اسلام کی بنیادی تعلیمات، توحید، نبوت ورسالت
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
بسم الله الرحمن الرحیم
﴿سورة البقرہ﴾
نام اور وجہ تسمیہ
اس سورت کے متعدد نام ہیں، تاہم”البقرة“ کے نام سے معروف ہے، ”بقرة“ عربی زبان میں گائے کو کہتے ہیں ، چوں کہ اس سورت میں بنی اسرائیل کے ایک واقعے میں ”بقرہ“ کا تذکرہ ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام بقرہ ہے۔
فضیلت
احادیث صحیحہ میں سورت بقرة کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہر چیز کا ایک اعلیٰ ترین حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کا اعلیٰ ترین حصہ ”سورة بقرة“ ہے ۔“ ( جامع الترمذی، ابواب فضائل القرآن، رقم الحدیث:2878)
ایک او رحدیث میں ارشاد فرمایا” اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ ( تلاوت سے آباد رکھو)، جس گھر میں سورة بقرة کی تلاوت ہوتی ہے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔“ (صحیح مسلم، کتاب الصلاة، رقم:780)
خلاصہ سورة بقرہ
سورة بقرہ کے مضامین اسلام کی بنیادی تعلیمات ، توحید، نبوت، رسالت اور قیامت پر مشتمل ہیں، انہیں بنیادی عقائد کو مختلف مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ، اسی سورت میں بنی اسرائیل کے ایک معروف واقعے کا تذکرہ ہے ، جس میں ایک مذبوحہ گائے کا ٹکڑا مقتول کو لگا تو وہ زندہ ہو کر قاتل کی نشان د ہی کرنے لگا۔ اس واقعے سے ان تینوں بنیادی عقائد پر روشنی پڑتی ہے ۔ ایک طرف تو اس میں الله تعالیٰ کی شان الوہیت اور کمالِ قدرت کے ادنیٰ کرشمہ کا اظہارہے، دوسری طرف یہی واقعہ حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت ورسالت کی تصدیق کے لیے عظیم الشان معجزہ ہے اور یہی معجزہ قیامت کے منکرین کے لیے مقام عبرت بھی ہے کہ وہ غور وفکر سے کام لیں،الله تعالیٰ روز محشر اپنی قدرت سے اسی طرح مُردوں کو زندہ فرمائیں گے، جس طرح اس مقتول کو زندہ فرمایا۔
باقی تمام مضامین مثلاً: راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب، اپنے محبوب بندوں پر انعامات ونواز شات کا تذکرہ، نافرمانوں کے انجام کی خبر، سیاسی ومعاشرتی احکام، جہاد، قصاص، میراث، حج، حیض ونفاس کے احکام، نکاح وطلاق، عدت، حق مہر، بچوں وغیرہ کی تربیت کے متعلق بنیادی اصولوں پر مشتمل ہیں۔
﴿المٓ﴾
قرآن کریم کی بعض سورتوں کا آغاز ایسے کلمات سے ہوتا ہے جو چند حروف سے مرکب ہیں، جیسے المّٓ، طٰسٓمّٓ، ظسٓ چوں کہ ان کلمات کے ہر ہر حرف کو جدا جدا ساکن پڑھا جاتا ہے اس لیے انہیں ”حروف مقطعہ“ کہا جاتا ہے۔
حروف مقطعات کے معانی
یہ حروف متشابہات کی قبیل سے ہیں اور متشابہات کے بارے میں جمہور صحابہ ، تابعین، علمائے امت کا مسلک وہی ہے جسے خلفائے راشدین نے اختیار کیا کہ اس کے ظاہری الفاظ پر ایمان لاکر اس کے معنی ومراد بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے، معنی اور مراد کے متعلق بس اتنا اعتقاد ہی کافی ہے کہ اس کا حقیقی علم الله تعالیٰ ہی کو ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، البقرة، تحت اٰیہ رقم:1)
کیوں کہ ان کی کو ئی تفسیر آپ صلی الله علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، بعض ائمہ مفسرین سے جو معانی منقول ہیں، ان کی حیثیت ایک فائدے اور نکتے کی ہے، تعیین مراد ہر گز نہیں۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے معانی ومراد کا علم صرف الله تعالیٰ کو ہے تو پھر ان کو قرآن کریم میں ذکر کرنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ کی زبانی سنیے، فرماتے ہیں:
”حروف مقطعات کا معنی اگرچہ ہمیں معلوم نہیں، لیکن اس پر ایمان لانا بھی باعث نجات اور ثواب ہے ، پھر اس کی تلاوت کرنے کے بھی معنوی فوائد او ربرکات ہیں، اگرچہ ہمیں معلوم نہ ہوں۔ (ایضاً)
حروف مقطعات کی بابت مودودی صاحب کا موقف
مودودی صاحب کا موقف ہے کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم حروف مقطعات کی مراد سے بخوبی واقف تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ اسلوب بیان متروک ہو گیا او راس وجہ سے معانی میں اختلاف پیداہو گیا، چناں چہ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔
”یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو ، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے، کہ ان سے مراد کیا ہے … بعد میں یہ اسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا او راس بنا پر مفسرین کے لیے ان کے معانی متعین کرنا مشکل ہو گیا۔“(تفہیم القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:1)
(مودودی صاحب کا فکری وشخصی تعارف:سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب25 ستمبر1903ء کو اورنگ آباد حیدر آباد دکن، ہندوستان میں پیدا ہوئے، آپ کا خاندان ایک خاندانی بزرگ قطب الدین مودودچشتی کے نام نامی سے منسوب ہے، جو، ہرات میں متوطن اور خواجہ معین الدین چشتی کے شیخ الشیوخ تھے۔آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ، والد محترم کے انتقال کے بعد تعلیم میٹرک سے آگے، نہ بڑھ سکی۔ لیکن شب وروز کے مسلسل مطالعے سے اپنی قابلیت میں غیر معمولی اضافہ کیا اور اردو انشا پردازی میں کمال حاصل کرکے مختلف رسائل واخبار کی ادارت سنبھالی۔1941ء میں ایک سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھی۔
چوں کہ مودودی صاحب کے دینی علوم وافکار کا مدار اپنا مطالعہ اور ”اپنی فہم“ تھی، اس لیے ان کا قلم متضادرویوں کا حامل رہا، قرآن کریم کی تفسیر پر قلم اٹھایا تو اسلاف کے پیمانے سے ہٹ گئے ، بلکہ کہیں کہیں تو اس تفسیر وتشریح کے ڈانڈے تحریف سے جاملتے ہیں۔”تفہیم القرآن“ میں مودودی صاحب نے بائبل پر اعتماد، حدیث پر بد اعتمادی، من مانے قیاسات، خوارق ومعجزات سے انکار، انبیائے کرام وصحابہ کرام کی کردار کشی اورمنفرد فقہی نظریات کا جابجا اظہار کیا ہے۔
مودودی صاحب کے بعض رفقانے کسی مصلحت کے پیش نظر ”تفیہم القرآن“ کی نئی طباعتوں میں بہت سے قابل اعتراض مقامات حذف کر دیے ہیں تاہم اب بھی نظر وفکر کے ایسے زاویے موجود ہیں جو امت مسلمہ کے جانے بوجھے پیمانوں سے ہٹے ہوئے ہیں، موقع بموقع ان کا ذکر آتا رہے گا۔ )
مودودی صاحب کے مؤقف پر ایک نظر
خلفائے راشدین وجمہور صحابہ کرام رضی الله عنہم تو پوری زندگی یہی کہتے رہے کہ حروف مقطعات متشابہات کے قبیل سے ہیں، ان کے معنی مراد کا علم الله تعالیٰ کو ہے ، لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں:” یہ مقطعات کوئی چیستاں نہ تھے، جن کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو۔“
جن صحابہ کرام رضی الله عنہم سے بعض معانی منقول ہیں انہوں نے یہ معانی ایک فائدے اور لکھنے کی حیثیت سے بیان کیے ، کسی صحابی رضی الله عنہ سے یہ دعوی منقول نہیں ہے کہ زبانِ نبوت سے جب فلاں حروف مقطعات جاری ہوئے تھے تو ہم نے اس کے یہ معنی سمجھے تھے، لیکن مودودی صاحب فرماتے ہیں:” سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے ۔“
اگر مودودی صاحب کا موقف درست تسلیم کر لیا جائے تو صحابہ کرام رضی الله عنہم کی امانت ودیانت پر حرف آئے گا کہ حروف مقطعات کے معانی ومراد کا علم ہونے کے باوجود امت کو اس خزانے سے محروم رکھ کر خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔ (معاذ الله) او ران کی دیانت بھی اس وجہ سے قابل اطمینان نہ رہے گی کہ انہوں نے اسلوب بیان کے متروک ہونے کے بعد علوم نبوت کی حفاظت سے غفلت برتی او راپنے ذہن وفکر کے تمام گوشوں سے وہ معانی ہی مٹا دیے جو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی تلاوت کے وقت سمجھے تھے۔ جب صحابہ کرام رضی الله عنہم کی امانت ودیانت کی ضمانت ہی مشکوک ٹھہری تو علوم شریعت کے محفوظ او رصحیح ہونے کی ضمانت کس طرح دی جاتی ہے؟
لسانیات سے متعلق ادنی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی مودودی صاحب کے موقف کو تسلیم کرنے میں تامل کرے گا، مودودی صاحب کے مضمون کے پیش نظر دیکھا جائے تو ایک طرف اس اسلوب کا چلن اس قدر عام تھا کہ بولنے والے کو اس کے معنی بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی دوسری طرف یہ اس قدر جلدی متروک ہو گیا کہ اپنی فہم سے سمجھنے والے بھی اپنی زندگی کے کسی حصے میں بیان کرنے سے قاصر رہے ۔ کسی زبان کا اسلوب اس قدر تیزی سے بدل جاتا ہے ؟ اسلوب بدلنے سے معنی بھی کلیةً معدوم ہو جاتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مودودی صاحب کا یہ دعوی حقائق سے بہت دور اور شک وشبہ کی ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر اسلام کا اپنی پسند کا محل تعمیر کیا جاسکتا ہے۔
﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾․
ترجمہ: اس کتاب میں کچھ شک نہیں۔
”ذَلِکَ“ اسم اشارہ بعید کے لیے ہے۔ یعنی جس چیز کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے اگر وہ دور ہو تو ”ذَلِکَ“ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات وہ چیز تو قریب ہی ہوتی ہے، لیکن مرتبت او رمنزلت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتی ہے اس مقامِ بلند کے اظہار کے لیے بھی اسم اشارہ بعید ”ذَلِکَ“ لے آتے ہیں۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:204، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
یہاں قرآن کریم اپنے وجود کے اعتبار سے تو ہمارے بہت قریب ہے، لیکن اپنی شان اور درجے کے اعتبار سے ہمارے وہم وخیال سے بھی بلند وبالا ہے، اسی کے اظہار کے لیے فرمایا گیا۔﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ﴾․
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اورتابعین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ذلک(اسم شارہ بعید) ھذا(اسم اشارہ قریب) کے معنی میں استعمال ہوا ہے، کیوں کہ عربی محاورے میں دونوں اسم ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔( تفسیر ابن کثیر، البقرة،تحت آیة رقم:2)
”الْکِتَابُ“ عربی عرف میں ”لکھی ہوئی چیز“ کو کہتے ہیں۔ (مفردات القرآن للراغب، ص:442، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ میں ”الْکِتَابُ“ سے قرآن کریم مراد ہے۔ اس پر شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت تو قرآن کریم مکمل نہیں ہوا تھا تو پھر ” الکتاب“ سے قرآن کریم مراد لینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ”کتاب“ کا اطلاق ان آیات پر بھی ہو سکتا ہے جو بعد میں نازل ہونے والی ہوں۔ چناں چہ قرآن کریم کی اس آیت:﴿کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہ﴾․(سورہ ص، آیت:29) میں کتاب کا طلاق ان آیات پر بھی ہوا ہے جو بعد میں نازل ہوئیں، کیوں کہ اس آیت کے نزول کے وقت قرآن کریم نہ کتابی صورت میں تھا اور نہ ہی مکمل شکل میں اتر چکا تھا۔
ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ”الکتاب“ سے قرآن کریم کی وہ کتابت مراد ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے۔
پرویز صاحب کے نزدیک ”الکتاب“ کا معنی
( پرویز صاحب کا فکری وشخصی تعارف:”غلام احمد پرویز صاحب کو منکرین حدیث کے طبقے میں ” مفکر قرآن“ کا درجہ حاصل ہے، پرویز صاحب معروف منکر حدیث اسلم جیراج پوری ( پروفیسر جامعہ ملیہ دہلی) کے فیض یافتہ تھے، عمر کا بیشتر حصہ سرکاری ملازمت میں گزرا، اقبال کے شیدائی تھے، ان کی یاد میں جاری ہونے والے پرچے ماہنامہ”طلوعِ اسلام“ میں اپنے نظریات وافکار آہستہ آہستہ پھیلانے شروع کیے، تفسیم ہند کے بعد آپ دہلی سے کراچی منتقل ہو گئے اور یہ پرچہ منکرین حدیث کا ترجمان بن گیا۔1955ء میں کراچی سے لاہور منتقل ہو گئے اور لاہور ہی میں1985ء میں 82 سال کی عمر میں فوت ہو گئے، مسئلہ تقدیر میں پرویز صاحب نے معتزلہ کی پیروی کی اورکتاب التقدیر لکھی ، انکار معجزہ اور نظریہ ارتقا میں سرسید کے ہم نوا ہو گئے، سوشلزم کو مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے” قرآنی نظام ربوبیت“ نامی کتاب لکھ ماری، شریعت کی اصطلاحات ، کتاب الله، خدا، عبادت، صلوة، زکوٰة، قیامت، جنت ودوزخ کو خود ساختہ معانی کے جامے پہنا کر ان کا مفہوم ہی بدل ڈالا، اسی مقصد کے لیے کئی جلدوں میں ”لغات القرآن“ تصنیف کر ڈالی۔)
پرویز صاحب ”قرآنی فیصلے“ میں الکتاب کا معنی لکھتے ہیں:
”قرآن اپنے آپ کو بار بار کتاب کہتا ہے، پہلی آیت ہی﴿ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾ سے شروع ہوتی ہے اور عرب اسی لکھ ہوئی چیز کو کتاب کہتے تھے جو مدون شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہے۔ (قرآنی فیصلے:668)
پرویز صاحب کو یہ معنی گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پرویز صاحب نے یہ معنی انکارِ حدیث کے موقف کو سہارا دینے کے لیے گھڑا، تاکہ ”کتٰب“ کی مذکورہ تعریف کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاسکے کہ” اگر احادیث بھی دین کا حصہ ہوتیں تو ان کا مجموعہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارک میں امت کے حوالے کر جاتے ، جس طرح قرآن کریم مدون اور کتابی شکل میں امت کے حوالے کر گئے تھے“ مزید تفصیل دیکھیے ۔ (طلوع اسلام، ص:11، فروری1982ء)
کیا آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں مدوّن شکل میں قرآن کریم امت کے حوالے کر گئے تھے؟ پرویز صاحب کے دعویٰ کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے تفصیلی مباحث تفسیر کے مقدمے میں دیکھیے۔ ان شاء الله
پرویز صاحب کی مذکورہ تعریف بے بنیاد ہے
پرویز صاحب کا دعویٰ تو یہی ہے کہ عربی زبان میں کتاب اسی کو کہتے ہیں ” جو مدوّن“ شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو“۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔
بمعنی خط:
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد پرندے کے ذریعے جو خط روانہ فرمایا تھا اسے کتاب سے تعبیر فرمایا﴿اذھب بکتابی ھذا﴾ (لے جا میرا یہ خط) اور بلقیس نے بھی اسے کتاب سے تعبیر کیا﴿انی القی الی کتب کریم﴾ (میرے پاس ڈالا گیا ایک خط عزت کا) اس کا مضمون دو آیتوں پر مشتمل ہے۔
﴿إِنَّہُ مِن سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہُ بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ، أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ﴾․(النمل:31,30)
ترجمہ: وہ خط ہے سلیمان کی طرف سے اور وہ یہ ہے شروع الله کے نام سے، جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے کہ زور نہ کرو میرے مقابلے میں اور چلے آؤ میرے سامنے، حکم بردار ہو کر۔
اب بتائیے اس مختصر خط کو مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
بمعنی فریضہ:
﴿ إِنَّ الصَّلاَةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوتاً﴾․( سورة النساء، آیت:103)
ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
کیا اس آیت کا ترجمہ پرویزی معنی کتاب کے پیش نظر یوں کیا جاسکتا ہے؟ ” بے شک نماز مسلمانوں پر مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت میں موجود ہے اپنے مقررہ وقتوں میں“۔
بمعنی تقدیر:
﴿لَّوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْم﴾․(سورہٴ الأنفال، آیت:68)
ترجمہ: اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا الله پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب۔
کیا مذکورہ آیت میں کتاب سے ”مدوّن شکل اور سلی سوئی صورت” والی کتاب مراد لینے کی گنجائش ہے؟
بمعنی صحیفہ:
﴿وَالطُّورِ، وَکِتَابٍ مَّسْطُورٍ،فِیْ رَقٍّ مَّنشُور﴾․(سورہٴ طور، آیت:3,1)
ترجمہ: قسم ہے طور کی اورلکھی ہوئی کتاب کی، کشادہ ورق میں۔
اس آیت میں کتاب سے لکھی ہوئی چیز مراد ہے، اگرچہ وہ مدوّن شکل اور سلی ہوئی صورت میں نہ ہو۔
کتاب کے مختلف معانی کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ پرویز صاحب کا دعوی کہ ”عرب اسی لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے ہیں جو مدوّن شکل میں سلی ہوئی صورت میں موجود ہو“ بے بنیاد اور بلادلیل ہے۔ اور پرویز صاحب نے لفظ ”کتاب“ کے اردو محاورے سے عوام الناس کو فریب دینے کی کوشش کی ہے ، کیوں کہ اردو میں کتاب اسی کو کہتے ہیں جو مدوّن شکل میں ہو۔
﴿لاَ رَیْْبَ فِیْہ﴾
تفسیر، ایک شبہ کا ازالہ
یہاں ایک شبہ ہو سکتا ہے کہ الله تعالیٰ نے تو اس کتاب سے ہر قسم کے شک کی نفی کی ہے ۔ حالاں کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اس میں شک کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شک ان کے دلوں میں ہے، یہ کتاب محلِ شک نہیں، اس کی مثال قرآن کریم میں ہے:﴿وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَّا رَیْْبَ فِیْہَا﴾․(سورہٴ حج، آیت:7)
ترجمہ: یعنی قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اگرچہ لوگ اپنے دلوں میں شک رکھیں۔ (جاری)