فخفص فیہ و رفع حتی ظنناہ فی طائفۃ النخل ۔۔۔۔۔فقلنا یارسول اللہ !و ما لبثہ فی الارض ؟قال أربعون یوما، یوم کسنۃ، و یوم کشہر ، و یوم کجمعۃ ،و سائر ایامہ کأیامکم ، قلنا یا رسول اللہ ! فذالک الیوم الذی کسنۃ أتکفینا فیہ صلاۃ یوم ؟ قال : لا، اقدروا لہ قدرہ ۔( مسلم شریف ، باب ذکر الدجال ، ص ۱۲۷۱، نمبر ۲۹۳۷؍۷۳۷۳؍ ابن ماجۃ شریف، باب فتنۃ الدجال و خروج عیسی ابن مریم و خروج یاجوج و ماجوج ، ص ۵۹۰، نمبر۴۰۷۵ ) اس حدیث میں ہے کہ ایک سال کا غیر معتدل دن ہو تو اس میں نورمل دن میں جو نماز کے اوقات ہیں اسی کا اندازہ کر کے نماز پڑھو۔
{اندازہ کی وضاحت کے لئے یہ چار بڑے بڑے مفتیوں کا فتوی ہے }
حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب ،( شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند) کا فتوی اس بارے میں بہت واضح ہے ، وہ فرماتے ہیں ۔ اور تقدیر کے لئے اقرب الایام اور اقرب البلاد اختیار کرنے کے بجائے اعدل الایام کو لینا چاہئے ، یعنی دیکھا جائے کہ وہاں کے معتدل زمانہ میں غروب شمس سے غروب شفق ابیض کا وقت رات کتنا حصہ ہے ؟ اسی طرح طلوع فجر سے طلوع شمس تک کا وقت رات کا کتنا حصہ ہے ؟ تہائی ، چوتھائی ، پانچواں ، چھٹا ، ساتواں ، آٹھواں جو متعین ہو وہی غیر معتدل راتوں میں تجویز کرنا چاہئے ، مثلا اعدل الایام ،،میں یہ دونوں وقت رات کا پانچواں حصہ ہوں تو غیر معتدل راتوں میں غروب شمس کے بعد ایک خمس رات گزرنے تک مغرب کا وقت سمجھا جائے ، پھر تین خمس لیل حقیقی قراردئے جائیں اور ان میں عشاء وتر اور تراویح ادا کی جائیں اور جب رات کا ایک خمس باقی رہے تو صبح صادق قرار دی جائے ، دجال والی روایت میں