روزہ بند کرتے ہیں ، جو طلوع آفتاب سے 50 منٹ پہلے ہوتا ہے ، اور کچھ حضرات نصف اللیل ،آدھی رات کو سحری بند کرتے ہیں جو ایک بجکر 20 منٹ ہوتا ہے ، اور دونوں وقتوں کے درمیان ڈھائی گھنٹے کا فاصلہ ہوتا ہے ، اب ایک ہی شہر میں دو مسجدوں کے ٹائم ٹیبل میں اتنا بڑا فاصلہ تکلیف دہ ہے اور عوام کے بد ظن ہونے کا سبب ہے ۔ اس لئے یہ چند دلائل پیش کر رہا ہوں ، تاہم مجھے اس پر ضد نہیں ہے کہ یہی رائے صحیح ہے ۔
مجھے اس کا بھی اقرار ہے کہ جو دلائل پیش کر رہا ہوں وہ اعدل الایام کو اصل بنانے کے لئے صریح نہیں ہیں ، البتہ ا گے آنے والی آیت اور احادیث سے اصول نکالا جا سکتا ہے، اور ان اصولوں سے اعدل الایام کا وقت غیر معتدل ایام میں سیٹ کیا جا سکتا ہے ۔
و العلم عند اللہ ، ثمیر الدین قاسمی غفر لہ
{نصف اللیل کا فارمولہ احتیاط پر ہے}
گرمی کے زمانے میں جو حضرات نصف اللیل (ایک بجکر 20 منٹ سے پہلے سحری بند کرتے ہیں ) ، اور ڈیڑھ بجے فجر کی نماز پڑھ لیتے ہیں ، انکی سحری اور نماز جائز ہیں ، کیونکہ وہی اصل ہے اور اسی میں احتیاط ہے ، البتہ میں جو اعدل الایام کا فارمولہ پیش کر رہا ہوں وہ صرف حرج کی وجہ سے پیش کر رہا ہوں ، اس کی مثال یہ ہے کہ ایک آدمی کھڑا نہیں ہوسکتا ہے ، اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی گنجائش ہے اس کے با وجود مشکل سے وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ ہی لیتا ہے تو اس کی نماز ادا ہوجائے گی ۔دوسری مثال : ایک بیمار آدمی رمضان کا روزہ نہیں رکھ سکتا ، اس لئے اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی گنجائش ہے ، لیکن مشقت کرکے روزہ رکھ ہی لیتا ہے تو اس کا روزہ ادا ہوجائے گا ، اسی طرح ایک بجکر 20 سے پہلے ،( جسکو نصف اللیل کہتے ہیں ) سحری بند کرتا ہے، اور اس کے