Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

16 - 18
ٹیلی گرافی بابا
مولوی محمد عابد
لاہور کے ایک محلے میں ایک ”عامل بابا“ رہا کرتا تھا۔ جو کہ عملیات کے ساتھ ساتھ حکمت کا کام بھی کیا کرتا تھا، خاص بات ”بابے“ کی یہ تھی کہ مریض کی بیماری، مسائل، ذاتی اور گھریلو پریشانیوں پر بتائے بغیر ہی مطلع ہو جایا کرتا اور مریض کے تمام حالات از خود سنا کر دوا بھی بتلا دیتا ، بسا اوقات تو اس آدمی کا نام ولدیت، کاروبار اور رہائش کے بارے میں بھی ٹھیک ٹھیک معلومات فراہم کر دیتا، اچھے سمجھ دار لوگ بھی ان وجوہات کی بنا پر اس کے معتقد ہو گئے اور اس کا حلقہ ارادت بڑھتا چلا گیا۔

ایک مرتبہ ہمارے کچھ عزیز( جن میں ایک سابق اسٹیشن ماسٹر بھی تھے) روحانی علاج اور استخارے کے سلسلے میں ”بابا“ کے آستانے گئے، آستانے کا اندرونی حصہ ایک دفتر نما کمرے پر مشتمل تھا، جہاں بیٹھ کر ”بابا“ مریضوں سے ملاقات کیا کرتا، جب کہ بیرونی حصے میں ایک انتظار گاہ بھی، جہاں معتقد اور مریض نمبرلے کر باری کے انتظار میں بیٹھتے تھے، اسی انتظار گاہ کے ایک طرف ایک نشست ”بابا“ کے کمپوڈر کی تھی، جو ہاون دستہ ہاتھ میں پکڑے دوائیاں کوٹتا رہتا ،وہ کمپوڈر مزاجاً خوش طبع اور ملنسار ہونے کی وجہ سے لوگوں میں گھلا ملا رہتا اور حال احوال کے ساتھ ساتھ خوش گپییاں اور نصائح بھی سنا تا تھا، مگر اس دوران وہ مستقل اپنی جگہ پر براجمان رہتا اور دوائیں کوٹتا رہتا، ہمارے رشتہ دار آستانے پر پہنچے تو گپ شپ میں مصروف ہو گئے، مگر سابق اسٹیشن ماسٹر صاحب نے ہاون دستے کی مخصوص آواز پراپنے کان لگا دیے ۔ وہ لوگوں کی گفت گو اور ہاون وستے کی ٹھک ٹھک بغور سننے لگے اور بالاخر بابا کی ”کرامت“ تک پہنچ ہی گئے۔ اورصورت اس کی یہ بنی کہ ان سابق اسٹیشن ماسٹر صاحب نے ٹیلی گرافی کا فن پڑھا ہوا تھا اور وہ کمپوڈر اسی فن کو استعمال کرتے ہوئے مریضوں کی معلومات اس بابا تک پہنچا دیا کرتا تھا۔

ٹیلی گرافی دراصل”کوڈلینگویج“ کا ایک خاص فن ہے، جس کے ذریعہ دو چیزوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی مخصوص ٹھک ٹھک کو پیغام رسانی میں استعمال کیا جاتا ہے، ماضی بعید میں جب ٹیلی فون ایجاد نہیں ہوا تھا تو ملکوں اورشہروں کے مابین برقی رو اور بجلی کنکشن کے ذریعے ٹیلی گرافی کروا کرباہمی رابطہ اور پیغام رسانی کا کام لیا جاتا، اسی ذریعے سے خوشی اور غمی کی ارجنٹ خبریں لوگ متعلقہ اداروں کے ذریعے اپنے پیاروں تک پہنچایا کرتے تھے، چوں کہ ریلوے اسٹیشنوں کے آپس میں رابطے بھی برقی تارا ور ٹیلی گرافی کے ذریعے ہوا کرتے تھے، اس لیے اسٹیشن ماسٹروں کو یہ فن خصوصی طور پر پڑھایا جاتا تھا، یہی وجہ ہوئی کہ وہ اسٹیشن ماسٹر لوگوں کی گفت گو اور ہاون دستے کی ٹھک ٹھک میں یکسانیت کو بھانپ گیا۔

چناں چہ جب اس نے اندر جاکر ”بابے“ کو ساری بات باور کراکے تحقیق کی تو پتا چلا کہ وہ جعلی عامل بابا بھی کسی زمانے میں اسٹیشن ماسٹر رہ چکا ہے او راب اُس نے ٹیلی گرافی کا یہ فن اپنے کمپوڈر کو بھی سکھا دیا ہے اور کمپوڈر لوگوں سے اُن کے بارے میں معلومات حاصل کرکے بابا تک پہنچاتا ہے اور بابا اس طرح لوگوں کا اعتماد حاصل کرکے انہیں لوٹتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سادہ لوحوں کو لوٹنے کی یہ ایک مثال ہے، ایسے کئی اور حربے استعمال کرکے جعلی عامل لوگوں کا اعتقاد حاصل کرتے ہیں او رپھر ان کے ایمان، اعمال، مال وناموس سب کچھ برباد کر دیتے ہیں اور عام مشاہدے کی بات ہے کہ عامل لوگ بلاکے نفسیاتی ماہر ہوا کرتے ہیں، انہیں لوگوں کے مزاج ، طبیعتوں، عادات کا خوب ادراک ہوتا ہے، نیز یہ عام انسانی زندگی پر ان چیزوں کے اثرات سے بھی خوب واقف ہوتے ہیں، مثلاً نحیف نظر آنے والا تیز طرار آدمی در حقیقت چڑ چڑے پن کا شکار ہوتا ہے اور بدگمانی اور وہم اس کی عادت ہوتی ہے ،اس لیے اسے بہت سے لوگ دشمن نظرآتے ہیں، اب بابے نے کہہ دیا کہ تم پر جادو کیا گیا ہے تو وہ تو پہلے ہی یہ وہم لیے بیٹھا تھا، اسی طرح بظاہر فربہ نظر آنے والا آدمی طبعاً سُست اور قدرے بے وقوف سمجھا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ایسی تمام پریشانیوں سے بچنے کا واحد نسخہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک اصول بنالیں کہ جو عامل قرآن وحدیث پر عمل کرنے والا نظر آئے اور شرعی احکام کی کوئی خلاف ورزی اس سے ظاہر نہ ہوتی ہو اس کے سامنے اپنے مسائل کا اظہار کریں، جس آدمی میں یہ چیزیں نہ ہوں اس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ 
Flag Counter