Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1433ھ

ہ رسالہ

7 - 18
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
مسافر قصر نماز کہاں سے شروع کرے
سوال…کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

شرعی سفر میں قصر کا حکم شہر سے نکلنے کے بعد لگے گا یا گاؤں دیہات سے باہر نکلنے کے بعد؟ یعنی زید مثلاً شاہ فیصل کالونی میں رہتا ہے اور وہاں سے دور دراز سفر کی نیت سے نکلتا ہے جس کی مسافت شرعی سفر سے بھی زیادہ ہے تو کیا شاہ فیصل سے نکل کر کینٹ ریلوے اسٹیشن میں بھی قصر ہی پڑے گا یا کراچی کی حدود سے نکل کر قصر پڑھے گا؟

فاطمہ کی شادی دوردراز کے علاقے میں ہوئی ہے ۔ تو اب اگر فاطمہ دو تین دنوں کے لیے اپنے والدین کے گھر آئے تو قصر پڑھے گی یا نہیں؟

سفر میں مسافت کا اعتبار گھر سے باہر نکلنے سے ہی ہوتا ہے یا شہر سے باہر نکلنے سے؟

جواب… کسی شہر یا گاؤں سے سفر شرعی پر جانے والا اس وقت قصر کرے گا، جب وہ اس شہر یا گاؤں کی حدود سے باہر نکل جائے گا او رجب تک ان کے حدود میں رہے گا اس کے لیے قصر کرنا جائز نہیں ہو گا ، لہٰذا صورت مسئولہ میں شاہ فیصل کالونی سے سفر کرنے والے کے لیے کراچی کی حدود میں قصر کرنا جائز نہیں، البتہ جب وہ اس کی حدود سے باہر نکل جائے گا تو قصر کرے گا۔

اگر فاطمہ کے علاقے اور اس کے والدین کے علاقے کے درمیان مسافتِ سفر شرعی اڑتالیس میل (77,24 کلو میٹر) کا فاصلہ ہے ، تو جب وہ پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت سے اپنے والدین کے گھر آئے گی تو وہاں قصر کرے گی۔

سفر میں مسافت شرعی کا اعتبار گھر سے نکلنے کے بعد سے نہیں ہو گا، بلکہ اس شہر یا گاؤں کی آبادی کے آخری کنارے سے نکلنے کے بعد اگلے شہر یاگاؤں کی حدود شروع ہونے تک کے درمیانی فاصلے کا ہو گا، پس اگر ان دونوں کے درمیان اڑتالیس میل (77,24 کلو میٹر) فاصلہ بنتا ہے تو یہ مسافتِ سفر شرعی ہو گی ورنہ نہیں اگرچہ گھر سے یہ فاصلہ اڑتالیس میل (77,24 کلو میٹر) بنتا ہو۔

بینک کی ملازمت کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں:

بینک کی نوکری حرام ہے یا نہیں اگر ہے تو کیوں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہا جاتا ہے کہ ہم تو بینک میں اپنی محنت کرتے ہیں دن رات کام کرتے ہیں تب تنخواہ ملتی ہے، براہ کرام ان باتوں کی ہر پہلو سے وضاحت فرمائیں۔

اگر نوکری کی بہت سخت ضرورت ہو اس دوران بینک کی نوکری کے علاوہ دوسری نوکری آسانی سے نہ مل رہی ہو تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے ۔

جواب… واضح رہے کہ بینک میں کام کرنے والے ملازمین دو طرح کے ہوتے ہیں ، کچھ تو ایسے جن کا سودی لین دین سے تعلق ہوتا ہے، جیسے سودلکھنا دینا یا لینا وغیرہ ان کی تنخواہ دو وجہ سے حرام ہے:

عمل کے ناجائز ہونے کی وجہ سے۔

بینک تنخواہ آمدنی سے دیتا ہے اور اس کی آمدنی حرام ہے۔

دوسرے وہ ملازمین جن کا سودی لین دین سے تعلق نہیں ، جیسے چوکیدار ، ڈرائیور وغیرہ ان کا عمل تو جائز ہے لیکن ان کو تنخواہ چوں کہ حرام آمدنی سے دی جاتی ہے ، جس کا انہیں علم بھی ہے ، اس لیے ان کے لیے بھی تنخواہ لینا جائز نہیں۔

باقی آپ کا یہ اشکال کہ بینک میں تنخواہ محنت پر ملتی ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ناجائز او رحرام محنت پر ملنے والی تنخواہ بھی حرام ہوتی ہے ، مثلاً شراب فروش، چور، ڈاکو، زانیہ، گانے بجانے والے، ان سب کو جو اجرت ملتی ہے وہ محنت ہی پر ملتی ہے، مگر ان کی محنت حرام کی ہے لہٰذا ان کو جو مال ملا ہے حرام شمار ہوگا یہی حکم بینک کی ملازمت کا ہے کیوں کہ بینک کی ملازمت کرنے والا سودی لین دین کرنے والوں کا معاون ہوتا ہے۔

بہتر صورت تو یہی ہے کہ اس حرام کمائی سے اپنے آپ کو بچایا جائے لیکن اگر کسی کا روز گار نہیں او ربالکل فقروفاقہ کی حالت ہے او ربینک کی ملازمت کے علاوہ کوئی اور ملازمت بھی میسرنہیں ، تو ایسی صورت میں آپ بقدر ضرورت بینک کی ملازمت کر نے کی گنجائش، مگر اس ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے لیے حلال روز گار کی تلاش کریں اور بینک کی ملازمت پر توبہ واستغفار کریں، جب دوسرا کوئی حلال روز گار مل جائے تو بینک کی نوکری کو فوراً چھوڑ دیں۔

نیز، اگر بالکل مجبوری کی حالت نہیں ہے تو ایسی صورت میں بینک کی نوکری کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

کسی کو حَکم بنانے کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں؟

ہمارے علاقے میں عام عمل اور رواج یہ ہے کہ فیصلوں کے لیے تمام فریقین کی رضا مندی سے اختیار نامے لے کر جرگہ ( پنچایت) ہوتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں تاکہ باہمی لڑائی جھگڑا ختم ہو جائے او رعلاقے میں کوئی شر وفساد پیدا نہ ہو۔ جرگہ کرنے والے دین دار اور تجربہ کار ہوتے ہیں۔ برابری اور انصاف کی پوری کوشش کرتے ہیں اور آخر میں غیر دانستہ غلطی پر تمام فریقین سے معافی بھی مانگتے ہیں اور فریقین معاف بھی کر دیتے ہیں۔

یہ فیصلے اکثر مشترکہ زمین مکان کی تقسیم یا لڑائی جھگڑے کے ہوتے ہیں۔

کیا ایسے جرگہ ( پنچایت) کے فیصلوں کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟

کسی فیصلے کو تمام فریقین کے ماننے کے کچھ دن بعد ایک آدمی (فریق) انکار کرے اور شر وفساد کی کوشش کرے اس کے لیے کیا حکم ہے ؟

جرگہ کی تقسیم اور فیصلے کے بعد کوئی آدمی ( فریق) زبردستی یا چوری سے دوسرے کے حصے سے درخت کاٹے اس کا کیا حکم ہے؟

کیا جرگہ والوں کو شروفساد کے خاتمے کے لیے اپنے فیصلوں پر عمل میں سختی کی اجازت ہے۔ مثلاً اس آدمی ( فریق) کا بائیکاٹ کرنا وغیرہ وغیرہ تاکہ اُس کو تنبیہ ہو۔ کیا ایسا کرنا عارضی طور پر جائز ہے یا نہیں؟

جواب… واضح رہے کہ ہر مستحق کو اس کا حق دلانا شریعت مطہرہ میں مطلوب ومقصود ہے او رحق دار کو جہاں کہیں سے بھی اپنے حق کا اطمینان ہو جائے چاہے قاضی کے ذریعہ سے ہو یا کسی اور ذریعہ سے مثلاً (جرگہ (پنچایت) یا کسی ثالث کو حَکَمْ) بنانے کی صورت میں ہو اس میں شریعت مطہرہ نے فریقین کو اختیار دیا ہے جسطرح دوسرے معاملات مثلاً: خرید وفروخت، نکاح، طلاق وغیرہ میں ہر ایک شخص کو اپنے اوپر ولایت حاصل ہے ، اسی طرح تنازعات میں بھی اگر وہ اپنی ولایت کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی تنازعہ کے تصفیہ کے لیے کسی کو حَکَمْ یا جرگہ ( پنچایت) کو مقرر کرے تو شرعاً یہ جائز ہے۔ البتہ اس میں چند امور کی رعایت لازمی اور ضرور ی ہے جو کہ درجہ ذیل ہیں۔

شرعی فیصلہ کرنے والے اہل علم مفتیان وعلمائے کرام کی جماعت ہو اور اگر ساری جماعت اہل علم کی نہ ہو تو کم از کم اس پنچایت میں ایک ماہر عالم دین کا ہونا ضروری ہے ، تاکہ فریقین کا فیصلہ شرعی اصول وقواعد کے موافق ہو۔

جرگہ ( پنچایت) یاکسی کو ثالث ( حَکَمْ) مقرر کرنے میں فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔

ثالث (حَکَمْ) یا پنچایت کا فیصلہ فریقین کی موجودگی میں ہو ۔

جس شخص کو حکم یا جس جماعت کو پنچایت کے طور پر مقرر کیا گیا ہو ، اس میں ان صفات کا پایا جانا ضروری ہے ، جو ایک شرعی قاضی کے لیے ضروری ہیں ، مثلاً: مسلمان ہونا، عاقل، بالغ ہونا وغیرہ وغیرہ۔

جب فریقین باہم رضا مندی سے کسی پنچایت ، یا حَکَمْ سے فیصلہ کر والیں اور وہ فیصلہ شرعی اصول وقواعد کے موافق ہو ، تو وہ فیصلہ شرعاً نافذ ہو گا، پھر فریقین کا اس پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے۔

تاہم فیصلہ سے قبل اگر فریقین پنچایت یا ثالث کو اپنا حکم تسلیم نہ کریں تو ایسی صورت میں ان کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ہو گا، لیکن فیصلہ کرنے کے بعد اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اس کا انکار شرعاً معتبر نہیں ہو گا۔

شرعی فیصلہ کے بعد دوسرے کا حق دبانا، یا چوری کرنا، ناجائزاور حرام ہے او رایسا کرنے والا عند الله جوابدہ ہو گا۔

واضح رہے کہ اگر پنچایت کا فیصلہ شرعی اصولوں کے موافق ہو اوراس کے باوجود بھی کوئی شخص فیصلہ کے بعد اس میں شر وفساد کرنا چاہے اور شرعی فیصلہ کو تسلیم نہ کرے، تو ایسے شخص کو ابتداءً نرم لہجہ کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی جائے تاہم وہ اگر اپنے شروفساد سے باز نہ رہے تو ایسے شخص سے قطع تعلق بھی شرعاً جائز ہے، تاکہ حقوق الله کی پاس داری رہے۔

نیز، بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی مسلمان سے قطع تعلقی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

پھل دار اور غیر پھل دار درختوں میں عشر کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں:

پھل دار درختوں کی لکڑیوں میں عشر ہے یا نہیں ؟

ایسی زمینیں جو قابل کاشت نہیں ہوتیں، زمیندار اس میں درخت لگا دیتے ہیں کہ جو کہ پھل دار نہیں ہوتے پھر کچھ عرصے بعد کاٹ کر خود استعمال کرتے ہیں یا بیچ دیتے ہیں تو کیا ان درختوں میں عشر ہو گا یا نہیں؟

بعض لوگ قابل کاشت زمینوں کے کناروں پر غیر پھل دار درخت لگاتے ہیں تو کیا اس میں عشر ہو گا یا نہیں ؟

ہمارے علاقے میں بعض لوگوں کے اپنے پہاڑ ہوتے ہیں جن پر وہ درخت لگاتے ہیں او ریہ درخت پھل دار نہیں ہوتے تو کیا ان میں عشر ہو گا یا نہیں؟

مذکورہ صورتوں میں اگر عشر ہے تو خود استعمال کرنے کی صورت میں عشر کس طرح ادا کیا جائے گا؟

جواب… جواب سے پہلے بطور تمہید ایک بات سمجھ لینا ضروری ہے کہ زمین کی ہروہ پیداوار جو مقصودی ہو اور عادةً اس کے کاشت کرنے کا رواج ہو او راس کے ذریعے زمین سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہو تو اس میں عشر واجب ہوتا ہے اور ہر وہ پیداوار جو مقصودی نہ ہو اور عادةً اس کے کاشت کرنے کا رواج نہ ہو تو اس میں عشر واجب نہیں ہوتا، إلایہ کہ کاشت کرکے اس کو مقصود بنایا گیا ہو او راس کے ذریعہ زمین سے فائدہ حاصل کرنے کا قصد ہو تو پھر اس میں عشر واجب ہوتا ہے۔

مذکورہ بالاتمہید کے بعد جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

ان درختوں کی لکڑیوں میں عشر واجب نہیں ہے کیوں کہ یہ مقصودی پیداوار نہیں ہے ، مقصودی پیداوار پھل ہے اس میں عشر واجب ہے پس ان کی لکڑیوں میں عشر واجب نہیں ہے۔

، درخت اگرچہ زمین کی مقصودی پیداوار نہیں ہے ، اس لیے ان میں عشر بھی واجب نہیں ہوتا، لیکن جب کاشت کرکے ان کو مقصود بنایا گیا ہو اور اس کے ذریعے زمین سے فائدہ اٹھانے کا قصد ہو او رکسی زمین کو اس کے لیے خاص کر دیا گیا ہو تو ان میں عشر واجب ہوتا ہے، لہٰذا مذکورہ دونوں صورتوں میں عشر واجب ہو گا۔

ان درختوں میں عشر واجب نہیں ہے۔

عشر میں پیداوار کا دسواں حصہ واجب ہوتا ہے ، تاہم اس کی جگہ قیمت دینا بھی جائز ہے ، لہٰذا مذکورہ جن صورتوں میں عشر واجب ہے، اگر کوئی آدمی سب درختوں کو خود استعمال کرے تو ان کے دسویں حصے کی قیمت دینا لازم ہو گا۔ 
Flag Counter