انسانی تخلیق کا مقصد
ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم﴿یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ ﴾ صدق الله مولانا العظیم․
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿یَا أَیُّہَا الْإِنسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلَی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ ﴾ کہ تو مشقت اٹھانے والا، مشقت اٹھانے میں بڑھنے والا ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف”فَمُلَاقِیْہِ“ پھراس مشقت اور الله تعالیٰ کی طرف بڑھنے کے نتیجے میں تیری الله تعالیٰ سے ملاقات ہو گی۔
یہ پوری کی پوری دنیا، یہ پورا کا پورا عالم اور یہ پوری کی پوری کائنات، اگر آپ غور کریں گے توسب حرکت میں ہیں، ہر چیز حرکت کر رہی ہے۔ خدانخواستہ، یہ حرکت رک جائے تو خرابی اور نقصان شروع ہو جاتا ہے۔ پانی کو آپ دیکھ لیجیے۔ اگر پانی رکا ہوا ہے، ٹھہرا ہوا ہے تو وہ خراب ہوجاتا ہے۔ اور پانی چلتا رہتا ہے، بہتا رہتا ہے تو وہ ”ماء جاری“ ہے اور وہ پاک صاف رہتا ہے۔ گندگیاں بھی اگر اس میں پڑ جائیں تو بھی وہ اس کو نقصان نہیں پہنچاتیں، وہ پاک صاف رہتا ہے۔
اسی طرح انسان ہے۔ ہم اپنے ہاتھ کی حرکت روک دیں، اور آپ چار پانچ مہینے ہاتھ باندھے رہیں، اس کو حرکت نہ دیں تو اب چار مہینے بعد کیا وہ ہاتھ کام کرے گا؟ گاڑی ہے۔ آپ اس کو لاکر گھر کے گیراج میں کھڑا کر دیں۔ روزانہ اس کو صاف کریں، چمکائیں، لیکن حرکت نہ دیں، اسٹارٹ نہ کریں۔ چار مہینے بعد اسٹارٹ کرنا چاہیں گے تو کیا وہ اسٹارٹ ہوگی؟ جتنے دن اس کی بے حرکتی کے بڑھیں گے، اتنی ہی اس کی خرابی بڑھتی جائے گی۔
چناں چہ اللہ کے اس قانون کے تحت سورج حرکت میں ہے، چاند حرکت میں ہے، ستارے حرکت میں ہیں، ساری کائنات حرکت میں ہے۔ حرکت رک جائے تو بہت بڑی تباہی ہے۔ حرکت رک جائے تو بہت بڑا نقصان ہے۔ ہر چیز حرکت کر رہی ہے۔ اس حرکت کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ آپ نے حرکت کی تو گھر سے مسجد کی طرف آئے۔ حرکت کا ایک مقصد تھا اور وہ مقصد ہے الله کے گھر میں حاضر ہونا۔ الله کی بندگی اور خوش نودی حاصل کرنا۔ آپ نے حرکت کی تو یہ ممکن ہوا۔ حرکت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔
جتنی بھی چیزیں ہیں، سب حرکت میں ہیں۔ آدمی حرکت کر رہا ہے۔ کوئی دفتر کی طرف، کوئی دکان کی طرف، کوئی مشرق کی طرف تو کوئی مغرب کی سمت میں۔ ہر ایک کی حرکت کا ایک مقصد ہے۔ مقصد کیا ہے؟ اگر آپ کسی سے پوچھیں تو کوئی کہے گا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ مجھے اتنے پیسے مل جائیں، مجھے اتنا رزق مل جائے، مجھے اتنی غذا مل جائے، مجھے فلاں اور فلاں مل جائے۔
انسان ہی نہیں، دیگر مخلوقات بھی یہ کام کرتی ہیں۔ کتا، بلی، گائے، بھینس، بکرا بکری اور قسم قسم کے جانور بھی حرکت کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ صبح سے لے کر شام تک چلیں پھریں او راس کے نتیجے میں کچھ چارہ اور خوراک حاصل ہو۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے اور اس کے مقاصد میں کھانا پینا نہیں، اس لیے کہ یہ مقصد تو اور مخلوقات کا بھی ہوتا ہے تو پھر انسان میں اور دوسری مخلوقات میں فرق کیسے ہوگا؟
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ دیگر مخلوقات بھی کھانا پینا کررہی ہیں۔ اس کیلیے کوشش کرتی ہیں۔ یہ نہیں کہ بیٹھے بیٹھے انہیں غذا مل جاتی ہے، بلکہ اس کیلیے کوشش کرتے ہیں، تلاش کرتے ہیں۔ اگر انسان کہے کہ میرا مقصد بھی یہی ہے تو انسان کیلیے یہ صحیح اور درست نہیں۔ یہ غلط اس لیے ہے کہ انسان کا امتیاز کھانے میں نہیں، بلکہ نہ کھانے میں ہے۔
ایک دفعہ حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی صاحب رحمہ الله بانی دارالعلوم دیوبند کو دعوت ملی کہ سہارن پور میں ایک آدمی ہے، ایک فتنہ ہے، وہ مسلمانوں کو تنگ کرتا ہے اور مسلمانوں کو مناظرے کی دعوت دیتا ہے۔ چناں چہ بہت سے مسلمانوں نے اس کا چیلنج قبول کیا۔ لیکن اس نے کہاکہ نہیں، میں مسلمانوں کے سب سے بڑے عالم مولانا قاسم نانوتوی سے مناظرہ کروں گا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمہ الله مسلمانوں میں ممتاز تھے۔ چناں چہ ساتھیوں اور شاگردوں نے عرض کیا کہ حضرت یہ صورتِ حال ہے اور وہ آپ کے سوا کسی اور سے مناظرہ کیلیے تیار نہیں ہے۔
حضرت نے فرمایا، ٹھیک ہے ہم چلیں گے۔ لیکن اپنے خادم خاص حضرت منشی صاحب کو بھیجا کہ آپ جائیں او رمناظرے کی شرائط طے کریں، تاکہ ان شرائط کے مطابق مناظرہ ہو۔ لہٰذا وہ خادم خاص اس سے ملاقات کیلیے تشریف لے گئے۔ اس آدمی کے خادموں نے کہا کہ وہ تو اس وقت ناشتا کر رہے ہیں۔ چناں چہ ایک بہت بڑا تھال حلوے سے بھرا ہوا اندر لے جایا گیا او رپھر مختلف قسم قسم کے کھانے اندر لے جائے گئے۔ منشی صاحب حضرت قاسم نانوتوی صاحب رحمہ الله کے خادم خاص یہ سمجھے کہ شاید کمرے میں بہت سے لوگ ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ سارے برتن خالی واپس آئے۔ برتن بالکل خالی تھے۔
حضرت منشی صاحب جب اندر گئے تو اندر کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید کمرے میں دروازہ ہو گا۔ برابر والے کمرے میں لوگ چلے گئے ہوں گے، لیکن جب دیکھا تو کمرے میں صرف ایک دروازہ تھا جس سے وہ داخل ہوئے تھے۔ اس کے سوا کوئی اور دروازہ تھا ہی نہیں۔ بڑے حیران ہوئے او راس آدمی سے پوچھا کہ یہ سارا کھانا جو آیا، یہ کس نے کھایا؟ اس نے کہا، میں نے۔ اس جواب پر منشی صاحب بہت حیران ہوئے۔
خیر جو شرائط طے کرانے آئے تھے، وہ شرائط لکھی گئیں۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب رحمہ الله حضرت منشی صاحب رحمہ الله کے ساتھی تھے۔ یہ حضرت نانوتوی صاحب رحمہ الله کے شاگرد ہیں۔ حضرت منشی صاحب نے آکر ان لوگوں سے کہا کہ بھئی، شرائط تو طے ہوگئی ہیں لیکن ایک خطرہ موجود ہے اور وہ خطرہ یہ ہے کہ مناظروں میں بعض اوقات علمی گفتگو سے ہٹ کر کوئی اور بات آجاتی ہے او راس میں اگر سامنے موجود مجمع کسی ایک فریق کی طرف ہو جائے تو مناظرہ اس فریق کے حق میں ہو جاتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہے کہ اس آدمی نے پندرہ بیس سیر حلوا اکیلے کھا لیا اور ہمارے حضرت کا یہ حال ہے کہ وہ کئی کئی دن کچھ نہیں کھاتے، لہٰذا اگر اس نے مناظرے میں ہمارے حضرت سے کہا کہ مولانا صاحب علمی باتیں بعد میں ہوں گی، پہلے میں اور آپ کھانے کا مقابلہ کرلیتے ہیں تو ہمارے حضرت تو کچھ بھی نہیں کھاتے ہیں، بہت کم خوراک لیتے ہیں تو کیا ہو گا؟ پھر لوگوں کی طرف سے بھی اگر یہ آواز اٹھ گئی کہ ہاں، علمی باتیں بعد میں ہوں گی، چلو پہلے کھانے کا مقابلہ کر لیں․․․ تو ہمارے حضرت کیا کریں گے؟
یہ باتیں ان حضرات نے آپس میں کیں اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب رحمہ الله نے سن لیں۔ حضرت نے منشی صاحب کو بلایا اور فرمایا کہ شرائط طے کرالیں؟ انہوں نے کہا، جی ہاں۔ پھر فرمایا کہ آپ نے ہمارے بارے میں کوئی اور بات بھی کی ہے؟ منشی صاحب نے کہا کہ جی یہ بات کی ہے او رمجھے یہ خطرہ ہے کہ خدانخواستہ کہیں ایسا ہو گیا تو کیا کریں گے؟ حضرت نے فرمایا کہ اس کے دو جواب ہیں: ایک جواب تو یہ ہے کہ ہر چیز کا مناظرہ اسی چیز سے ہو گا۔ اگر اس قسم کا کوئی مناظرہ سامنے آگیا تو ہم بھی ایسے ہی لوگ پیش کر دیں گے۔ دوسری بات تحقیقی ارشاد فرمائی۔ فرمایا کہ اگر اس نے ہم سے کھانے کے بارے میں کہا کہ ہم سے مقابلہ کرو تو ہم کہیں گے کہ کھانا انسان کی صفات اور خوبی میں سے نہیں ہے۔ وہ تو بہائم او رجانوروں کی خوبی ہے۔ لہٰذا،ہم لوگوں سے کہیں گے کہ اس کے سامنے کسی بھینسے کو یا کسی ہاتھی کو لاکر کھڑا کر دو۔ یہ دونوں آپس میں مقابلہ کریں گے۔ زیادہ کھانا انسان کا کمال اور خوبی نہیں ہے۔ نہ کھانا انسانی کمال ہے۔ ہاں، نہ کھانے میں ہم سے مقابلہ کر لو تو دیکھتے ہیں کہ تم کتنے بڑے انسان ہو اور ہم کتنے بڑے انسان ہیں۔ چناں چہ وہ کبھی بھی ہم سے نہ کھانے کا مقابلہ نہیں کرے گا۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم ان سے کہیں گے کہ اس کو بھی کھانا کھلاؤ اور ہمیں بھی۔ پھر اسے بھی چھے مہینے کے لیے کمرے میں بند کردو اور ہمیں بھی بند کردو۔ دیکھتے ہیں، کون چھے مہینے بعد مردہ ہوتا ہے اور کون زندہ رہتا ہے۔
یاد رکھیے کہ کھانا کمال نہیں۔ کھانا توجانور بھی کھاتے ہیں۔ کھانا تو بلی بھی کھاتی ہے، بکرا بھی کھاتا ہے، گائے بھی کھاتی ہے۔
اس دنیا میں انسان کی حرکت کا مقصد کھانا پینا نہیں ہے۔ اس کا کوئی بہت بڑا مقصد ہے۔ یہ نہیں کہ اس حرکت کا مقصد صرف کھانا کھانا ہے یا صرف نوکری کرنا ہے یا کھیتی باڑی کرنا ہے یا اسی طریقے سے دیگر امور اور کاموں میں اپنے آپ کو لگانا ہے۔ یہ مقصد نہیں ہے۔ اس انسان کا سب سے بڑا مقصد الله تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، وہ یہ ہے:﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون﴾․(سورة الذاریٰت:56) کہ میں نے انسانوں او رجنات کو پیدا نہیں کیا، مگر اس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں۔ چناں چہ آپ دیکھتے ہیں کہ نہ کھانا بھی عبادت بن جاتا ہے رمضان المبارک میں آپ نہیں کھاتے، نہ کھانا عبادت بن گیا ،نہیں بنا؟ نہ پینا عبادت بن گیا، کھانا ہے، بیوی ہے، نفسانی خواہشات پوری نہیں کر رہا ہے، یہ کیا ہے؟ عبادت ہے۔
آدمی کی سب سے بڑی خوبی او راس کی تخلیق کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی بندگی اختیار کرے اور بندگی کا یہ عنوان اور عبادت کا یہ عنوان بہت وسیع ہے۔ سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”آکل کما یاکل العبد․“(السنن الکبری للبیہقی، باب الأکل متکئا، رقم الحدیث:15.47)
میں تو کھانا اس طرح کھاتا ہوں جیسے ایک غلام کھاتا ہے۔ آپ آلتی پالتی مارکر کھانا نہیں کھاتے تھے، بلکہ اکڑوں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو بندگی اختیار فرمائی، جو عبدیت اختیار فرمائی، وہ بندگی اور عبدیت آپ صلی الله علیہ وسلم کے سوا کوئی او راختیار نہیں کرسکتا۔
غور فرمائیے کہ الله تعالیٰ کتنے خوش ہوں گے کہ جب آدمی اپنی بندگی بڑھائے اور اپنی عبدیت میں اضافہ کرے۔ لہٰذا جب ہم عبدیت کی بات کرتے ہیں تو اس میں نماز بھی ہے، اس میں رکوع او رسجدہ، تلاوت اور دعا بھی ہے۔ہر ہر عمل میں اپنی بندگی کا اظہار ہو۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور آپ کی سیرتِ مبارکہ کا آپ مطالعہ کیجیے۔ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمین کی سیرتوں کا آپ مطالعہ کیجیے۔ ان کی سیرتوں کا آپ مطالعہ کریں تو آپ کے سامنے تفصیل آئے گی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم میں عبدیت کمال درجے کی تھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی اسی طرح تربیت کی کہ اُن میں عبدیت آئی۔
چناں چہ ان کے پہننے میں بھی عبدیت کااظہار تھا، ان کے کھانے میں بھی عبدیت کا اظہا رتھا، ان کے چلنے میں بھی عبدیت کا اظہارتھا، ان کے معاملات میں بھی عبدیت کا اظہار تھا۔ ہر ہر کام میں خواہ وہ چھوٹا کام ہو یا بڑا کام ہو، عبدیت کا اظہار ہوتا تھا۔
میں نے عرض کیا کہ کھانا، پہننا اور اسی طرح ضرورتوں کو پورا کرنا وہ تمام کی تمام چیزیں وہ تو اور مخلوقات بھی کرتی ہیں۔ اس میں انسان کی کوئی انفرادیت نہیں۔ انسان کا اختیار نہیں۔ انسان اپنے اختیار کے اعتبار سے اس وقت کامل ہو گا کہ جب وہ اپنے پیدا کرنے والے خالق کی طرف رجوع ہو۔ ہر چیز میں، ہر معاملے میں وہ اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ الله تعالیٰ اس سے اسی وقت راضی ہوں گے کہ جب وہ اپنے تئیں ہر دَم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رکھے۔ یہی آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ چناں چہ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ، حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ، حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ، حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ، اور تمام صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی زندگیوں کا آپ مطالعہ فرمائیں تو آپ کے سامنے یہ باتیں آئیں گی۔
اس لیے ہم کوشش کریں کہ آپ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اور آپ کے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم اپنی زندگی کا مقصد یہی بنائیں۔ کھانا پینا، کمانا․․․ ہمارے مقاصد میں شامل نہیں۔ ہاں، یہ چیزیں بڑے مقصد کے لیے معاون ہیں، لیکن مقصد نہیں۔
چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کو اسی کی تعلیم دی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی جتنی بھی تعلیمات ہیں ان سب میں یہی مقصد نظر آتا ہے۔ اسی سے انسان آگے بڑھتا اور ترقی کرتا ہے کہ ہم اپنی نمازوں پر محنت کریں، ہم اپنے الله تعالیٰ سے رجوع میں محنت کریں۔ اس طرح ہم کامل اور مکمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ خدانخواستہ ہم نے اس طرز کو اختیار نہیں کیا تو میرے دوستو، آج دنیا آپ کے سامنے ہے۔ دنیا بہت چھوٹی سی، مختصر سی ہوگئی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر زندگی گزارتے ہیں ان کی زندگیوں میں سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔ جو لوگ اس طرز سے ہٹ کر زندگی گزارتے ہیں، آپ تصور نہیں کر سکتے کہ وہ کتنی خوف ناک زندگی گزارتے ہیں۔
ہمارے یورپ کے کئی دفعہ سفر ہوئے۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ ایسی زندگی گزارتے ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ایک آدمی ساٹھ سال کا ہو گیا ہے، ستر سال کا ہو گیا ہے اور اس نے اس ساٹھ ستر سال کی زندگی میں ایک دفعہ بھی استنجا نہیں کیا۔ اتنی طویل زندگی میں ایک دفعہ بھی غسل نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے ان کے جسموں میں اتنی خوف ناک قسم کی بدبو آتی ہے کہ اس بدبو کو چھپانے کے لیے پرفیوم استعمال کرتے ہیں۔ پرفیوم کی ایجاد خوش بو کے لیے نہیں ہے، بدبو کو چھپانے کے لیے ہے۔
کراچی کے ایک دوست نے بتایا کہ ہالینڈ میں میری کمپنی نے مجھے گھر دیا تو میں اور میری بیوی ہم دونوں گھر کا جائز ہ لینے گئے۔ گھر میں منتقل ہونے سے پہلے ہم نے دیکھا کہ باتھ روم میں قالین بچھا ہوا ہے۔ ہم بڑے حیران اور پریشان ہوئے کہ ہم نے تو سوچا تھا کہ وضو تو چلو بیسن پر کر لیں گے اور قضا ئے حاجت وہ کموڈ پر کر لیں گے، لیکن غسل کہاں کریں گے؟ نیچے تو قالین بچھا ہوا ہے، اگرچہ دورانِ وضو بیسن سے پانی گر جاتا ہے، لیکن وہ تھوڑا ہوتا ہے، لیکن غسل کہاں کریں گے۔ پھر ہم سوچنے لگے کہ ہم سے پہلے بھی تو لوگ اس میں رہتے ہوں گے، وہ غسل کہاں کرتے ہوں گے؟ چھوٹا ساگھر ، اس کی ہر چیز کو ہم نے دیکھا، لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں آیا کہ غسل کی جگہ کہاں ہے؟ نہ وہاں کوئی ٹب لگا ہوا ہے، نہ کوئی اور چیز ۔ پھر ہم برابر والے گھر میں گئے۔ اس کا نقشہ بھی یہی تھا۔ وہاں ہم نے گھنٹی بجائی۔ وہاں سے جو آدمی آیا وہ وہاں کا مقامی تھا۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم اس مکان میں آنے والے ہیں اور ہم پاکستانی ہیں، مسلمان ہیں اور ہم بڑے پریشان ہیں۔ آپ کے گھر کا نقشہ اور اس گھر کا نقشہ ایک جیسا ہے اور ان میں ایک باتھ روم ہے، اس میں کموڈ بھی ہے، اس میں بیسن بھی ہے، لیکن اس میں نیچے قالین بچھا ہوا ہے۔ تو اب ہم اگر غسل کریں گے تو کہاں کریں گے؟ وہ بڑے تعجب سے ہمیں دیکھنے لگا اور پوچھا کہ یہ غسل کیا ہوتا ہے؟ تو ہم نے بتایا کہ جسم پر پانی بہاتے ہیں، جسم کو پاک صاف کرتے ہیں، تو اس نے کہا کہ میں اس چیز سے واقف نہیں ہوں۔ ہمارے باتھ روم میں بھی قالین بچھا ہوا ہے اور ہم لوگ بھی جسم پر پانی ڈالنے کے لیے کبھی دو سال بعد، چار سال بعد، چھے سال بعد ساحل سمندر پر چلے جاتے ہیں،وہاں نہالیتے ہیں۔ باقی جسم پر پانی ڈالنے کا تو ہمارے ہاں کوئی رواج نہیں۔
اب اگر ایک آدمی دوسال، چار سال غسل نہ کرے تو اس کے جسم کا کیا حال ہو گا؟ الله تعالیٰ نے ہمیں بندگی کا جو طریقہ سکھایا ہے اور عبدیت سکھائی ہے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جو تعلیمات ارشاد فرمائی ہیں، وہ کامل ومکمل ہیں۔ وضو آپ کرتے ہیں، کلی آپ کرتے ہیں، مسواک کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں، ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوتے ہیں، چہرے کو دھوتے ہیں، پاؤں دھوتے ہیں، دن میں پانچ باریہ عمل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ضروری غسل کرتے ہیں۔ جب تک غسل نہ کرلیں، چین او راطمینان نہیں ہوتا۔ مسنون غسل کرتے ہیں۔ یہ سب کی سب تعلیمات الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے سکھائی ہیں اور یہ انسانیت کا شرف اور انسانیت کا کمال ہے۔ اس کے سوا بے شمار چیزیں ہیں جو مذہب اسلام میں الله تعالیٰ نے انسان کو اور مسلمانوں کو عطا فرمائی ہیں جنہیں ہمیں سیکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔
ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم․