Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

3 - 18
ہجرت کے دو سبق
ما سٹر پلا ننگ اور اللہ پر اعتماد
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
اللہ رب العز ت نے محض اپنے فضل و کر م سے انسا ن کی صحیح ر ہبر ی کے لیے حضرات انبیا ء علیہم السلام کو مبعو ث فر ما یا اور انبیا پر وحی نا ز ل فر ما کر اپنے کا مل علم اور حکمت تامہ سے انسا ن کی راہ نمائی کی ۔

انبیا ئے کر ام علیہم السلام جہا ں لو گو ں کو وحی او ر شر یعت بیا ن کر تے تھے وہیں سب سے پہلے خود اس پر عمل کر تے تھے ،گو یا تھیو ریکل اور پر یکٹیکل دونو ں طر یقے سے انسا ن کو شریعت کے قا بل عمل ہو نے کو بتلا تے تھے ،اسی لیے تو اللہ رب العزت نے انبیا کو انسا نو ں ہی میں سے مبعو ث کیا ،کسی فرشتے یا جِن کو نبی نہیں بنا یا، ورنہ انسان بہا نے بنا تا، کہ وہ تو طا قت ورہیں، وہ تو کھا نے پینے کے محتا ج نہیں ،ان کے بیو ی بچے نہیں ہوتے ، ان کو قضا ئے حا جت کی ضرورت نہیں ، مگر ہما رے سا تھ تو سب لگا ہوا ہے ہم کیسے عمل کر یں گے ؟ مگر اب انسان کے لیے کو ئی عذر نہیں ، کیوں کہ انبیا انسا ن گزرے ، وہ تمام ضرورتیں ان کو در پیش تھیں ،جو ہر انسا ن کو ہو تی ہیں، لہٰذا انسا ن کے لیے سلامتی اور بھلا ئی اسی میں ہے کہ وہ انبیا ء کے قو ل و فعل کو مکمل طو ر پر اختیا ر کر لے ۔

تا ریخ اس با ت پر شا ہد ہے کہ ہمیشہ انبیا کے نقش قد م پر چلنے والے کا میا ب اور انبیا کے راستہ کو ترک کر نے والے نا کا م اور نا مر اد ہوئے ہیں، آ ج کے اس گلو بل ولیج کا بھی یہی حا ل ہے، مغر بی فلسفہ تاریخ (بے بنیاد ) تہذیب (ہلا کت خیز ) ثقا فت سے اور تو اور مسلمان بھی حد درجہ متأثر ہو گیا ہے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیما ت اور دستور حیا ت کے ساتھ بڑ ی جرات کے ساتھ نبر د آزما ہے، جہا ں دیکھو قر آ ن و حدیث کو چھوڑ کر خود ساختہ مغر بی قوا نین کو نا فذ کیا جا ر ہا ہے، جس کو تجر بہ اور تا ر یخ نے نا مر ا د ٹھہر ا دیا ہے ،ایسے آوٹ آف ڈیٹ قو انین کے اجر ا کو پور ی دنیا کے حکم ر ا ن اپنے لیے باعث صد افتخار سمجھ رہے ہیں، حکم ران تو حکم ر ان! عوام اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی اسی رو میں بہ رہا ہے، صحیح اسلامی تہذیب وثقا فت سے بے نیا ز ہوکر مغر بی فیشن زدہ تکلفا ت اور اخر ا جا ت سے بھرپور فضو ل خر چی پر مشتمل زندگی گزا رنے پر تُلے ہوئے ہیں ، جس کا انجام کبھی نہ اچھاہوا نہ ہو گا۔ یا لیت قو می یعلمو ن ہا ئے کا ش! کہ میر ی قوم ہو ش کے نا خن لے ۔

اس تمہید کے بعد آئیے اب ہجر ت نبوی سے حا صل ہو نے والے چند اہم تر ین اسبا ق کو معلوم کرتے ہیں کہ ایسے کٹھن حا لا ت میں جب جان مال اور ایما ن کا بچا نا دشوا ر ہو چکا تھا، قدم قدم پر خطرات تھے ، آ ج ہما را بھی یہی حا ل ہے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالا ت کا کیسے مقا بلہ کیا ؟

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعو ةِ حق کا کا م مکہ میں ایسے زما نہ میں شر و ع کیا جب ہر جانب ضلالت اور گمر ا ہی کا دو ردورہ تھا ،اس وقت کے حالا ت آج سے کہیں زیا دہ ابتر اور ہو لنا ک تھے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے حالا ت سے دل بر داشتہ نہ ہو ئے ،نہ کسی سے شکو ہ شکایت کی، بلکہ صبر واستقا مت کا پہا ڑ بن کر جمے رہے بلکہ کبھی کبھا ر مکہ کے مظالم سے تنگ آکر اگر صحا بہ شکا یت کر تے، تو انہیں بھی تسلی دیتے اور امم ِسا بقہ میں اہل حق پر گز رے بد ترین احوال بیا ن کر تے اور کہتے کہ ان کے حالا ت ہم سے بھی کہیں ابتر تھے، لہٰذا وہ جیسے جمے رہے تم بھی جمے رہو ۔

آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغلو بیت کی حالت میں تیر ہ سا ل گزارے اور غالبیت کے حالات میں مشکل سے دس سا ل ،گو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مسلما نو ں کے لیے بھی اسو ہ ہیں جو کفار اور مشرکین میں زند گی گزا ر رہے ہوں اور ان کے لیے بھی جو کسی دار الا سلام میں زند گی بسر کر رہے ہوں۔ آ پ کے مکہ کے فیصلے بغیر کسی مدا ہنت کے مبنی بر مصلحت ہوتے تھے اور مدینہ کے فیصلے حکمت کے سا تھ جر أ ت مندا نہ ہو تے تھے ۔

آ پ نے سیر ت میں پڑھا ہو گا کہ مکہ میں آ پ دار ارقم میں پو شیدہ طو ر پر ”تعلیم ِدین“کا کا م کرتے تھے، البتہ تبلیغ کھلے عا م کر تے تھے، آ پ نما ز خفیہ طر یقے سے پڑ ھتے تھے او ر اخلا ق کر یما نہ و حسنہ کا فراخ دلی کے سا تھ مظاہر ہ کر تے تھے ، آ پ نے مکہ میں کو ئی بھی فیصلہ جذبا ت میں آکر نہیں کیا، بلکہ بڑے عمدہ اسلو ب کے سا تھ حالا ت سے نمٹتے رہے اور تبلیغ دین کے لیے مکمل کوشا ں رہے ،مگر خاطر خوا ہ فا ئدہ نہ ملا تو وحی کے اشا ر ے پر مکہ جیسے مقدس وطن کو خیر آبا د کہہ کر مدینہ کی طرف ہجرت کے لیے تیار ہو گئے ،اللہ تعالیٰ نے بھی فوری طورپرجہا د کا حکم نازل نہیں کیا بلکہ مدینہ پہنچنے پر جب قدر ے قو ت حاصل ہو ئی تب جا کر جہا د کا حکم نازل کیا، لہٰذا جو مسلمان کفار اور مشرکین میں میں رہتے ہیں، پہلے انہیں اسباب پر نظر کر نی چا ہیے ، اگر اسبا ب ہیں ،تو ٹھیک !ورنہ اپنے طور پر مکمل طر یقے سے شریعت پر عمل کر نا چا ہیے اس کے بعد اگر دین کے بار ے میں خطر ہ محسو س ہو تو کسی پر امن مقا م کی طر ف، جہاں دین کو بچا یا جا سکے اور دین پر مکمل آ زاد ی سے عمل ہو سکے، وہاں ہجر ت کر لینی چا ہیے ۔میں ہر گز جہا د کا استخفا ف نہیں کر رہا ہوں، بلکہ جو لو گ اسبا ب کے دست یا ب نہ ہو نے کے با وجو د جذبا ت میں آکر فیصلہ کر تے ہیں، میں انہیں اسو ہ نبی کی طرف دعو ت دے رہا ہو ں، ورنہ میرے نز دیک بے شک جہا د ایک افضل ترین عبادت ہے، جب وہ اصول شر ع کی رعا یت کے سا تھ ہو ۔

نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مدینہ آ نے کے بعد غلبے کی زندگی رہی، جس میں آپ نے پور ی جر أ ت کے سا تھ کا م لیا، مگر اخلا ق اور عفو ودر گز ر کی را ہ یہاں بھی تر ک نہیں کی، البتہ اسلامی احکام کو مدینہ منو رہ میں بلا کسی شش وپنج کے نا فذ کیا اور جہا د کا راستہ اختیار کیا اور یہ امر مسلم ہے کہ مسلمانوں کی کا م یابی کا راز یہی جہا د ہے، آپ تا ریخ کا مطالعہ کر یں، جب بھی مسلما ن حکم رانوں نے جہاد کو اپنا نصب العین بنا یا اور عوام نے بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیا اللہ نے مسلما نوں کو غالب رکھا اور جہا ں مسلما ن حکم راں اور عوا م جہا د سے غا فل ہوئے ، اللہ نے انہیں قعر مذلت میں دھکیل دیا، خلفا ئے را شدین کے بعد بنو امیہ جب تک جہا د سے وابستہ رہے، اللہ نے انہیں اقتدار پر بر قر ار رکھا، ان کی بہت ساری کمزوریوں کے با وجو د۔ مگر جہاں انہوں نے جہا د سے گریز کرنا شر و ع کیا اللہ نے انہیں اقتدار سے کنا رے پر لگا دیا اور بنو عبا س کو اقتدار سونپ دیا، پھر جب بنوعباس نے جہاد سے رو گر دانی اختیار کی تو کہیں ایوبیو ں کو، کہیں ممالیک کو کہیں زنگیو ں کو، کہیں عثمانیوں کو،لیکن جب جب ان سے جہادکے سلسلہ میں پہلو تہی کے آ ثا ر نظر آ ئے، اللہ نے انہیں اقتدار سے ور ے کر دیا، اگرآپ عثمانیوں کے ابتدا ئی خلفا کی تا ریخ پرنظر ڈالیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ ان کا جذبہ جہاد کتنازبر دست تھا، خا ص طو ر پر ان کے جد امجد عثما ن کی وصیتو ں کو پڑ ھیں تو رو نگٹے کھڑ ے ہو جا ئیں گے، مگر جب یہ تعیش میں مبتلا ہو گئے، تو اللہ نے ان کو اکھاڑ پھینکا ،یہاں تک کہ امت خلافت جیسی عظیم نعمت سے بھی محروم ہوگئی، جب امت نے عمومی طور پرجہاد سے بے زاری کامظاہرہ کیااورہنوز حالات اسی طرح بدسے بد تر ہوتے جارہے ہیں، یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امتِ مسلمہ کی اکثر یت بالخصوص65 مسلم ممالک کے حکم ر ان علم جہاد بلند نہ کر دیں۔

غرضیکہ غلبے اور مغلوبیت دونوں احوال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی امت کے لیے مشعل راہ اور اسوہ حسنہ ہے۔

اصل بات یہ بیان کرنی تھی کہ ہجرت سے حاصل ہونے والے سب سے اہم درس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ”ماسٹر پلاننگ“ اور اللہ کی ذات پر اعتماد۔

ذرا واقعہ ہجرت کو غور سے پڑھیں اور اس سے بصیرت حاصل کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت عمل اور تحریک کو اشارہٴ خداوندی پر شروع کیا اور آپ نے تبلیغ ِدین اور دعوتِ توحید کے لیے انتھک محنت کی، مگر بسیار کوشش کے باوجود دس سال کے طویل عرصہ میں خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ ہوسکی ۔ ایک تحقیق کے مطابق اس عرصہ میں تقریباً 350افراد اسلام میں داخل ہوئے، البتہ اتناضرورہے کہ پیغامِ توحید کے چرچے مکہ سے دور دراز علاقوں میں بھی ہونے لگے، یہاں تک کہ مدینہ میں بھی اس کی خبر پہنچی اورحج کے موقع پر چند مدینہ کے ذہین لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام میں داخل ہوئے اور آپ کے ہاتھ پربیعت کی ، جس کو ”بیعةعقبہ اولی“ کہاگیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو داعی اسلام بناکر مدینہ روانہ کیا، جنہوں نے بڑی حکمت سے دعوت کا یہ عظیم کام انجام دیا ، یہاں تک کہ اوس وخزرج کے بڑے بڑے سردار اسلام میں داخل ہوگئے اور دوسرے سال حج پر یہ لوگ آئے اور”بیعة عقبہ ثانیہ “ہوئی، جودرحقیقت ہجرت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دولتِ اسلامیہ کے قیام پر بیعت لی اور پھر آپ نے12افراد کو نقیب بنایا، جو اہل مدینہ کی مکمل نگرانی کریں اور جب دیکھا کہ مدینہ میں مسلمانوں کو اچھا خاصہ اثر و رسوخ حاصل ہوگیاہے تو مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا، قربان جائیے حضرات صحابہ کرام پر کہ وہ مکہ جیسے وطن کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف محض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اشارہ پر ہولیے اور اکثرو بیشترکے چلے جانے کے بعد انتہائی منظم انداز میں آپ نے بھی ہجرت کی اور بس پھر کیا تھا ! اسلام نے اپنی جڑیں گا ڑدیں اور ﴿اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء﴾ کا مصداق بن گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ”ماسٹر پلاننگ“
دنیا دار الاسباب ہے، لہٰذا بندہ اسباب کو اختیار کرنے کامکلف ہے، مگرا سباب کے اختیار کرنے میں دو چیزیں پیش نظر ہونی چاہئیں ، ایک مسبب الاسباب پر اعتماد، یعنی اللہ کی ذات پر اور دوسری چیز مکمل ومرتب انتظام و انصرام، جس کو آج کی عصری زبان میں ”ماسٹر پلاننگ“ کہا جاتا ہے، آج ہماری ناکامی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ نہ ہم اسباب اختیار کرتے ہیں، نہ مسبب الاسباب پر نظر رکھتے ہیں،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اسی کا درس دیتی ہے، تو آئیے ہم آپ کی پلاننگ کا جائزہ لیتے ہیں:

1.  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہجرت سے پہلے اہل مدینہ کو بیعت عقبہٴ ثانیہ میں دولت اسلامیہ کے قیام پر آمادہ کیا ،کیوں کہ حضرت جابرکے بیان کے مطابق آپ نے بیعت میں ایک جملہ یہ بھی کہا تھا:”وعلی ان تنصرونی ان قدمت الیکم، وتمنعونی مما تمنعون منہ انفسکم“ کہ ”تم میری مدد کروگے، اگر میں تمہارے پاس آوٴں اور ان تمام چیزوں سے میری حفاظت کروگے جس سے تم اپنی حفاظت کرتے ہو۔“

2.  ان میں اتحاد اور اتفاق بر قرار رکھنے کے لیے اور ان کے اندر قائدانہ صلاحیت پیداکرنے کے لیے 12آدمیوں کو نقیب بنایا اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں حضرت عیسیٰ کے حواریین کا ہم مثل قرار دیا۔

3.  پہلے بذات خود ہجرت کرنے کے بجائے صحابہ کو مدینہ پہنچنے کاحکم دیا، تا کہ صحابہ کسی بڑی مصیبت میں گرفتا ر نہ ہونے پائیں، کیوں کہ اگر آپ پہلے ہجرت کرجاتے ،تو اہل مکہ چوکنے ہوجاتے اور صحابہ کو ہجرت سے پوری شدت اور ناکابندی کے ساتھ روکتے۔

4.  خودہجرت سے پہلے حضرت ابوبکر کے ذریعہ سواریوں اور راستہ دکھانے والے رہبر کا انتظام کرلیا ،تاکہ عین وقت پر کوئی پریشانی لاحق نہ ہونے پائے۔

5.  ہجرت کے دن دوپہر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لے گئے، جس وقت سخت گرمی کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہوتے تھے، تاکہ کسی کو پتا نہ چل سکے کہ آپ کب اورکہاں اور کس کے ساتھ نکلے ۔

6.  رات تک حضرت ابوبکر کے گھر پر قیام کیا اور جب رات ہوئی تو گھر کے مرکزی دروازے کے بجائے پچھلے دروازے سے نکلے۔

7.  رہبر سے وعدہ کرلیاکہ وہ فلاں دن فلاں مقام پر اونٹیاں لے کر آجائے اور اس وقت موعود سے تین یوم قبل ہی بستی کو چھوڑدے۔

8.  تین یوم تک غارِحرا میں قیام کیا، اس دوران کفارمکہ تلاش کرکرکے تھک گئے اور مایوس ہوکر بیٹھ گئے۔

9.  حضرت عبد اللہ بن ابی بکر کو اس بات کا مکلف کیا کہ وہ مکہ اور اہل مکہ کی خبریں ان کو آکر بتادیا کریں اور وہ بھی رات کے وقت۔ اس طرح آپ دشمنوں کے منصوبوں سے واقف ہوتے رہے اور دشمن کو مات دینے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہوتاہے کہ اس کی تمام حرکات وسکنات پر نظر رکھی جائے۔

10.  حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہا نے ان کے کھانے پینے کا انتظام فر ما لیا تھا اور خفیہ طریقہ سے کھانا پہنچاتی تھیں ،تا کہ طویل سفر کے دور ان کھانا نہ کھانے سے کم زوری کا سامنا نہ ہو۔

11.  عامر بن فہیرہ، جو حضرت ابوبکر کے غلام تھے، بکریوں کا ریوڑ لے کر غار تک آتے تھے ،جس سے حضرت اسماء اور حضرت عبد اللہ کے نشانات قدم مٹ جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ بھی میسر ہوجاتاتھا۔

12.  مدینہ جانے کے لیے عام اور مشہور راستہ کو چھوڑ کر غیر مشہور راستہ کو اختیار کیا ،کیوں کہ دشمن مشہور را ستہ پر گھات لگا ئے بیٹھے تھے ۔

آپ اندازہ لگائیں!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح”ماسٹر پلاننگ“ کے ساتھ ہجرت کی ،معلوم ہوا کہ کام یابی اسی وقت قدم چومتی ہے ،جب بندہ اسباب کو اختیار کرے اور احتیاط اور حسن تدبیر سے کام لے ،جس کو” ماسٹر پلاننگ“ کہتے ہیں ، مگر افسوس!کہ آج مسلمانوں میں یہ اوصاف اورحسن تدبیر مفقود ہو چکی ہے ، ہمارے علما، طلبا، عوام ،سیاست داں، تجارت پیشہ قائدین سب مکمل اور مرتب انتظام سے غافل ہیں، جب جو جی میں آیا اس کے نتائج پر غور کیے بغیر کر گذرتے ہیں، جس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا ،دشمن بھی ہماری اس بد نظمی سے بخو بی واقف ہے ۔لہٰذا وہ پلاننگ کے ساتھ ہمارے خلاف سازش رچتاہے اور اکثر کام یاب بھی ہوجاتا ہے۔

جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت سے ”ماسٹر پلاننگ“ کا سبق ملتاہے، وہیں مسبب الاسباب پر اعتماد بھی آپ کی کام یابی کااہم ترین راز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غار میں روپوش تھے اور کفارِمکہ غار کے دہانے سے گذرے ،تو حضرت ابوبکر کی گھبراہٹ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا ”لَاتَحْزَنْ ِانَّ اللّٰہَ مَعَنَا“کہ ابوبکر! گھبراوٴ نہیں ، اللہ ہمارے ساتھ ہے، ایسی سخت ترین گھڑی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ”اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا“ کہنا، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتماد علی اللہ کا غماز ہے، وہیں حضرت ابوبکر کی تربیت میں بھی اہم رول اداکرتاہے،جو ہر قا ئد کے لیے قا بل تقلید عمل ہے، کیوں کہ حضرت ابوبکر نے ایسے سخت ترین حالات میں بھی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند حوصلگی اور اعتمادعلی اللہ کو دیکھا، تو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد جو بدترین حالات پیدا ہوئے، اس میں بڑے مدبرانہ اور جرأت مندانہ فیصلے کیے، جس سے بظاہراسلام پر منڈلانے والے خطرات ٹل گئے اور قیامت تک عقائد اسلام کے بارے میں تاویل کے دروازے بند ہوگئے اور یوں اسلام کو دوام حاصل ہوگیا ، اسی لیے حضرت ابوہریرہ اور عبد اللہ بن مسعود نے کہا: ”لَوْلَا اَبُوْبَکر بَْینَنَا بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہَلَکْنَا“اگر ابوبکر وفات نبوی کے بعد نہ ہوتے، تو ہم ہلاک ہوجاتے۔

سراقہ بن مالک کسی طرح تعاقب کرتے ہوئے پیچھے ہولیے ،مگر بار بار گھوڑے کے دھنس جانے نے ان کو ہتھیار ڈالنے پرمجبور کردیا، اس موقع پر بھی آپ ڈرے سہمے نہیں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ کی ذات پر مکمل اعتماد کیا۔

اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان کی کام یابی کا ایک اہم رازمسبب الاسباب پر نظراور اعتمادے، آج ہمارے اندر اس کابھی فقدان ہے، اللہ رب العزت ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اسباب کو اختیار کرکے پلاننگ کے ساتھ ہر کام کرنے کی توفیق عطافرمائے ، اللہ ہمیں اسباب کے ساتھ ساتھ مسبب الاسباب پر ہمیشہ اپنی نظر مرکوز کرنے والا بنائے اور بدترین حالات میں امت کی بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو کنارے لگادے اور ہر طرح کے شرور وفتن سے ہماری حفاظت فرمائے، ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور ہمیں اپنی رضا والے اعمال کی توفیق دے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہوجائے، آمین ۔ 
Flag Counter