Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 19
رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کا ایک یتیم بچے سے اخلاق

مولانا محمد سرور، متخصص فی الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی
	
علم سند وعلم الرجال امت محمدیہ مرحومہ کا وہ خاص امتیاز ہے جو سابقہ دوسری اقوام وامم کو نہیں ملا، یہ دین مستند ومحفوظ سند ہی کے واسطے سے ہم تک پہنچا ہے، یہی وجہ ہے کہ محدثین عظام سند کا خاص التزام کرتے رہے ہیں، سند کی اہمیت اور بے سند روایت سے بچنے سے متعلق علمائے ربانیین کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں۔

اسناد کی اہمیت
شیخ الحدیث مولانا یونس جون پوری زید مجدہم ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

ساری احادیث کا دارومدار سند پر ہے، بلاسند کسی حدیث کا اعتبار نہیں۔ ابن سیرین  فرماتے ہیں: یہ علم دین ہے، دیکھو کہ تم اپنا دین کن سے لے رہے ہو! اسے مسلم نے اپنے ”مقدمہ“ میں اور خطیب نے ”کفایہ“ میں نقل کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ احادیث دین ہیں، دیکھو کہ تم انہیں کن سے لے رہو؟ اسے ابن ابوحاتم  نے ”جرح وتعدیل“ میں ذکرکیا ہے۔

عبدالله بن مبارک  فرماتے ہیں: اسناد دین میں سے ہے اور اگر سند نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا سو وہ کہتا۔ اسے مسلم نے مقدمہ میں ، ابن ابوحاتم  ، ابن حبان  نے، مقدمہٴ ضعفاء میں اور حاکم  نے علوم الحدیث میں نقل کیا ہے۔

نیز ابن مبارک سے منقول ہے: سندِ متصل کی طلب دین میں سے ہے۔ اسے خطیب  نے ”کفایہ“ میں نقل کیا ہے او رابن مبارک ہی سے منقول ہے: جو شخص دینی امور بلاسند حاصل کرنا چاہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھنا چاہے۔ اسے خطیب  نے ”کفایہ “ اور ”شرف اصحاب الحدیث“ میں نقل کیا ہے۔

عبدالصمد بن حسان فرماتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری  کو فرماتے ہوئے سنا: اسناد مؤمن کا ہتھیار ہے، اگر اس کے پاس ہتھیار ہی نہ ہو تو کس چیز سے مقابلہ کرے گا؟ اسے ابن حبان  نے ”ضعفاء“ کے مقدمہ میں اور خطیب  نے ”شرف اصحاب الحدیث“ میں نقل کیا ہے اور علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ ابو سعید حداد کا قول ہے: اسناد کی مثال سیڑھی کے درجات کی طرح ہے، اگر آپ کا پاؤں سیڑھی سے پھسل گیا تو آپ گر جائیں گے اور رائے تو چراگاہ کی مانند ہے۔ اسے خطیب  نے ”کفایہ“ اور ”شرف اصحاب الحدیث“ میں نقل کیا ہے او رابن حبان نے ”ضعفاء“ کے مقدمہ میں قتیبہ بن سعید سے نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے ابو سعید حدَّاد کو فرماتے ہوئے سنا ہے: حدیث ( سیڑھی کے) درجات ہیں اور رائے چراگاہ ہے، اگر تم چراگاہ میں ہو تو جہاں چاہو چلو پھرو او راگر تم سیڑھی پر ہو تو سنبھل کر رہنا کہ کہیں پھسل نہ جاؤ او رگردن ٹوٹ جائے۔

یعقوب بن محمد بن عیسیٰ فرماتے ہیں کہ ابن شہاب  حدیث بیان کرتے تو سند ذکرکرتے اور فرماتے: سیڑھی پر اس کے درجات ہی سے چڑھا جاسکتا ہے۔اسے ابن ابو حاتم نے ”جرح وتعدیل“ میں نقل کیا ہے۔

مطرورّاق سے الله عزوجل کے قول ”أوأثارة من علم“ کے بارے میں منقول ہے کہ (اس سے مراد ) اسنادِ حدیث ہے۔ اسے را مہرُ مرزی نے ”المحدث الفاصل“ میں اور خطیب  نے ”شرف اصحاب الحدیث“ میں نقل کیا ہے اور شافعی فرماتے ہیں: بلا اسناد طلب کرنے والا رات کو لکڑیاں چننے والے کی طرح ہے۔ سخاوی نے ”شرح الفیہ“ میں اسی طرح نقل کیا ہے۔(الیواقیت الغالیہ، ضعیف اور موضوع روایتوں کااعمال میں کیا حکم ہے؟2/306,296)

روایت عید کے دن رسالت مآب  صلی الله علیہ وسلم کا ایک یتیم بچے کے ساتھ اخلاق کریمانہ سے پیش آنا
ذیل میں ایک ایسی روایت پیش کی جارہی ہے جس کی سند نہیں ملتی، چناں چہ علم حدیث کے تقاضے کے مطابق سند ملنے تک اس کے بیان کو موقوف رکھنا ضروری تھا، لیکن ہمارے تساہل کا یہ عالم ہے کہ زور شور سے عام وخاص کی زبانوں پر یہ روایت زبان زد عام ہے، حضرات محدثین عظام کی سابقہ تصریحات ایسی روایات کے بیان پر شدید مذمت کا کھلا اظہار ہیں، روایت ملاحظہ ہو:

شیخ عبدالمجید بن علی العدوی (1303ھ)”التحفة المرضیة في الأخبار القدسیة“ میں بلا سند لکھتے ہیں:” روایت کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم عید کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے، بچے کھیل رہے تھے، ان میں ایک بچہ کونے میں بیٹھا ر ورہا تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بچےٰ تجھے کیا ہوا کہ تو رو رہا ہے او ران بچوں کے ساتھ نہیں کھیل رہا، وہ بچہ آپ صلی الله علیہ و سلم کو نہیں جانتا تھا، اس نے کہا: اے شخص مجھے اپنے حال پر رہنے دو، میرے والد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شہید ہو گئے ہیں او رمیری والدہ دوسرے شخص سے نکاح کرچکی ہیں، جس نے میرا مال بھی کھا لیا ہے اور اب اس کے شوہر نے مجھ کو میرے گھر سے نکال دیا ہے اور اب نہ میرے پاس کھانا ہے، نہ پینا ہے، نہ کپڑے ہیں، نہ ہی کوئی گھر ہے، جو میرا ٹھکانہ ہو، جب میں نے ان بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا جن کے باپ زندہ ہیں او رانہوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں تو میرا غم او ربھی بڑھ گیا ،اس لیے میں رو پڑا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑا او رکہا: کیا تو اس چیز پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ ہوں، عائشہ تیری ماں ہو، فاطمہ  تیری بہن ہو، علی  تیرے چچا ہوں، حسن وحسین تیرے بھائی ہوں؟! اب بچے نے پہچان لیاکہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں، اس نے کہا: یا رسول الله میں کیسے اس پر راضی نہ ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اٹھایا اور گھر لے آئے، اسے اچھا لباس پہنا کر خوب آراستہ کیا، اسے کھانا کھلایا حتی کہ اسے خوش کر دیا ، یہ بچوں کے پاس ہنستا مسکراتا ہوا آیا، بچوں نے جب اسے اس حال میں دیکھا تو کہا: ابھی تو تم رورہے تھے، اب کیا ہوا کہ تم خوش ہو؟ اس نے کہا کہ میں بھوکا تھا ،میرا پیٹ بھر گیا، میں بے لباس تھا ،مجھے کپڑے مل گئے ہیں، میں یتیم تھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم میرے باپ، عائشہ میری ماں بن گئیں اورآخر تک تمام قصہ سنایا، بچوں نے کہا: کاش ہم سب کے والد بھی غزوہ میں شہید ہو جائیں جس طرح تیرے والد شہید ہوئے، وہ بچہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے ساتھ رہا، یہاں تک آپ صلی الله علیہ و سلم کا وصال ہو گیا، اس دن وہ بچہ روتے ہوئے سر پر مٹی ڈالتے ہوئے نکلا او رکہہ رہا تھا کہ آج میں یتیم ہو گیا، آج میں غریب ہو گیا، ابوبکر نے اسے چمٹا لیا۔“(التحفة المرضیة، ص:58، المطبع الکاشلیة مصر،ط:1280ھ)

روایت کے بعض دوسرے الفاظ کا ذکر
یہی واقعہ کچھ فرق اور اضافہ کے ساتھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
1..عید کے دن آپ صلی الله علیہ وسلم گھر سے مسجد کی طرف جارہے تھے، راستے میں ایک جگہ کچھ ایسے بچوں کو کھیلتے دیکھا جنہوں نے اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے، بچوں نے سلام کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب ارشاد فرمایا۔ کچھ آگے تشریف لے گئے تو وہاں ایک بچے کو اداس بیٹھے دیکھا، آپ اس کے قریب رک گئے اور پوچھا: تمہیں کیا ہوا کہ اداس اور پریشان نظر آرہے ہو؟ اس نے روتے ہوئے کہا: اے الله کے محبوب! میں یتیم ہوں، میرا باپ نہیں ہے، جو میرے لیے کپڑے لادیتا، میری ماں نہیں ہے جو مجھے نہلا کر نئے کپڑے پہنا دیتی، اس لیے میں یہاں اکیلا اداس بیٹھا ہوں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اسے لے کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا: اس بچے کو نہلا دو۔ اتنے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مبارک چادر کے دو ٹکڑے کر دیے، کپڑے کا ایک ٹکڑا اسے تہہ بند کی طرح باندھ دیا گیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیا گیا ، پھر اس کے سر پر تیل لگا کر کنگھی کی گئی، حتی کہ جب وہ بچہ تیار ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چلنے لگا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نیچے بیٹھ گئے اور اس بچے سے فرمایا: آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گا، بلکہ میرے کندھوں پر سوار ہو کر جائے گا۔

جب مسجد تشریف لا کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ بچہ نیچے بیٹھنے لگا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے فرمایا: آج تم زمین پر نہیں بیٹھو گے، بلکہ میرے ساتھ منبر پر بیٹھو گے، آپ صلی الله علیہ و سلم نے اس بچے کو منبر پر بٹھایا اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا او رمحبت وشفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا، اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے، الله اس کے نامہ اعمال میں اتنی ہی نیکیاں لکھ دے گا، مزید فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس کو مصیبت کے وقت تنہا نہیں چھوڑتا، جو شخص اپنے بھائی کی مد د کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، جو شخص کسی مسلمان کی مشکل دور کرے گا الله تعالیٰ اس کے بدلے قیامت میں اس سے سختی دور فرمائے گا۔

2..اسے ایک موقع پر یوں بھی بیان کیا گیا ہے: آپ صلی الله علیہ وسلم اس بچے کو اپنے کندھے پر سوار کرکے اس گلی سے تشریف لے جارہے تھے، بچوں نے جو یہ دیکھا تو تمنا کی کہ کاش ہم بھی یتیم ہوتے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار ہونے کا شرف حاصل کرتے۔

3.. ایک جگہ یوں بیان کیا گیا ہے: اس بچہ کا باپ کافر تھا، وہ فوت ہو گیا تھا، اس لیے وہ بے یارو مدد گار تھا۔

روایت کا حکم
یہ واقعہ اس خاص انداز وسیاق سے ہمیں باوجود تتبع وتلاش کے ذخیرہ احادیث میں سنداً کہیں نہیں مل سکا، ایسی ہی روایت کے متعلق علامہ عبدالفتاح ابوغدہ”المصنوع“ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
”اور جب حدیث کی سند ہی نہ ہو، تو وہ بے قیمت اور غیر قابل التفات ہے، کیوں کہ ہماری جانب ہمارے آقا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے کلام کو نقل کرنے میں اعتماد صرف اسی سند پر ہو سکتا ہے جو صحیح سند سے ثابت ہو یا جو اس کے قائم مقام ہو اور جو حدیث ایسی نہ ہو تو وہ بے قیمت ہے ۔“ (المصنوع، ص:18، ت: عبدالفتاح ابوغدة، المطبوعات الاسلامیہ، بیروت ط:1426ھ)

چناں چہ جب تک اس روایت کی کوئی معتبر سند نہیں مل جاتی زیر بحث روایت کو بیان کرنے سے موقوف رکھا جائے اور ہر گز بیان نہ کریں۔

اہم تنبیہ
ماقبل روایت کے بعض اجزا معتبر اور صحیح سندوں سے ثابت اور قابل بیان ہیں، ذیل میں ان بعض اجزا کو بیان کیا جار ہا ہے۔

یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنے پر اس کے بال کے برابر نیکیاں ملنا:
امام طبرانی ”المعجم الأوسط“ میں لکھتے ہیں(المعجم الأوسط:3/285، رقم :3166، دارالحرمین۔ القاھرة،ط:1415ھ) : ” حضرت ابو امامہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا، اس کے ہر بال کے بدلے نیکی لکھ دی جائے گی۔

حافظ ابن حجر ”فتح الباری“ (فتح الباری:11/151، ت: عبدالعزیز بن باز، دارالمعرفة، بیروت، ط:1379ھ) میں فرماتے ہیں : ”رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، جو نہ خود اس پر ظلم کرے، نہ اسے دوسرے کے حوالے کرے اور جو شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے الله تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف دور کرے گا الله تعالیٰ اس کے بدلے قیامت میں اس سے سختی دور فرمائے گا، جو مسلمان کی ستر پوشی کرتا ہے الله قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔“

الحاصل اس قصہ میں ذکر کردہ یہ دونوں مضامین درست ہیں، انہیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ماقبل میں ذکر کردہ مفصل واقعہ سنداً نہیں ملتا، چناں چہ اسے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے اس وقت تک بیان نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کی معتبر سند نہ مل جائے، والله اعلم

Flag Counter