Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

16 - 19
میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
بجرنگ دل کے ایک بڑے لیڈر کی داستان

عبدالرحمن/ابھیشیک،(میرٹھ،یوپی)

یہ الله کا ایک گناہ گار بندہ13/جنوری1972ء کو میرٹھ مغربی یوپی کے ایک دھار مک ( مذہبی) ہندوپریوار ( خان دان) میں پیدا ہوا۔ پرائمری تعلیم آریہ سماج کے ایک اسکول میں ہوئی۔ ذرا بڑا ہوا تو 1984ء سے لے کر1987ء تک میرٹھ میں لگاتار فسادات او رکرفیو کے حالات رہے اس کا اثر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف آخری درجے میں نفرت کے طور پر ایک نو عمر ہندو گھرانے کے لڑکے پر پڑتا رہا ۔1991ء میں، میں نے بارہویں کلاس پاس کی۔ اس کے بعد1995ء میں، میں نے سنسکرت میں ایم اے کیا۔ اس زمانے میں 3/ اکتوبر1990ء کے فسادات اور 1992ء میں بابری مسجد کے فسادات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور میں نے بجرنگ دل کی کمان سنبھال لی۔ بولنے کا طریقہ مجھے میرے مالک نے دیا تھا، اس کی وجہ سے میں جلد ہی 2003 میں دیس کے ایک بڑے صوبے کا بجرنگ دل کا جنرل سیکریٹری بن گیا۔ اس عہدے کے ساتھ مجھے آرایس ایس کا سنچا لک بھی بنا لیا گیا۔ بعد میں صوبے کے بجرنگ دل کی جنرل سیکریٹری کی پوسٹ چھوڑ کر میں نے اس صوبے کے مکھیہ سنچالک کا عہدہ سنبھالا، یہ آر ایس ایس میں ایک بہت بڑا عہدہ مانا جاتا ہے۔ میں اس عہدے پر پانچ سال رہا اور 9/جنوری2012ء کو مجھے مالک نے نرک(جہنم) کے راستے سے بچا کر سچے راستے کے لیے قبول کر لیا۔

میرے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ایسا ہے کہ اس میں کوئی تفصیل ہے ہی نہیں، بس شارٹ کٹ اسٹور ی اگر لکھی جائے تو یہ ہے کہ ابھیشیک ظالم، بلکہ غافل پر اس کے مالک کو رحم آیا اور اس کا دامن اسلام سے بھر دیا، بس اتنا واقعہ ہے۔ شاید جب سے دنیا قائم ہوئی ہے آج تک سب سے زیادہ اسلام ، مسلمانوں، ان کی مسجدوں، ان کی صورتوں ، داڑھیوں ، ٹوپیوں، یہاں تک کہ پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور اس سے آگے اپنے الله کے نام سے سب سے زیادہ نفرت، کراہت اور دشمنی کرنے والے ٹاپ سو، بلکہ صرف دس لوگوں کی کوئی فہرست بنائی جائے تو اس میں اس ذلیل ابھیشیک کا نام ضرور لکھنا پڑے گا۔ میں رات کو کئی بار اس طرح کی فہرست کے بارے میں سوچتا ہوں تو ابولہب اور ابوجہل کے ساتھ مجھے اپنا نام شامل کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے اسلام دشمن کا بس الله نے اپنی رحمت سے اسلام سے دامن بھر دیا۔

اصل میں ہوا یہ کہ 6/دسمبر کو بجرنگ دل والے بابری مسجد کی شہادت کے دن وجے دوس(یوم فتح) مناتے ہیں۔6/دسمبر2011ء کو اک وجے دوس(یوم فتح) جو نوئیڈ میں منایا گیا تھا، وہاں مجھے مکھیہ اتتھی (مہمان خصوصی) کے طور پر بلایا گیا۔ بڑی سبھا تھی، میں نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور کہا کہ ہمیں اس وقت تک(یوم فتح) منانے کا ادھیکار(حق) نہیں ہے جب تک رام مندر بنانے کا خواب پورا نہ ہو اور میں نے بڑے جوش کے ساتھ سنکلپ ( عہد) لیا کہ خون کا آخری قطرہ جب تک ہمارے اندر ہے ہم دم نہیں لیں گے، جب تک رام مندر نہ بن جائے۔ میں اسٹیج پر تھا تو ایک بجرنگ دل کے پر بھاری رام چند نے مجھے دو پستکیں ( کتابیں) دیں: ایک ” آپ کی امانت آپ کی سیوا میں“ اور دوسری”ہمیں ہدایت کیسے ملی؟“ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ رام مندر بنانے کا سنکلپ اور عہدلے رہے ہیں، جب کہ بابری مسجد توڑنے میں پہلی کدال چلانے والے مسلمان بن کر مسجدیں بنا رہے ہیں، آپ ان کتابوں کو غور سے پڑھیے او رپھر اس پر غو رکرنے کے لیے ایک بڑی سبھا آر ایس ایس اور بجرنگ دل وغیرہ کے لوگوں کی ہونی چاہیے۔ میں نے کتابیں لیں، مجھے دلّی جانا تھا، راستے میں، میں نے پڑھنا شروع کیا۔ ”ہمیں ہدایت کیسے ملی؟“ سب سے پہلا انٹرویو ماسٹر عامر کا تھا، جو بلبیر سنگھ تھے اور شیوسینا کے ممبر تھے، جنہوں نے سب سے پہلے بابری مسجد پر چڑھ کر کدال چلائی،کہ وہ اور ان کے ساتھی یوگیندر کیسے مسلمان ہوئے؟اس کے بعد عبدالله نام کے دوسرے صاحب تھے، ان کے اسلام لانے کی کہانی تھی، جو میرے ایک طرح سے دھرم گرو ( دینی پیش وا) تھے۔ انہوں نے ہی مجھے بجرنگ دل سے جوڑاتھا۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں اپنی 15 سال کی بھتیجی حرا کو زندہ جلایا تھا، وہ اسلام لائے۔ ایک ڈی ایس پی، جن کا نام اب حذیفہ ہے، وہ بھی میرے بہت جاننے والوں میں تھے، ان کی کہانی بھی اس میں تھی، میں دہلی جاکر رات دیر تک ان چھ کی چھ کہانیوں کو پڑھتا رہا اورپوری کتاب پڑھ کر ” آپ کی امانت…“ کھولی اور اس کتاب کے ختم ہونے تک میں خود اس کے ہتھیاروں کا شکار ہو کر اپنی موت مرچکا تھا۔ میں نے ان تینوں لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی اور ان سے ملنا چاہا، ان میں سے کسی ایک سے بھی میرا رابطہ نہیں ہو سکا، مگر یہ بات معلوم ہو گئی کہ وہ اب اپنادھرم ( دین) چھوڑ چکے ہیں۔

میں دہلی اردو بازار گیا” اسلام کیا ہے؟“ اور ”مرنے کے بعد کیاہو گا؟“ میں نے خریدیں۔ ان کو پڑھا ، مگر جس اسلام اور مسلمانوں کی نفرت سے سماج کے تانے بانے میں بندھا تھا، اس میں مجھے اسلام قبول کرنا بالکل آگ میں کودنے جیسا لگ رہا تھا۔ میں بہت بے چین تھا،”مرنے کے بعد کیا ہوگا؟“ پڑھ کر ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے دوزخ کی آگ اور سزا تھی اور ہر سانس آخری سانس لگ رہی تھی، جو مجھے ا چھالتی تھی کہ ایک سیکنڈ سے پہلے مجھے مسلمان ہو جانا چاہیے، مگر سماج سے اور ایسے سماج سے ٹکر لینے کے لیے ہمت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ آخر دوزخ کا ڈر غالب آہی گیا اور میں نے کسی طرح مولوی کلیم صدیقی صاحب کا فون نمبر، آپ کی امانت کتاب پر لکھے ہوئے فون نمبر09313303149 پر فون کرکے حاصل کیا، دو روز تک میں کوشش کرتا رہا کہ شاید فون مل جائے۔

پھر میں نے دن چھپنے کے بعد مولوی صاحب کو ایس ایم ایس کیا کہ میں ایکس ( سابق) جنرل سیکٹری بجرنگ دل اور ورتمان ( موجودہ) مکھیہ سنچالک (فلاں پردیش) آپ سے ضروری بات کرنا چاہتا ہوں ، آپ جب فری ہوں مس کال کر لیں۔ پانچ منٹ کے بعد مولوی صاحب کا فون آگیا، بولے: میں کلیم صدیقی بول رہا ہوں، میں نے معلوم کیا: مولوی کلیم صدیقی صاحب؟ بولے: جی ہاں! میں نے کہا: آپ فون کاٹیے، میں بات کرتا ہوں، مولوی صاحب نے کہا: میرا فون اَپوتر(ناپاک) نہیں ہے، آپ اسی پر بات کر لیں۔ میں نے کہا: میرا اپنا مطلب ہے، میں ہی فون کروں گا۔ میں نے فون کاٹ کر فون کیا۔

میں نے بتایا: آپ نے میرا ایس ایم ایس پڑھا ہو گا، تو میرے پریچے ( تعارف)اور عہدے سے میرے حال کا اندازہ ہو گیا ہو گا، میری اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی اور گھڑنا (نفرت) کا یہ حال تھا کہ مسلمان ایمبولینس میں بھی اچھا نہیں لگتا تھا کہ ابھی مراکیوں نہیں اور اس کی سانسیں کیوں چل رہی ہیں؟!

مجھے اپنے اندر کا حال بتانا تھا، میرے مالک نے خود مجھ سے کہلوایا، ورنہ یہ سینٹینس(جملہ) کسی شبدکوش ( لغت کی کتاب ) میں بھی نہیں پڑھا تھا۔

میں نے کہا:آپ کی امانت اور ہمیں ہدایت کیسے ملی؟ پڑھ کر میرا حال بالکل بدل گیا ہے، مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ کے بعد توایک ایک سانس آخری لگ رہی ہے، مگرجس نفرت بھرے سماج کے بندھن اور جال میں بندھا او رگھرا ہوا ہوں، اس میں مسلمان ہونا تو پہاڑ سے ٹکر مارنے کے سمان (مانند) ہے، اس کے لیے مشورہ کرنے کے لیے آپ سے بہت جلد ملنا چاہتا ہوں، جہاں کا آپ کاجلدی سے حکم ملے میں آنے کو تیار ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا: جس مالک پر ایمان لا کر اس کے فرماں بردار بنیں گے وہ زمین وآسمان کا مالک اور سارے بادشاہوں کا بادشاہ ہے، اس پر ایمان نہ لانا پہاڑوں سے ٹکر مارنا ہے، البتہ یہ بات ہے کہ میں تو ابھی بھی سفر میں ہوں او رمجھ سے جلد رابطہ بھی مشکل ہے، علی گڑھ آپ سے قریب ہے، ابھی تو کہرا بہت ہو رہا ہے، ایک دو روز میں موسم ٹھیک ہوجائے تو آپ وہاں ہمارے ساتھی قاضی ضیاء الاسلام صاحب جو فردوس نگری میں ہمارے ذمے دار ساتھی ہیں، ان سے جا کر مل لیں، وہ آپ کی پوری مدد کریں گے اور آپ کو اچھا مشورہ بھی دیں گے۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ آپ ان کا فون نمبر ایس ایم ایس کر دیجیے۔ مولوی صاحب نے فوراً قاضی صاحب کا نمبر ایس ایم ایس کر دیا۔ میں نے قاضی صاحب کو فون ملایا او رمعلوم کیا کہ میں ابھی آنا چاہتا ہوں۔ قاضی صاحب نے کہا: آپ کا گھر ہے، آدھی رات کو بھی دروازہ کھلا ملے گا۔ میں نے فوراً علی گڑھ کی بس پکڑی اور علی گڑھ پہنچا۔ رات نوبجے کے بعد علی گڑھ پہنچا، قاضی صاحب سے کچھ دیر بات ہوئی، انہوں نے سمجھایا: اسلام کا اعلان کرنا ضروری نہیں، آپ کی سمجھ میں جب آگیا ہے تو فوراً کلمہ پڑھیں، بعد میں مشورہ کرتے رہیں گے۔ میرا بھی دل اندر سے جلدی سے کلمہ پڑھنے کو چاہ رہا تھا۔ قاضی صاحب نے کلمہ پڑھوایا اور میرا نام عبدالرحمن رکھا۔ فوراً قاضی صاحب نے مولوی کلیم صاحب کو فون ملایا او رکہا: ابھیشیک صاحب آگئے ہیں، میں نے ان کو کلمہ پڑھوا دیا ہے، عبدالرحمن نام بھی رکھ دیا ہے، میری بھی خواہش ہے اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ایک بار ان کو کلمہ پڑھوا دیں۔ مولوی صاحب نے کلمہ پڑھوایا اور مجھ سے کہا: اتنے کہرے میں آپ نے خطرہ مول لے کر سفر کیا، میں نے کہا: مولوی صاحب ! میں نے سوچا: کہرے میں راستے میں ایکسیڈنٹ ہو کر موت آئی تو ایمان کے راستے میں موت آئے گی اوراگر گھر پر رات کو مر گیا تو ایمان کے بغیر مر کر دوزخ میں جاؤں گا، اس لیے مجھ سے نہیں رہا گیا۔

رات کو قاضی صاحب کے یہاں رہا، صبح کو قاضی صاحب سے مشورہ ہوا، ایفی ڈیوٹ بنوایا او رکسی سفر کے بہانے جماعت میں جانے کا مشورہ دیا او رپھر مولوی صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا۔ دہلی جا کر جماعت میں شامل ہوا، چالیس روز لگا کر مولوی صاحب سے ملا، مولوی صاحب نے ہجرت کا مشورہ دیا، دوسرے صوبے میں میرے الله نے انتظام کرادیا۔

اسلام میں آنے کی اور اس قدر کم ظرف نفرت بھرے آدمی کے ایمان ملنے کی جیسی مجھے خوشی ہے، ویسی شاید دنیا میں کسی کی نہیں ہو گی۔

اصل میں مولوی کلیم صاحب سے بیعت ہوا تو مولوی صاحب نے مجھے خود اپنے پاس سے ڈاکٹر عبدالحئی صاحب کی کتاب ہندی میں ”اسوہٴ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم“ دی اور بتایا کہ اس میں ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا پورا طریقہ بہت اچھے ترک ( دلائل) کے ساتھ لکھا ہے، آپ کو اسے پڑھنا ہے اور جیون ( زندگی) اسی طرح گزارنا ہے۔ اس کتاب نے مجھے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی ذات سے، آپ کی ایک ایک ادا سے پاگل پن کی حد تک محبت پیدا کر دی اور میں ایک کے بعد ایک سیرت کی کتاب پڑھتا رہا، اب تو اردو بھی پڑھنے لگا ہوں ، مگر پہلے ہندی میں کتابیں پڑھیں۔

میں اپنا حال شبدوں (لفظوں) میں بیان نہیں کر سکتا، میں بجرنگ دل اور آرایس ایس کی سبھاؤں میں چوں کہ بھاشن(تقریر) خوب کرتا تھا، توبہ توبہ! ایسے محسن نبی او رانسانیت کے اتنے بڑے محسن اور جگ نائک اور رہبر کے لیے ایسی گری ہوئی گھناؤنی باتیں اور قرآنِ مجید کے بارے میں ایسے ذلیل الفاظ بولنا کبھی یاد آتا ہے تو دل چاہتا ہے کہ پتھر پر ابھیشیک کا سر رکھ کر اس کمینے کے گندے او ربدتمیز سر پر دوسرا پتھر مار کر بھیجا نکال دوں۔ میرے حال کا اندازہ کرنے کے لیے آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، ابھی کچھ روز پہلے بجرنگ دل اور آر ایس ایس کی سبھاؤں میں جہاں مجھے مکھیہ اتتھی (مہمانِ خصوصی) یا ادھیکش (صدر) بنایا جاتا تھا، کہ کچھ فوٹو کی البم اور پرانے اخبار مجھے ایک الماری میں ملے، جن میں، میں نے الله کے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور قرآن مجید کے بارے میں بہت گھناؤنے جملے بولے تھے، ان کو دیکھ کر میں بے قابو ہو گیا او رپاگلوں کی طرح البم پر، اخبار پر، اپنے منھ پر جوتا نکال کر انتہائی نفرت کے ساتھبرسانا شروع کیا اور گالیاں بے اختیار دیتا جاتا تھا، کمینے ابھیشیک! تو انسانیت کے اتنے بڑے محسن کے لیے ایسی کمینی حرکتیں او رباتیں کرتا تھا اور بعد میں، میں نے وہ ساری البمز اور اخبار ایک الاؤبنا کر جلا دیے۔ اب میں جس قدر سیرتِ پاک کو پڑھ رہاہوں، میرا دل اور دماغ یہ گواہی دیتا ہے کہ کوئی کم ظرف سے کم ظرف انسان آخری درجے میں اسلام کے بارے میں نفرت رکھنے والا، اگر نبیوں کے سردار، انسانیت کی کشتی کے کھیون ہار ( ناخدا) ، میرے پیارے او رمحبوب رسول صلی الله علیہ وسلم کے جیون(زندگی) اور آپ کے کیریکٹر کو پڑھ لے اور جان لے، تو چاہے وہ مسلمان ہو نہ ہو، یہ بات بالکل ،ناممکن ناممکن ہے۔ سو بار کہتا ہوں ناممکن۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے شفاف اور پاکیزہ کردار کے خلاف ایک لفظ بول سکے، ساری دنیا میں اسلام دشمنوں کے سرداروں میں، بالکل ٹاپ پر رہنے والے جب مجھ جیسے کمینے کا یہ حال ہوگیا کہ مجھے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے شاید ساری دنیا کے مسلمانوں سے زیادہ، یہاں تک کہ خود اس صورت کے اپنے فوٹوؤں کو مجنونوں پاگلوں کی طرح جوتے مار کر جلانے سے تسلی ہوئی تو پھر دوسرے لوگوں کے بارے میں کیاکہا جاسکتا ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ آج کل کی سرخیوں میں رہنے والا کملیش تیواری جیسے بدترین کم ظرف کے بارے میں مجھی لگتا ہے کہ اگر وہ ایک بار پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پیاری زندگی کو جان لے تو اس کا حال بھی میرے جیسا ہی ہو جائے گا۔

پھر کبھی خیال ہوتا ہے کہ ابھیشیک نہیں، بلکہ موجودہ عبدالرحمن زیادہ مجرم ہے اور وہ مسلمان جنہوں نے ایسے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم، ایسے محسنِ انسانیت نبی کی باتیں، آپ کا دین او رآپ کی شکشا( تعلیم) کو لوگوں تک نہیں پہنچایا، پھر ان بدتمیز غیر مسلموں ، شاکسی مہاراج، تیواری اور اس طرح کے دوسرے بدتمیز جاہل، اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے بجائے اپنے پر اور مسلمانوں پر غصہ آنے لگتا ہے، جب مجھ جیسے بدتمیز اور اسلام دشمن کی آنکھوں سے ذرا سا پردہ ہٹ جانے سے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے کردار کا صاف شفاف کیریکٹر مجھ کمینے کو آپ کا دیوانہ بناسکتا ہے تو نفرت کرنے والے ان ذہنی بیماروں کی کیا خطا ہے؟ خطا تو ان مسلمانوں کی ہے جنہیں الله نے ڈاکٹر بنایا ہے۔

میرے خاندان والے مجھے تلاش کر رہے ہیں،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مجھے مسلمانوں نے مار دیا ہے، کچھ لوگوں کو شک ہے کہ میں شریر چھوڑ گیا ہوں( مر گیا ہوں) خاندان والے ابھی تک مجھ لاپتا سمجھ رہے ہیں، میری بیوی اور بچے میرے ساتھ ہیں، ایک ماما اور ایک چاچا کا بیٹا بھی میرے ساتھ ہے، ایک مہینے بعد مسلمان ہو کر بجرنگ دل کو چھوڑ دیا تھا۔

میں بس اپنا حال، مولوی کلیم صاحب کی بات میں کہنا چاہتا ہوں کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں الله کے نبی اور مسلمانوں کے دشمن دو طرح کے تھے، ایک تو وہ لوگ تھے جو نہ جاننے کی وجہ سے اسلام کے دشمن تھے، ان کو جب اسلام اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا صحیح تعارف (پریچے) کراکر اسلام کی دعوت دی گئی تو آخری درجے کے جانی دشمن مسلمان ہو کر جاں نثار بن گئے،جیسے عمر، ابوسفیان، خالد بن ولید، وحشی، ہند، عکرمہ رضی الله عنہم وغیرہ اور دوسری طرح کے وہ اسلام دشمن تھے جو اسلام کو حق جان کر اور سمجھ کر اور الله کے رسول ا کو سچا رسول سمجھنے کے باوجود حسد کی وجہ سے ،برادری کی شرم کی وجہ سے اسلام کے دشمن یا اس سے د ور تھے، ان لوگوں کو دعوت دی گئی تو الله تعالیٰ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کے سامنے ان کو ذلیل کرکے ہٹا دیا، چاہے وہ ابولہب ہو ابوجہل۔

بجرنگ دل کا ایک بڑے صوبے کا جنرل سیکریٹری اور آرایس ایس کا مکھیہ سنچا لک ہونے کی حیثیت سے یہ بات میں بالکل یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ شاید اپنے ایسے محسن رسول صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں، اسلامی نام، اسلامی حلیے، اسلام کے پیغمبر، الله اور اس کی پاک کتاب قرآن کا مجھ سے زیادہ بدترین اور سخت ترین مخالف اور برے سے برے جملے کھلی سبھا(جلسے) میں کہنے والا اور ایسی گھناؤنی باتیں کرنے والا کم از کم پورے بھارت دیس میں کوئی نہیں ہو سکتا۔ میری یہ دشمنی الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم ،آپ کے کیریکٹر، اسلام اور قرآن کی بالکل الٹی جانکاری کی وجہ سے تھی۔ پھر ان نفرت بھرے جملوں اور نبی کی شان میں گستاخی کے ذمے دار وہ لوگ زیادہ ہیں یا ہم مسلمان؟ یہ سوچنے کی بات ہے ۔ میرے روئیں روئیں اور خون کے قطرے میں میرے الله نے میرے محسن نبی کے لیے آخری درجے میں محبت اور آدر(احترام) بھر دیا ہے کہ ہر چیز مجھے برداشت ہوجاتی ہے مگرنبی کی شان میں گستاخی کی خبر چھاپنے والے اخبار والے کو بھی قتل کرنے کو دل چاہتا ہے، مگر یہ بات بھی مجھے مولوی کلیم صاحب کی دل کو لگتی ہے کہ بہرحال ہم طبیب ہیں اور وہ مریض ، طبیب کی ذمے داری ہے کہ وہ سوچے کہ مریض چیخ کیوں رہا ہے؟ طبیب کی ذمے داری احتجاج بالکل نہیں ہے، اس کا علاج ہے۔ میرے حال پر غور کریں گے تو یہ سب بے چارے لگتے ہیں، جو ہمارے نہ بتانے، نہ سمجھانے کی وجہ سے حرکتیں کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے۔

الحمدلله مجھے اسلام قبول کیے تیسرا سال ہونے والا ہے، میرا تین بار چالیس چالیس روز اور ایک بار چار مہینے، یعنی تین چلے جماعت میں وقت لگ چکا ہے اور کوئی مہینہ علاوہ ان چلوں اور چار مہینوں کے سہ روزہ ناغہ نہیں ہوا ہے۔ میرا پہلا چلہ پالن پور گجرات کے علاقہ میں لگا، وہیں سے چار مہینے کا ارادہ ہوا اور تین مہینے کے بعد چار مہینے کی جماعت میں چلا گیا، یہ پورا وقت گورکھپور او رگونڈہ کے علاقے میں لگا، اس کے بعدمیرے چالیس روز بھوپال کے علاقے میں لگے اور دو مہینہ پہلے میرا چلہ لدھیانہ، مالیر کوٹلہ پنجاب کے علاقے میں لگا۔

ایک بار تو میں خودامیر تھا۔ سہ روزہ میں بھی دسیوں بار مجھے ہی ذمے دار بنایا گیا، مگر میرے الله کا کرم ہے، کسی ذمے دار ساتھی نے اس کام پر اعتراض نہیں کیا، شروع شروع میں تو میں کہیں سامان وغیرہ لینے جاتا تھا تو کسی نہ کسی ساتھی سے مل لیتا تھا اور اس کو دعوت دے کو مسجد میں لے آتا تھا، بعد میں خود میرے الله نے راہیں کھول دیں۔

میرے الله کا کرم ہے کہ یوپی کے جس علاقے میں رہ رہا ہوں، ہمارے سارے جماعت کے ساتھی مجھے ذمے دار ساتھیوں میں شمار کرتے ہیں اور مولوی کلیم صاحب کے حکم کی وجہ سے میں نے زیادہ لوگوں کو بتایا بھی نہیں تھا کہ میں چند مہینے پہلے ہی مسلمان ہوا ہوں، بس لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں کسی ایسے گاؤں میں رہتا تھا جہاں دین سکھانے والا کوئی نہیں تھا اور میں جماعت میں جب جاتا ہوں تو میرا الله کچھ نہ کچھ غیر مسلموں کی ہدایت کا ذریعہ ضرور بناتا ہے، شاید ہمارے جتنے بھی سہ روزہ لگے ہیں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک دو لوگ اس میں مشرف بہ اسلام نہ ہوئے ہوں اور چلوں میں الحمدلله اور تین چلوں میں سینکڑوں کی ہدایت کا الله نے مجھے ذریعہ بنایا ہے۔

Flag Counter