Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

8 - 18
بے فکری ، ظاہری وبا طنی امرا ض کی جڑ
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی
بلا شبہ اکثر امرا ض کی جڑ بے فکری ہے:اکثر غلطیوں بد تمیز یوں کا صدوربے فکری سے ہوتا ہے۔(الافا ضا ت الیومیہ: ج5 /ص292)

بے فکری جرم عظیم ہے:اکثر لوگ نا تمام یا بے تحقیق بات کردیتے ہیں، جس سے دوسروں کو غلط فہمی یا اذیت ہوتی ہے تو یہ اپنی ذات میں معمولی بات ہے، لیکن اس کا منشا ہے بے فکری اور وہ جرم عظیم ہے ․لیکن باوجود اس جرم عظیم کے اگر کسی کافہم صحیح ہے تو اس سے امید اصلا ح کی ہوتی ہے کہ ذرا توجہ کرے گا توقصد اصلا ح سے یہ بے فکری کا مرض جا تا رہے گا۔ (الاضا فا ت الیومیہ :۱/418)

بے فکری کو مکمل طورپر ترک کرنے کی ضرو رت
بے فکری ایسی چیز ہے کہ اس سے دوسرے کو جس قدر اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے، وہ اس بے فکری کی بدولت پہنچتی ہے۔اگر فکرہو، اہتمام ہو، خیال ہوتو کبھی دوسرے کو اذیت نہ پہنچے، لیکن لوگوں کی بے فکری اور بے پروائی کی حد نہیں۔ عادتیں پڑی ہوئی ہیں، چھوڑنا مشکل ہے، اس بے حسی کا کیا علاج کہ نہ اپنی تکلیف کا احساس اورنہ دوسرے کی تکلیف کا احساس۔ (الافاضات الیومیہ : 2/22)

ہرغلطی کا منشا بے فکری ہے
ایک صاحب ایسی جگہ بیٹھے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کو بیٹھنے کا سلیقہ نہیں۔ اس پر وہ شخص وہاں سے اٹھ کر ایک اور صاحب کی طرف پشت کرکے بیٹھ گئے۔ اس پر حضرت حکیم الامت نے بطور تنبیہ کے فرمایا تم میں ایسی کون سی چیزہے جس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں کو حقیر اور ذلیل سمجھتے ہو جس سے ایک مسلمان کی طرف پشت کرکے بیٹھے ؟ عرض کیا غلطی ہوگئی۔ فرمایا کہ غلطی کا منشا کیا تھا؟ (الافا ضا ت الیومیہ: 2/113)

ظاہر ہے اس غلطی کا منشا بے فکری تھا، مگر وہ صا حب مختلف تاویلات کرتے رہے۔

دوسروں کی فضول فکر اپنی بے فکری کے باعث ہے
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ دوسروں کی فضول فکر اور دوسروں کے معاملات میں بلاضرورت دخل دینا آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے اور یہ اس راہ میں سمّ قاتل ہے کہ اپنے اختیارات کا تو اہتمام نہ کرے اور دوسروں کے اختیارات میں مشغول ہو جاوے، جواس کے اعتبار سے غیراختیاری ہے، اسی کے متعلق فرماتے ہیں #
        کار خود کن، کار بیگانہ مکن
یعنی اپنا کرو، دوسرے کا کام مت کرو۔ (الافاضات الیومیہ:1/273)

کسی (کامل شیخ) کے پاس رہنے سے کیا ہوتا ہے جب تک انسان کو اپنی اصلاح اور تربیت کی فکر نہ ہو؟(الافاضات الیومیہ:1/194)

حضرت حکیم الامت اپنے رسالہ ”الخطوب المذیبة للقلوب المنیبة“ میں تحریر فرماتے ہیں : ”تجربہ سے معلوم ہوا اور پہلے سے بھی معلوم تھا کہ جو شخص اپنی اصلاح نہ چاہے اس کی اصلاح کوئی (مخلوق) نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ نبی بھی۔ (اصلاح انقلاب امت:2/8)

اپنی فکر اصلاح ہر حال میں مقدم رکھنے کی ضرورت
بڑی ضرورت اس کی ہے کہ ہر شخص اپنی فکر میں لگے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرے۔ آج کل یہ مرض عام ہو گیا ہے، عوام میں بھی اور خواص میں بھی کہ دوسروں کی تو اصلاح کی فکر ہے، اپنی خبر نہیں۔ میرے ماموں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا! دوسروں کی جوتیوں کی حفاظت کی فکر میں کہیں اپنی گٹھڑی نہ اٹھوا دینا۔ واقعی بڑے کام کی بات فرمائی۔ (الافاضات الیومیہ:1/11)

حضرت حکیم الامت کے ایک خلیفہ مجاز حضرت حاجی شیر محمد صاحب نے اپنے صاحب زادہ کو دینی تعلیم دلوائی۔ اس کے باوجودانہوں نے ڈاڑھی منڈوالی۔ تو حضرت حاجی شیر محمد صاحب نے حضرت حکیم الامت کواطلاع دی اور عرض کیا کہ حضرت ان کے اس عمل سے ساری رات نیندنہیں آتی۔ حضرت حکیم الامت نے جواباً تحریر فرمایا #
        فکر خود کن، فکر بیگانہ مکن
        در زمین غیر خود خانہ مکن
یعنی اپنی فکر کیجیے دوسرے کی فکر نہ کیجیے دوسرے کی زمین میں اپنا مکان نہ بنایئے (ورنہ مالک زمین اسے گرادے گا)۔ یعنی اختیاری حد تک جب آپ پوری جدوجہد اور کوشش کرچکے، اس کے بعد اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہاں دعا کا مضائقہ نہیں۔ (سمعتہ من سیدی و مرشدی حضرت حاجی محمد شریف صاحب ،قدس سرہ، نواں شہر، ملتان)

بد فہمی لا علاج مر ض ہے
اگر بے فکری کے ساتھ بد فہمی بھی ہو تو اس کا علاج بہت گراں ہے۔ (الا فاضات الیومیہ: 1/418)

بد فہمی غیر اختیاری اور بے فکری اختیاری مرض ہے
بد فہمی تو غیر اختیاری چیز ہے، اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ ہاں! بے فکری سبب ہو تو اختیاری ہے، اس کا علاج ہو سکتا ہے، یعنی جب بھی فکر سے کام لے گا اصلاح کی امید ہو سکتی ہے۔ (الافاضات الیومیہ: 7/72)

بے فکری کی خرابیاں
آج کل لوگوں کو ایسی باتوں کا با لکل خیال نہیں کہ ہمارے اس فعل سے دوسرے پر کیا اثر ہوگا، جو جی میں آیا کر لیا۔ غور و فکر سے کوئی نہیں کرتے۔ یہ سب اسی بے فکری کی خرابی ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں نہ دنیا ہی کی فکر ہے‘ نہ آخرت کی ؛بڑ ے افسوس کی بات ہے۔(الاضافات الیومیہ: 7/182)

بے فکری کا منشا بے وقعتی ہے
بے فکری کا منشا اور مبنیٰ میں خوب سمجھتا ہوں کہ بے وقعتی اس کا سبب ہے، لوگوں کے یہاں یہ بات ہلکی ہے، مگر میرے نزدیک بھاری ہے۔ (الا ضافات الیومیہ :8 /249)

مزاج میں بے فکری کی دلیل
جس وقت سے لفافہ پر ڈاک ٹکٹ میں اضافہ ہو ا ہے، حضرت حکیم الامت نے ایک روپے کے ڈاک ٹکٹ منگوا لیے اور نئے قواعد ڈاک کے مطابق جوابی لفافوں اور کارڈوں پر ٹکٹ چسپاں کرتے رہے اور یہ نیت کر لی کہ جس روز پوری ڈاک میں مکمل ٹکٹ آنے لگیں گے، پھر اس روز سے اپنی طرف سے ٹکٹ نہ لگاوٴں گا، چناں چہ جس روز سے ڈاک میں پورے ٹکٹ آئے، اس کے بعد پھر ایک لفافہ آیا، جس پر ٹکٹ کم لگے تھے۔ اس پر ارشاد فرمایا کہ”جب سب جگہ محصول کا بڑ ھنا معلوم ہو چکا تو اس کا خیا ل ہو نا چاہیے تھا، مگر پھر بھی خیال نہ ہونا نہایت ہی غفلت کی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ مزاج میں بے فکری بہت ہے“۔ ( الا ضافات الیومیہ: 5/18)

بے فکری کے کرشمے
اصل چیز بے فکری ہے، کوئی اصو ل ہی نہیں۔ بولنے کے موقع پر خاموش رہنا اور خاموشی کے موقع پر بولنا۔ (الاضافات الیومیہ: ج4/:232)

کئی روز ہوئے ایک منی آرڈر آیا تھا، کوپن پر کچھ نہ لکھا تھا کہ کس مد کا روپیہ ہے، میں نے یہی لکھ کر واپس کر دیا۔ آج پھر دوبارہ آیا، پھر بھی کوپن پر کچھ نہیں لکھا، باوجودیکہ غلطی پر متنبہ کر دیا تھا، مگر پھر وہی حرکت، آج پھر واپس کیا۔ یہ حالت ہے لوگوں کی بے فکری اور غفلت کی۔ (الاضافات الیومیہ :5،:253)

زیادہ نا گواری بے فکری سے ہوتی ہے
میں تو یہ چا ہتا ہوں کہ میرے سب دوست صحیح اصو ل پر ہوں، اگر ان کو اہتمام میں لگا دیکھتا ہوں تو معمولی غلطیو ں سے در گزر کرتاہوں، زیادہ ناگواری اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو بے فکر دیکھتا ہوں۔ (الاضافات الیومیہ: 2/63)

اصول و قواعدکی برکت اور ضرورت یہ سب باتیں فکر سے پیدا ہوتی ہیں، طریقے سے ہر کام ہو جاتا ہے اور کوئی گرانی نہیں ہوتی اور نہ کوئی حرج ہوتا ہے، مگر ساری خرابی بے فکری سے ہوتی ہے۔ لوگوں میں فکر کی عادت پیدا کرنا چا ہتا ہوں، مگرلوگ بھاگتے ہیں اورگھبراتے ہیں۔ (الافاضات الیومیہ :5/135)

بے فکری کے مرض سے اس وقت مشائخ بھی خالی نہیں
ان لو گوں نے اپنی دکا نیں جما رکھی ہیں، ہر وقت اس کی فکر ہے کہ کوئی ہم کو برا نہ کہے، کوئی غیر معتقد نہ ہو، اچھی خاصی دین فروشی اور مخلوق پرستی ہے، میرے نزدیک وہ شیخ خائن ہے، راہ زن ہے جو اللہ کی مخلوق کی راہ مارے اور اپنے اغراض و مصا لح کی بنا پرمخلوق کی تر بیت نہ کرے؛ یہ سب فساد‘ بے فکری کی بدولت ہوتاہے، اگر اپنی عاقبت اور دین کی فکر ہو توہرگزایسا نہ کریں اور اسی پر بس نہیں، بلکہ اس سے آ گے بڑھ کرخلا ف شرع بکواس لگا تے ہیں، بڑھیں ہانکتے ہیں اور وہ امور اور اسرار سمجھے جاتے ہیں، اشرار کا نام اسرار رکھا ہے، احکام شرعیہ میں تحریف کرتے ہیں اور فن تصوّف کی وہ گت بنا تے ہیں کہ الاما ن والحفیظ۔ (الافاضات الیو میہ: 1/501)

امراض روحانی سے بالکل بے فکر ی
اگر کوئی بیمارہو اور لوگ اس کوعلاج سے بے فکر دیکھیں تو چاروں طرف سے اس پر لتاڑ پڑتی ہے، جس سے وہ اپنی فکر میں لگ جاتا ہے، ایسے شخص کی امید صحت کی ہوتی ہے۔ افسوس تو اس شخص کی حالت پرہے کہ تمام دنیا اس کو تن درست سمجھے ہوئے ہے اور وہ بیمار ہے، دوسروں کے تن درست سمجھنے پر بھی اپنے کو تن درست سمجھ بیٹھا، ایسے مریض کے تن درست ہونے کی کیا امید ہو سکتی ہے؟ (الا ضافات الیومیہ:1/147)

اکثر بے اعتدالیوں کا منشا بے فکری ہے
اصل مقصو د فکر ہے، آج کل اکثر بے اعتدالیوں کا منشا بے فکری ہوتی ہے۔ (خیرالافادات، ملفوظ نمبر52)

آج کل اکثر لوگ مبہم بات کرتے ہیں، اس کا منشا بھی بے فکری ہے، یہ نہیں سوچتے کہ اس سے مخاطب کو تکلیف پہنچتی ہے ؛ غرض‘ اصلاح ظاہر وباطن بے فکری چھوڑنے اور ہر وقت فکر آخرت و عاقبت کے التزام سے ہوگی۔
        کام یابی تو کام سے ہوگی
        نہ کہ حسنِ کلام سے ہوگی
        فکر اور اہتمام سے ہوگی
        ذکر کے التزام سے ہوگی

نصب نہیں ہوگا
اما م حلوانی بخارا سے دوسری جگہ تشریف لے گئے، وہاں ان کی ملاقات اپنے استاذ امام زرنوجی سے ہوئی، انہوں نے افسوس کے لہجے میں کہا: ”میں معافی چاہتا ہوں، والدہ کی خدمت کی وجہ سے آپ سے ملاقات کے لیے نہ آسکا“۔

یہ سن کر امام زرنوجی نے فرمایا: ”تمہیں عمر تو نصیب ہوگی، مگر درس نصیب نہیں ہوگا“۔

چناں چہ ایسا ہی ہوا۔ مطلب یہ کہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی استاذ سے ملاقات کرتے رہنا چاہیے۔ 
Flag Counter