Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

14 - 19
معاشرہ کی بگڑتی صورتِ حال

مولانا شمس الحق ندوی
	
یہ بہت عام بات ہے، ہر خاص وعام اس کو جانتا ہے کہ جب بخاریا کسی اور بیماری کے سبب منھ کا مزہ بگڑ جاتا ہے تو عمدہ عمدہ اور لذیذ سے لذیذ کھانا بھی بدمزہ معلوم ہوتا ہے، کھانا تو درکنار، اکثران کے تذکرہ اور خوش بو سے بھی متلی آنے لگتی ہے، اگر کسی علاقہ میں ملیر یائی وبا پھیل جائے اور اس قسم کے مریضوں کی تعداد بڑھ جائے اور وہ سب بیک زبان کہنا شروع کر دیں کہ ہمارے شہر سے ایسی تمام غذاؤں اور ناؤ نوش کی چیزوں کو پھینک دیا جائے جن کو پرانے تصور وخیال کے لوگ پسند کرتے ہیں او ران کو لذیذ ومزیدار بتاتے ہیں تو کیا شہر کے طبیب وڈاکٹر او رصحت مند وباذوق لوگ ان مریضوں کی بات مان لیں گے، کیا اس شہرکے محکمہٴ صحت کے لوگ ان مریضوں کی بات پر کان دھریں گے؟ اور خدا نخواستہ کان دھریں اور اس پر عمل کریں تو کیا یہ نہ کہا جائے گا کہ ان سب کی عقلوں میں فتور واقع ہو گیا ہے؟ اکثریت وماحول کی تبدیلی نے ان کی ایسی نظر بندی کر دی ہے کہ اپنا علم وفن اورتجربہ سب کچھ بھول گئے ہیں، ہماری آج کی دنیا کا کچھ ایسا ہی حال ہو رہا ہے، تہذیب جدید کے ”زیرنگوں“ نے ذہنوں کا اتنا مسموم کر دیا ہے کہ ہر سیدھی چیز ٹیڑھی اور ٹیڑھی چیز سیدھی معلوم ہو رہی ہے، جس کے نتیجہ میں ہمارے سماج وسوسائٹی کی کوئی کل سیدھی نہیں رہ گئی ہے، ہمارے وسائل نشر واشاعت اور ذرائع ابلاغ نے معصوم وسادہ لوح بچوں سے لے کر نوجوانوں اور بوڑھوں تک کے ذہنوں کا سانچہ ایسا بدل دیا ہے کہ محبت وشرافت، ہمدردی وخدمتِ خلق کے جذبات کی جگہ تنگ مزاجی، عداوت، دشمنی، قتل وغارت گری، بے حیائی اور فحاشی نے لے لی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان، سانپ، بچھو، بھیڑیوں اوردرندوں کو مات کر رہا ہے، انسانوں کو اس طرح مارا، جلایا اور موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے، جس طرح سے موذی جانوروں کو مارنے کی اسکیم چلائی جاتی ہے، دنیا کے مختلف ملکوں اور علاقوں میں رنگ ونسل کی بنیاد پر ہونے والے خون خرابہ کے علاوہ ہویٰ وہوس کا مارا انسان کس بے دردی کے ساتھ، معمولی معمولی باتوں پر انسانوں کومار رہا ہے، کون سا دن گزرتا ہے کہ جس میں ندی، نالوں اور کھیتوں سے مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کی خبر نہ آتی ہو اور یہ وہ ہے جو پریس میں آگئی ، ایسے کتنے واقعات ہوں گے جو مقامی لوگوں کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم ہوتے؟ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مالک اگر اپنے افراد خاندان کے ساتھ ٹیلی ویژن دیکھ رہا ہے اور خادم کو اس وقت کسی کام کے لیے بھیج دیتا ہے اس کو ٹیلی ویژن دیکھنے کا موقع نہیں دیتا تو ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے قتل وغارت گری کے مناظر نے اس کے ذہن کو ایسا دہشت گر د بنا دیا ہے کہ وہ بے جھجھک اپنے مالک اور اس کے خاندان کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا دیتا ہے۔

ہمارے یہ وسائل ابلاغ نفع سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں، انسانیت کا سبق پڑھانے کے بجائے درندگی وبہیمیت کا پرچار کر رہے ہیں، لیکن کس کی زبان ہے کہ اس پر تنقید کرے، اس کے نقصانات کو بیان کرے، کون ہے جو کہے کہ بھائیو! تمہارے منھ کا مزہ بدل گیا ہے، تمہاری نظر بندی کر دی گئی ہے، تم اپنا علاج کرو محکمہٴ صحت کے لوگوں کا مشورہ مانو، ڈاکٹروں کو جنونی وپاگل مت سمجھو، ورنہ تم سب کے سب تباہ وبرباد ہو جاؤ گے ۔

یہ کام صرف انبیاء علیہم السلام کا ہوتا ہے جو پوری انسانی آباد کا روحانی طبیب ومعالج ہوتا ہے، جب سے دنیا آباد ہوئی ہے اس وقت سے برابر یہ ہوتا آیا ہے کہ جب بھی انسانوں کے ذوق وفطرت سلیمہ میں بگاڑ پیدا ہوا ہے تو انبیائے کرام نے آکر ان کی مسیحائی کی ہے اور سب سے اخیر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور بگڑی ہوئی انسانیت کے درد کا درماں بنے ہیں اور انسانیت کو تباہی سے بچایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا سے جانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے پیرو ہیں اور اس کی دعوت دیتے کہ انسانیت فلاح وکام یابی سے اسی وقت ہم کنار ہو سکتی ہے جب ان تعلیمات واصولوں پر عمل کرے، مگر افسوس یہ ہے کہ ذوق ومزاج اتنا بگڑ چکا ہے کہ اپنی لگائی ہوئی آگ میں جلنے والے عصر حاضر کے انسانوں کو بھلائی کی طرف بلانے والے ان بھلے انسانوں ہی پر غصہ آرہا ہے اور ان کو بنیاد پرستی اور مذہبی کٹرپن کا طعنہ دے کر ان کی آواز بے اثر بنا رہے ہیں۔

دنیا کا کون پڑھا لکھا انسان ہے جس کے سامنے صبح اٹھتے ہی ہمارے آج کے سماج وسوسائٹی کی ایک جھلک نہ نظر آجاتی ہو؟! مگر کتنے ایسے انسان ہیں جو اس جھلک کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہوں، بے کل وبے چین ہو جاتے ہوں!! انسانیت کی اس خونی تصویر کو دیکھ کر اگر کوئی تڑپتا اور بے چین ہوتا ہے تو وہی لوگ جن کو مذہبی جنون اور بنیاد پرستی کا طعنہ دیا جاتا ہے، دنیا میں اور ہمارے ملک میں جگہ جگہ زندگی کا بیمہ کرانے کی کمپنیاں قائم ہیں ،مگر کتنے ہیں جو زندگی کو محفوظ کرتے ہیں؟ ہاں !مرجانے پر انشورنس کی رقم دے دیتے ہیں، مگر جن تعلیمات کے ذریعہ حقیقتاً زندگی کا بیمہ ہوتا ہے ان کو ماننے کے لیے کوئی تیار نہیں، بلکہ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ان کی تحقیر کی جاتی ہے۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ کچھ تو سوچے کہ کیا ہو رہا ہے ؟ انسان کہاں جارہا ہے؟ جو آج محفوظ ہے کیا وہ کل بھی محفوظ رہے گا؟ حالات جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں، اگر ان کے رخ کو موڑا نہ گیا،ان کے بدلنے کی فکر نہ کی گئی تو چند برسوں میں انسانی آبادی باہم اس تیزی سے ٹکرائے گی کہ سمندری طوفان(سونامی) بھی اس کے سامنے مات کھا جائے گا۔

Flag Counter