Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

1 - 18
ٹکنالوجی کا سیلاب فکر کا بند
مولانا عبید اللہ خالد
ایک زمانہ تھا کہ جب ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی پر لوگ انگشت بہ دنداں تھے۔ مسلمان حلقوں میں ان چیزوں کے جواز وعدم جواز کی بحثیں نئی نئی شروع ہوئی تھیں۔ آج انیسویں عیسوی صدی میں ٹکنالوجی نے ایک سیلاب کی مانند پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

برسر تحریر، اس سے کوئی بحث نہیں کہ بہت سی ایجادات نہ صرف یہ کہ حرام ہیں بلکہ ان کے اپنے معاشرتی اور معاشی اثرات بھی انتہائی قبیح ہیں۔ مسلم معاشرے تو کجا، غیر مسلم معاشرے کے شریف النفس لوگ بھی پریشان ہیں۔ اس پر مستزاد، یہ چیزیں کچھ اس طرح سے آج ہمارے ماحول اورمعمول میں رچا بسا دی گئی ہیں کہ الأمان۔

یہ بات یقینا بہت اہم ہے کہ بہت سی فتنہ پرورایجادات سے اجتناب برتنا اور ان کی حرمت کا قائل ہونا ضروری ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ نقطہ بھی بہت اہم ہے کہ خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان فتنوں کے اثرات بالخصوص فکری وذہنی اثرات کے حوالے سے باشعور کیا جائے۔

سائنس و ٹکنالوجی نے جس تیزی سے ترقی کی ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں بے شمار جدید ایجادات کا نفوذ ہو گیا ہے بلکہ تقریباً ہر گھر میں یہ چیزیں گھر کر گئی ہیں، اس بنا پر موجود صورتِ حال میں کچھ ایسی فضا بن گئی ہے کہ آپ کو اگر زندگی گزارنی ہے اور کام کرنا ہے تو آپ کے چاروں جانب یہ چیزیں موجود ہیں۔ آپ کاروبار کر رہے ہوں یا کہیں ملازم ہوں، سفر میں ہوں یا گھر کے کمرے میں بند … بہ ہر حال، آپ کو مختلف ایجادات واختراعات کے استعمال کی ضرورت رہتی ہے۔ نہ صرف یہ، بلکہ ہر گزرتے لمحے ان چیزوں کی ضرورت بڑھتی ہی جاتی ہے۔پھر ان چیزوں کا جال ہمارے گرد کچھ اس طرح سے پھیل گیا ہے کہ ہم ان چیزوں سے فرار اختیار نہیں کرپاتے۔ ان چیزوں کے اثرات بہ ہر حالت ہم پر پڑ کررہتے ہیں۔ یہ چیزیں انسانی ذہن اور بالخصوص نئی نسل کی سوچ میں پراگندگی پیدا کررہی ہیں۔

یہ صورتِ حال ایک باشعور مسلمان کے لیے نہ صرف باعث فکر ہے بلکہ شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ ان حالات میں صرف کفِ افسوس ملنے، برائی کی برائی میں بحثیں کرنے سے ہم کبھی ان فکری فتنوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ضرورت بلکہ اشد ضرورت اس کی ہے کہ ہم خود کو اور اپنی اگلی نسلوں کو ذہنی اور فکری سطح پر اس قدر مضبوط سوچ دیں کہ وہ اپنے ارد گرد موجوداعتقاد، فکر او رعمل کے فتنوں اور حربوں کو نہ صرف سمجھ سکیں بلکہ خود کو ان سے بچاتے ہوئے اپنے ارد گرد موجود لوگوں میں بھی اس حقیقی اور مضبوط فکر کو منتقل کر سکیں۔ جو چیزیں شریعتِ مطہّرہ نے حرام قرار دی ہیں، ان کی حرمت کودل و جان سے حرام سمجھیں، ان سے نہ صرف اجتناب برتیں بلکہ ان کے اثرات و رذائل سے نئی نسل کو بھی آگاہ کریں۔

ہمیں اس معاملے پر بہت سنجیدگی اور بڑی تیزی سے کام کرنا ہے۔ ٹکنالوجی اور ترقی کے اس سیلاب میں ہم یونہی بہتے چلے جائیں گے، جب تک ہم نے اس کے آگے مضبوط فکر اور یقین کا بند نہ باندھا…!
Flag Counter