Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

10 - 18
مسرفانہ تقریبات اورمسلمان
محترم شمس الحق ندوی
اس وقت مسلمان جن رسوا کن حالات سے دو چار ہیں ان میں دخل دوسری بہت سی ، اخلاقی، سماجی خرابیوں کے ساتھ اس کا بھی ہے کہ وہ اپنے ذاتی معاملات اور اپنی دلچسپی کے دائرے میں، اسراف وفضول خرچی، شہرت وعزت کے حصول یا رسم ورواج کی پابندی میں تو بے دریغ روپے خرچ کرتے ہیں ۔ لیکن عزیزوں ، پڑوسیوں اور ملت کے دوسرے افراد کے فقروفاقہ اور ان کے قابل رحم حالات کی طرف نگاہ تک نہیں اٹھاتے۔ ایسے حالات میں جب کہ امت کے بے شمار لوگ بھوک پیاس کی بھٹی میں جل رہے ہوں ، بیمارہوں، دوا علاج کے لیے پیسے نہ ہوں ، ان کے پاس تن ڈھکنے کے لیے لباس تک نہ ہو، محض اپنی نام وری اور شہرت کی خاطر تقریبات میں پانی کی طرح روپے بہانا، رزق دینے والے مالک وکار ساز عالم کو کیسے پسند آسکتا ہے ؟ اس لیے دیکھنے میں آتا ہے کہ ان سب باتوں کی نحوست کے سبب مختلف شکلوں میں جانی مالی نقصان ہوتاہے، مگر ادھر خیال تک نہیں جاتا۔

حیرت ہوتی ہے کہ بہت سے دین دار حضرات کے یہاں بھی علاوہ دیگر رسوم وفضول خرچی کے صرف پٹاخوں میں دس ، بیس ، پچاس ہزار خرچ ہو جاتا ہے ۔ اس میں ذرا شبہ نہیں کہ یہ صورت حال الله تعالیٰ کی حکیم وعادل ذات اور ربوبیت ورحمت عامہ کی صفات کے لیے غضب اور سخت ناپسندیدگی کا باعث ہے۔

الله تعالیٰ نے مسلمانوں پر مال کی زکوٰة اسی لیے فرض کی ہے کہ امت کے ان ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری ہوں او رمال والوں میں شہرت ونام وری کے بجائے غربا پروری کا شوق وجذبہ پیدا ہو ، جو الله تعالیٰ کی رحمت کا باعث ہوتا ہے اور اس سے معاشرہ کی دوسری بہت سی خرابیاں دور ہوتی ہیں ، زکوٰة نہ دینے کے سبب مختلف صورتوں میں مالی وجان نقصان ہوتا رہتا ہے، لیکن اس پر بالکل غور نہیں کیا جاتا ہے۔

ملت کے مال دار اور باحیثیت حضرات ملی تقاضوں اور ضرورتوں سے نگاہیں پھیر کر اپنی ذاتی خواہشات اور حوصلہ مندیوں پر توبے دریغ اور شاہانہ اولو العزمیوں کے ساتھ روپے خرچ کریں، لیکن ملت کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے او رتحریکیں وسائل کی کمی کی وجہ سے مشکل ترین اور دشوار صورت حال سے دو چار ہوں تو پھر یہ مال دار لوگ چاہے قارون وقت ہوں ، ہر وقت خطرہ میں ہیں ۔ مال دینے والے کی نگاہ میں ان کی ایک تنکے کے برابر بھی حیثیت نہیں ۔ حالات کی معمولی سی تبدیلی اور واقعات کی کوئی ہلکی سی لہر بھی ان کے سارے سہاروں کو ریت کی دیوار کی طرح بہا کر لے جائے گی اور ایک خدا فراموش اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والی قوم کی طرح ان کا حال بھی یہی ہو گا جس کی تصویر کشی قرآن پاک نے اس طرح کی ہے : ﴿فَأَتَاہُمُ اللَّہُ مِنْ حَیْْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الرُّعْبَ﴾ (حشر:2)
تو ان پر آیا الله تعالیٰ کا عذاب ایسی جگہ سے کہ ان کو گمان بھی نہ تھا اور الله نے ڈال دیا ان کے دلوں میں رعب۔

جس فضا وماحول میں ملت کا وجود اور اس کا مستقبل خطرہ میں ہو، اس کی آنے والی نسل کو اس کے دین وعقیدہ سے محروم کر دینے کی کوششیں مختلف منصوبوں کی صورت میں ہو رہی ہوں، اس ماحول میں ملت کی آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت کی فکر کے بجائے ملت کے سرمایہ داروں کی بڑی تعداد اسراف وفضول خرچی میں مبتلا ہو اور شہرت کی خاطر فخر کے طور پر تقریبات میں بے تحاشا روپے خرچ ہوں یہ الله تعالیٰ کو کیسے پسند آسکتا ہے او رکتنی مدت چھوٹ مل سکتی ہے؟!

امت مسلمہ کی یہ خصوصیت رہی ہے، جوکسی دوسرے دین ومذہب میں نہیں پائی جاتی کہ علماء ایسی باتوں پربرابر تنقید کرتے اور امت کو ہوشیار کرتے رہے ہیں او رامت کے ایسے افراد نے اس کو سنا او رمانا ہے جس سے امت کا بھرم قائم رہا ہے۔

اندلس کے خلفیہ عبدالرحمن الثالث نے جب مدینة الزہرا تعمیر کیا تو اپنی خاص نشست گاہ کے گنبد میں سونے چاندی کی اینٹیں لگوائی تھیں، لیکن جب قاضی منذر نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بھرے مجمع میں خلیفہ کے اس کام پر تنقید کی تو خلیفہ نے اس گنبد کو گرا دیا اور دوبارہ اس کو عام اینٹوں سے تعمیرکروایا۔ امت کے ان حالات پر تنقید نے اس کو فائدہ پہنچایا ہے ، سنبھالا دیا ہے، اس سے قوم میں زندگی اور بیداری پیداہوتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے #
وفی العتابِ حیاةٌ بین اقوامٍ
ترجمہ:” قوم پر بے لاگ تنقید قوم کو زندگی کی نئی قسط عطا کرتی ہے۔“

یہی وجہ ہے کہ بے جا اور بے تحاشا مال خرچ کرنے کی قرآن کریم میں سخت ممانعت اور مذمت آئی ہے او رارشاد ربانی ہے :﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً،إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراً﴾․ ( اسراء:25)
ترجمہ: ”اور رشتہ داروں او رمحتاجوں او رمسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار ( کی نعمتوں) کا کفر ان کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے۔“

اس کے برخلاف صحیح طریقہ پر مال خرچ کرنے کے سلسلہ میں الله تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی تعریف اس طرح کرتا ہے:﴿وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْْنَ ذَلِکَ قَوَاماً﴾․(الفرقان:66)
ترجمہ:” اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ وہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں، بلکہ اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ، ضرورت سے زیادہ نہ کم۔“ 
Flag Counter