شہرت ... اسلام میں
مفتی محمود اشرف عثمانی
عن انس رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: بحسب امریٴ من الشر ان یشار الیہ بالاصابع فی دین او دنیا الا من عصمہ الله․ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان ورواہ الترمذی معلقا، ورواہ البیھقی عن ابی ھریرة رضی الله عنہ، مشکوٰة المصابیح، باب الریاء والسمعة :455)۔
ترجمہ: حضرت انس رضی الله عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا، آدمی کے شر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ دین یا دنیا کے بارے میں اس کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے، ہاں! مگر جسے الله تعالیٰ محفوظ رکھے۔
یہ حدیث حضرت انس رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے اورحضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ او رحضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ سے بھی۔
یہ روایت امام ترمذی نے اپنی جامع ترمذی میں حضرت انس رضی الله عنہ سے تعلیقا روایت کی ہے ، جب کہ امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ اور حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ سے ، اسی طرح امام طبرانی نے ”المعجم الکبیر“ اور ”المعجم الاوسط“ میں انہی دو صحابہ سے اس روایت کی تخریج کی ہے ، معجم طبرانی میں سیدنا حضرت عمران بن حصین رضی الله عنہ سے جو روایت ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں:”کفی بالمرء من الاثم ان یشار الیہ بالاصابع قیل: یا رسول الله، وان کان خیرا؟ قال: وان کان خیرا فھو شرلہ، الا من رحم الله، وان کان شرا فھو شر“․
”آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جارہا ہو، عرض کیا گیا کہ یا رسول الله! اگرچہ وہ شخص ( خیر) بھلا ہی کیوں نہ ہو ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ خیر ہو تو بھی یہ شہرت اس کے لیے بُری چیز ہے۔ ہاں ، مگر جس پر الله تعالیٰ رحم کرے اور اگر وہ شخص بُرا ہے تو یہ شہرت تو بُری ہے ہی۔
اجمالی تشریح
اس حدیث میں ایک اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جس سے اکثر لوگ ناواقف ہیں ، وہ یہ کہ شہرت بذاتِ خو دکوئی اچھی چیز نہیں، کیوں کہ شہرت سے آدمی کو فائدہ کم پہنچتا ہے ، نقصان زیادہ ہوتا ہے ، یہ نقصان ، دنیوی بھی ہوتا ہے اور دینی بھی۔ لہٰذا شہرت کی تمنا کرنا درست نہیں او رشہرت حاصل کرنے کے ذرائع اختیار کرنا تو او رزیادہ غلط ہے۔
تفصیلی تشریح
مال ودولت ہو یا شہرت وعزت، انسان طبعی طو رپر ان کی طرف مائل ہوتا ہے ، اس کی طبعی خواہش ہوتی ہے کہ میرے پاس خوب خوب مال ودولت ہو او رجگہ جگہ میری شہرت اور عزت ہو ، یہ چیزیں اگر جائز طریقہ سے من جانب الله انسان کو مل جائیں تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں او راگر ان چیزوں کے حقوق ادا کرے تو یہ چیزیں آخرت کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہوتیں۔
(فی الحدیث نعم المال الصالح للرجل الصالح) لیکن مال اورشہرت میں بڑا فرق ہے ، مال انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے، بوڑھے والدین ہوں یا بیوی بچے اور خود انسان کی اپنی زندگی، ان سب کے حقوق مال کے بغیر ادا نہیں کیے جاسکتے ، اسی لیے مال کو قرآن میں جہاں فتنہ کہا گیا ہے:﴿إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ﴾․ ( سورة التغابن، آیت:15) وہاں مال کو خیر بھی کہا گیا ہے:﴿وَإِنَّہُ لِحُبِّ الْخَیْْرِ لَشَدِیْدٌ﴾․(سورة العادیات، آیت:8) اور اسے مال الله بھی کیا گیا ہے: ﴿وَآتُوہُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِیْ آتَاکُمْ﴾․(سورة النور، آیت:33) لہٰذا مال اگر صحیح طریقہ سے حاصل کیا جائے ، اس کے حقوق ادا کرتے ہوئے صحیح طریقہ سے رکھا جائے او رصحیح طریقہ اور شریعت کے احکام کے مطابق اسے خرچ کیا جائے تو وہ خیر ہے، ورنہ شر۔
اس کے برخلاف شہرت، انسان کی ضروریات یا حاجت میں شامل ہی نہیں۔ ایسا ہو سکتاہے او ربکثرت مشاہدہ میں ہے کہ ایک شخص گم نامی کی زندگی گزارتا ہے، مگر اس کی دنیا بھی اچھی ہوتی ہے اور آخرت بھی۔ وہ دنیا میں بھی خو ش وخرم اور صحت وعافیت سے رہتا ہے ، ساتھ ساتھ چپکے چپکے جنت کی تیاری کرتا رہتا ہے او راپنی آخرت بنا کر جنت کا راستہ اپنے لیے ہموار کر لیتا ہے ، عام لوگ اسے پہچانتے بھی نہیں ، مگر اس کا شمار ” اولیاء“ میں ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ایک اور حدیث میں اس طرح ارشاد فرمائی گئی ہے ، جو بڑی سبق آموز بھی ہے اور مؤثر بھی۔
”عن ابی امامة رضی الله عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: انَّ اغبط اولیائی عندی لمؤمن خفیف الحاذ، ذو حظ من الصلاة، احسن عبادة ربہ، واطاعہ فی السر، وکان غامضا فی الناس، لا یشار الیہ بالاصابع، وکان رزقہ کفافا، فصبر علیٰ ذالک․ ثم نقد بیدہ، فقال: عجلت منیتہ قلت بواکیہ، قل تراثہ ․( رواہ الامام الترمذی فی جامعہ، وابن ماجہ فی سننہ والامام احمد فی مسندہ، والحاکم فی مستدرکہ، والطبرانی فی المعجم الکبیر، والبیھقی فی شعب الایمان، والطیالسی فی مسندہ باسانیدھم، والبغوی نقلہ فی مشکوٰة المصابیح فی کتاب الرقاق)․
ترجمہ: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اولیا میں سب سے زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ ولی ہے، جس کی پُشت ہلکی ہو ( یعنی مال واسباب اس کا کم ہو ) نماز میں اس کا خاص حصہ ہو ، وہ اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتا رہا اور تنہائی میں (بھی) اپنے رب کی اطاعت کرتا رہا، لوگوں میں وہ گم نام تھا، اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاتا تھا، اس کا رزق کفاف تھا( یعنی آمدنی اور خرچ برابر ہو جاتا تھا) اس نے اسی پر صبر سے کام لیا… اس کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے چٹکی بجائی ( یعنی انگلیوں سے آواز نکالی) او رفرمایا اس کی موت بھی جلدی ہو گئی، رونے والیاں بھی کم تھیں او راس کا مال میراث بھی کم تھا۔“
اس حدیث میں بھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے یہ حقیقت ارشاد فرمائی ہے کہ اگر آدمی مشہور نہ ہو ، گم نام ہو ، مگر ظاہر وباطن میں اپنے رب کی عبادت او راطاعت کرتا رہے تو وہ قابلِ رشک اولیاء الله میں سے ہے۔
شہرت کی مختلف صورتیں
1. پہلی صورت تو یہ ہے کہ آدمی کی شہرت ہی برائی کے کاموں میں ہو تو ایسی شہرت کے مذموم او ربدتر ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے ، مثلاًکوئی شخص ڈاکو، ظالم یا رشوت خوریا متعصب ہونے کی بنا پر مشہور ہو تو یہ صورت وہ ہے ، جسے حدیث میں ”وان کان شرافشر“ کے جملہ سے بیان کیا گیا ہے اور یہ وہ بات ہے جو اردو کے شاعر کے بقول”ہوں گے بدنام تو کیا نام نہ ہو گا“ کے ہے۔
2. شہرت نیکی او رخیر کے کاموں میں ہو ، مگر خود اس شخص نے کبھی بھی شہرت حاصل کرنے کے لیے ذرائع اختیار نہ کیے ہوں، بلکہ خاموشی سے اپنے کام میں لگا رہا، بلکہ ہر اس کام او رہر اس صورت سے حتی الامکان اجتناب کرتا رہا ، جس کے نتیجہ میں شہرت حاصل ہوتی ہو ، لیکن الله تعالیٰ کی طرف سے اسے غیر اختیاری شہرت حاصل ہو گئی ، لیکن وہ شہرت کے مضر اثرات سے خودکو بچاتا رہا تو یہ نہ صرف جائز ہے، بلکہ محبوبیت عندالله اور محبوبیت عندالخلق کی علامت ہے ، جیسے اکابر اولیا، اکابر علما وفقہا، اکابر مجاہدین ، بلکہ دین ودنیا کے مختلف شعبوں میں اہم مہارت رکھنے والے حضرات کہ یہ شہرت سے طبعی طور پر متنفر رہے اور رہتے ہیں ، مگر ان کی خدمات کی وجہ سے غیر اختیاری طور پر الله تعالیٰ خلقِ خدا میں انہیں دینی یا دنیوی عزت کا مقام عطا کر دیتے ہیں۔
قریب کے زمانہ میں دارالعلوم دیوبند کے بانی، نام ور عالم اور مشہور محدث ومتکلم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی مثال ہمارے سامنے ہے، ان کی سادگی علماء میں ضرب المثل ہے ، شہرت والے تمام اسباب سے دور رہنے کی پختہ عادت کے باوجود آج بھی بڑے بڑے علماء ان کے نام کو قابل ِ احترام گردانتے ہیں ، شہرت کی یہ دوسری صورت خود حدیث شریف کے اندر ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ ”الامن عصمہ الله“․
3. شہرت کی تیسری صورت یہ ہے کہ وہ شہرت کا طلب گار نہ ہو، مگر اسے شہرت حاصل ہو جائے اور یہ شہرت اُس کے لیے مضر ہو جائے ۔ کیوں کہ دینی یا دنیوی طور پر شہرت حاصل ہونے کے بعد تکبر ، عُجب، ظلم اور خودرائی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں او رکشا ں کشاں یہ آدمی اگر احتیاط نہ کرے او رالله تعالیٰ جل شانہ اس کی حفاظت نہ فرمائیں تکبر او ران جیسی خرابیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے او ربعض اوقات وہ حاسدین کے نرغہ میں آجاتا ہے، نیز شہرت کے بعد دنیوی طور پر اس کے لیے چلنا پھرنا، بلکہ اپنی ضروریات او رحاجات زندگی کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے ، لوگ اسے گھیرے رکھتے ہیں او راس سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں ، جس سے اس کی ذاتی زندگی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے ، بلکہ ایسے مشہور شخص کے لیے پانچ وقت مسجد میں نماز باجماعت کے لیے آنا جانا تک ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور یہ اس شہرت کے ہاتھوں اپنی آزادی سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے ، اسی کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا ”وان کان خیرا فشر“ یعنی اگر آدمی اچھا ہو تو بھی یہ شہرت اس کے لیے بُری ہے۔
4. چوتھی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی ذاتی شہرت کے لیے خو دایسے ذرائع اختیار کرے کہ لوگ اس کی طرف مائل ہوں او راس کا اکرام کریں ، تاکہ اسے دنیوی مفادات حاصل ہوں ، اس صورت کے بُرے ہونے میں کیا شبہ ہے ؟ یہ سب کچھ ریا کاری ، دکھاوا ہے اور دکھاوے اور ریا کاری کے گناہ کبیرہ ہونے میں کیا شبہ ہے؟
5. دینی شہرت کی ایک صورت وہ ہے، جسے آدمی لاشعوری طور پر اختیار کرتا ہے اور وہ یہ کہ وہ نارمل طریقہ سے دین ودنیا کا کام کرنے کے بجائے، شرعی اور عقلی حد سے بڑھ کر ایسے کام کرے ، جس سے اس کی شہرت لازمی طور پر ہوتی ہو۔ اس کی آسان مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص درست عقیدہ کا مالک ہو ، پنچ وقتہ نماز باجماعت کا عادی ہو ۔ رمضان کے روزے، سالانہ زکوٰة، عمر بھر میں ایک مرتبہ کا حج فرض ادا کرتا ہو ، حسب استطاعت سنت کے مطابق نوافل ومستحبات کو اپناتا ہو ۔ والدین، بیوی ، بچوں، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرتا ہو ، اپنے مالی معاملات میں الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکام کا خیال رکھتا ہو ، ملازمت ، تجارت، زراعت وغیرہ میں اپنے واجبات صحیح طریقہ سے ادا کرتا ہو ، بڑے اور چھوٹے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہو ، دینی کاموں ، دینی افراد سے محبت کرتا ہو او راپنی استطاعت کے مطابق مناسب حدود کے ساتھ اس میں حصہ لیتا ہو تو وہ ایک مثالی مسلمان ہے ، قابل صد احترام ہے ، مگر خلقِ خدا میں اس کی شہرت نہ ہو گی ، کیوں کہ یہ سب کام نارمل دینی کام ہیں ، جو اچھے، صالح، دین دار لوگ کرتے ہیں۔
اس کے بخلاف اگر کوئی شخص حد سے بڑھ کر کام کرے ، مثلا حد سے زیادہ نمازیں ، حد سے زیادہ روزے رکھتا ہو یا وہ شرعی حدود سے زیادہ دینی کام اختیا رکرے تو عوام میں اس کی شہرت ہو جاتی ہے ، مگر یہ دینی شہرت اس کے لیے دین ودنیا کے اعتبار سے نقصان دہ ہے ، کیوں کہ اس نے اعتدال کا اور سنت مطہرہ کا راستہ چھوڑ کر ، انتہا پسندی اور افراط کا راستہ اختیار کر لیا ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں واضح الفاظ میں اس کی تعلیم دی ہے کہ ہم ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کریں اور حدود سے نکلے ہوئے کاموں او رحد سے زیادہ دینی محنت کا راستہ اختیار نہ کریں۔
صحیح بخاری میں امام بخاری نے باب قائم فرمایا( او را س طرح کا باب دیگر کتب حدیث میں بھی قائم کیا گیا ہے اور تصوف وسلوک کی ہر اہم کتاب میں یہ بات ذکر کی جاتی ہے)”باب القصد والمداومة علی العمل“ یعنی دینی اعمال میں بھی اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
اس باب میں میں امام بخاری نے کئی احادیث ذکر کی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ:”عن ابی ہریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لن ینجی احدا منکم عملہ․ قالوا: ولا انت یا رسول الله؟ قال: ولا ان، الا انا یتغمدنی الله برحمتہ، سددوا، وقاربوا، واغدوا، وروحوا، والقصد القصد تبلغوا“․(تشریح کے لیے دیکھیں فتح الباری ص:294، ج:11)
ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: تم میں سے کسی کا عمل ہر گز اُسے نجات نہیں دے گا، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول الله! آپ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا میں بھی نہیں ، ہاں! مگر یہ کہ الله تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے ( یعنی نجات اس کی رحمت سے ہو گی)۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: اعتدال کا راستہ اختیار کرو اور اعتدال کے راستہ کے قریب رہو، صبح وشام نفلی عبادات کر لیا کرو، اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اعتدال کا راستہ اختیار کرو( دو مرتبہ فرمایا) تم جنت پہنچ جاؤ گے۔ (بخاری شریف)
اس طرح کی بات جامع ترمذی کی ایک روایت میں اس طرح آئی ہے:قال النبی صلی الله علیہ وسلم: ”ان لکل شيء شرة، ولکل شرة فترة، فان صاحبھا سدد وقارب فارجوہ، وان اشیر الیہ بالاصابع فلا تعدوہ․“(مشکوٰة المصابیح، باب الرباء، والسمعة)
ترجمہ:رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کے لیے کچھ تیزی ہوتی ہے، پھر وہ تیزی ڈھیلی ہوتی ہے ، اب اگر ایسا شخص اعتدال کا راستہ اختیار کرے اور اعتدال کے قریب قریب رہے تو اس سے ( خیر کی ) امید رکھو ، لیکن اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جانے لگے تو اسے کچھ شمار مت کرو۔
اس حدیث شریف سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اعتدال کا راستہ چھوڑ دینے سے اگرچہ شہرت ہو جاتی ہے ، لوگ انگلیاں اٹھا اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، مگر یہ راستہ خیر اور سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ اس سے بچنا لازم ہے۔
خلاصہ: ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آدمی کو دینی معاملات میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ شہرت بذات خود کوئی اچھی چیز نہیں، اس کا یا دینی نقصان ہوتا ہے یا دنیوی۔ ہاں! مگر جسے الله تعالیٰ محفوظ رکھے، اس لیے حتی الامکان از خود کبھی بھی شہرت کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ وفقنا الله تعالیٰ لما یحبہ ویرضاہ․