Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

15 - 18
حجاب پر پابندی مغرب کی اسلام دشمنی کا ایک اورثبوت
محترم یرید احمد نعمانی
یورپ میں فرانس کے بعد ہالینڈ میں بھی برقع پہننے پر پابندی کا اعلان کردیاگیا ہے۔ وزیراعظم میکسین کا کہناہے کہ برقع کے علاوہ عوامی جگہوں پر ہیلمٹ پہننے پر بھی بندش ہوگی۔ہالینڈ کی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیاہے کہ آئندہ سال سے برقع، نقاب یا حجاب اور ایسے ملبوسات جن سے چہرہ نظر نہ آئے ،کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی۔ہالینڈ کے وزیراعظم میکسین نے ایمسٹرڈم میں میڈیا کو بتایا کہ یہ پابندی صرف برقع یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں ،بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہوگی۔ اس سے پہلے فرانس برقع اور حجاب پر پابندی عائد کرچکا ہے اوراب ہالینڈ دوسرا ملک ہوگا، جو برقع یا نقاب پر پابندی عائد کرے گا۔واضح رہے کہ ہالینڈ کی سترہ ملین کی آبادی میں سے ایک ملین آبادی مسلمانوں کی ہے۔

فرانس کے ایوان زیریں نے جولائی2010ء میں حجاب پر پابندی کے بل کی منظوری دی تھی۔جس کے بعد اپریل2011ء کے دوران پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پرپابندی عایدکردی گئی تھی۔یادرہے کہ فرانس نقاب پر پابندی لگانے والا یورپی یونین کا پہلا رکن ملک ہے۔چناں چہ اب فرانس میں عوامی مقامات پر، چہرے پر نقاب اوڑھنے والی کسی بھی مسلم خاتون کو مالی جرمانے اور قید کی سزا کاسامناکرناپڑتاہے۔ فرانس کے پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تیارکردہ اس قانون کے تحت، ملک کے تمام اسکولوں، ہسپتالوں، سرکاری ٹرانسپورٹ اورسرکاری دفاتر میں مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پرپابندی عایدہے۔ اور ان مقامات پر حجاب اوڑھ کر آنے والی خواتین کو 150یورو تک جرمانہ اداکرناپڑتاہے۔ نیزجو مرد حضرات اپنی بیویوں، بیٹیوں یا بہنوں کو حجاب اوڑھنے پرمجبور کریں یا جو علماء اس کی تبلیغ کریں ،انہیں تیس ہزار یورو تک جرمانے اور ایک سال قید کی سزادی جاتی ہے۔یہاں یہ امربھی قابل ذکرہے کہ فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی رہ رہی ہے اور وہاں مقامی اورغیر ملکی تارکین وطن سمیت مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔

فرانس کی مسلم کمیونٹی اور حکومت کے درمیان جہاں پہلے ہی کشیدگی پائی جارہی تھی ،وہاں اس متنازعہ قانون پر عمل درآمد نے حالات کومزیدکشیدہ بنادیاہے۔ مسلم کمیونٹی کے نمائندے ،صدر نکولا سارکوزی کی حکومت پر مسلمانوں سے امتیازی سلوک روارکھنے کاالزام عائدکررہے ہیں۔ جس وقت مذکورہ قانون پاس کیاگیاتھا، تومخالفین کا کہنا تھا کہ اس پرعمل درآمد مشکل ہوگا اورفرانس کی اعلیٰ انتظامی عدالت اسے غیرآئینی قراردے سکتی ہے۔ لیکن تاحال اس عدالت، نے اس قانون کو غیر آئینی قرار نہیں دیاہے۔فرانسیسی مسلمانوں کے مطابق اس قانون کے نفاذ سے فرانس میں دوسرے بڑے مذہب کے پیروکاروں کوشدید دھچکا لگاہے۔ملک میں اسلاموفوبیا کے خطرات اورزیادہ بڑھ رہے ہیں۔ مسلمانوں اور ان کی مساجد کومسلسل نفرت کا نشانہ بنایاجارہاہے۔واضح رہے کہ سال گزشتہ فرانس کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بیلجیم اورآسٹریانے بھی مسلم خواتین کے لیے نقاب اوڑھنے پر پابندی عاید کردی تھی۔

یورپ میں برقع وحجاب پراگرچہ پابندی لگادی گئی ہے۔مگر وہاں کے دانش وروں اورانسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ،اس قانون کوکڑی تنقید کانشانہ بھی بنایاجارہاہے۔ اس حوالے سے یورپ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنر تھامس حماربرگ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”اس طرح کے اقدامات سے خواتین کو آزادی دینے کی بجائے انھیں معاشرتی زندگی سے ہی نکال باہر کیا جارہا ہے۔ درحقیقت برقع پر پابندی ،یورپ کے انسانی حقوق کے معیارات اورخاص طور پر کسی کی نجی زندگی اور ذاتی شناخت کے احترام کے منافی ہے۔ جس طریقے سے مسلم خواتین کے لباس کے معاملے کو اچھالا جا رہا ہے،اس سے نمٹنے کے لیے بحث اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔“

حیران کن امریہ ہے کہ جس معاشرے میں پردے کو معاشرتی تعلقات میں رکاوٹ قراردے کر ہدف تنقیدبنایاجارہاہے،وہاں کی خواتین میں اسلام اورحجاب کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے۔کئی غیرمسلم خواتین اسلامی طرزلباس اپناکر اپنے تجربات بیان کررہی ہیں اور وہ خودکواس حقیقت کے اعتراف پرمجبورپارہی ہیں کہ واقعی حجاب وپردہ دراصل عورت کی عزت کا محافظ ہے۔”ناومی والف “امریکا کی ایک عیسائی خاتون ہیں۔ خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں ان کی عزت واحترام کے قیام کے لیے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں خواتین کی حیثیت کا مطالعہ ومشاہدہ ان کا خاص شغف ہے۔ حجاب کے حوالے سے ایک مسلم ملک میں مسلم لباس کا تجربہ ،انھوں نے یہ دیکھنے کے لیے کیا تھا کہ اس لباس میں عورت خود کیا محسوس کرتی ہے ؟ان کاکہناتھاکہ” میں،مراکش میں اپنی قیام گاہ سے جب بازار جانے کے لیے نکلی تو شلوار قمیص میں ملبوس تھی اور سر اسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ مراکش کی مسلم خواتین میں اسکارف عام ہے۔ ہرجگہ ان کااحترام کیاجاتا ہے۔ لیکن وہ چوں کہ غیر ملکی خاتون تھیں، لہٰذا تجسس اور حیرت بھری کچھ نظریں ان کی طرف ضرور اٹھ رہی تھیں۔ لیکن تجسس کی چند نگاہوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں بالکل آرام سے تھی۔ کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ میں ہر لحاظ سے خود کو محفوظ، بلکہ ایک طرح سے آزاد محسوس کر رہی تھی۔“

”مسلم خواتین، پردہ اور جنس“ کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناومی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ مسلم اقدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پردے کا مطلب عورت کو دباکر رکھنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ ” پبلک بمقابلہ پرائیویٹ“ کا معاملہ ہے۔ مغرب نے عورت کو آزاد چھوڑ کر ایک طرح سے جنس بازار بناکر رکھ دیا ہے، جب کہ اسلام عورت کے حسن اور اس کی جنس کو صرف اْسی مرد کے لیے مخصوص کردیتا ہے، جس کے ساتھ مذہب کے رسوم ورواج کے مطابق ،اس کا زندگی بھر ساتھ رہنا طے پاجائے ۔

کچھ عرصے پہلے امریکا ہی کی ایک ہسپانوی النسل نومسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتاتھا۔ گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری ،ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور ، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی۔ میں بظاہر آزاد و خود مختار ہوتی تھی، لیکن فی الحقیقت دوسروں کی پسندو ناپسند کی قیدی ہوتی تھی۔ پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے، لوگ میری طرف متوجہ ہیں۔عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسر بے فکر و آزاد کردیا ہے“۔

حال ہی میں معروف ہالی وڈ اداکار لیام نیسن نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاہے۔ انسٹھ سالہ اداکار عیسائیت میں کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں۔غیر ملکی اخبار کے مطابق لیام نیسن کا کہنا تھا کہ ترکی میں فلم کی عکس بندی کے دوران ،وہ اسلامی عبادات سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ جس سے انہیں روحانی سکون محسوس ہوا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مساجد بہت خوب صورت ہیں اور5 وقت نماز کی ادائیگی سے، انسان مزید اسلام کے قریب ہوجاتا ہے۔

مغرب اس وقت اپنی بے حیاتہذیب اورمادرپدرآزادثقافت کی بدولت ہلاکت وبربادی کے کس دلدل میں گرچکاہے؟اس سوال کے جواب کے لیے اس خبر کا حوالہ دیناہی کافی ہوگا ،جس میں بتایاگیاہے کہ پانچ کروڑ امریکی مختلف اقسام کے دماغی امراض میں مبتلاہیں۔ہر پانچ میں سے ایک امریکی ذہنی مریض بن چکاہے۔مردوں کی نسبت خواتین زیادہ پیچیدہ دماغی بیماریوں کا شکارہیں۔23فی صد خواتین کے مقابلے میں، 16.8فی صد مرداس عارضے کا شکارپائے گئے۔جب کہ 50برس سے زائد عمر کے افراد کی بہ نسبت 18سے 25 برس کی عمر کے نوجوانوں میں یہ بیماری دگنی شرح میں موجود ہے۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایک کروڑ 14لاکھ امریکیوں میں دماغی عارضہ شدید نوعیت کا پایاگیاہے،جس میں ان کی زندگیاں ختم ہوسکتی ہیں۔یہ شرح کل آبادی کا پانچ فی صد ہے۔گزشتہ برس 87لاکھ امریکیوں میں خودکشی کا رجحان انتہائی شدید نوعیت کاپایاگیا۔جب کہ12 سے 17برس کے 19 لاکھ نوعمر امریکی ڈپریشن کا شکاربھی پائے گئے۔واضح رہے کہ یہ رپورٹ امریکا بھرمیں12برس سے زائد عمر کے 6لاکھ 75ہزار افراد پر سروے کے بعدمرتب کی گئی ہے۔

طاغوتی قوتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات، دراصل مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوششیں ہیں۔کیوں کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران ،جس طرح مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے ،اس نے صہیونی آلہ کاروں کی نیندیں اڑادیں ہیں۔صرف امریکا میں سالانہ20ہزار افراد دائرئہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔اب تک جس تہذیب وتمدن کو مادہ پرستی اور خدابیزاری کے لباس میں پیش کیاجاتارہاہے،آج وہ دیمک زدہ لکڑی کی تصویر پیش کررہی ہے۔ کل تک جس کلچر اورثقافت کو مثالی کہاجاتاتھا ،آج اسی کے دل دادہ اس سے اعلان براء ت کررہے ہیں۔ مغرب میں اسلام کی روز بہ روز بڑھتی مقبولیت ، اسلام کی حقانیت اورپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی کہی جاسکتی ہے۔ 
Flag Counter