Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

7 - 19
فضائل ومسائل قربانی

مفتی محمد اسماعیل
	
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا۔ مگر بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے۔ اسی طرح آج تک بھی دوسرے مذہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔ بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام قربانی کرتے ہیں۔ سورة الکوثر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جس طرح نماز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی۔ قربانی بھی اسی کے نام پر ہونی چاہیے۔ ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ کایہی مفہوم ہے۔ دوسری آیت میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان فرمایا ہے۔﴿ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین﴾۔ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، جو پالنے والا ہے جہانوں کا۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا، ہر سال برابر قربانی کرتے تھے۔

قربانی کے فضائل
قربانی کا بڑا ثواب ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے۔ اور قربانی کرتے وقت یعنی ذبح کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہوجاتا ہے تو خوشی سے اور خوب دل کھول کر قربانی کیا کرو۔ اور حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قربانی کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ سبحان اللہ بھلا سوچنے کی بات ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کیا ثواب ہوگا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ہیں۔ بھیڑ کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں۔ اگر کوئی صبح سے شام تک گنے تب بھی نہ گن پاوے گا۔ سوچنے کی بات ہے کہ کتنی نیکیاں ہوئیں۔ بڑی دین داری کی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی پر قربانی کرنا واجب بھی نہ ہو تب بھی اتنے بے حساب ثواب کے لالچ سے قربانی کردینا چاہیے کہ جب یہ دن چلے جائیں گے تو یہ دولت کہاں نصیب ہوگی اور آسانی سے اتنی نیکیاں کیسے کماسکیں گے؟! اگر اللہ تعالیٰ نے مال دار بنایا ہو تو مناسب ہے کہ جہاں اپنی طرف سے قربانی کرے، جو رشتہ دار فوت ہوگئے ہیں جیسے ماں باپ وغیرہ ان کی طرف سے قربانی کردے کہ ان کی روح کو اتنا بڑا ثواب پہنچ جائے۔ حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کی طرف سے، آپ کی بیبیوں کی طرف سے اور نہیں تو کم از کم اتنا تو ضرور کرے کہ اپنی طرف سے قربانی کرے، کیوں کہ مال دار پر تو واجب ہے۔ جس کے پاس مال ودولت سب کچھ موجود ہے اور قربانی کرنا اس پر واجب ہے، پھر بھی اس نے قربانی نہ کی اس سے بڑھ کر بدنصیب اور محروم کون ہوگا؟

قربانی کے مسائل
قربانی ہر مسلمان،عاقل، بالغ، مردوعورت، مقیم ،جو بقدر نصاب مالیت کا مالک ہو، اس پر واجب ہے۔ بقدر نصاب کی تفصیل یہ ہے کہ جس کی ملک میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو۔ قربانی کے معاملہ میں اس مال پر سال گزرنا شرط نہیں۔

جس شخص پر قربانی واجب نہ تھی۔ اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس پر قربانی واجب ہوگئی۔ قربانی فقط اپنی طرف سے کرنا واجب ہے۔ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں۔ نہ اپنے مال میں سے ،نہ اس کے مال میں سے، اگر کسی نے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کردی تو نفل ہوگی، اپنے مال میں سے کرے، اس کے مال میں سے ہرگز نہ کرے۔

اگر کوئی شخص یہاں موجود نہیں اور دوسرے شخص نے اس کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر قربانی کردی تو یہ قربانی صحیح نہیں ہوئی۔ اور اگر کسی جانور میں کسی غائب کا حصہ بغیر اس کی اجازت کے تجویز کرلیا تو اور حصہ داروں کی قربانی بھی صحیح نہ ہوگی۔

قربانی کے دن
قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں ہے۔ قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہی ہیں۔ جن بستیوں یا شہروں میں نماز جمعہ وعیدین جائز ہے وہاں نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں، اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے۔ البتہ چھوٹے گاؤں جہاں نماز جمعہ وعیدین نہیں ہوتی وہاں کے لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں۔

ایسے ہی کسی عذر کی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہوسکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے۔

مسئلہ: دسویں سے بارہویں تک جب جی چاہے قربانی کرے، چاہے دن میں یا رات میں۔ لیکن دن میں افضل ہے۔ بارہویں تاریخ کو سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے قربانی کرنا درست ہے۔ جب سورج ڈوب گیا تو اب قربانی نہیں۔

قربانی کے جانور
بکرا بکری، بھیڑ،دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا، اونٹ، اونٹی، ان جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی جائز نہیں اور ان کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ یہ وحشی نہ ہوں، بلکہ پالتو ہوں، جن سے آدمی مانوس ہو۔

جانور کی عمریں:بکرا بکری ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے۔ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے۔ گائے، بیل، بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے۔ اگر جانوروں کا فروخت کرنے والا عمر بتاتا ہے اور ظاہری حالات سے اس کے بیان کی تکذیب نہیں ہوتی تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔

قربانی کا گوشت
مسئلہ:سات آدمی گائے وغیرہ میں شریک ہوئے تو گوشت بانٹتے وقت اٹکل سے نہ بانٹیں ،بلکہ خوب ٹھیک ٹھیک تول کر بانٹیں۔ نہیں تو اگر کوئی حصہ زیادہ یاکم رہے گاتو سود ہوجائے گا اور گناہ ہوگا۔ البتہ اگر گوشت کے ساتھ کلہ پائے اور کھال کو بھی شریک کرلیا تو جس طرف کلہ پائے یا کھال ہو، اس طرف اگر گوشت کم ہو درست ہے، چاہیے جتنا کم ہو۔ جس طرف گوشت زیادہ تھا اس طرف کلہ پائے شریک کیے تو بھی سود ہوگیا اور گناہ ہوا۔

مسئلہ::افضل ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لیے رکھے۔ ایک حصہ احباب وغیرہ میں تقسیم کرے، ایک حصہ فقراء ومساکین میں تقسیم کرے اور جس شخص کا عیال زیادہ ہو وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔

مسئلہ:قربانی کے گوشت کو فروخت کرنا حرام ہے۔

مسئلہ:ذبح کرنے اور گوشت بنانے والے کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں، اجرت علیحدہ دینی چاہیے۔

مسئلہ:اگر اپنی خوشی سے کسی مردے کو ثواب پہنچانے کے لیے قربانی کرے تو اس کے گوشت میں سے خود کھانا، بانٹنا سب درست ہے۔ جس طرح اپنی قربانی کا حکم ہے۔

مسئلہ:لیکن اگر کوئی مردہ وصیت کرگیا ہو کہ میرے ترکہ میں سے میری طرف سے قربانی کی جائے اور اس کی وصیت پر اسی کے مال سے قربانی کی گئی تو قربانی کے تمام گوشت وغیرہ کا خیرات کردینا واجب ہے۔

مسئلہ:اگر ایک جانور میں کئی آدمی شریک ہیں اور وہ سب گوشت کو آپس میں تقسیم نہیں کرتے، بلکہ یکجا ہی فقراء واحباب کو تقسیم کرنا، یا کھانا پکاکر کھلانا چاہیں تو بھی جائز ہے۔ اگر آپس میں تقسیم کریں تو اس میں برابری ضروری ہے۔

مسئلہ:قربانی کاگوشت غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے۔ بشرطیکہ اجرت میں نہ دیا جائے۔

قربانی کی کھال
قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا، مثلاً مصلیٰ بنا لیا جائے، یا چمڑے کی کوئی چیز، ڈول وغیرہ بنالیا جائے یہ جائز ہے، لیکن اگر اس کو فروخت کیا تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیں، بلکہ صدقہ کرنا اس کا واجب ہے اور قربانی کی کھال کو فروخت کرنا بدون صدقہ کے بھی جائز نہیں۔

قربانی کی کھال کسی خدمت کے معاوضے میں دینا جائز نہیں۔ اسی لیے مسجد کے موٴذن یا امام وغیرہ کے حق الخدمت کے طور پر ان کو کھال دینا درست نہیں۔

قربانی کی کھال کی قیمت کو مسجد کی مرمت یا اور کسی نیک کام میں لگانا درست نہیں ،خیرات ہی کرنا چاہیے۔ قربانی کی رسی جھول وغیرہ سب چیزیں خیرات کردے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل، خیرالفتاویٰ)

عشرہ ذی الحجہ کے فضائل واحکام
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کے اعمال کسی دوسرے دن میں اتنے محبوب نہیں ہیں جتنے ان دس دنوں میں محبوب ہیں، خواہ عبادت نفلی نماز ہو، ذکر یا تسبیح ہو، یا صدقہ خیرات ہو۔ (بخاری )اور یہ بھی فرمایا کہ اگر ان ایام میں کوئی شخص ایک دن روزہ رکھے تو ثواب کے اعتبار سے ایک روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ یعنی ایک روزے کا ثواب بڑھا کر ایک سال کے روزوں کے ثواب کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اور فرمایا ان دس راتوں میں ایک رات کی عبادت لیلة القدر کی عبادت کے برابر ہے ،یعنی اگر ان راتوں میں سے کسی بھی ایک رات میں عبادت کی توفیق ہوگئی تو گویا کہ اس کو لیلة القدر میں عبادت کی توفیق ہوگئی۔ تو اس عشرہ ذی الحجہ کو اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا درجہ عطا فرمایا ہے ۔اسی مناسبت سے ذیل میں عشرہ ذی الحجہ کے چند احکام نقل کیے جاتے ہیں۔

حج بیت اللہ
حدیث شریف میں ہے، جس کو سفر کا سامان اور سواری میسر ہو، جو بیت اللہ تک اس کو پہنچا سکے اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔

جس کے پاس مال ہو اور وہ حج کو نہ جائے، اس کے لیے سخت وعید ہے۔ مال دار ہوتے ہی حج فرض ہو جاتا ہے۔ اب اگر کوئی اولاد کی شادی یا بڑھاپے کے انتظار میں اس فریضے سے کوتا ہی کرے تو اسے اس حدیث پر غور کر لینا چاہیے۔ عموماً بے کار جائیدادیں، عورتوں کے پاس زیور وغیرہ رکھے رہتے ہیں۔ جنہیں بیچ کر وہ فریضہ حج ادا کر سکتی ہیں ،لیکن شوہر یا والد کے کرانے کے انتظار میں وقت ضائع ہوجاتا ہے۔ ایسی عورت حج نہ کرنے پر گناہ گار ہوگی۔

قربانی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عیدالاضحی کے دن اولادِ آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے بالوں، سینگوں اور کُھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، پس اے اللہ کے بندو! پوری خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔ (ترمذی)

عیدالاضحی
خود ساختہ اور غیروں کی نقالی میں ہم نے بہت سارے خوشی منانے کے جائز وناجائز طریقے اپنا لیے ہیں۔ خوشی منانے کا حکم اللہ پاک نے دو تہواروں کی صورت میں ہمیں دیا ہے۔ ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی۔

عید کے دن مندرجہ ذیل چیزیں مسنون ہیں

شریعت کے موافق سادگی کے ساتھ اپنی آرائش کرنا، جس میں دکھلاوہ نہ ہو اور نہ ہی نئے کپڑوں کا اہتمام ضروری ہے۔ غسل کرنا۔ مسواک کرنا۔ خوش بو لگانا۔ صبح سویرے اٹھنا۔ جلد از جلد عید گاہ جانا۔ عیدالاضحی کے دن نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور نماز کے بعد اپنی قربانی کے گوشت سے کھانا(بعض لوگ اس کو روزے کا نام دے کر پانی بھی نہیں پیتے۔ یہ عمل ٹھیک نہیں، یہ ایک مسنون عمل ہے ۔جن کی قربانی تاخیر سے ہونی ہو، وہ کھاپی سکتے ہیں)۔ عیدگاہ آنے اور جانیکے لیے الگ الگ راستے منتخب کرنا۔ عیدگاہ جاتے ہوئے راستے میں تکبیر کہنااللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔عیدالفطر میں آہستہ ، جب کہ عیدالاضحی میں بلند آواز سے کہنا۔ممکن ہو تو پیدل عیدگاہ جانا۔

تکبیراتِ تشریق
9ذی الحجہ کی فجر سے لے کر 13ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک ہر فرض نماز کا سلام پھیرتے ہی ایک مرتبہ بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے۔ البتہ عورتیں آہستہ آواز میں کہیں گی۔ تکبیر تشریق یہ ہے:اللہ اکبر اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد۔خواتین اکثر تکبیر کہنا بھول جاتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ مصلیٰ کے سامنے دیوار پر لگا دیا جائے، تاکہ بے ادبی سے محفوظ رہے۔

عشرہ ذی الحجہ کے روزے
اس مہینے کے پہلے نو دن نفل روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ: اللہ تعالیٰ کو عشرہ ذی الحجہ کے دنوں کی عبادت سے زیادہ کسی دن کی عبادت محبوب نہیں۔ اس عشرے کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ہر رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔ (ترمذی)

یومِ عرفہ کا روزہ
9ذی الحجہ کو یوم عرفہ کہتے ہیں۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عرفہ کا روزہ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ بعد والے سال اور پہلے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (ترمذی) یہ فضیلت غیرِ حجاج کے لیے ہے۔ حجاج روزہ نہ رکھیں، تاکہ وقوف میں سستی نہ ہو۔ واضح رہے کہ یہ فضیلت 9ذی الحجہ کے لیے ہے۔ جس دن حجاج وقوف عرفات کریں وہ دن اگر ہمارے ہاں 8ذی الحجہ کو ہوگا تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔ ہم اپنے چاند کے اعتبار سے 9ذی الحجہ کو ہی روزہ رکھیں گے۔

پانچ دنوں میں روزے کی حرمت
پورے سال میں 5دن ایسے ہیں جن میں روزہ رکھنا منع ہے۔عیدالفطر 10ذی الحجہ 11ذی الحجہ 12 ذی الحجہ 13ذی الحجہ ۔ آخری چار کو ایامِ تشریق بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سال بھر روزے رکھ سکتے ہیں۔

دس راتوں کی فضیلت
اللہ تعالیٰ نے ان راتوں کی فضیلت کی قسم کھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جس چیز کی قسم کھائیں گے وہ عظمت والی ہی ہوگی۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: ﴿والفجر ولیال عشر﴾ اس سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔

بال اور ناخن نہ کٹوانا
جب ذی الحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہوجائے (یعنی جیسے ہی چاند نظر آئے) اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اس کو چاہیے کہ (قربانی تک) اپنے(جسم کے کسی بھی حصے کے) بال اور ناخن نہ تراشے۔ (مسلم)

گناہوں سے اجتناب
جس مہینے کی عظمت زیادہ ہوگی اس میں گناہوں کا نقصان بھی زیادہ ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ نیکیوں کی اس ماہ میں خوب قدر کرتے ہیں تو گناہ پر ان کی بے حد ناراضگی بھی ممکن ہے ۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین!

Flag Counter