کوشش کے ساتھ حقانیت کی اشاعت کی او رزندگی کے آخری لمحہ تک اپنے مقدس مشن کی تبلیغ جاری رکھی ، دنیا کے ہر حصہ میں ان کے متبعین بکثرت موجود ہیں اور اس میں شک نہیں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کی صداقت کام یاب ہوئی۔“ ( عصرجدید8 اگست1929ء)

اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے صحابہ کرام اور تلامذہ عظام نے کامل ہادی اورمکمل ریفارمر بن کر آپ کے بعد ہی تقریباً تمام دنیا میں عدل وحقانیت، خدا ترسی وعدالت، اخلاص وللہیت ، سچی مساوات اور مکمل سیاست ، کامل ہم دردی اور اخوت، انصاف اور جمہوریت پھیلا دی ، بچوں کا قتل کرنا مٹا دیا ، نارواغلامی کو دور کر دیا، ملکی حقوق میں برابری دے دی ، اپنوں اور غیروں، مسلم اور غیر مسلم ، ایشیائی او رافریقی، عرب اور عجم وغیرہ میں یکساں انصاف کیا، بھاری محصولاتِ سلطنت کو گھٹا کر عشر ( دسواں) اور نصف العشر ( بیسواں) اور ربع العشر( چالیسواں) حصہ کر دیا،تجارت کو تمام بے جا محصولات اور مزاحمتوں سے آزاد کر دیا ، اسلام کے معتقدین کو مذہبی سرگرمیوں کے لیے جبری ٹیکس دینے سے بری کر دیا ، مغلوب مذاہب پر غلبے کے لیے مذہبی چندوں کی رسم کو مٹا دیا، انہوں نے ان مفتوح اقوام کو بھی ہر قسم کے حقوق اپنوں کی طرح عطا کیے، جو کہ اپنے ہی مذاہب کے پابند تھے، ان کے جان ومال ، عزت وآبرو کی اسی طرح حفاظت کی جس طرح مسلم اقوام کی کی جاتی تھی، ان کو ہر قسم کی پناہ دی ، انہوں نے مال کی حفاظت کے لیے سود لینے کو اور بغیر حکم عدالت خون کا بدلہ لینے کو موقوف کر دیا ، صفائی اور پرہیز گاری کا تحفظ کیا ، حرام کاری کو موقوف کر دیا ، غریبوں کو خیرات دینے او ربڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر رحمت وشفقت کی ہدایت کی ، حیا وشرم کو پھیلایا ، فواحش او رمنکرات کو مٹایا، اوہام باطلہ او رمن گھڑت اور مادی آلہ کی حکومت کو اقوام عالم سے نیست ونابود کر دیا او ران کی نفرت لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی۔

ان تھوڑے ہی دنوں کی تعلیم وتربیت سے اگر ایک طرف خالد بن ولید ، ابوعبیدہ بن الجراح، سعد بن ابی وقاص، عمر وبن عاص، سلمان فارسی وغیرہم جیسے فاتحین عالم اور سپہ سالار پیدا ہو گئے، جنہوں نے قوی سے قوی اور مضبوط سے مضبوط سلطنتوں کے تختے الٹ دیے تو دوسری طرف ابوبکر بن ابی قحافہ، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، معاویہ بن ابی سفیان جیسے سیاسی جہاں باں بنا دیے گئے ، اگر ایک طرف ابو ذرغفاری ، عبدالله بن عمرو بن عاص جیسے زہاد وعبادتارک الدنیا بن گئے تو دوسری طرف حکیم بن حزام، عبدالرحمن بن عوف وغیرہ جیسے اعلیٰ درجہ کے تاجر تیار ہو گئے ، اگر ایک طرف حضرت علی بن ابی طالب ، زید بن ثابت ، عبدالله بن عباس جیسے قاضی اور جج تیار ہوئے تو دوسری طرف ابو ہریرہ ،انس بن مالک ،عبدالله بن مسعود جیسے پروفیسرانِ علوم موجود ہوگئے ( اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں اس کی تفصیلی فہرست پیش کرتا)۔

یہی تعلیمی جامعیت، مذہب کی ہر قسم اور ہر شعبہ پرشان احتواتھی، جس کے ہر قانون او رہر قاعدہ میں مشفقانہ اصلاح او رمربیانہ ہم دردی بھری ہوئی تھی ، اس نے مسلمانوں کو ،باوجود ہر قسم کی بے سروسامانی کے، اقوام عالم پر حکم راں بنا دیا ، بڑی سے بڑی قومیں ان کے سامنے سربسجود ہو گئیں ، مذہب اسلام عالم انسانی کے دلوں میں جاگزیں ہو گیا ، قومیں فوجاً فوجاً اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئیں ، نہ صرف مفتوح قومیں، بلکہ اجنبی ممالک او رفاتح اسلام قومیں بھی اسلام میں داخل ہو گئیں، جس کی بنا پر نہایت ہی تھوڑے عرصہ میں بحراٹلانٹک کے مشرقی ساحل سے لے کر بحر پاسفک (پسیفیک) کے مغربی ساحلوں او راس کے جزائر تک اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا اور باوجود یہ کہ بانی اسلام کی جدائی کے وقت مسلمانوں کی مردم شماری چار لاکھ سے زائد نظر نہیں آتی، مگر آج بقول نیویارک ٹائمز، اسلام کے ماننے والے ستر کروڑ (کافی پرانے اعداد وشمار ہیں) پائے جاتے ہیں ، مسلمانوں نے اسی تعلیم قرآن وحدیث کو مختلف شعبوں میں تقسیم کرکے علیحدہ علیحدہ فنون بنائے۔ علم عقائد وتوحید میں بہت سی کتابیں مختصر اورمطول لکھی گئیں ، جن میں انہی علوم سابقہ اور حقائق یقینیہ پر روشنی ڈا لی گئی، جو کہ الہٰیات او ررسالت ، مبدا اور معاد وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے ، شکوک اور شبہات باطلہ اور اوہام وخیالات فاسدہ کو، جن میں دوسرے مذاہب مبتلا تھے، ان کا قلع قمع کیا گیا، فلسفہ ویونان وغیرہ کے ترجمے ہونے کے بعد جوامور باعث شکوک ہوتے تھے یا ہو سکتے تھے ان کے ازالہ کے لیے طویل طویل بحثیں پیش آئیں اور علم کلام مدون ہوا، ان میں دہریہ، ملاحدہ، یہود ، نصاریٰ ،بت پرستوں وغیرہ کے شبہات وغیرہ پر پوری روشنی ڈالی گئی ، علم فقہ میں تمام اسلامی قوانین کو ضبط کیا گیا، جو کہ طہارت وعبادت، نماز روزہ، زکوٰة حج کے ساتھ خصوصیت نہیں رکھتے، بلکہ ان میں تدبیر منزل کے تمام قوانین ،خواہ نکاح، طلاق وعدت، رجعت ، خلع وایلاء وغیرہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں یا معاشرت اورامور خانہ داری ، انصاف بین الازواج والا قربا والحذمہ سے وابستہ ہوں، سب پر روشنی ڈالی گئی ہے ، نیز غیر مسلم رعایا اور اعدائے اسلام اور مخالفین خلافت اسلامیہ، نیز فرمانان قوانین وغیرہ کے متعلق احکام وتعزیرات، صلح و جنگ، جزیہ اور ٹیکس وغیرہ کے اصول وقوانین بتائے گئے ہیں۔

دنیاوی زندگی کے تمام معاملات، کمپنیوں او رشرکتوں کے قواعد، تجارت اور صناعات کے احکام، مفصل خصومات، شہادات اوراَیمان کے دستاویز، اقرار ناموں ، فارموں اور اسٹامپ، وصیت ناموں، وکالت ناموں وغیرہ کے ضوابط اور صور درج کیے گئے ہیں ، فتاوی اور شروح، جن پر تمام اسلامی حکومتوں کا ہمیشہ عمل درآمد رہا ہے، انہیں قوانین سے پر ہیں ۔

علوم تصوف میں اخلاقیات پر پوری روشنی ڈالی گئی ہے ، زہد وریاضت ، تقوی او رپرہیز گاری ، خدا ترسی اورخلقت پروری، روحانیت اور محاسن اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے، علاوہ ازیں اصول فقہ، اصول حدیث، اصول تفسیر، تفسیر او ران کے آلات وذرائع، نحو، صرف، معانی ، بیان ، ادب ، لغت ، قراء ة، تجوید، فرائض ، حساب، ریاضی ، جغرافیہ، تاریخ، ہیئت، فلسفہ، منطق ، جبرومقابلہ، مساحت ، اصطرلاب، ربع مجیب وغیرہ ہر قسم کے فنون ہیں جن کو مدار س اسلامیہ کے پروگرام میں ہمیشہ سے کم وبیش حصہ دیا گیا ہے ، ان علوم وفنون میں سب سے زیادہ خدا ترسی اور تعلق الہٰی اور رضا جوئی خداوندی کو اہمیت دی گئی ہے ، مخلوق کو خالق سے وابستہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اخلاق فاضلہ، خیر اندیشی، فیض رسانی، پاک دامنی ، حیا، تحمل، صبر، کفایت شعاری، سچائی او رراست بازی، عالی ہمتی، صلح پسندی ،سچی محبت وہم دردی، توکل بخدا، رضا بالقضا، انقیاد امر الہٰی، رعایا پروری، رواداری، ایثار وقربانی وغیرہ کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے ، ناانصافی، کذب ، غرور، انتقام، غیبت، استہزا، طمع، فضول گوئی، فضول خرچی، خود غرضی ، عیاشی، خیانت، بدعہدی، بد گمانی، قطع رحمی،نفاق وغیرہ برے افعال واعمال کو بہت زیادہ قابل ملامت ونفرین قرار دیا گیا ہے اوران کو نہایت ہی قبیح، بلکہ بے دینی بتایا گیا ہے ، ان میں سچائی کے ساتھ ، مخلوق خدا کے ساتھ احسان وکرم، نفع رسانی او رخیر خواہی کی تاکید کی گئی ہے ، ابتدا ہی سے تعلیمات اسلامیہ میں ایسی ایسی درسیات داخل کی گئی ہیں ، جن سے بچپن ہی سے اس قسم کے جذبات پیدا ہو جائیں ، بے حیائی او رخود غرضی، فواحش اور دست درازی، گناہوں وغیرہ سے نفرت دل میں جاگزیں ہوجائے ، یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیمات میں کریما، پند نامہٴ عطار، گلستان، بوستان وغیرہ جیسی کتب داخل کی گئیں ، جن سے روحانیت اور روحانی اخلاق میں روز افزوں ترقی موج زن ہوتی ہیں ، ان میں خداوند کریم کی غیر محدود طاقت اور علم کا یقین دلایا گیا ہے، برائیوں او رممنوعات کے ارتکاب پر بے پناہ عذاب خداوندی سے ڈرایا گیا ہے اور فرماں برداری اور عمدہ اعمال واخلاق پر غیر متناہی انعامات کے پختہ وعدے کیے گئے ہیں ، جن کی وجہ سے حقیقی امن وامان اور کامل ترقی اور فلاح، دنیا وآخرت میں ہو سکتی ہے ، تنہائی میں ، مجالس میں ، چہار دیواری کے احاطوں میں ، پہاڑوں میں ، جنگلوں میں ، تہہ خانوں میں ، شہنشاہی تختوں پر ، مضبوط قلعوں کے احاطوں میں ، افواج وعساکر کی قوتوں کے ساتھ بے چارگی اور کمزوری کی حالت میں یکساں طور پر بد اعمال واخلاق سے بچنا او رمحاسن افعال وملکات کو اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

شریعت اسلامیہ کا مغربی علوم سے موازنہ
مگر مغربی علوم اور تعلیمات جدیدہ ان معانی سے عموماً خالی ہیں ، وہ خدا کے وجود، اس کی غیر متناہی طاقتوں اور عالم آخرت کی جزا اور سزا، اس کی صفات کاملہ سے ( جو کہ مکمل امن وامان کے ذرائع اور حقیقی ترقی انسانی اور روحانیت کاملہ کے وسائل تھے۔) نہ صرف بے پروا ہیں ، بلکہ بسا اوقات ایسی تعلیم پر استہزا کرنے والی اور الحادودہریت( جو کہ تمام مفاسد کی جڑ ہے) کی طرف کھینچ کر لے جانے والی ہیں ، وہ روحانیت او رملکیت کی دشمن اور مادہ پرستی کی شیدا ہے او راسباب مزعومہ اور علل محترمہ کی اس قدرفریفتہ ہے کہ اس کے نیاز مندوں کو کبھی روح او رمافوق الطبیعة کا وہم وخیال بھی نہیں آتا، روحانی ترقیات او رملکی صفات واحوال سے اس کو انتہائی گریز ہوتا ہے ، وہ خود غرضی کے میدان میں اس قدر سرگرم ہے کہ جس کے لیے اقوام او رامم کو ممالک واقالیم کو موت کے گھاٹ اتار دینا اور بے زروبے نام بنا دینا نہ صرف جائز، بلکہ کمال شمار کرتی ہے ، چناں چہ یہی معاملہ تمام یورپین اقوام کا اپنی مستعمرات کے ساتھ جاری ہے ۔ سرجان شور 1833ء میں کہتا ہے:

”برطانوی صنعت بڑھانے کے لیے ہندوستانی دست کاری کا گلا گھونٹنا بڑے فخر کے ساتھ انگریزی تدبر قرار دیا جاتا ہے ، حالاں کہ یہ برطانوی فسادات کا ایک بہت ہی بڑا ثبوت ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ملک کی ترقی کے لیے انگریزوں نے کس طرح چنگی او رمحصول لگا کر ہندوستانی صنعتی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔“

دوسری جگہ لکھتا ہے:
” لیکن ہندوستان کا عہد زریں گزر چکا ہے ، جو دولت کبھی اس کے پاس تھی اس کا جزوا عظم ملک کے باہر کھینچ کر بھیج دیا گیا ہے او راس کے قدرتی عمل اس بدعملی کے ناپاک انتظام نے معطل کر دیے ہیں، جس نے لاکھوں نفوس کی منفعت کو چند افراد کی خاطر قربان کر دیا ہے۔“ (حکومت خود اختیاری)

وہ نفاق اور ڈپلوپیسی کو پایہٴ فضیلت اور ذریعہٴ فخر ومباہات سمجھتی ہے، ” میسرز جارج ایلن اینڈ انون“ لندن کا مشہور پبلشر کتاب” جنس تمدن“ میں اقتباس ذیل شائع کرتا ہے:

”موجودہ تمدن کا سارا لب لباب منافقت ہے ، لوگ اپنا عقیدہ ظاہر خدا پر کرتے ہیں ، لیکن عملاً اپنی جانیں تک مال پر قربان کرتے رہتے ہیں ، زبانوں پر آزادی کا دعویٰ رہتا ہے ، لیکن جو آزادی کے علم بردار ہوتے ہیں ، ان کو ہی سزا ملتی ہے، دعویٰ مسیح کی پیروی کا ہے اوراطاعت مسولینی کی ، کی جارہی ہے ، عزت کے الفاظ عصمت کے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں ، لیکن عملی زندگیاں حرام کاری اور آتشک کے لیے وقف ہیں، زبانی داد سچائی کی دیتے ہیں، لیکن عملاً اقتدار واختیار کی کرسیوں پر بددیانتوں ہی کو بٹھائے ہوئے ہیں ، زبانوں پر اخوت کے نعرے ہیں ، لیکن جو بھائی ان کی جنگ یا وطنیت یاقومیت کے بدمستانہ جلوسوں میں شریک نہیں ہوتے ان کے لیے یا جیل خانہ ہے یا جلا وطنی یا بندوق کی گولیاں۔“ (سچ، لکھو24 جنوری1930ء)

وہ حدود وقوانین کی مراعات کرتے ہوئے ہر قسم کے بے حیائی، فواحش واسراف کو جائز رکھتی ہیں ، وہ فضول خرچی کی نہ صرف اجازت دیتی ہیں، بلکہ بسا اوقات ضروری قرار دیتی ہے ، انگلستان او ردیگر ممالک یورپیہ اور امریکا کے غیر صحیح النسل بچوں کی تعداد ہائیڈپارک اور دوسرے مقامات کی حرام کاری کی رپورٹیں او راعداد وشمار، مادرزاد برہنگی کی روز افزوں ترقی وغیرہ، طلاق او رخلع کا موجیں مارنے والا سیلاب دیکھیے اور غور کیجیے ، وہ اپنے وطن اور قوم کے لیے ہر قسم کے مظالم، ہر قسم کی دست درازیاں روا اور جائز سمجھتی ہیں ۔ سرجان شور 1823ء میں کہتا ہے:

”برطانیہ نے جو طرز حکومت قائم کیا ہے ، اس کے تحت ملک اورباشندگان ملک رفتہ رفتہ محتاج ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان پرانے تاجروں پر جلد تباہی آگئی، انگریزی حکومت کی پیس ڈالنے والی زیادتیوں نے ملک او راہل ملک کو اتنا مفلس کر دیا ہے کہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔“

جان سلیون کہتا ہے:”ہمارا طرز حکومت اسفنج کی مانند گنگا کے دہارے سے ہندوستان کی دولت چوستا ہے او ردریائے ٹائمز کے کنارے جاکر نچوڑ دیتا ہے ۔“ (حکومت خود اختیاری)

وہ مذہب اور دین کو جنون اور لغو قرار دیتے ہوئے لامذہبی کومایہٴ افتخار ومباہات سمجھتی ہے ، وہ اس دنیوی زندگی او رمادی ترقی ہی کو مقصد حیات اوربام ترقی قرار دیتی ہے ، اس کے بعد اس کے نزدیک کوئی مقصد اور مطمح نظر نہیں ہے ، وہ انبیا اور اس کی تعلیمات زاکیہ کو بے معنی او ردشمن انسانیت سمجھتی ہے ، وہ رشتہ داروں میں میل ملاپ، بڑوں اور بزرگوں سے تادیب، چھوٹوں اور اپنوں پر رحمت وشفقت، فقیروں او رمسکینوں کی خبرگیری او ران پر خیرات وصدقات کی دشمن ہے ، سادہ زندگانی او رکم خرچ معیشت کی راہ میں انتہائی رکاوٹ پیدا کرنے والی اور سرمایہ دار مادہ پرست مغربی قوموں کے فیشن کا پرستار بنانے والی ہے ، خیال فرمائیے کہ وہ امریکا جس کے ہر فرد کی روزانہ آمدنی کا اوسط چودہ روپیہ ہے اور وہ انگلستان جس کے ہر فرد کی اوسط روزانہ چھ روپے بارہ آنے ہے۔ ( دیکھیے انقلاب مورخہ29 جولائی1928ء) کے فیشن اور تہذیب ومصارف کا اتباع اگر برطانوی عہد کا وہ ہندوستان کرنے لگے جس کے ہر فرد کی روزانہ آمدنی کا اوسط ایک پنس بقول” سرولیم ڈگبی“ اور ڈیڑھ آنہ بقول انقلاب29 جولائی1928ء اور تقریباً سوا آنہ بقول ”لارڈکرزن“ پڑتا ہے تو بجز ہلاکت او ربربادی کیا حاصل ہو گا؟ یہی اور ان کے مثل دیگر وجوہ ہیں، جنہوں نے عالم مشرق اور بالخصوص اسلامی دنیا اور بالخصوص مسلمانانِ ہند کے علوم ومعارف او ران کی درس گاہوں اور ان کی زندگانی کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا، مغرب کے سربرآوردوں نے ہمیشہ سے مشرق کی تعلیم گاہوں اور علوم کو مٹانے میں انتہائی سرگرمی کا ثبوت دیا، وہ قرآن شریف، جو کہ تمام علوم ومعارف کا سرچشمہ ہے اورتمام کمالات دینی ودنیوی، روحانی اورمادی کا مرکزومنبع ہے، جس وقت سے وہ اتارا گیا ہے ، آج تک محفوظ ومصئون رہ کر ہر قسم کی تحریفات وغیرہ سے پاک اور صاف ہے ، جس کے ہر قسم کے کمالات کا نہ صرف مسلمان بلکہ مخالفین بھی پرزور الفاظ میں اقرار کرتے رہے ہیں۔(جاری)
Flag Counter