Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

11 - 18
اسلامی تمدن اور خواتین
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی
اسلام کو بالکل ابتدا ہی میں ایک ایسے انوکھے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جس سے ادیان ومذاہب کی تاریخ میں کسی مذہب کو واسطہ نہیں پڑا۔

جزیرة العرب میں اسلام کے بعد جو دینی، معاشرتی اور عقائدی تعلیمات لے کر آیا تھا، یہ چیلنج اس طرح سامنے آیا کہ اسلام کو دو ایسے ترقی یافتہ تمدنوں سے واسطہ پڑا، جن سے بڑھ کر کسی دوسرے تمدن کا تجربہ انسانی اور تہذیبی تاریخ میں نہیں کیا گیا تھا، یہ دو تمدن رومی اور ایرانی تمدن تھے، یہ تمدن تہذیب، آرٹ، آزادی، نکتہ رسی، تخیل کی بلندی، انسانی زندگی کو سنوارنے اوراس کو منظم کرنے، راحت اور آسائش کے سامان کی فراہمی اور فراوانی میں کئی منزلیں طے کر چکے تھے اور ترقی کے آخری درجہ تک پہنچ گئے تھے۔ یہ تمدن اپنی تراش خراش میں بڑی رعنائی رکھتے تھے او ربہت حساس تھے۔

رومی وایرانی تمدن او راس کے اثرات
رومیوں او رایرانیوں کو کتابوں سے پٹے ہوئے کتب خانوں، عظیم الشان آلات ووسائل، راحت اور زندگی گزارنے کے مختلف طرز وانداز، خانہ آبادی کے طور وطریق پر ناز تھا او ران ساری چیزوں سے ان کا تمدن مالا مال تھا۔

ان کے برخلاف عرب اپنے ابتدائی دور میں یا دوسرے الفاظ میں تہذیبی طفولیت کے دور میں تھے، در حقیقت یہ تجربہ، جس سے اسلام کو گذرناپڑا، بڑا نازک تجربہ تھا، اسلام یقینا آسمانی تعلیمات ، عقائد اور اخلاق عالیہ اور آداب حسنہ سے آراستہ تھا، لیکن تہذیب او رمعاشرے کی قیادت کی باگ ڈور رومیوں اور ایرانیوں کے ہاتھ میں تھی، اس لیے اس کا امکان تھا اور سارے قرائن بھی بتا رہے تھے کہ یہ عرب او رمسلمان، جنہوں نے ایک تنگ وتاریک ماحول میں آنکھیں کھولی ہیں اور جن کے پاس بہت محدود وسائل ہیں،جن کی زمین دولت کے سرچشموں سے خالی ہے اور جو تمدن کے وسائل وذرائع سے بالکل محروم ہیں، جن کی زندگی خیموں او رمعمولی مکانات میں گزرتی ہے، اونٹوں او رگھوڑوں پر جن کے مواصلات کا دار ومدار ہے ، جن کی زندگی خانہ بدوش زندگی ہے، امکان اسی کا تھا کہ یہ امت اسلامیہ روم وفارس کے تجربات کے سامنے جھک جائے گی اور ا س بات کے قوی قرائن موجود تھے کہ جو امت ابھی اپنا دور طفولیت گزار رہی ہے وہ رومی او رایرانی تہذیب کو اپنی تمام خرابیوں کے ساتھ قبول کر لے گی، کیوں کہ جب کسی بھی چیز کو مکمل طریقہ پر اختیار کیا جاتا ہے تو اس کی خصوصیات اورلوازمات سے دست بردار نہیں ہوا جاسکتا، عقل یہی کہتی تھی اور توقع اس بات کی تھی ، اس سے پہلے مسیحیت کا تجربہ بھی ہو چکا تھا۔

رومی تمدن کے آگے مسیحیت کی سپر اندازی
مسیحیت ایک عدل وانصاف پر مبنی او رفطری مذہب تھا، جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے، لیکن یہی مذہب جب یورپ میں داخل ہوا تو محفوظ نہ رہ سکا او راس کا ڈھانچہ بدل گیا، کیوں کہ اس کے پاس تہذیب نہ تھی، اس کے پاس ایسی جچی تلی اور مفصل تعلیمات نہیں تھیں، جو زندگی میں راہ نمائی کر سکیں، اساتذہ ومعلمین کو صحیح راہ دکھا سکیں، مفکرین او رحکام کی مدد کر سکیں، یہ مذہب یہودیوں کی قانونی تعلیمات پر مبنی ایک شریعت کا نام تھا، انصاف ، انسانی مساوات، کمزوروں او رمظلوموں پر رحم وشفقت اس کا شیوہ تھا، یہودیوں کی سنگ دلی اور ظلم وزیادتی پروہ سخت تنقید کرتا تھا، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اس مذہب اور اس کے پیرؤں نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ کسی خاص تمدن کے حامل ہیں، کسی خاص تہذیب کے داعی اور علم بردار ہیں، مسیحیت جب یورپ میں داخل ہوئی، جہاں پہلے یونانی، پھر رومی تہذیب ترقی کے بام عروج تک پہنچ چکی تھی، جہاں عقل انسانی نے فلسفہ، ادب اور علوم ریاضی میں کمال حاصل کیا تھا، مسیحیت جیسا سادہ مذہب وہاں داخل ہوا تو اس کو بالکل ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جس کی کوئی توقع نہ تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ مسیحیت نے یورپی تمدن سے، جس کی قیادت رومیوں کے ہاتھ میں تھی ، صلح کر لی ، یا دوسرے الفاظ میں اس کے سامنے سپر ڈال دی ، اس رومی تمدن کی اساس گزشتہ یونانی تہذیب پر تھی ، مسیحیت نے جب اس تمدن سے رگڑ کھائی تو اس کے سامنے جھک گئی اوراس کے سانچہ میں ڈھل گئی او رمکمل طور پر شکست کھا گئی ، اس کے اندر مقابلہ کرنے اور سنبھلنے کی قوت نہ تھی ،وہ خود اعتمادی، زندگی اور طاقت ونشاط سے بھرپور چیلنج کے سامنے ٹھہر نہ سکی، نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحیت محدود تعلیمات ، محدودقوانین، انسانی مساوات، رافت ورحمت، عدل وانصاف، توحیدباری تعالیٰ ارور وہ بھی ایک مختصر او رمحدود زمانہ تک سے آگے نہ بڑھ سکی ، معاشرتی نظام ، عائلی زندگی ، ادب وفن او ربہت سی اخلاقی اور انسانی قدروں میں وہ ترقی یافتہ رومی تمدن کے سرا سر زیراثر ہو گئی۔

یہ واقعہ اس لیے پیش آیا کہ مسیحی مذہب اس قوت سے محروم تھا جس کے ذریعہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کرتا، رومی تہذیب کی چمک دمک سے خیرہ نہ ہوتا۔

تاتاری او راسلامی تمدن
دوسرا تجربہ انسانی تاریخ میں تاتاریوں کا تجربہ ہے،آپ الحمدلله تعلیم یافتہ اور گریجویٹ خواتین ہیں، آپ جانتی ہیں کہ درندہ صفت منگولین یعنی تاتاریوں نے خو دعالم اسلام پرٹڈی دل کی طرح حملہ کیا او راس سیل رواں کی طرح ٹوٹ پڑے، جس کا روکنا او رمقابلہ کرنا آسان نہ تھا، انہوں نے جب عالم اسلام کو اپنا نشانہ بنایا تو وہ طاقت سے بھرپور تھے، ان کے پاس ہزاروں سال کی محفوظ طاقت تھی ، جس کا انہوں نے استعمال نہیں کیا تھا ، ان کی طاقت سے ٹکڑ لینا آسان نہ تھا ، انہوں نے عالم اسلام پر حملہ کرکے خون کی ندیاں بہا دیں اورعالم اسلام کی شان وشوکت کا چراغ گل کر دیا اور مسلمانوں کی بے حرمتی کی، مسلمان اس طاقت ور اور بلاخیز سیلاب کے سامنے پیچھے ہٹتے رہے ، ان کی حکومتیں ایک ایک کرکے شکست کھاتی رہیں اور مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ ان کے اندر تاتاریوں کے مقابلہ کی طاقت نہیں ، نیز تاتاریوں کو کو ئی طاقت پھیر نہیں سکتی، کسی میں دم نہیں کہ ان کو زیر کر دے۔

یہاں تک کہ یہ بات ضرب المثل بن گئی، اگر یہ کہا جائے کہ تاتاری فلاں معرکہ میں شکست کھا گئے تو کہہ دینا کہ جھوٹ ہے۔ تاتاری اور شکست کھا جائیں، یہ خوں خوار درندے او رپسپا ہو جائیں، ناممکن ہے، عقل اس کو قبول نہیں کرتی، تاتاریوں کا رعب پورے عالم اسلام پر چھا گیا تھا، ایسا ہول ناک خوف ورعب، جس کا شاید کبھی کسی انسان کو تجربہ نہ ہوا ہو، سب ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی گرد تھے، ان کے رحم وکرم کے منتظر تھے، لیکن آخری نتیجہ کیا رہا ہے؟

اسلامی تمدن کی فتح
نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام جس کو بظاہر ان کے سامنے شکست کا منھ دیکھنا پڑا تھا، جو ان کے مقابلہ میں پسپا ہو گیا تھا، اسی نے ان فاتحین کو فتح کر لیا، اس نے تلوار کی نوک سے نہیں فتح کیا، کیوں کہ اس کی تلوار کند ہو چکی تھی، مسلمانوں کی تلوار نیام میں تھی، وہ مایوس ہو چکے تھے او رکہتے تھے کہ یہ تلوار کچھ نہ کر سکے گی، اس کی دھارتاتار کے مقابلہ میں بیکار ہو چکی تھی، وہ کیا چیز تھی جس نے تاتار کو فتح کیا؟ وہ دین کا اعجاز تھا، جو دائمی، ابدی، غالب وفاتح، حسین وخوش نما، دل کش ودل نوازدین ہے او رپھر آگے بڑھ کر اسلامی تمدن نے ان کو اپنا مفتوح بنا لیا، کیوں کہ تاتار تمدن سے عاری تھے ، وہ انسانوں کی شکل میں درندے یا درندے نما تھے، دنیا سے کٹی ہوئی ایک تنگ وادی سے اس کشادہ و وسیع دنیا میں آئے تھے، جس نے ترقی کی بہت سے منزلیں طے کر لی تھیں، ان کو ایک تمدن کی ضرورت تھی، صحرا کی زندگی میں ان کو تمدن سے مس نہ ہوا تھا، وہ نیا تمدن اختیار کرنے پر مجبو رتھے ، کیوں کہ کوئی قوم بھی تمدن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ، نئی زندگی کے لیے مسائل تھے ، کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے، معاشرت اور مہمان نوازی کے نئے طریقے تھے، گھروں کی تعمیر کس طرز پر ہو، رہائش گاہوں کو آرام دہ ، صحت بخش، نشاط وسرور سے بھرپور کس طرح بنایا جائے، یہ سب مسائل تھے، اس سے پہلے وہ نہایت سادی بدویانہ زندگی گزارتے تھے، اب وہ ایک نئے تمدن کے سامنے تھے، اس وسیع اسلامی تمدن سے ان کا معاملہ تھا جو مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا، اس تمدن نے علوم کو ترقی دی تھی اور صنعتوں کی ایجاد کی تھی، عقل انسانی کو سنوارا تھا، لوگوں کو ذوق لطیف عطا کیا تھا، ان کے لیے ایک نئی حیرت انگیز زندگی پیدا کر دی تھی ، اس تمدن نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کر لیا او ران کو اسلامی تہذیب وتمدن کی تقلید کرنے پر مجبور کر دیا ، وہ اسلام کے قالب میں پگھل گئے اور اسلامی زندگی میں گھل گئے، انہوں نے اسلام کا بغور مطالعہ کیا او رقبول اسلام سے مشرف ہوئے۔ تو دراصل اسلامی تمدن ان کے اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنا۔

مسلمانوں نے اسلامی تاریخ کے آغاز کے موقع پر پہلی صدی ہجری کی بالکل ابتدا میں بعثت رسول صلی الله علیہ وسلم کے وقت او رخاص طور پر رسول الله صلی علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب شام ومصر اور عراق وایران کو فتح کیا تو نہایت ترقی یافتہ دوتمدن ان کے سامنے تھے ، جن کی مادی ترقی کا تصور کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب پہلی مرتبہ انہوں نے چپاتیاں دیکھیں تو یہ سمجھے کہ ہاتھ صاف کرنے کے لیے دستی رومال ہیں، کھانے کے بعد جب ہاتھ صاف کرنے کے لیے ان باریک چپاتیوں کو اٹھایا تو معلوم ہوا کہ یہ تو روٹی ہے۔ غرض یہ کہ دینی فتوحات کا جب دور شروع ہوا تو ان کو ایک نئے ترقی یافتہ اور دل کش تمدن میں گھل جانے اور پگھل جانے سے محفوظ رکھا، وہ بات یہ تھی کہ انہوں نے اس تمدن کو نہ تو اپنایا اور نہ زندگی میں اس کی تقلید کی ، اس طرح اسلامی تمدن محفوظ رہا اور صحیح وسالم طریقہ سے آج ہم تک پہنچ سکا، آج یہ اسلامی تمدن جس طرح یہاں ہے ویسے ہی ہندوستان وپاکستان میں ہے ، سعودی عرب اورمراکش میں ہے، افریقہ اور ایشیا میں ہے، اس پوری مدت میں یہ تمدن کس طرح اپنی حفاظت کر سکا؟ اس تمدن کے بقا، اس کی قوت اور ٹھہراؤ اور یہاں کے چیلنجوں پر اس کے غلبہ حاصل کرنے کے پیچھے کیا راز ہے؟ وہ چیلنج جس کا مقابلہ نہ مسیحی کر سکے، نہ وہ تاتاری فاتح جنہوں نے سارے عالم کو زیر کر لیا تھا اور پورے عالم اسلام کو روند ڈالا تھا، لیکن تمدن کے مسئلہ پر وہ بھی قابو نہ پاسکے تھے۔

مسلمانوں نے اس پیچیدہ او رانوکھی مشکل پر کیسے قابو پایا؟ بہت سے مصائب ومشکلات ایسی ہوتی ہیں جن کو سہار لیا جاتا ہے، مثلاً دینی تعصب کی بنیاد پر ظلم وتعدی، جس سے مسلمانوں کو واسطہ پڑتا رہتا ہے اور اور وہ اس کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں، ہم ہندوستان میں بہت سے چیلنجوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہندی قومیت کا چیلنج، غیر اسلامی تعلیم وثقافت کا چیلنج، بت برستی اور شرک کا چیلنج، الله کے فضل سے ہم نے ان چیلنجوں کا مقابلہ کیا اور ڈٹ کر کیا، لیکن جب مسلمان ابتدائی دور میں تھے ، بدوی زندگی گزار رہے تھے ، سیدھی سادی معیشت تھی، اس وقت انہوں نے اس تمدن کے چیلنج کا کیسے مقابلہ کیا؟ حالاں کہ تہذیب وتمدن کا چیلنج بڑا ہی نازک او رخطرناک ہوتا ہے ، واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس مشکل پر مردوں اور عورتوں کے باہمی تعاون سے قابو پایا، مسلمان اپنی دعوت او راپنے پیغام پر فخر کرتے ہیں، وہ یقین رکھتے تھے کہ ان کا دین کامل او رمکمل ہے اور خاتم الادیان ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت آخری نبوت ورسالت ہے، انہوں نے الله تعالیٰ کا یہ فرمان سن رکھا تھا کہ ” ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا او راپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے مذہب کے سلسلہ میں اسلام کو پسند کیا۔“ ان کو اس دین کی صلاحیت، قابلیت اور طاقت پر پورا بھروسہ تھا۔

قرنِ اول کے مسلمانوں کا ایمان ویقین
ان کو یقین تھا کہ یہ دین زمانہ کا ساتھ دینے کے لیے نہیں ، بلکہ زمانہ کی باگ ڈور سنبھالنے اور اس کی راہ نمائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ، ان کو اپنے دین پر فخر وناز تھا، اپنی ذات پر اعتماد تھا، اپنی اخلاقی قدروں اور اپنے تمدن کو وہ عظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، ان کا ایمان تھا کہ جس دین کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم لے کر تشریف لائے ہیں وہ محض دین ہی نہیں یا محض چند قوانین کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ دین بھی ہے ،تمدن بھی ، اس میں احکام بھی ہیں او رمعاشرتی نظام بھی ، وہ سیف وسنان بھی ہے ، قرآن بھی ، وہ مسجد ومحراب بھی ہے او رحکومت وایوان بھی، وہ اس دین کو شفا بخش دوا سمجھتے تھے اور صحت بخش دوا بھی ، آج کے بہت سے مسلمانوں کی طرح ان کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ تو صحیح ہے کہ اسلام بحیثیت مذہب سب سے اچھا مذہب ہے اور وہی الله کا آخری اورمقبول دین ہے او را س مذہب کے علاوہ کسی مذہب میں نجات نہیں اور یہی مذہب ابدی اور دائمی ہے ، لیکن تمدن ایک دوسری چیز ہے، اس کا دین سے کیا تعلق ؟ دین ایک الگ شے ہے اورتمدن بالکل الگ شے، دین جدا اور تہذیب جدا، اس لیے اگر ہم مغرب کی تقلید کریں اور مغربی تہذیب کو اپنائیں تو اس میں ہمارے دین وعقیدہ کے منافی کوئی بات نہیں۔

عرب کے ابتدائی بدواس نظر سے روم وفارس کے تمدن وتہذیب کو نہیں دیکھتے تھے، وہ اس کے بارے میں کہہ سکتے تھے جو آج ہم امریکن اور یورپین تہذیب کے متعلق کہہ رہے ہیں، اس وقت کی ایرانی اور رومی تہذیب وتمدن اور آج کی امریکی او رمغربی تہذیب وتمدن، حتیٰ کہ روسی تمدن میں حقیقتاً کوئی فرق نہیں ، یہ سارے تمدن ایک ہیں، جن کو ہم میکانکی، مادی ، مصنوعی اور ظاہری تمدن سے تعبیر کر سکتے ہیں، جس طرح بہت سے مسلمان افراد اس تمدن کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ سب عقل انسانی او رتجربات کی آخری منزلیں ہے، تو اگر کل صحرا کے بدواس وقت کی تہذیب وتمدن کو دیکھ کر کہتے تو معذورہی سمجھے جاتے، وہ تہذیب وتمدن کی چمک دمک سے بالکل ناواقف تھے، آنکھوں کو چکاچوند کرنے والے مظاہر انہوں نے کبھی نہ دیکھے تھے، اب اگر روم کے کسی شہر ، باز نطینی حکومت کے کسی شہر ، یا ایرانی ساسانی مملکت کے کسی شہر میں داخل ہو کر ان کے منہ میں پانی بھر آتا، اس تمدن پر فریفتہ ہو جاتے اور کہنے لگتے ، کیا کہنے اس تمدن کے ، اس کار ی گری، اس عیش وتنعم کے ، انسانی عقل کہاں تک پہنچ گئی! اور کیسی تہذیب کو جنم دیا ہے۔

اگر وہ یہ کہتے تو میں انہیں معذور سمجھتا ،کیوں کہ وہ صحرائے عرب کا ایک بدوہی تھا، جس کی آنکھیں ایک ترقی یافتہ ملک کے دارالسلطنت میں آکر خیرہ ہوئی جارہی تھیں اور وہ اس تمدن کے سامنے ہو ش باختہ ہو گیا، لیکن تاریخ کا مطالعہ کرنے والا حیران رہ جاتا ہے اور اس کے تعجب کی کوئی انتہا نہیں رہتی اور اس عجیب تجربہ کے سامنے جو انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا انوکھا تجربہ تھا، اعتراف سے اس کی گردن جھک جاتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ عربی مسلمان اس تمدن سے بالکل متاثر نہیں ہوئے او روہ اپنی اسلامی شخصیت کے محافظ وپاسبان رہے۔

آج عالم عربی کے کسی ملک کے دارالسلطنت مثلاً امارات میں ابوظہبی یا قطر میں دوحہ کو ہی لے لیجیے، وہاں ہم ضروری سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارے گھروں کا طرز تعمیر اور فرنیچر بالکل ویسے ہی ہو جیسا انگلینڈ یا امریکا میں ہوتا ہے، ہماری تہذیب او ران کی تہذیب میں مکمل اتفاق او رہم آہنگی ہو ، لیکن سوچیے کہ وہ عربی اور بدوی مسلمان کس طرح اپنی اسلامی شخصیت کو مضبوطی سے تھامے رہے، ایرانی اور رومی تہذیب کے آگے انہوں نے سرخم نہ کیا، یہ تاریخ کا ایک معمہ ہے، جس کو حل ہونا چاہیے، یہ ایک سوال ہے جو جواب طلب ہے اور اطمینان بخش جواب چاہتا ہے۔

میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ مسلمان مرد وعورت کی خود اعتمادی کا نتیجہ تھا، ان کو اپنے دین اور خدا کے آخری پیغام کی صلاحیت اور انسان کے لیے کامل ومکمل اور راہ نما دین پر مکمل بھروسہ تھا اوراسلامی شخصیت اسلامی زندگی ، جس کا نمونہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی الله عنہم کی زندگی میں انہوں نے دیکھا تھا اور ان تک وہ انہیں کے واسطے سے پہنچی تھی، شرم وحیا، عفت وطہارت ، حجاب ، وآداب معاشرت، تواضع، طہارت وپاکیزگی، اسلامی ذوق سادگی ، اسراف سے پرہیز ، قناعت، آپس کا احترام واکرام ، عدل وانصاف، حقوق زوجیت کا پاس ولحاظ ، رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا احترام، یہ وہ صفات وامتیازات ہیں جومردوں کے ساتھ عورتوں کے مکمل تعاون کا نتیجہ ہیں، اس طرح وہ اسلامی تمدن، اسلامی تہذیب او راسلامی شخصیت کی حفاظت کر سکے، مرد کارگہ حیات، مدرسوں میں، محکموں میں، عدالتوں میں او رگھر سے باہر کی دنیا میں اور خواتین گھروں میں ، اس طرح وہ معاشرہ کامل ومکمل، ہم آہنگ ویک رنگ او رتعان کے اصول پر کار بند تھا، مسلمانوں کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا کہ وہ دنیا کے بڑے بڑے اور زیادہ سے زیادہ ترقی یافتہ شہر میں اسلامی زندگی کا نمونہ پیش کریں ، ان کے قدم انطاکیہ پہنچے، انہوں نے دمشق، حلب وحمص پر حکومت کی ، قسطنطنیہ میں داخل ہوئے۔

سندھ کو فتح کیا، ملتان، بخارا اور سمر قند، ان کے قدموں کی خاک بنے، یہ تمام شہر اپنا ایک تمدن رکھتے تھے، جو بہت پرانا اور ترقی یافتہ تھا، ذوق لطافت سے آراستہ تھا ، لیکن مسلمان جہاں جاتے تھے ، اپنی تہذیب او راپنا تمدن لے کر جاتے تھے ، وہ نہ صرف اپنے تمدن کی حفاظت کرتے تھے، بلکہ تہذیب کے چراغ کو گل ہونا ہی پڑتا تھا اور تاب ناک اسلامی تہذیب کا آفتاب روشن ہو جاتا تھا، مسلمان اندلس گئے، اندلس یورپ کا ایک قلعہ ہے ، مسلمانوں نے وہاں ایک حسین تمدن کی بنیاد ڈالی اور ایک نیا طرز تعمیر ایجاد کیا، جو آج بھی اندلس کے لیے باعث زینت ہے ، آج بھی وہ مسجد قرطبہ، قصر حمراء اور اشبیلیہ کی مسجدوں سے بہتر کوئی چیز سیاحوں کی زیارت کے لیے پیش نہیں کرسکتے، حکومت ہندوستان اپنے ملک میں کثرت سے آثار قدیمہ کے باوجود تاج محل سے زیادہ حسین وخوش نما، جامع مسجد اور لال قلعہ سے بڑھ کر پر عظمت ، پر شکوہ ، آثار نہیں پیش کرسکتی ، مسلمان اپنی تہذیب وتمدن کو ساتھ لے کر گئے، انہوں نے وہاں اس کی آب یاری کی ، اس کو اور وسعت دی اورحسین سے حسین تربنایا، انہوں نے وہاں استفادہ بھی کیا، انہوں نے وہاں کے فن تعمیر، وہاں کی سلیقہ مندی اور طبیعت کے گداز، وہاں کے حسن وجمال کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اس پر اسلامی تہذیب کا اضافہ کیا۔
Flag Counter