Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

15 - 19
ہر کام سے پہلے”بسم اللہ الرحمان الرحیم“ پڑھا کیجیے

محترم محمد تبریز عالم قاسمی
	
حضورصلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر اہم کام جو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ ادھورا اور ناقص رہتا ہے۔ (کنز العمال ، رقم:2491)

تشریح… اِس حدیث کے ذریعہ سرکارِ دو عالم حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو یہ تلقین فرمائی ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر اہم کام اللہ کے نام سے شروع کرے، بسم اللہ الرحمن الرحیم اسلامی معاشرہ اور تہذیب وثقافت کا اٹوٹ حصہ ہے، جسے ہر کام سے پہلے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، صبح کو بستر سے بیدار ہوتے وقت، طہارت خانے میں جاتے وقت، غسل خانے سے نکلتے وقت، کھانا کھانے سے پہلے، پانی پینے سے پہلے، بازار جانے سے پہلے، مسجد میں داخل ہونے سے پہلے، مسجد سے نکلتے وقت، کپڑے پہنتے وقت، گاڑی چلاتے وقت، سوار ہوتے وقت، سواری سے اترتے وقت، گھر میں داخل ہوتے و قت، پڑھتے اور لکھتے وقت، تمام اوقات واحوال میں یہ کلمہ ہم سے کہلوایا جارہا ہے، ہر مسلمان کو اِس سنت کی اتباع کرتے ہوئے بسم اللہ سے کام شروع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے، اگر اِسے اپنے روز مرہ کے معمولات میں شامل کرلیا جائے تو یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں محنت اور دشواری کچھ نہیں؛ لیکن ثواب اور نیکیوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا؛ بلکہ اِس عمل کی برکت سے ہمارے دنیاوی کام بذات خود عبادت بن جائیں گے؛ کیوں کہ بسم اللہ اسلام کی نشانی اور علامت ہے، جس طرح کسی کارخانہ کے تمام محصولات اور سامان پر اس کارخانہ کی علامت ثبت ہوتی ہے اسی طریقہ سے مسلمانوں کے تمام چھوٹے بڑے کاموں پر بسم اللہ کی مہر اور علامت ثبت ہونا چاہیے، ورنہ مسلمانوں کے کاموں کی اِسلامی شناخت نہیں ہوپائے گی۔

تسمیہ سے آغاز کا تاریخی پس منظر
ہر اہم اور با مقصد کام کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا اسلامی تہذیب وتمدن کا حصہ ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ جو عمل عند اللہ مقبول ومحبوب ہوتا ہے اس کی تاریخ بھی قدیم ہوتی ہے؛چناں چہ تسمیہ پر عمل کی تاریخ جیسا کہ قرآن نے واضح کیا ہے حضرت نوح علیہ السلام کے دور سے تعلق رکھتی ہے، جب حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان سے بچاوٴ کے لیے، بحکم ِ الٰہی کشتی تیار کرلی اور مسلمانوں کو اس میں سوار کرلیا تو کشتی چلانے سے پہلے بحکمِ الٰہی فرمایا:﴿وَقَالَ ارْکَبُواْ فِیْہَا بِسْمِ اللّہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُورٌ رَّحِیْم﴾․(ھود،12:41)

اور نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ (آوٴ) اِس کشتی میں سوار ہوجاوٴ، اندیشہ مت کرو(کیوں کہ) اِس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا (سب) اللہ ہی کے نام سے ہے، بالیقین میرا رب غفور رحیم ہے۔

اِسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کو جو تبلیغی خط لکھا تو اس کا آغاز اِسی کلمہ سے کیا گیا ہے ،قرآن نے اُسے یوں بیان کیا ہے: ﴿إنہ من سلیمان وإنہ بسم اللہ الرحمان الرحیم﴾ (النمل،27:30)

علامہ فخر الدین الرازی (م:606ھ) نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ لکھا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد ِ عیسوی میں بھی اِس بابرکت تسمیہ کا رواج تھا ،وہ لکھتے ہیں:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک قبر کے پاس سے گذرے، آپ نے دیکھا کہ صاحب ِ قبر کو عذاب ہورہا ہے، جب دوسری مرتبہ گذر ہوا تو دیکھا کہ رحمت کے فرشتے نور کے طبق اُس پر پیش کررہے ہیں، آپ کو بہت تعجب ہوا، نماز پڑھ کر کشف ِ حال کے لیے دعا کی؛ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ بتایا کہ اے عیسیٰ! یہ گنہ گار شخص تھا اور اپنی موت کے دن سے میرے عذاب میں مبتلا تھا، انتقال کے وقت اِس کی بیوی حاملہ تھی، جس سے بعد میں ایک بچہ پیدا ہوا، اُس کی ماں نے اُسے پالا اور استاذ کے حوالہ کردیا، جب استاذ نے اُسے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھائی تو مجھے شرم آئی کہ اس کا باپ قبر میں مبتلائے عذاب رہے اور اس کا فرزند زمین پر میرے نام کا ذکر کرے(پس میں نے اسے معاف کردیا۔) (تفسیر الرازی، الباب الحادی عشر:1/155 شاملہ)

اسلام نے اِس سلسلہ کو باقی رکھا اور جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث اور اپنے طرز عمل سے ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کو اسلامی تعلیمات کا حصہ قرار دیا اور یہ بسم اللہ پڑھنا کہیں واجب، کہیں مسنون اور کہیں مستحب قرار پایا، دیکھیے جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ کو فرض قرار دیا گیا ہے، اللہ کا ارشاد ہے:﴿فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ﴾ (الانعام،118) یعنی جس جانور پر اللہ کا نام لیا جاوے اس میں سے کھاوٴ، نیز اِس کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اِس سے بھی ہوتا ہے کہ قرآن کے نزول وافتتاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کلمات منتخب فرمائے وہ بھی ”تسمیہ“ کے قبیل سے ہے ﴿اقرأ باسم ربک الذي خلق﴾ (العلق،96:1)یعنی آداب ِ قراء ت کا پہلا ادب بسم اللہ سے ہی شروع ہوتا ہے، اِسی لیے تو علامہ رازی نے اتنی بڑی بات لکھ دی کہ

جملہ علوم و معارف چاروں کتابوں میں درج کیے گئے ہیں او راُن کے تمام علوم قرآن میں اور قرآن کے تمام علوم سورة الفاتحہ میں اور سورة الفاتحہ کے تمام علوم بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اور اس کے تمام علوم بائے بسم اللہ میں۔(تفسیر الرازی، الباب السابع :1/98، شاملہ)

اِسی لیے کلامِ الٰہی کا آغاز بسم اللہ الرحمان الرحیم سے ہوتا ہے، نماز جو اُمُّ العبادات ہے، جس میں قراء ت فرض ہے، اُس قراء ت سے پہلے بسم اللہ کو مسنون قرار دیا گیا ہے، یہ تسمیہ کی سرسری تاریخ تھی ،جس سے یہ بات دو دو چار کی طرح بالکل واضح ہے کہ دینی امور ہوں یا دنیاوی معاملات ،بہر حال ان کا آغاز بسم اللہ سے ہونا چاہیے، اور جو امور ومعاملات بسم اللہ کے بغیر شروع کیے جائیں، ممکن ہے دنیوی لحاظ سے وہ پائے تکمیل کو پہنچ جائیں اور مطلوبہ نتائج برآمد ہوجائیں؛ لیکن اجروثواب کے اعتبار سے اور حصول برکت کے لحاظ سے ناتمام ہی رہیں گے، شروع میں جو حدیث لکھی گئی ہے وہ اِسی روحانی کمال اور نقص کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا راز
ہر کام سے پہلے بسم اللہ کو اسلامی ثقافت وتہذیب کا حصہ قرار دیے جانے کی وجہ کیا ہے؟ اِس کے لیے ایک اقتباس پڑھیے:

وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا راز
حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی(1362ھ)لکھتے ہیں:
اگر وضو محض حسب ِ عادت بحالت ِغفلت کیا جاوے اور اس میں اطاعت ِ امرِ الٰہی وقربت اِ لی اللہ کا خیال نہ ہو تو اس پر ثواب مُترتب نہیں ہوتا؛ اِس لیے وضو باسم اللہ مقرر ہوا؛ تاکہ نماز ونیاز قربت اور قربت الٰہی وانابت اِلی اللہ کا خیال دل میں پیدا ہو اور انسان حجابِ غفلت سے باہر آوے، یہی وجہ ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں لا وضوء لمن لم یذکراسم اللہ علیہ یعنی جس نے وضو کرنے میں خدا کا نام نہیں لیا اس کا وضوکامل نہیں ہوتا۔(ابن ماجہ، رقم: 397، احکام اسلام عقل کی روشنی میں،ص:26)

سورہ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابتداء ِ فاتحہ میں بسم اللہ پڑھنے کا یہ راز ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے واسطے قرآن پڑھنے کے لیے پہلے اپنے پاک نام سے برکت حاصل کرنے کو مقرر فرمایا۔(احکامِ اسلام عقل کی نظر میں،ص:61)

ان دو اقتباس کی بنیاد پر یہ عرض کرنا ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر تسمیہ کا ضروری ہونا در حقیقت ”اعترافِ بندگی“ کا ذریعہ ہے، اِس کے پیچھے ایک عظیم الشان فلسفہ ہے اور اِس کے ذریعہ ایک عظیم الشان حقیقت اور نظامِ ربوبیت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے، اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ انسان زندگی کا جوبھی کام کررہا ہے اس سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر وہ یہ اعتراف واقرار کررہا ہے کہ ربِ کائنات کی توفیق اور مدد کے بغیر کوئی کام مکمل نہیں ہوسکتا، انسان کو اِس کے ذریعہ اِس بات کی دعوت دی جارہی ہے کہ وہ نظامِ ربوبیت میں غور کرے اور اپنی جبینِ نیاز خم کردے اور اِس تعلیم کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر کام شروع کرتے وقت با شعور ہونا، چیزوں کو پرکھنا اور نیک انجام کی امید کرنا ضروری ہوتا ہے، بسم اللہ کے ذریعہ در حقیقت انھیں مقاصد کی تکمیل کی مشق کرائی جاتی ہے، اسے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت اور اپنی بندگی کا اقرار کرنے کی عادت بنالے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو مذکورہ حدیث کے ذریعہ یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اِس عمل کے ذریعہ اپنے رب کی رضامندی کا متلاشی رہے، خود مختار اور آزاد مخلوق ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو غلام اور محتاج سمجھے اور یہ سوچے کہ ہر کام سے پہلے اپنے مولیٰ سے اجازت لینا ضروری ہے،بسم اللہ پڑھ کروہ اللہ کے نام کے واسطے سے دنیا وآخرت میں اپنے رب کی خوش نودی سے فیض یاب ہونے کی تمنا کرتا رہے اور ہر با معنی اور نیک کام کے لیے لازمی قابلیت وطاقت کا حاجت مند ہونے کا اظہار کرتار ہے،اِس تہذیب میں یہ درس بھی ہے کہ بسم اللہ پڑھنے و الا ہمیشہ اپنے آپ کو اپنے رب کی نگرانی میں ہونے کا احساس رکھے، اِسی لیے جرم اور گناہ کے دائرے میں آنے والے کاموں کے مرتکب ہوتے وقت بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ وہ کام ہی مَولی کی مرضی کے خلاف ہے، اس کی انجام دہی کی تکمیل کی خواہش ایک ناجائز خواہش ہوگی اور اظہارِ عبدیت کے خلاف بات ہوگی؛ ہاں! یہ کہنا بجا ہے کہ بسم اللہ ہر اچھائی کی کنجی اور کلید ہے۔

بسم اللہ پڑھنا محبت اور خشیت ِ الٰہی کا ذریعہ
اگر انسان ہر کام سے پہلے مذکورہ بالا فلسفہ پیشِ نظر رکھے تواس کے دل میں رب ِ ذوالجلال کی محبت پیدا ہوگی اور اِس عمل کا دوام اورتسلسل،محبت ِ الٰہی میں اضافہ کا سبب ہوگا اور جس دن یہ محبت ِ الٰہی انسان کے قلب میں پیدا ہوگئی اس دن سے اس کے لیے دین کے احکام وتعلیمات پر عمل کرنا نہ صرف آسان ہوجائے گا؛ بلکہ عمل آوری کے وقت روحانیت ونورانیت کا احساس بھی ہوگا اور پھر اِس محبت ِ الٰہی کا ثمرہ اور نتیجہ خشیت ِ باری کی شکل میں ظاہر ہوگا اور اِسی خشیت کی وجہ سے انسان گناہوں سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے، یعنی محبت ِ الٰہی، امتثالِ اوامر پر آمادہ کرتی ہے اور خشیت ِ الٰہی اجتنابِ نواہی کا ذریعہ ہوتی ہے، دنیا اور آخرت میں کام یابی وکامرانی کے لیے یہی دو کام ضروری ہیں، بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے وقت اِس مضمون کا استحضار در حقیقت انھیں دونوں کام کی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے۔

ہر انسان پانی پیتا ہے، شریعت نے پانی پینے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا ہے، کیا ہم نے کبھی سوچا یہ حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اگر ہم بغیر بسم اللہ پڑھے پانی پی لیں تب بھی پیاس بجھ جائے گی؛ لیکن بسم اللہ کی برکت سے ہمیں جو فوائد وثمرات حاصل کرنے کا حکم ہے اس سے ہم محروم ہوجائیں گے،اِس بسم اللہ کے ذریعہ بندگانِ خدا اور باغیانِ خدا کاجو فرق بیان کیا گیا ہے، ہمارے بسم اللہ نہ پڑھنے سے وہ فرق مٹ سکتا ہے، پانی کے تعلق سے ایک اقتباس پڑھیے اور ہر کام سے پہلے مذکورہ مضمون کے استحضار کے ساتھ بسم اللہ پڑھنے کی عادت ڈالیے۔

یہ جو حکم دیا جارہا ہے کہ پانی پینے سے پہلے ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ پڑھو، اِس کے ذریعہ اِس طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا کرشمہ ہے اور اس کے ذریعہ یہ اعتراف بھی ہورہا ہے کہ یا اللہ! ہمارے بس میں یہ نہیں تھا کہ ہم یہ پانی پی سکتے، اگر آپ کا بنایا ہوا یہ کارخانہٴ ربوبیت نہ ہوتا تو ہم تک یہ پانی کیسے پہنچتا؟! آپ نے محض اپنے فضل وکرم سے ہم تک یہ پانی پہنچایا اور جب یہ پانی آپ نے ہی پہنچایا ہے تو اے اللہ! ہم آپ ہی سے یہ درخواست او ردعا کرتے ہیں کہ جو پانی ہم پی رہے ہیں، یہ پانی جسم کے اندر جانے کے بعد خیر کا سبب بنے اور کوئی فساد نہ پھیلائے؛ کیوں کہ اگر اس پانی میں بیماریاں اور خرابیاں ہوں گی تو یہ پانی جسم میں فساد مچائے گا؛ اِسی طرح اگر جسم کے اندر کے نظام میں خرابی پیدا ہوجائے، مثلا جگر اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو وہ پانی جسم کے اندر تو جائے گا؛ لیکن اس پانی کو صاف کرنے کا اور گندگی کو باہر پھینکنے کا جو نظام ہے وہ خراب ہوجائے گا؛ اِس لیے ہم پانی پیتے وقت دعا کرتے ہیں کہ اللہ! اِس پانی کا انجام بھی بخیر فرمادے۔ (اسلام اور ہماری زندگی :10/38)

ایک اور اقتباس پڑھیے اور تسمیہ کے پیغام کو دل میں اتاریئے۔
اگر انسان کا یہ شعور بیدار ہو کہ اس کی زبان کو قوت ِ گویائی، اس کے کانوں کو قوت ِ سماعت، اس کی آنکھوں کو قوت ِ دید، اس کے دست وبازو کو قوتِ عمل،اس کے قدموں کو قوتِ نقل وحرکت اور اس کے دماغ کو قوت فکر؛ الغرض سب کچھ خدا کی مدد و اعانت کے سبب میسر آیا ہے تو اس ظاہری اور باطنی اعضاء وجوارح میں کوئی عضو بھی رضاء ِ الٰہی کے خلاف حرکت میں نہ آئے، ہم سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں اور ہمارے فکر میں جو تمرد وانحراف جنم لیتا ہے یہ در اصل اسی شعور وادراک کے فُقدان کا نتیجہ ہے، تسمیہ، فی الحقیقت انسان کی فکری وعملی اصلاح کا شاندار ذریعہ ہے، اگر ہر کام شروع کرنے سے پہلے زبان اور دل خدا نام لینے اور اس سے مدد طلب کرنے کی طرف راغب ہوں اور یہ ان کی عادی خصوصیت بن جائے تو نواہی ومحرمات سے از خود پرہیز ہونے لگے گا؛ کیوں کہ خدا کا کی یاد کے ہوتے ہوئے حکمِ خدا کی خلاف ورزی ممکن نہیں رہتی۔(فلسفہ تسمیہ ص:22)

بسم اللہ کی برکت وتاثیر کے چند واقعات
ایک مرتبہ قیصر بادشاہ نے حضرت عمر کو خط لکھا کہ وہ ناقابل ِبرداشت دردِ سر میں مبتلا ہے، آپ کوئی علاج بتائیں، حضرت عمر نے ایک ٹوپی بھیجی، جب قیصر وہ ٹوپی پہنتا تھا تو سرکادرد ختم ہوجاتا تھا اور جب ٹوپی سرسے اتار دیتا تھا تو سرکادرد شروع ہوجاتا تھا، اسے بڑا تعجب ہوا، اس نے ٹوپی کھول کر دیکھی تو اس میں ایک کاغذ تھا، جس پر بسم اللہ الرحمان الرحیم لکھا ہوا تھا۔(تفسیر الرازی 1:/155)

ایک مرتبہ کچھ مجوسیوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اسلام کو سچا مذہب بتاتے ہیں، ہمیں کوئی علامت دکھائیے تو ہم مسلمان ہوجائیں، حضرت خالد نے کہا: زہر لاوٴ، زہر لایا گیا ،انھوں نے وہ زہر اپنے ہاتھ میں لیا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پورا زہر کھا گئے اور انھیں کچھ بھی نہیں ہوا، مجوسیوں نے کہا ہذا دین حق یہ برحق دین ہے۔(حوالہ سابق)

بسم اللہ کی جگہ786 لکھنا
آج کل بہت سی تحریروں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ 786 لکھا ہوا ہوتا ہے، اِس کے بارے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اصل سنت کی ادائیگی بسم اللہ پڑھنے سے ہوتی ہے، 786 بسم اللہ کا متبادل نہیں بن سکتا، ہاں! بعض تحریروں میں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کی بے احترامی اور بے ادبی ہوسکتی ہے تو اسے بے ادبی سے بچانے کے لیے بعض حضرات نے 786 لکھنا شروع کردیا؛ لیکن اِس عدد کا ثبوت احادیث وآثار میں نہیں ملتا؛ البتہ کوئی شخص اپنی تحریر کے آغاز میں زبان سے بسم اللہ پڑھ کر 786 لکھ دے؛ تاکہ وہ علامت بن جائے کہ لکھنے والے نے اپنی تحریر کو بسم اللہ سے شروع کیا ہے تو گنجائش ہوسکتی ہے اور زبان سے بسم اللہ نہ پڑھے اور صرف 786 لکھ دے تو ادائے سنت اور حصولِ برکت کے لیے کافی نہیں، مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

خطوط کی ابتدا میں ”بسم اللہ الرحمن ا لرحیم“ لکھنا مسنون ہے اور یہ خود قرآنِ کریم سے ثابت ہے کہ اس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط بسم اللہ سے شروع ہوتا ہے، یہ بات کسی مستند کتاب میں نظر نہیں آئی کہ بسم اللہ کی جگہ 786 کا عدد کب سے لکھا جانا شروع ہوا؛ لیکن اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ بسم اللہ لکھا ہوا کاغذ کسی بے حرمتی کی جگہ استعمال ہوگا تو اِس لیے بے ادبی ہوگی؛ لہٰذا اگر کوئی شخص اِس خیال سے زبان سے بسم اللہ پڑھ کر یہ عدد لکھ دے تو سنت تو ادا ہوجائے گی؛ لیکن افضل یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ صراحةً لکھی جائے؛ اِس لیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط بھی کفار کے پاس گیااور آں حضرت صلی الله علیہ وسلمنے کافر بادشاہوں کو جو خطوط روانہ فرمائے ان میں بھی بسم اللہ درج تھی، ظاہر ہے کہ کفار کے پاس بے حرمتی کا ا حتمال مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ تھا، مگر اس کی وجہ سے بسم اللہ کو ترک نہیں کیا گیا۔(فتاویٰ عثمانی ج:1ص:114، مکتبہ معارف القرآن کراچی)

خلاصہ:الحاصل ہم جب بھی کوئی ا ہم اور جائز کام شروع کریں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع کریں اور مذکورہ مضمون ذہن میں مستحضر رکھیں؛ تاکہ اِس بابرکت کلمہ کی تاثیر، انوار وبرکات او رنورانیت وروحانیت کو اپنے دامنِ مراد میں سمیٹ سکیں اور اپنی بندگی کا ثبوت دے سکیں، اِس تسمیہ کو پڑھنے والے بہت ہیں؛ لیکن سمجھ کر پڑھنے والے کم ہیں، غفلت کے ساتھ پڑھنا الگ چیز ہے اور مفہوم ومعنی سمجھ کر پڑھنا دیگر بات ہے، اللہ ہمیں توفیق دے۔

Flag Counter