Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

6 - 18
سنتِ نکاح او رمالی اسراف
مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی
غربت وناداری کی بنا پر بہت سے مردوزن شادی سے محروم رہ جاتے ہیں، غیر اسلامی رسوم وروایات کی جکڑنوں میں مسلم سماج اس طرح بندھا ہوا ہے کہ نکاح جیسا آسان اور ارزاں عمل رسوم کے حصار میں محصور ہونے کی وجہ سے اس قدر مشکل او رگراں ہوتا جارہا ہے کہ غریب تو غریب، اوسط درجہ کا آدمی اس سے بھاگتا پھر رہا ہے ، اسلام نے ہر شعبہٴ زندگی اور بالخصوص نکاح کے باب میں اسراف اور فضول خرچی کی تمام صورتوں پر قدغن لگادی ہے اور نکاح کو آسان تر بنانے کی دعوت دی ہے، تاکہ مسلم معاشرے کا کوئی فردسنت نکاح سے محروم نہ رہے اور سماج بدکاری او ربے حیائی کی ہر لعنت سے پورے طور پر محفوظ ہو جائے۔

مہر کی اہمیت ومقدار
مہر لوازم نکاح میں سے ہے ، اس کی ادائیگی مرد کے ذمے ہے ۔ قرآن کریم میں ﴿واٰتواالنساء صدقاتھن نحلة﴾․ (عورتوں کو خوش دلی سے ان کے مہر ادا کردو۔) کا وجوبی حکم ہے ، مہردراصل عورت کے اعزاز کا ایک رمز ہے، اس کا مقصد عورت کا اعزاز ہے ، مہر نہ تو عورت کی قیمت ہے اورنہ صرف ایک رسمی اور فرضی کارروائی کا نام ہے ، اسلام مہر کو لازم کرتا ہے ، مگر اسے نکاح کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ اس لیے اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار کی کوئی تحدید وتعیین نہیں کی گئی ہے ، اسلام نے مہر کی کوئی ایسی آخری حد متعین نہیں کی ہے جس کے بعد اجازت نہ رہے، لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہر کا اتنا رہنا مطلوبِ شرعی ہے جو بآسانی ادا ہو سکے۔

حضرت عمر نے ایک موقع پر اپنے اجتہاد سے مہر کی تحدید کرنی چاہی اور چار سو درہم سے زیادہ مہرمتعین کرنے پر روک لگا دی اور یہ فرمایا کہ اس سے زیادہ مہر نہ باندھا جائے ، اگر مہر کی زیادتی باعث اعزاز دینی ودنیوی ہوتی تو آپ صلی الله علیہ وسلم ایسا ضرور کرتے ، مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کاعمل یہ رہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بالعموم اپنی بیویوں اور صاحب زادیوں کا مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ نہیں رکھا، اب چارسو درہم سے زیادہ جو مہر رکھے گا وہ زائد رقم بیت المال میں جمع کرے گا، اس پر قریش کی ایک خاتون نے اعتراض کیا اور کہا : اے عمر ! اس تحدید کا تمہیں کس نے اختیار دیا ہے؟ قرآن تو اس طرح کی حدبندی نہیں کرتا۔ قرآن میں تو آیا ہے:﴿واٰتیتم احداھن فنطاراً فلا تاخذوا منہ شیئاً﴾․ (تم نے اسے ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔) ”قنطار“(خزانہ او رمال کثیر) کا لفظ مہر کی کثرت بتارہا ہے ، پھر تم کیسے حدبندی کرسکتے ہو؟ اس پر حضرت عمر نے برملا اعتراف کیا کہ عورت نے درست کہا او رمرد نے غلطی کی، خدایا! مجھے معاف رکھیے،ہر آدمی عمر سے زیادہ سمجھ دار ہے ، پھر فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے روکا تھا، مگر اب میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے مال میں کم وبیش جتنا چاہے مہر رکھ سکتا ہے۔ (مجمع الزوائد:283/4 ، الفقہ الاسلامی للزحیلی256,255/7)

اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مہر کی آخری کوئی حد اسلام نہیں مقرر کرتا، تاہم اسلام یہ مزاج بنانا چاہتا ہے کہ مہر کی تعیین انسان اپنی ادائیگی کی وسعت وطاقت کے تناسب سے کرے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا انتہائی صریح، زریں او رپورے معاملہٴ نکاح میں حرزجاں بنانے کے قابل ارشاد یہ ہے:”ان اعظم النکاح برکة أیسرہ مؤنة“․ (نیل الاوطار:168/6)

ترجمہ: سب سے بابرکت نکاح بلاشبہ وہ ہے ،جس میں مشکلات ومصارف کم سے کم اور آسانیاں زیادہ سے زیادہ ہوں۔

حضرت عقبہ بن عامر آپ صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں: ”خیر الصداق أیسرہ․“ ( مستدرک حاکم:182/6)

اس طرح ارشاد نبوی ہے:”ان اعظم النساء برکة ایسرھن صداقاً“․ ( ایضاً)

ترجمہ: سب سے بابرکت خاتون وہ ہے ( جس کا مہر ادا کرنے کے اعتبار سے) آسان(اورکم) ہو۔

مہر کو زیادہ نہ رکھنے کی تعلیم کا مقصود صرف یہ ہے کہ نوجوان بآسانی نکاح کے بندھن میں بندھ سکیں اور بے نکاح رہنے کی وجہ سے جو بے شمار اور لاینحل معاشرتی او راخلاقی مفاسد درآتے ہیں، ان سے بچاؤ ہو سکے۔

خام خیالی
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ زیادہ مہر رکھا جائے تو اس میں لڑکیوں کے مستقبل کا تحفظ او رضمانت رہتی ہے ، حالاں کہ یہ خام خیالی ہے، بسا اوقات یہ فکر بلائے جان بن جاتی ہے ، لڑکی والے لڑکے کی حیثیت سے کہیں زائد مہر طے کراتے ہیں ، پھر خدانخواستہ زوجین میں ناچاقی ہوتی ہے، تو لڑکا بجائے طلاق دینے کے مہر کی ادائیگی کی وجہ سے لڑکی کو معلق رکھتا ہے اوراس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اسی طرح بسا اوقات لڑکی والے زیادہ مہر کے انتظام میں شادی میں ناقابل بیان تاخیر کرتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مناسب رشتے دھیرے دھیرے آنے بند ہو جاتے ہیں او رکبھی تو عفت کی حفاظت تک مشکل ہو جاتی ہے ، پھر یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ لڑکی والوں کی طرف سے بچی کے مستقبل کے تحفظ کی نیت سے زیادہ مہر طے کرنے پر اصرار ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا کر دیتا ہے اور لڑکے او راس کے اہل خانہ کے دلوں میں عداوت کی گرہ پڑ جاتی ہے۔ حضرت عمر نے بجا فرمایا ہے:”ألا وان واحدکم لیغالی بصداق امرأتہ، حتی یبقی لہ فی نفسہ عداوة حتی یقول: کلفت لک علق القربة․“ ( سنن الدارمی:141/2)

ترجمہ: سنو! تم میں سے کسی کو بیوی کا مہر بہت زیادہ طے کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ اس کے دل میں عداوت پیدا ہو جاتی ہے، حتی کہ غصہ میں کہنے لگتا ہے کہ تمہاری وجہ سے مجھے ناقابل بیان مشقت اٹھانی پڑی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں:”من یمن المرأة یتیسر خطبتھا، وأن یتیسر صداقھا، وان یتیسر رحمھا“․(المستدرک:182/2)

ترجمہ: عورت کی برکت وسعادت کی علامت یہ ہے کہ اس کو پیغام نکاح دینا بھی آسان ہو، اس کا مہر (ادا کرنا) بھی آسان ہو اور بآسانی اس کے ہاں ولادت بھی ہو ( وہ بانجھ نہ ہو)۔

بقول حضرت عروہ:
من اول شؤمھا أن یکثر صداقھا․ (ایضاً)

ترجمہ: عورت کی نحوستوں میں یہ بنیادی چیز ہے کہ اس کا مہر زیادہ ہو( جسے مرد ادا نہ کرسکے)۔

ملحوظ رہے کہ نحوست سے مراد یہاں یہ ہے کہ مہر کی زیادتی بسااوقات ناموافقت، پھر طلاق کا سبب بن جاتی ہے، اس لیے نحوست، ناموافقت کے معنی میں ہے۔

معلوم ہوا کہ لڑکی کے والدین کو حد اعتدال اور دائرہ قوت سے بڑھ کر مہر کا مطالبہ نہ کرنا چاہیے، تاکہ نکاح کا عمل بآسانی ہو سکے اور اس کی برکات طرفین کو اپنے حصار میں لے سکیں۔

مہر بڑھانے کا فیشن اور نبوی کردار
بہت سے لوگ زیادہ سے زیادہ مہر رکھنے کو اپنے لیے باعث اعزاز وفخر او راپنی شان اور آن کی بات سمجھتے ہیں، موجودہ حالات میں محض دکھاوے اور شہرت ونام وری کے لیے فیشن کے طور پر مہر زیادہ رکھنا رائج ہو گیا ہے، ایسے افراد کے لیے سید المرسلین او رکائنات کی سب سے محترم ہستی اور ”بعدازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کی مصداق شخصیت سیدنا محمد عربی، فداہ ابی وامی وروحی، صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ مبارک کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ حضرت عمر کا بیان ہے :”الا، لا تغالوا فی مھور النساء، فانھا لوکانت مکرمة فی الدنیا وتقوی عندالله، لکان اولاکم بھا نبی الله صلی الله علیہ وسلم، ما علمت رسول الله صلی الله علیہ وسلم نکح شیئاً من نسائہ،ولا أنکح شیئاً من بناتہ علی اکثر من اثنتی عشرة أوقیة․“(مشکوٰة المصابیح، کتاب النکاح، باب الصداق:277)

ترجمہ: سنو! مہر زیادہ مت رکھو، اگر یہ زیادتی دنیا میں باعث عزت او ربارگاہِ الہٰی میں تقویٰ کی علامت ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم تم سے زیادہ اس کے مستحق تھے، مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کسی خاتون سے اپنا نکاح، یا اپنی صاحب زادیوں میں سے کسی کا نکاح بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر پر کیا ہو۔

عموماً یہ ہوتا ہے کہ زیادہ مہر طے کرنے والے صرف اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں اور شروع سے ہی ان کی نیت مہر ادا نہ کرنے کی ہوتی ہے ، پھر پوری زندگی بغیر مہر ادا کیے گزر جاتی ہے ، عورت سے یا توبزوروجبر معاف کرایا جاتا ہے یا سرے سے مہر کا ذکر ہی نہیں آتا، عورت کبھی طلب کر لے تو اس کی شامت آجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے حدیث میں سخت وعید ہے، ارشاد ہے:”أیما رجل تزوج امرأة علی ماقل من المھر او کثر، لیس فی نفسہ أن یؤدی الیھا حقھا، فمات، ولم یؤد الیھا حقھا، لقی الله یوم القیامة وھو زانٍ․“(مجمع الزوائد:284/4)

ترجمہ: جس کسی شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا، مہر کی مقدار کم یا زیادہ پر، اس کی نیت یہ تھی کہ وہ عورت کاحق مہر ادا نہ کرے گا، پھر اسی حالت میں وہ مر گیا اور عورت کا حق مہر اس نے ادا نہ کیا، تو قیامت کے روز جب وہ الله سے ملے گا تو زانی قرار پائے گا۔

اسلامی تعلیم کا حاصل
مہر کی زیادتی خاندانی زندگی کے لیے رحمت کے بجائے زحمت ثابت ہوتی ہے ، اس لیے شرعی حکم یہی ہے کہ مہر اتنا مقرر کیا جائے، جس کے ادا کرنے کی نیت ہو او رجسے ادا کرنے پر شوہر قادر بھی ہو ، پورا مہر بروقت ادا ہونا چاہیے، ورنہ ایک مدت طے ہونی چاہیے او رمدت پوری ہونے پر یک مشت یا اس دوران آسان قسطوں میں اسے ادا کرنا چاہیے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ زیادتی مہر کی رسم عام کے پہلو بہ پہلو بعض خاندانوں اور برادریوں میں مہر کی اتنی کم مقدار متعین کی جاتی ہے جو مضحکہ خیز ہوتی ہے او راس سے عورت کی توہین ہوتی ہے او راسے اپنے ہم چشموں میں سبک سارہونا پڑتا ہے۔ اسلام اس سے بھی منع کرتا ہے اور اعتدال کی تاکید کرتا ہے ، شریعت کا تقاضا یہی ہے کہ مہر کی مقدار نہ تو اتنی زیادہ ہو کہ مردادانہ کرسکے اور نہ اتنی کم ہو کہ اس میں عورت کا اعزاز واکرام ناپید ہو۔

رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کااسوہ اکثرازواج اور صاحب زادیوں کے سلسلہ میں پانچ سو درہم چاندی کا رہا ہے، یہی مہر فاطمی ہے اور اس کا وزن 131 تولہ3 ماشہ چاندی ہوتا ہے، ہر زمانہ میں اس مقدار چاندی کی جو قیمت ہو گی وہی مہر فاطمی کی مقدار ہو گی۔

اس مقدار کی تعیین واجب نہیں ہے، اس سے کم یا زیادہ دونوں کی گنجائش شرع میں ہے ، تاہم اس مقدار کی اتباع میں سنت کی اتباع ومطابقت کا ثواب حاصل ہوتا ہے، جو بہت بڑی نعمت ہے۔

جہیز کاناسور
نکاح کے راستہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ جہیز کی جاہلانہ اور ظالمانہ رسم بد بھی ہے ، ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ لڑکی کے والدین اور اولیا ایک ناقابل بیان بوجھ تلے دبے رہتے ہیں اور گھر کی تمام ضروریات ، کمالیات وجمالیات، زینت وآرائش کے تمام ساز وسامان، لڑکے اور لڑکی سے متعلق تمام اشیاء اس پر مستزاد لڑکے کے والدین، بھائی، بہن اور دیگر تمام قریبی اعزہ کے لیے بیش قیمت او رقابل ذکر تحفوں کا انتظام یہ سب کچھ، پھر مزیدبراں شادی کے موقع پر عمدہ قیام وطعام کا انتظام لڑکی کے والدین اور ذمے داروں کا فرض قرار دے دیا گیا ہے او را س میں ادنیٰ کو تاہی ناقابل معافی جرم سمجھی جاتی ہے۔

جہیز کی اس ملعون ومنحوس وبانے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑ ڈالا ہے، نہ جانے کتنی لڑکیاں کنواری بن بیاہی بیٹھی ہیں، نہ جانے کتنی خواتین اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور نہ جانے کتنی جائیدادیں گنوائی جاچکی ہیں۔

والدین اپنی لڑکی کو بخوشی، بلا جبرومطالبہ، کچھ دیں، اس کو ضرورت وزینت کی اشیا فراہم کریں، یہ بجائے خوددرست او رمناسب ہے۔ خود حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کو رخصتی کے موقع پر کچھ چیزیں عطا کی تھیں، احادیث میں ان کا ذکر بھی آیا ہے، آپ کا یہ تحفہ صرف ایک چادر، تکیہ، گدا، چکی، مشکیزہ اور گھڑے پر مشتمل تھا۔
(ملاحظہ ہو: ابن ماجہ، صفة الصفوة، ابن جوزی:453/2، البدایہ والنہایہ:346/3، مسند احمد:104/1)

لیکن جہیز کا مطالبہ او رمطلوبہ مقدار نہ ملنے پر اظہار ناراضگی اور تعلقات کی کشیدگی ہمارے سماج کا وہ ناسور ہے جو گھن کی طرح سماج کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو کھاتا جارہا ہے ، جہیز کی یہ لعنت لڑکی کے اولیا کو حرام طریقوں سے کسب معاش کی راہوں پر لے جاتی ہے یا پھر وہ قرض کے ایسے بوجھ میں دب جاتے ہیں کہ سر اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے۔

اسلام اس رسم بد کا خاتمہ اسی لیے چاہتا ہے ، تاکہ نکاح کا عمل آسان ہو سکے ، سماج کے افرادتنگی، پریشانی، بحران او رمعصیت کی ہر لعنت سے محفوظ رہ سکیں ، لڑکی والوں کی طرف سے دعوت کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے ، یہ زیادہ سے زیادہ مباح کہی جاسکتی ہے، اس میں اسراف سے بچنے او رمحتاط رہنے کی ضرورت ہے ، اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے بارات کا التزام غیر شرعی ہے، اس سے اجتناب ہونا چاہیے۔

ولیمہ اور اسراف
اسلام نے ولیمہ کو سنت قرار دیا ہے ، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نکاح کا اعلان او رتشہیر ہو جاتی ہے، جو بجائے خود مطلوب شرعی ہے اور دوسروں کو نکاح کی ترغیب بھی ملتی ہے، ولیمہ کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان اپنی خوشی کے اظہار کے لیے حسب وسعت مخصوص احباب کو بلا کر کچھ کھلادے، اسراف اور فضول خرچی اور شوکت ودولت کے مظاہرے کے لیے دعوتِ عام اور طرح طرح کے کھانوں کا نظم، روح شریعت سے ہم آہنگ عمل نہیں ہے۔ آج ہمارے سماج میں ولیمہ کی دعوتوں میں اس قدر تکلفات درآئے ہیں کہ اوسط وادنیٰ والے افراد کے لیے نکاح مشکل ہو تا جارہا ہے۔ قرآن کریم میں یہ اصولی ہدایت دی گئی ہے۔: ﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً،إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراً﴾․(الاسراء:27,26)

ترجمہ: فضول خرچی مت کرو، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں او رشیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

احادیث میں دعوتِ ولیمہ میں اسراف سے ممانعت آئی ہے، حضرت عبدالله بن مسعود آپ صلی الله علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:”طعام اول یوم حق، وطعام یوم الثاني سنة، وطعام یوم الثٰلث سمعة، ومن سمع سمع الله بہ“․ ( ترمذی، کتاب النکاح، باب ماجاء فی الولیمة)

ترجمہ: پہلے دن کا کھانا برحق ہے، دوسرے دن کا کھانا دینی راہ ہے، تیسرے دن کا کھانا شہرت طلبی ہے، جو بھی دکھاوا کرے گا الله اسے رسوا کر دے گا۔

جمہور علما وفقہا کا مسلک یہی ہے کہ ولیمہ دو دن تک جائز ہے، اس سے زیادہ مکروہ ہے ، بعض صحابہ سے سات دن تک دعوتِ ولیمہ منقول ہے، لیکن وہ اس صورت پر محمول ہے ، جب ہرروز کے مدعو افراد الگ الگ ہوں۔ (ملاحظہ ہو : درس ترمذی:371,370/3)

حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمة الله علیہ نے لکھا ہے : ”زمانہ جاہلیت میں لوگ میاں بیوی کے ملاپ سے پہلے ولیمہ کرتے تھے، اسلام نے اس طریقہ کو بدلا اور زفاف کے بعد ولیمہ مسنون کیا، ولیمہ کرنے میں مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ لطیف پیرائے میں نکاح کی تشہیر ہوتی ہے، چوں کہ خانگی زندگی کے نظم اور انتظام کے لیے بیوی کی ضرورت ہے، پس حسب خواہش کسی عورت سے نکاح ہو جانا الله کی بڑی نعمت ہے ، جس کا شکر بجالانا ضروری ہے ، ولیمہ اس کی عملی شکل ہے او راس میں بیوی او راس کے خاندان کے ساتھ حسن سلوک بھی ہے، ولیمہ کی کوئی حد متعین نہیں ، اسراف سے بچتے ہوئے ہر مقدارجائز ہے او راوسط درجہ کا ولیمہ ایک بکرا ہے، اسی کا آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف  کو حکم دیا تھا اور حضرت زینب رضی الله عنہا کے ولیمہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کی تھی، حضرت صفیہ رضی الله عنہا کے ولیمہ میں کھجور اور ستو کھلایا تھا، بعض ازواجِ مطہرات کے ولیمہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو مد آٹا خرچ کیا تھا، یہ چھوٹا ولیمہ ہے۔“(تحفة الالمعی شرح ترمذی، حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ:510,509/3)

یہ ملحوظ رہے کہ ولیمہ کی کوئی حد متعین نہیں ہے، اسراف سے بچتے ہوئے ہرمقدار درست ہے اوسط درجہ ایک بکری ہے ، حضرت عبدالرحمن بن عوف نے شادی انتہائی سادگی سے کی، آپ صلی الله علیہ وسلم کو شرکت کی زحمت بھی نہ دی، آپ صلی الله علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے اظہار خوشی فرمایا او ربکری کے ولیمے کا حکم دیا۔ (ملاحظہ ہو : مشکوٰة ،باب الولیمہ)

خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی الله عنہا کے ولیمے میں صرف کھجور اور ستو کھلا کر مختصر ولیمہ فرمایا۔ ( ایضاً)

بعض ازواج کے ولیمے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف دو مد آٹا خرچ کیا۔ (ایضاً)

سب سے بھاری دعوت ولیمہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی الله تعالیٰ عنہا کے نکاح پر دی اور بکری ذبح فرمائی، حضرت انس کا بیان ہے:”مارأیت النبی صلی الله علیہ وسلم أولم علی احد من نسائہ ما أولم علیھا، أولم بشاة․“ ( بخاری، کتاب النکاح، باب من أولم الخ)

ترجمہ: جتنا بھاری ولیمہ حضرت زینب رضی الله عنہا کے نکاح پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا اتنا کسی اور بیوی کے نکاح پر نہیں کیا،پوری ایک بکری ولیمہ میں ذبح کی۔

معلوم ہوا کہ ولیمہ کی دعوتوں میں اعتدال سے کام لیا جائے اوراسراف سے بچا جائے، اسی طرح دعوت میں مال داروں کے ساتھ ناداروں اور فقرا کو ضرور شامل کیا جائے۔ احادیث میں ایسی ضیافت کو بدترین بتایا گیا ہے جس میں صرف مال دار بلائے جائیں اور فقرا نہ بلائے جائیں۔ (ملاحظہ ہو: بخاری، کتاب النکاح، باب من ترک الدعوة)

حاصل گفت گو یہ ہے کہ سنت نکاح کو مہر او رولیمہ کے اسراف سے او رجہیز، تلک، بارات ، دعوتوں اور تمام باطل رسوم کی لعنتوں سے پاک رکھا جائے، یہی شرعی تقاضا ہے او رمسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال کا چوطرفہ تقاضا بھی یہی ہے۔
Flag Counter