Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

11 - 19
مجدد تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ

مولانا سیّد محمد زین العابدین
	
میانہ قد، نحیف ونزار جسم، مگر نہایت چاق وچوبند، رنگ گندمی، داڑھی گھنی، صورت سے تفکر، چہرہ سے ریاضت ومجاہدہ، پیشانی سے عالی ہمتی اور بلند نظری نمایاں، زبان میں کچھ لکنت، لیکن آواز میں قوت او رجوش، مسلمانوں کی دینی اورایمانی پس ماندگی پر پریشان حال، اُن کی دین سے دُوری پر بے چین و مضطرب، بسا اوقات اسی فکر میں ” ماہی بے آب“ کی طرح تڑپنا، پھڑکنا، آہیں بھرتے رہنا زندگی کا وظیفہ، راتوں کو اُٹھ کر گھبراہٹ میں باربار بستر پر کروٹیں بدلنا اور فکر سے ٹہلتے رہنا اور دن میں دینی محنت کے لیے مارے مارے پھرنا …ان شمائل وخصائل اور عادات وصفات کو اپنے ذہن میں ترتیب دیں اور خیالات کی دُنیا میں جو شخصیت اُبھرے اُس پر لکھ دیں: ” مولانا محمد الیاس کاندھلوی۔“

مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی شخصیت، اُن کے صفات وکمالات، اُن کی عزم وہمت، دینی تڑپ وفکر اُمت اور زہد وتقویٰ کا صحیح معنی میں اندازہ تو انہیں لوگوں کو ہو گا جنہوں نے اس آفتابِ علم وحکمت کو دیکھا ہو گا یا اُن کے انفاس قدسیہ کا بچشم خود ملاحظہ کیا ہو گا، تاہم جن حضرات نے اُن کی زبان سے جھڑنے والے علم وحکمت کے پھول جمع کرکے بعد والوں تک پہنچائے اور پھر مولانا  کے علم وعمل اور اصلاحِ اُمت کے جس جذبے نے آج پوری دُنیا میں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو الله، رسول، دِین ومذہب اور قرآن وسنت سے وَابستہ کیا او رجن کا اِخلاص ولگن اور کڑھن وفکر دُنیا بھر کے انسانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اُس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ مولانا رحمہ الله کوالله تعالیٰ نے دین کی دعوت وتبلیغ کے لیے”مجدد“ بنایا تھا۔

آج سے کم وبیش سو سال قبل ( انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں ) جب مغربی استعمار متحدہ ہندوستان پر قابض تھا، مسلمانانِ ہند مادی وروحانی اور دینی ودنیوی ہر طرح سے کم زوری وپس ماندگی کے عالم میں تھے، یہاں تک کہ ایمان واسلام کو چھوڑ کر اِرتداد کی طرف منتقلی کی کیفیت بھی سامنے آنے لگی تھی، اُس دور میں الله تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی  کے دل ودماغ میں دین کے لیے مٹنے کی ایک خاص تڑپ اور غم وفکر پیدا کی۔ مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا جینا مرنا الله اور اس کے رسول کے لیے تھا، آپ کے سوز ودرد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپ کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میں وہ عرصہ سے جل رہے تھے، سب اسی غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوزو گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپ کی روح جھوم اُٹھتی تھی، جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”طبیعت میں سوائے دردِ اُمت کے سب خیریت ہے۔“

مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا سبق کیا تھا؟ اُن کا سبق معاشرے میں ”ایمان بالله“ کے ماحول کا فروغ تھا، اُن کی محنت کا مقصد ”کامل اتباع سنت“ کا احیاء تھا، اُن کا کام زندگیوں میں ”اخلاص واخلاق“ کا پیدا کرنا تھا، اُن کا مطمح نظر زندگیوں کی ایسی تبدیلی اور ایسے صالح معاشرے کا وجود تھا جہاں ہر شخص دل سے مسلمان ہو،اُس کی مسلمانی اور اُس کا اسلام عبادات تک محدود نہ ہو، بلکہ وہ معاملات میں بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا متبع ہو، وہ تنہائی میں بھی الله سے ڈرنے والا ہو۔بلاشبہ مولانا رحمہ الله کے اندر اس درجہ کا اخلاص تھا کہ آج اُن کی بپاکردہ تحریک کے ذریعہ مسلم وغیر مسلم ممالک میں وہ انقلاب آیا کہ دنیا ششدر ہے، آج غیر مسلم ممالک میں جا کر دیکھیے کہ اس دعوتی محنت کے ذریعے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے وہ بلاشبہ پورے کے پورے داخل ہو گئے، اُن کی عبادات کی طرح اُن کے معاملات بھی کھرے ہیں، اُن کی معاشرت بھی صاف وشفاف ہے، بلاشبہ ایسے لوگ مسلم ممالک میں بھی کم نہیں، لیکن آج دنیا ایک ایسے دورا ہے پر کھڑی ہے کہ مولانا رحمہ الله کے سبق کو ایک بار پھر تازہ کرنے کی ضرورت ہے، تصور کیجیے کہ ایک شخص دین کی بات سنانے کے لیے گالیاں سنتا ہے، ماریں کھاتا ہے، اپنا پیسہ خرچ کرکے لوگوں کو مسجد میں لاکر نماز سکھاتا ہے اور خلافِ سنت کام دیکھ کر طبیعت صحت سے بیماری کی طرف چلی جاتی ہے، کیا ایسا معاشرہ جب فروغ پائے گا تو وہاں کسی قسم کا جھگڑا و فساد اور ظلم وعدوان کی کوئی رمق باقی رہے گی؟ بلاشبہ آج مولانا رحمہ الله کی اسی تڑپ وفکر کی ضرورت ہے۔

مولانا محمد الیاس کاندھلوی 1303ھ میں مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی کے گھر میں پیدا ہوئے۔1314ھ میں اپنے بڑے بھائی مولانا محمد یحییٰ  (والد ماجد شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا مہاجر مدنی ) کے پاس گنگوہ آگئے، جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی  کی خدمت میں گنگوہ میں مقیم تھے اور بڑے بھائی سے پڑھنا شروع کیا، اس طرح حضرت گنگوہی  کی صحبت ومجالست کی دولت شب وروز حاصل رہی۔1323ھ میں حضرت گنگوہی دنیا سے رحلت فرماگئے او راس طرح مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا تقریباً آٹھ برس کا عرصہ حضرت گنگوہی کی صحبت میں گزرا، حضرت گنگوہی بچوں اور طالب علموں کو بیعت نہیں کرتے تھے، لیکن آپ کو بیعت کر لیا تھا۔

ایک مرتبہ آپ نے مولانا رشید احمد گنگوہی سے عرض کیا کہ حضرت! ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ حضرت گنگوہی یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد الله مہاجرمکی سے اس قسم کی شکایت کی تھی تو حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی نے جواب فرمایا تھا کہ ” الله تعالیٰ آپ سے کام لیں گے۔“

1326ھ میں حدیث کی تکمیل کے لیے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے درس میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے، بخاری شریف اور ترمذی شریف کی سماعت کی، چوں کہ حضرت گنگوہی کی وفات ہو چکی تھی، لہٰذا حضرت شیخ الہند کے مشورہ اور اجازت پر حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری سے تعلق قائم کیا اور اُ ن کی نگرانی میں منازلِ سلوک طے کیے۔

یوں آپ نے ایک طرف شیخ الہند مولانا محمود حسن جیسے مجاہد عالم دین سے علوم قرآن وحدیث کی تکمیل کی، تو دوسری طرف اپنے وقت کے قطب الاقطاب مولانا رشید احمد گنگوہی کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف وسلوک کی منازل تیزی سے طے کیں او راس کی تکمیل شیخ المشائخ حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی زیر نگرانی کی او راجازت وخلافت سے سرفراز ہوئے۔ یوں آپ جامع شریعت وطریقت ہو گئے۔

1328ھ میں آپ نے جامعہ مظاہر علوم سہارن پور میں تدریس شروع کی، لیکن34ھ میں بڑے بھائی حضرت مولانام محمد یحییٰ کاندھلوی اور دو سال بعد دوسرے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد کاندھلوی (جو علاقہ نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد میں قائم مدرسہ کے ذمہ دار تھے) کے انتقال کے بعد اپنے شیخ ومرشد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب  کی اجازت او رمشورہ سے نظام الدین بنگلہ والی مسجد میں، قائم مدرسہ میں، منتقل ہو گئے اور یہاں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی، اس مدرسہ میں زیادہ تر علاقہ میوات کے رہائشی بچے پڑھتے تھے۔

نظام الدین منتقلی کے بعد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی دیوانہ وار ”میوات“ کے ہر علاقہ میں پھرے، ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازہ پر دستک دی، کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی وسردی سے بے پروا ہو کر تبلیغی گشت کیے اور جب لوگوں نے حسب خواہش آپ کی آواز پر”لبیک“ نہ کہا تو آپ بے چین وبے قرار ہو کر راتوں کو خدا کے حضور روتے، گڑ گڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے او رپھر اپنی ہمت وطاقت ، مال دولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور اُن کے ذریعہ اس تبلیغی کام پر لگا دیتے۔ آج جس کا ثمرہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ہے مولانا الیاس  کے شب وروز کی ایک معمولی سی جھلک۔ گویا وہ اس شعر کے حقیقی مصداق تھے #
        پھونک کر اپنے آشیانے کو
        بخش دی روشنی زمانے کو

مولانا رحمہ الله نے اسی درویشی اور دین کے لیے فدا کاری وجاں نثاری کے ساتھ پوری زندگی بسر کی اور 21/ رجب1363ھ (12/جولائی1944ء) کی صبح کو یہ علم وعمل اور زہد وتقویٰ کا آفتاب غروب ہو گیا، مولانا کی وفات کو بہتر سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن مولانا  نے ایمان وایقان کی جو صدا آج سے سو سال قبل لگائی تھی،اس کی گونج پورے عالم میں سنی جاسکتی ہے او رجوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے،”فکر الیاس“ کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے۔

Flag Counter