تین باتوں پر وعید
فقیر گوہر رحمانی نقش بندی
”عن ابی ذرّ عن النبیّ صلی اللہ علیہ وسلم قالَ: ثلاثہ لا یکلمہم اللہ یوم القیامة، ولا ینظر الیہم و لایزکّیہم ولہم عذاب الیم؛قال: فقراہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثلاث مرارا قال ابوذرّ: خابوا و خسروا، من ہم یا رسول اللہ؟ قال: المسبلُ والمنّانُ وا لمنفِقُ سِلعَتَہ بالحلِفِ الکٰذب․“ (رواہ مسلم)
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک و صاف کرے گا(معاف کرے گا) اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔حضرت ابوذر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! یہ لوگ تو سخت نقصان اور خسارے میں ہوں گے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ، دے کر احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا۔
اس حدیث مبارکہ میں تین آدمیوں کو وعید شدید سنائی جا رہی ہے:
ایک اسبال کر نے والا۔ دوسرا احسان جتانے والا۔ تیسرا جھوٹی قسم سے سامان فروخت کر نے والا۔
حدیث مبارکہ میں تین قسم کے اشخاص سے ناراضگی کا تذکرہ ہے اور معاشرہ میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں ،چار سُو یہ قباحتیں دیکھنے کو ملیں گی۔ مرد حضرات کے لیے صریح حکم ہے کہ اِزار، شلوار جو بھی ہے، ٹخنوں سے اوپر رکھا کریں، ورنہ اللہ تعالیٰ روز قیامت بات نہیں کرے گا، نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا اور نہ ہی گناہ سے پاک و صاف کرے گا۔
اسبال کر نے والا:
حدیث میں جن تین اشخاص کو وعید سنائی جا رہی ہے، ان میں پہلا شخص ” مسبل“ ہے، یعنی پائے جامہ ،شلوار ،لنگی یا پینٹ کو ٹخنوں تک لٹکانے اور ٹخنوں کو اس سے چھپانے والا ہے۔
اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ یہ حکم تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کے دل میں کبر ہوتا ہے اور ہمارے دل میں کبر نہیں ہے۔ کبر کی دو صورتیں ہیں، ایک ہے حقیقت کبر اور دوسری ہے صورت کبر۔اس حدیث کی تشریح میں محدثین حضرات فرماتے ہیں کہ جس طرح حقیقت ِ کبر ،اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے، اسی طرح صورتِ کبر بھی اللہ کو مبغوض اور عند اللہ مذموم ہے کہ ظاہر باطن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام تواضع، خاکساری اور عبدیت کا سبق دیتا ہے۔وضع قطع اور لباس میں متواضعانہ ادائیں اسلام کی بہترین تعلیم ہے۔ اگر شلوار پاجامہ وغیرہ ٹخنوں سے نیچے رکھے اور نیت بھی کبر کی ہوتو شرعا ممنوع ہے۔لیکن اگر تکبر کی نیت نہ بھی کرے، تب بھی ممنوع ہے ” ولو کان من غیر خیلاء“۔مرتکب اگر چہ آغاز میں تکبر کی نیت نہ کرے لیکن عادت پڑ جانے پر تکبر آ ہی جاتا ہے۔
حضرت صدیق اکبر نے جب یہ ارشاد سنا تو عرض کیا، یا رسول اللہ! کبھی بے خیالی میں اگر کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو کیا ایسی صورت میں بھی وعید باقی رہے گی ؟تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ آپ اس سے مستثنیٰ ہیں، ”لست منہم․“
اب رہا یہ سوال کہ حدود اسبال کیا ہیں ؟ یعنی کہاں تک شلوار پاجامہ وغیرہ رکھا جائے؟ اس بارے میں حافظ ابن حجر نے اسبال کے حدود متعین کیے ہیں۔
رجال/ مرد کے لیے اسبال کی دو حالتیں ہیں:
استحباب ؛نصف ِ ساق تک ہو ”و ہو ان یقتصر بالازار علیٰ نصف السّاق․“
جواز؛ کہ کپڑا ٹخنوں سے اوپر تک ہو ” و ہو الی الکعبین․“
خواتین کی بھی دو حالتیں ہیں؛
استحباب؛ رجال کے جواز کی جگہ سے ایک بالشت نیچے ہو۔
جواز یہ ہے کہ ایک ذراع لمبی ہو ۔یعنی ٹخنوں سے کچھ نیچے ہو۔
یہ فعل کبائر میں سے ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر شدید وعید فرمائی ہے۔
حدیث میں ازار کے ذکر سے خصوصی ازار ہی مراد نہیں، بلکہ ہر لباس جو ٹخنوں سے نیچے چلا جائے ، ممنوع ہے۔ جبہ، کرتہ، کوٹ ،قمیص، پتلون وغیرہ۔
علامہ نووی بھی اس کے قائل ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ہر کپڑے کا ایسا استعمال ممنوع ہے، جیسے کہ حدیث میں ہے۔
”الاسبال فی الازار والقمیص والعمامة، من جر شیئا خیلاء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامة․“
عزیزان من! اتنی سی بے احتیاطی برتنے سے اللہ تعالیٰ کی ایسی ناراضگی کہ روز قیامت، جس دن ہر بندہ بشر اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت کا محتاج ہو گا، لیکن وہ رحیم وکریم رب نظر التفات نہیں فرمائے گا۔ وہ یوم الساعة کہ ہر کوئی چاہے گا کہ اس کی تقصیرات پاک وصاف ہو جائیں ،لیکن صرف اس چھوٹے اور بلا مشقت عمل سے اس کا نامہ اعمال صاف نہیں کیا جائے گا۔ اور اس روز جو بذاتہ بہت سخت اور طویل ہے، صرف اس ایک عمل قبیح کی وجہ سے عذاب نہیں ،بلکہ دردناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
دوسرا …احسان جتانے والا
اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے:
﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (261)
(مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں ایسی ہے جیسے ایک دانہ جو اگاتا ہے سات بالیں (اور) ہر بال میں سو دانہ ہوں(اور) اللہ تعالیٰ (اس سے بھی )بڑھا دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے اور اللہ وسیع بخشش والا جاننے والا ہے۔)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کئی گنا ثواب عطا فرماتا ہے۔ بلکہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک عطا فرما دیتا ہے۔ ارشد عظیم آبادی نے کیا خوب کہا ہے؛
مال کی کثرت اگر منظور ہے خیرات کر
ایک کے دنیا میں دس، عقبیٰ میں ستّر دیکھ لے
اس شخص کے لیے بھی وعید ہے جو کسی آدمی کو کوئی چیز از قسم زکوٰة، صدقہ یا خیرات دے اور پھر اس پر وہ احسان جتاتا پھرے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے؛﴿ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تُبْطِلُوْاصَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی﴾(البقرة؛264)، (اے ایمان والو! مت ضائع کرو اپنے صدقوں کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچا کر) تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے تحت درج ہے ، ”یعنی اے ایمان والو! صدقہ و خیرات کے بعد احسان جتلا کر اوراذیت دے کر اپنے صدقات کو باطل نہ کرو۔احسان جتلانے سے اور اذیت پہنچانے کے گناہ سے صدقہ کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔“ جو کوئی صدقہ خیرات کرتا ہے تو یا تو وہ لوگوں کو دکھانے اور نمود و نمائش کے لیے کرے گا یا اللہ کی رضامندی کے لیے۔ اگر اللہ کی رضامندی مقصود ہے تو پھر چاہیے کہ کسی کے ساتھ بھلائی کر کے اسے بھول جائے، نہ کہ اس کا تذکرہ کرتا پھرے یا اس شخص پر احسان جتلاتا رہے ۔ اس طرح کرنے سے وہ اپنی نیکی کو برباد کر دیتاہے۔
صدقہ و خیرات پر دو قسم کے نتائج مرتب ہوں گے۔
﴿اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ثُمَّ لَایُتْبِعُوْنَ مَآاَنْفَقُوْامَنَّاوَّلَآاَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾․(262)
ترجمہ:”جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، پھر جو خرچ کیا اس کے پیچھے نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ دکھ دیتے ہیں، انہیں کے لیے ثواب ہے ان کا ان کے رب کے پاس، نہ کوئی خوف ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“
﴿یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَا تُبْطِلُوْاصَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَایُوٴْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثِلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْدًالَایَقْدِرُوْنَ عَلیٰ شَیْ ءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَاللهُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ﴾(264)
ترجمہ: ”اے ایمان والو! مت ضائع کرو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور دکھ پہنچا کر ،اس آدمی کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے اور یقین نہیں رکھتا اللہ پر اور قیامت کے دن پر ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چکنی چٹان ہو، جس پر مٹی پڑی ہو، پھر برسے اس پر زور کی بارش اور چھوڑ جائے اسے چٹیل صاف پتھر۔“
جب کسی کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور پھر بھلائی کر نے والا اس پر احسان جتاکر اسے اذیت دیتا ہے تو اس بے چارے کا کوئی بس چلتا نہیں کہ اس کے صدقہ خیرات کو اسے واپس کر دے کہ اس کے اس اذیت ناک فعل سے جان چھڑا لے اور اس طرح وہ ہر لمحہ مرتا ہے، جو بھلائی کرنے والے کے حق میں بہت بری بات ہے۔
تیسرا…جھوٹی قسم سے سامان فروخت کر نے والا:
یہ مرض بھی ہمارے معاشرہ میں بہت عام ہے۔ گویا یہ ایک کلیہ عام بنا ہوا ہے کہ گاہک دکاندار کی قسم کے بغیر اس سے خریداری نہیں کرے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ مشتری کو بائع پر اعتماد قطعا نہیں ہوتا اور مشتری کا بائع پر عدم اعتماد بالکل صحیح ہے۔ اکثر لوگوں کے مشاہدہ میں آیا ہوگا کہ کسی دکان دار سے کوئی چیز لیتے وقت بھاوٴ تاوٴ کرتے وقت واضح پتہ چلتا ہے کہ یہ دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک کپڑا لباس کے لیے کوئی خریدتا ہے ، دکان دار اس کی قیمت ایک ہزار روپے بتاتا ہے۔ گاہک کہتا ہے سات سو روپے میں دے دو ۔ دکان دار قسم کھاکر کہتا ہے ، اس کی اپنی خرید آٹھ سو روپیہ ہے۔ گاہک اپنی قیمت پر اڑا رہتا ہے اور آخر جا کر وہ کپڑا ساڑھے سات سو روپے میں بیچتا ہے۔ کون بے وقوف ہوگا جو خسارے کا کاروبار کرے اور آٹھ سو کی خریدی ہوئی چیز ساڑھے سات سو روپیہ میں بیچے؟ صاف ظاہر ہے کہ اس نے جھوٹی قسم کھا کر کپڑا بیچنے کی کوشش کی۔ ایک اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر سامان تو بیچا جائے گا، لیکن اس میں برکت نہیں ہوگی۔ قال أبو ہریرة: سَمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم َ یقولُ: الحلفُ منفعة للسلعة، ممحقة للبرکة․“ (ابوداوٴد ج؛2 ص؛587 باب فی کراہیة الیمین فی البیع ح:1540)۔
(حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ قسم سامان کو بِکوانے والی اور برکت کو مٹانے والی ہے۔)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب سے پہلے مجھے اس حدیث مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اللہم صل علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وبارک وسلم ․