بات یہ ہے کہ اگر سفر میں ہو یا بیمار ہو اور پریشانی کا سامنا ہو تو روزہ نہ رکھے ، بلکہ بعد میں رکھے ، جسکا مطلب یہ ہے کہ حرج کی وجہ سے سہولت دی جائے گی ۔
(۴)عن ابن عباس قال صلی رسول اللہ ﷺ الظہر و العصر جمیعا بالمدینۃ فی غیر خوف و لا سفر ، قال ابو الزبیر فسألت سعیدا لم فعل ذالک ؟فقال فسألت ابن عباس کما سألتنی فقال أراد أن لا یحرج أحدا من أمتہ ۔( مسلم شریف ، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر ، ص ۲۸۶، نمبر ۷۰۵؍ ۱۶۲۸) اس حدیث میں ہے کہ امت پر حرج نہ ہو اس لئے بغیر کسی خوف اور بغیر سفر کے مدینہ طیبہ میں حضور ﷺ نے جمع بین الصلاتین فرمائی ۔
اصول : ان آیت اور احادیث سے یہ اصول نکالا جا سکتا ہے کہ امت پر حرج ہو تو انکو اتنی سہولت دی جا سکتی ہے جسکو وہ برداشت کر سکے ۔
{جب احادیث ، یا آیت سے یہ پتہ نہ چلے کہ کیا لازم کرنا ہے}
{، تو وسط چیز لازم کی جاتی ہے}
(۱)فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من أوسط ما تطعمون أھلیکم أو کسوتہم او تحریر رقبۃ ۔( آیت ۸۹، سورت المائدۃ ۵) اس آیت میں ہے کہ اوسط کھانا دو ، جو نہ بہت اعلی ہو اور نہ ادنی ہو۔
(۲)و علی المولود لہ رزقہن و کسوتہن بالمعروف( آیت ۲۳۳، سورت البقرۃ ۲) اس آیت میں ہے کہ عورت کو معروف روزی دو یعنی بہت زیادہ بھی نہ ہو اور کم بھی نہ ہو متوسط ہو ۔