Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

13 - 19
سنت پرعمل… دنیاوآخرت میں کام یابی

مولانا اسرار الحق قاسمی
	
علمی اصطلاح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل دونوں پرسنت کا اطلاق ہوتاہے،سنت کا لغوی معنی بھی طریقہ ہے اورسیدھے طورپریہ کہا جا سکتا ہے کہ جوعمل آپ صلی الله علیہ وسلم کے قول سے یاعمل سے ثابت ہووہ سنت ہے۔شریعت میں سنت کی غیر معمولی اہمیت ہے اور مسلمانوں کایہ امتیازہے کہ اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کی اجتماعی و انفرادی زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں راہ نمائی کی ہے۔خانگی زندگی سے لے کرمعاشرے میں رہنے کے طور طریقوں سے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے آگاہ فرمایاہے،سونے سے لے کر جاگنے تک اور کھانے پینے سے لے کر اٹھنے بیٹھنے تک کا طریقہ بتایاہے،لوگوں سے کس طرح بات کرناہے اور ان کے ساتھ کیسا برتاوٴکرناہے،یہ بھی ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بتایاہے،مختصریہ کہ اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے قدم قدم پر اپنی امت کے ہر فردکی رہبری و راہ نمائی فرمائی ہے ۔اوریہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی انسان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طورطریقوں کواپنی عملی زندگی میں برپاکرتاہے اور اسی طرح اپنی زندگی گزارتاہے جیسے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے تویقیناً ایسا انسان کام یاب ہے،حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پرعمل کرنادراصل اللہ کے احکام کی پابندی ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ”جو رسول کی اطاعت کرتاہے، اس نے الله کی اطاعت کی۔“(سورہٴ نساء:80) اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی پاک صلی الله علیہ وسلم جوبھی عمل کرتے ہیں یاجوبھی ہدایت فرماتے ہیں وہ دراصل اللہ کی جانب سے ہی تلقین کیا جاتاہے،دوسری جگہ الله تعالیٰ نے اس کی مزید وضاحت فرمائی ہے:” اور رسول تم کو جو کچھ دے اس کو لے لو اور جس چیز سے تم کو منع کرے اس سے رُک جاؤ“۔ (سورہٴ حشر:7) اس سے واضح ہوگیاکہ اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے میں ہی مکمل کام یابی ہے اورآپ صلی الله علیہ وسلم کے احکام پرعمل کرنا اور منہیات سے رکناشرعی تقاضاہے۔پھریہ کہ اتباعِ رسول دراصل اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی علامت ہے،جیساکہ ارشاد ہے: ”کہہ دو اگر تم الله سے محبت کرتے ہوتو میری اتباع کرو،الله تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور الله بہت زیادہ معاف کرنے والااور رحم کرنے والا ہے، کہہ دو الله اور رسول کی اطاعت کرو ، اگر تم رو گردانی اختیار کرتے ہو تو الله کافروں کو پسند نہیں کرتا ہے“۔(سورہٴ آل عمران : 31-32)

نبی پاک صلی الله علیہ وسلم جوکچھ بیان کرتے ہیں اور اپنی امت کوجوہدایت فرماتے ہیں،وہ سب اللہ کی جانب سے ہوتاہے اور اللہ کی طرف سے دیے گئے احکام کی تشریح ہوتاہے،جیساکہ فرمایاگیاہے :”ہم نے تم پر قرآن نازل کیاہے، تاکہ لوگوں کے سامنے اس کو کھول کھول کر بیان کرو، جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے“۔(سورہٴ نحل :44)

احادیث میں بھی متعددمقامات پرنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کواورصحابہ کے واسطے سے تمام امت کوسنت پر عمل کرنے اور اس کولازم پکڑنے کی تلقین کی ہے، حضرت عرباض بن ساریہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”میری سنت کو لازم پکڑو“۔ (سنن ابو داوٴد:4604)

حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” بلاشبہ مجھے کتاب عطاکی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل دوسری چیز بھی“۔ (سنن أبو داوٴد: 4607)اس حدیث میں دوسری چیزسے مراد سنت ہی ہے۔

قرآن اور حدیث کے مذکورہ نصوص و دلائل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سنت نبویہ صلی الله علیہ وسلم شریعتِ اسلامیہ کے مصادر و مآخذ میں ایک اہم مصدر اور حجت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ قرآن کریم کے بعد دوسرے ماخذکا مقام رکھتی ہے، اس پر تمام مسلمانو ں کا اجماع ہے۔بلاشبہ الله تعالیٰ نے تمام مسلمانوں پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت فرض کی ہے اور ان پر تمام اوامر و نواہی اور احکام و تشر یع میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کو ضروری قرار دیا ہے، الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ وابستہ کیا ہے، اور اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”جو رسول کی اطاعت کرتاہے اس نے الله کی اطاعت کی“۔ لہٰذا جس نے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اس حیثیت سے کی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رسول اور مبلغ ہیں تو وہ فی الحقیقت الله ہی کی اطاعت کرتا ہے۔

نبی کریم نے سنت ِ نبویہ صلی الله علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامنے کی باربارتاکید فرمائی ہے اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ وہ تشریعی احکام میں سے ایک اہم دلیل ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات سے ڈرایا ہے کہ کوئی قرآن و سنت میں تفریق کرے، صرف قرآنی احکام پر اکتفاء کرے اور سنت پر عمل کرنا ترک کر دے، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”میں تم میں سے کسی کو اس حال میں ہرگز نہ پاوٴں کہ وہ اپنی مسند پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو، اس کے پاس میری کوئی حدیث پہنچے، جس میں کسی چیز کا میں نے حکم دیا ہو یا کسی چیز سے روکا ہو تو وہ یہ کہے:ہم نہیں جانتے ہیں ،ہم جو کچھ کتاب الله میں پائیں گے اسی کی ہم اتباع کریں گے“۔(سنن أبو داوٴد:4605)

سنت نبویہ مطہرہ یا تو قرآنِ کریم میں وارد احکام کی تاکید کرتی ہے یا اس کے مجمل کی تفصیل بیان کرتی ہے یا اس کے عام کو خاص کرتی ہے، یا اس کے مطلق کو مقید کرتی ہے یا اس کے کسی حکم کو منسوخ کرتی ہے، یا قرآنِ کریم میں غیر موجود کسی حکم کو بیان کرتی ہے۔یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے دیاگیاہرحکم دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیاگیاحکم ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔جب آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی زندگی کے آخری ایام گزاررہے تھے،اس موقعے پر آپ نے اپنی امت کوکام یابی و کامرانی کاایک عظیم نسخہ عنایت فرمایاتھا،آپ نے فرمایاتھاکہ میں تمھارے درمیان دوایسی چیزیں چھوڑکر جارہاہوں کہ جب تک تم ان کوتھامے رہوگے ، گم راہ نہیں ہوسکتے اور وہ دوچیزیں کتاب اللہ اور میری سنت ہے۔اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بعداپنے صحابہ کی اتباع کی بھی تلقین فرمائی اور یہ فرمایاکہ’میرے صحابہ ہدایت کے ستارے ہیں،تم ان میں سے جس کی بھی اتباع کروگے ہدایت پاجاوٴگے‘۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بطورِخاص خلفائے راشدین کی اتباع کی بھی ہدایت فرمائی،کیوں کہ جہاں فضیلت اور مرتبے میں خلفائے راشدین حضرت ابوبکرصدیق،عمرفاروق،عثمان غنی اور علی کرم اللہ وجہہ دیگر صحابہ اور مسلمانوں سے آگے ہیں،وہیں انھیں یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے قول و عمل کودل و جان سے قبول کیااوراپنی زندگی کومکمل طورپرسنتِ نبوی کے سانچے میں ڈھال لیاتھا۔

لہٰذاہردورکے مسلمانوں کی کام یابی اور کامرانی اسی میں ہے کہ وہ اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم اورآپ صلی الله علیہ وسلم کے معززصحابہ کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائیں اورزندگی کے ہر موڑاور ہر شعبے میں ان کے قول و عمل کومضبوطی سے تھامیں۔آج جوبظاہر ہرچہارجانب مسلمان خسارے میں ہیں اورانھیں ہرشعبہٴ حیات میں ناکامیوں کاسامناہے،اجتماعی وانفرادی طور پر مصائب اور شکست و ہزیمت ان کا مقدربن چکی ہے،اس کی دیگر وجوہ کے ساتھ ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سیرت وسنت سے کوسوں دورہوچکے ہیں،دنیاکی ظاہری چمک دمک اور مادیت پرستی ہمارے معاشرے اور گھروں میں سرایت کرچکی ہے اورہم دین سے دوررہ کردنیاکی آسایشیں حاصل کرنا چاہتے ہیں،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہرقدم پر ہمیں نقصان اور خسارے سے دوچارہوناپڑرہاہے۔جب کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو ہم خداورسول اور قرآن و سنت کی دہائیاں دیتے ہیں،لیکن جب خوش حالی میں ہوتے ہیں تودیگر اقوام کی طرح غفلت او رعیش پرستی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں،حالاں کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ اگرخوش حالی ہوتواللہ کی نعمتوں کاشکراداکریں اوراگرمصیبت میں ہوں تو صبرکریں اورہرموڑپرصرف اللہ سے مددونصرت طلب کریں۔اعتدال اور توازن سنتِ نبوی کا خاص وصف اور امتیازہے، جوہماری زندگیوں سے ناپیدہے اور ہم عملی دنیامیں افراط و تفریط کے شکارہیں۔

اس لیے اگرہمیں واقعی پرسکون زندگی مطلوب ہے توہرحال میں سنتوں کوزندہ کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی اور سیرتِ نبوی اورصحابہکی مثالی زندگیوں کواپنے لیے مشعلِ راہ بناناہوگا۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطافرمائے۔(آمین)

Flag Counter