انسانی خون کی قدر ومنزلت
مولانا نثار احمد حصیر قاسمی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ فروکش ہونے کے بعد اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی اورمیثاق مدینہ کے ذریعہخارجہ پالیسی اور بیرونی دنیا کے ساتھ سلوک کرنے کے بنیادی قواعد وضوابط متعین کیے، میثاق مدینہ گویا ایسا اسلامی دستور تھا جو مسلمانوں اور یہود ومشرکین کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے والا، نئی مملکت کی حفاظت کے لیے فوج تیار کرنے والا،اس مملکت کے مقاصد کو روبہ عمل لانے والا، نئے سماج کی مشکلات کو حل کرنے والا اور سارے انسانوں کی زندگی سے متعلق امور کی گارنٹی دینے والا تھا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دوسراوثیقہ بھی تیار کیا، جس میں اندرونی تعلقات کو منظم کرنے پر توجہ دی گئی؛ کیوں کہ یہی تنظیم او راندرونی تعلقات کی استواری میثاق مدینہ کے لیے بنیاد بن رہا تھا، اسی کے ذریعہ اسلامی سماج اور دیگر معاشروں میں امن وامان کو بحال کیا جاسکتا اور چین وسکون کا ماحول پیدا کیا جاسکتا تھا اس کا اعلان دس ہجری میں اس وقت کیا گیا جب رسول الله صلی الله علیہ و سلم فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مدینہ سے روانہ ہوئے،جسے ہم حجة الوداع کے نام سے جانتے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس حج میں آخری خطبہ دیا، جسے خطبة الوداع کے نام سے ہم جانتے ہیں۔
اس خطبہ کے اندر بڑی اہم اہم باتوں کا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ذکر فرمایا اور یہ پورا خطبہ گویا اہم دستوری، لسانی اور قانونی دفعات پر مشتمل تھا، جس میں سے ایک جان ومال اور عزت وآبرو کی حرمت تھی، ہم اس جگہ صرف اسی ایک گوشے پرر وشنی ڈالنا چاہتے ہیں اور اسلام میں انسانی جانوں کی قدر وقیمت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، آج ہم ساری دنیا میں قتل وغارت گری، ظلم وبربریت، ناحق خون بہانے اور ہلکے وبھاری ہتھیاروں کے ذریعہ پوری قوم پر تسلط جما لینے اور نسلی ومذہبی تطہیر وخوں ریزی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، دہشت گرد تنظیمیں دندنارہی ہیں اور خوف وہراس کا ماحول پیدا کر چکی ہیں، اسلام دشمن طاقتیں اسلام کے نام پر ہی اس کی جڑیں کھود رہی ہیں اورامت مسلمہ کے وجود کے لیے خطرہ بن گئی ہیں، ساری دنیا کے اندر جیسے نسل کشی اور اجتماعی قتل کی جنگ شروع ہو گئی ہو، ہر طاقت ور کمزور کو نشانہ بنا رہا اور جدید ٹیکنالوجی کا حامل اس سے تہی دست ملکوں اور وہاں کی اقوام کو درندگی وسفاکی سے دو چا رکرر ہا ہے، جیسے آج ہم کسی مہذب دنیا میں نہیں بلکہ جنگل میں زندگی بسر کر رہے ہوں، بلکہ آج دنیا کی حالت تو اس جنگل اور وہاں کی درندگی سے بھی بدتر ہو گئی ہے کہ جنگل کے اندر بھی طاقت ور کے حملے کمزوروں پر گنے چنے ہی ہوتے ہیں، اس قدر کثرت وبربریت کے ساتھ نہیں جس طرح اس دنیائے انسانیت میں اس وقت ہو رہے ہیں۔
یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم ہر روز دن کا استقبال یہاں وہاں قتل عام، نسل کشی، خونی کھیل اور جسم انسانی کی ارزانی کی خبروں سے کرتے ہیں، جیسے یہ جسم انسانی نہیں، بلکہ ریت کے ذرات ہوں جنہیں کاٹ کر یا توڑ کر زمین پر بکھیر دیا گیا ہو، آج ہم اپنے شب وروز کا آغاز اسی سے کرتے اور اسی پر ختم کرتے ہیں، اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اس طرح کے مناظر دیکھنے اور سننے کے عادی اور اس سے مانوس ہو گئے ہیں، ہم تفریح طبع کے طور پر رات کو جاگتے ہوئے اس کا مشاہدہ کرتے، بلکہ بسا اوقات کھاتے پیتے اور لہو ولعب میں مشغول رہتے ہوئے ان مناظر کو دیکھتے ہیں اورہمارے اندر کسی طرح کا کرب پیدا نہیں ہوتا اور نہ دل میں اضطراب وبے چینی پیدا ہوتی ہے، آج ہم پر بے حسی طاری ہو چکی اور ہماری انسانیت ہم سے رخصت ہو چکی ہے کہ ان ساری چیزوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ہماری انسانیت بیدار نہیں ہوتی اور وہ ہمیں انسانیت کا پیغام عام کرنے کے لیے نہیں جھنجھوڑتی ہے، جس کی وجہ سے ہم اسے روٹین ومعمول کی چیز سمجھنے لگے ہیں، ہماری زبان انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف بولنے اور اس کی صدا بلند کرنے سے عاجز وگنگ ہو گئی ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سارے قتل عام پر عوام تو عوام، خواص وقائدین کا بھی وجود حرکت میں نہیں آتا، وہ بھی محض ایک مذمتی بیان داغنے پر اکتفا کر لیتے، تشہیر او راپنی شخصیت کو اجاگر کرنے یا کہیں مناصب وعہدے حاصل کرنے کے لیے سیمینار وسمپیوزیم او رجلسے وجلوس منعقد کر لیتے اور اس کے بعد خاموش ہو جاتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس خطبہ وداع کے وثیقہ وچارٹر کے اندر جس کے بعد آپ اس دنیا سے کوچ کر گئے، امت کو خبر دار کیا ہے کہ وہ کسی حال میں خون کے دریاؤں میں چھلانگ نہ لگائیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اے لوگو! تمہارا خون ( تمہاری جان) اور تمہارا مال تم پر اپنے رب سے ملنے تک حرام ہے، تمہارے اس شہر، اس ماہ میں، تمہارے اس دن کی حرمت ہی کی طرح سے ، کیا میں نے ( الله کا پیغام) پہنچا دیا؟ صحابہ نے عرض کیا: ہاں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہم تک پہنچا دیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے الله! تو گواہ رہ،سنو! تم میرے بعد لوٹ کر کافروں والا عمل نہ کرنے لگنا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔“ (مجمع الزوائد:287/6)
دنیائے انسانیت کے رہبر وراہ نما اور قائدا علی کا یہی خطاب تھا، آپ نے سارے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یا ایھا الناس فرمایا، آپ نے اپنا روئے سخن صحابہ یا مسلمانوں یا اس وقت کے لوگوں کو نہیں بنایا، بلکہ ہر زمانہ کے اور ساری دنیا کے، ہرگوشے وخطے کے لوگوں کو مخاطب کیا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ساری انسانیت کے درمیان مشترکہ قواعد کی بنیاد رکھتے وقت یہی اسلوب ہوا کرتا تھا، آپ کی گفت گو نسل پرستانہ نہیں ہوتی کہ ایک گروہ کو مخاطب کریں، دوسرے کو نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہود کی طرح یہ نہیں کہا کہ وہی الله کی منتخب اور چنیدہ قوم ہیں، انہیں کو سارے حقوق حاصل ہیں، باقی ساری دنیا خدام اور عوام الناس ہیں، جو گرے پڑے لوگ ہیں، آپ کا خطبہ طبقاتی بھی نہیں تھا کہ ایک طبقہ کو دوسرے طبقہ پر امتیاز حاصل ہے اور ایک بدتر اور دوسرا بالاتر ہے، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا خطاب انسانیت کا بین الاقوامی چارٹر اور آفاقی اعلامیہ ہے، جس میں بحیثیت انسان کسی کے درمیان تفریق نہیں کی گئی اور نہ رنگ ونسل وجنس وقوم میں امتیاز روا رکھا گیا۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خطاب میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ و سلم اپنی امت کے بارے میں دشمنوں سے زیادہ اپنوں کی زیادتی اور قتل وغارت گری کا خدشہ ظاہر فرمارہے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب فارس وروم فتح ہو جائیں گے ( اور تمہارے زیر نگوں ہو جائیں گے ) تو تم کون سی قوم ہو گے؟ کہا گیا: ہم اسی طرح ہوں گے جس طرح الله نے حکم دیا ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: یا اس کے علاوہ کہ باہم مسابقت کرنے لگو اور دنیوی لذات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگو، پھر آپس میں حسد کرنے لگو اور ایک دوسرے کی جڑ کاٹنے لگو اور دوسرے سے بغض کرنے لگو، پھر ہجرت کرنے والوں کے گھروں کا رخ کرو، پھر ایک کی قیمت پر دوسرے کی گردن مارنے لگو۔“ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2962) ایک اور روایت میں ہے:”تیرا برا ہو، میرے بعد لوٹ کر کفار کا عمل کرنے لگو کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔“ (بخاری:6166)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قتل وغارت گری کی کثرت پر متنبہ کیا اور اس سے خبر دار کیا ہے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کی واضح دلیل ہے کہ قتل وغارت گری میں حد سے زیادہ اضافہ ہو جائے گا اور اس میں مسلسل زیادتی ہوتی رہے گی، خیرخواہ اور الله والے علما وربانین کی قلت ہو جائے گی، دنیا دار، جاہ ومنصب اور شہرت وبڑائی کے طالب علماء کی کثرت ہو جائے گی، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” دنیا کی حرص ولالچ ڈال دی جائے گی، فتنے ظاہر ہوں گے، ہرج کی کثرت ہو جائے گی، صحابہ نے عرض کیا: یہ ہرج کیا ہے، اے الله کے رسول؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قتل قتل، قتل وغارت گری کی کثرت اس حد تک ہو جائے گی کہ قتل کیے جانے والے کو علم نہیں ہو سکے گا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ہے اور خود قاتل کو پتہ نہیں ہو گا کہ وہ دوسروں کو کیوں قتل کر رہا ہے؟! حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگوں پر ایسا زمانہ نہ آجائے گا جس میں قاتل کو نہیں معلوم ہو گا کہ کس وجہ سے اس نے قتل کیا اور نہ مقتول ( قتل کیے جانے والے ) کو معلوم ہو سکے گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا جارہا ہے“ یہ اس وجہ سے ہو گا کہ لوگوں کی ذہنیت پراگندہ اور بھڑ کیلی ہو جائے گی، لوگ نامعقولیت پسندی، قساوت قلبی اور صحیح فکر وخیال سے دوری میں زندگی گذاریں گے، یہاں تک کہ بھائی بھائی کو قتل کرے گا تو اسے اس کا چچا قتل کر دے گا اور اس کے انتقام میں اس کے لڑکے کو قتل کر دیا جائے گا، یہاں تک کہ لوگ ماں باپ اور پڑوسیوں کو قتل کرنے لگیں گے۔
ابوموسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے قریب ،وقوع سے پہلے ایک بھونچال آئے گا، صحابہ نے عرض کیا، یہ بھونچال کیا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قتل وغارت گری، یہ تمہارے مشرکین کو (حالت جنگ میں) مارنے کی طرح نہیں ہو گا، مگر یہ ہو گا کہ خود تم میں سے بعض بعض کو قتل کریں گے، یہاں تک کہ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو قتل کرے گا، اپنے بھائی کو قتل کرے گا، اپنے چچا اور چچا کے لڑکے کو قتل کرے گا، صحابہ نے عرض کیا، کیا اس دن ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا: اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں سلب کر لی جائیں گی، اس کے پیچھے کے لوگ خس وخاشاک کی طرح ہوں گے، ان کی اکثریت سمجھے گی کہ وہ دین پر ہیں، جب کہ وہ دین کے کسی حصہ پر نہیں ہوں گے اور دین ومذہب کا کچھ بھی خوف ان میں نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انسانی لہو کی حرمت وعصمت پر بہت زیادہ زور دیا ہے، قیامت کے دن جب بدلہ دلانے کا وقت آئے گا تو سب سے پہلے خون کا بدلہ دلایا جائے گا، جب کہ سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا، نماز الله کا پہلا حق ہے اور خون بندوں کا پہلا حق ہے، اس لیے حقوق الله میں سب سے پہلے نماز اور حقوق العباد میں سب سے پہلے خون انسانی کا حساب لیا جائے گا، الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اسی کی وضاحت اس حدیث میں کی ہے:” قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا اور بندوں کے درمیان جس کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا، وہ خون ہو گا۔“
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی انسانیت نوازی اور آپ کی پوری سیرت کوعام کیا جائے، غیر مسلموں میں بھی اسے متعارف کرایا جائے او راپنوں میں بھی۔