Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

17 - 19
حقوق نسواں کی تحریک او راسلام

مولانا ندیم الواجدی
	
اقوامِ متحدہ دنیا کے اہم سیاسی معاملات میں اپنا رول ادا کرنے کے بجائے اب معاشرے کے مختلف طبقات کے نام پر ڈے(دن) منانے کی سیاست تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، 1945ء میں اس ادارے کی تشکیل عمل میں آئی،1946ء میں انسانی حقوق کمیشن اور اس کے فوراً بعد خواتین کمیشن بنا۔

انسانیت کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو ٹھیک اس وقت جب برطانیہ اور دوسرے یورپین ممالک ایشیا اور افریقہ کے بے شمار ملکوں پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے تھے اور مقبوضہ ممالک میں ان کے خلاف آزادی کی تحریک چل رہی تھی یہ خیال ستانے لگا کہ انسانوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں اور نصف انسانیت، یعنی عورتیں بھی مردوں کی طرح کچھ حقوق رکھتی ہیں، ان طبقات کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے اور اب اقوامِ متحدہ کا فرض ہے کہ وہ خواتین سمیت تمام انسانوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرے، اس وقت سے عورتوں کے حقوق کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

اس سلسلے میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس میکسیکو میں 1975ء میں منعقد ہوئی، اس کانفرنس کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں کانفرنسوں کا انعقاد عمل میں آیا، دسمبر1979ء میں حقوق نسواں کے لیے ایک عالمی معاہدے کا مسودہ تیار کیا گیا،جس کا عنوان ہے”کنونشن فارالیمی نیشن آف ڈسکریمی نیشن اگینسٹ ویمن“ اس طویل عبارت کوCEDAW (سیڈا) کے لفظ سے بھی ادا کیا گیا ہے۔ اس معاہدے میں لگ بھگ تیس دفعات ہیں، ان میں سے سولہ دفعات خواتین کے مختلف حقوق سے تعلق رکھتی ہیں۔

اس معاہدے کا حاصل یہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات قائم کرنے کے لیے ہر طرح کا امتیاز ختم کیا جائے، اب تک اس معاہدے پر ایک سو پچاس ممالک دستخط کرچکے ہیں، اس کے باوجود یہ سوال ابھی تک قائم ہے کہ کیا عورتوں کی حالت سدھر گئی ہے ؟ کیا وہ باعزت زندگی گزار رہی ہیں؟ کیا انہیں حقیقی آزادی او رمکمل تحفظ حاصل ہے؟ کیا وہ مردوں کے غلبے والے نظام میں اپنے لیے مضبوط پوزیشن حاصل کرنے میں کام یاب رہی ہیں؟ عورتوں کا صرف یہ ہی ایک حق نہیں ہے کہ وہ سیاسی ایوانوں میں اپنی نمائندگی درج کرائیں، کارخانوں اور دفتروں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کریں، مردوں کی طرح کما کر لائیں اور ثابت کریں کہ وہ اپنی معیشت کے لیے باپ، بھائی یا شوہر کی محتاج نہیں ہیں۔ عورتوں کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو عزت واحترام دیا جائے، ان کو دل بہلانے کا کھلونا بنا کر نہ رکھا جائے، معاشرے میں ان کو بھرپور تحفظ دیا جائے او ران پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جس کی وہ جسمانی ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے متحمل ہو سکتی ہوں۔ مساوات، ترقی اورتحفظ کے نام سے کانفرنسیں تو بہت کی جاتی ہیں، بین الاقوامی سطح پر خواتین کمیشن بھی ہے، دنیا کے بہت سے ملکوں نے بھی خواتین کمیشن بنا لیے ہیں، ہر سال 8/مارچ کو یومِ خواتین بھی منعقد کیا جاتا ہے، مگر عورتیں آج بھی دوسرے درجے کی شہری ہیں، برابری کے نام پر ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جاتا ہے، ترقی کے نام پر ان کا معاشی استحصال کیا جاتا ہے، عورتیں خوش ہیں کہ وہ مردوں کے برابر آگئی ہیں او رمرد خوش ہیں کہ وہ نصف انسانیت کو بے وقوف بنانے میں کام یاب ہو گئے ہیں۔

عورت کی یہ درگت اس لیے بن رہی ہے کہ عورتوں کے سلسلے میں اسلام کے جو مسلمہ اصول ہیں ان کو نظر انداز کرکے ترقی او رمساوات کی بات کی جارہی ہے، عورتوں کے لیے یہ افسوس ناک صورت حال اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک اسلام کے اصولوں پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

عورت کے سلسلے میں اسلام کا جو موقف ہے وہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور عقل بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عورت کو پستیوں سے نکال کر اوجِ ثریا تک پہنچایا ہے، اسلام سے پہلے دنیا میں جو تہذیبیں تھیں او رجن قوموں کو اپنے تمدن پر ناز تھا، ان میں عورتوں کا کیا مقام ومرتبہ تھا پوری دنیا اس سے واقف ہے۔

یونانی قوم میں عورت کو کسی طرح کی کوئی آزادی حاصل نہیں تھی، نہ وہ اپنے ارادے اور خواہش سے کچھ کر سکتی تھی او رنہ اپنے معاملات میں خودمختار تھی، بازار کے سامانِ تجارت کی طرح اسے فروخت کر دیا جاتا تھا۔ عورت کی اس سے زیادہ ضرورت نہ تھی کہ وہ مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کرے اور ان کی خدمت میں لگی رہے۔

رومن قوم کا حال ان سے بھی بدتر تھا، وہ تو عورتوں کو جسمانی سزائیں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، رومن مردوں کو یہ بھی حق حاصل تھا کہ وہ کسی بھی الزام کی آڑ میں اپنی عورتوں کو پھانسی پر لٹکا دیں، بچوں کو فروخت کر دینا اور ناپسندیدہ یا غیر طلبیدہ بچوں کو قتل کر ڈالنا ان کا شیوہ تھا۔

ہندوؤں میں مردوں کو عورتوں کے بھگوان کا درجہ حاصل تھا، عورتیں ان کا سایہ بن کر زندگی گزارتیں، وہ سانس لیتے تو ان کو بھی سانس لینے کی اجازت ہوتی، وہ مر جاتے تو ان کی عورتیں بھی ستی ہو جاتیں، کوئی ذلت ایسی نہیں تھی جو ان کی قسمت میں نہ ہو۔

یہودیوں کے یہاں بھی عورتوں کو نوکرانی او رخادمہ کی حیثیت حاصل تھی ،وہ عورتوں کو حق وراثت سے قطعی طور پر محروم رکھتے تھے، تاکہ خاندان میں مردوں کی قوامیت اور حاکمیت اعلیٰ متاثر نہ ہو، حائضہ عورت تو ان کے نزدیک سر سے پاؤں تک ناپاک ہو جاتی تھی، اسے کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی، جس چیز کو وہ ہاتھ لگا لیتی وہ ناپاک سمجھی جاتی، بہت سے خاندانوں میں حیض کی حالت میں عورتوں کو گھر سے باہر نکال دیا جاتا، جب تک وہ پاک نہ ہو جاتیں ان کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔

نصاریٰ کے یہاں عورتوں کو شیطان کا دروازہ اور فتنہ گری کا سامان سمجھا جاتا تھا، یہ تصور عام تھا کہ عورتوں کے ذریعے ہی شیطان نفسِ انسانی تک رسائی حاصل کرتا ہے، یہ وہی بدترین مخلوق ہے جس نے انسان کو شجر ملعون تک پہنچایا اور اس کو قانونِ الہٰی کی خلاف ورزی پر اُکسایا، سولہویں صدی تک یہ تصور عام رہا۔

انگلستان کے بادشاہ ہنری ثامن کے دور میں عورتوں کی اس حالت زار پر غور کرنے کے بعد بعض عیسائی علماء کی تحریک پر یہ تجویز پاس کی گئی کہ عورت کو انسان سمجھا جائے، اگرچہ اس کی تخلیق مرد کی خدمت کے لیے عمل میں لائی گئی ہے۔

فارس کا حال تو اور بھی خراب تھا، اس قوم کے طاقت ور لوگ کم زوروں کے ما ل واسباب پر جب چاہتے زور زبردستی قبضہ کر لیتے، مال واسباب کا دائرہ زمین، جائیداد اور مال ومتاع تک محدود نہ تھا، بلکہ عورتیں اور بچے بھی مال واسباب کے ضمن میں آتے، اس قوم میں نہ باپ بیٹے کو پہچانتا تھا اور نہ بیٹا اپنے باپ سے واقف تھا۔

اسلام سے پہلے عربوں کا بھی یہی حال تھا، اس لیے اسے دورِ جاہلیت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس زمانے کی عورتیں سامانِ تجارت کی طرح خریدی اور بیچی جاتی تھیں، ان کو منحوس سمجھا جاتا تھا، لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، ان کو زمین، جائیداد کی طرح مرنے والے کی وراثت سمجھ کر ورثاء میں تقسیم کر دیا جاتا تھا،کمینگی کی انتہا یہ تھی کہ باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اپنے باپ کی منکوحہ سے نکاح کر لیتا تھا۔ (تفسیر قرطبی:105/5)

دور ِ جاہلیت کی عورت کا حال جاننا ہو تو حضرت عمر رضی الله عنہ کا یہ ایک جملہ کافی ہے”بخدا ہم دورِ جاہلیت میں عورتوں کو ذرا اہمیت نہ دیتے تھے، یہاں تک کہ الله نے ان کے بارے میں احکامات نازل کیے او ران کو وہ عطا کیا جو اس نے عطا کرنا چاہا۔“ (صحیح بخاری:14/207)

اسلام آیا تو اس نے دورِ جاہلیت کی ان تمام نجاستوں کو اپنی تعلیمات کے صاف شفاف پانی سے اس طرح دھویا کہ تمام حقیقتیں اپنے حسن وجمال اور شرف وکمال کے ساتھ نکھر کر سامنے آگئیں، اس زمانے میں عورتوں کو معاشرے کی سب سے گری ہوئی ہستی اور بے حقیقت شے سمجھا جاتا تھا، اسلام نے انہیں عزت وتوقیر عطا کی، ان کی انسانیت کو نمایاں کیا، ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشی، ان کو مردوں کی طرح معاشرے کا ایک ذمہ دار عنصر ٹھہرایا او راعلان کیا کہ عورتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں، کیوں کہ وہ ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں، دونوں کے باپ آدم او رماں حوا ہیں، دونوں اصل کے اعتبار سے بھی برابر ہیں اور عام انسانی خصوصیات کے لحاظ سے بھی ایک ہیں۔

”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور جس سے اس کی بیوی پیدا کی ہے ، پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کی ہیں۔“ (النساء:1)

”وہی ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا ہے۔“ (الاعراف:189)

تخلیق کے اسی مظہر کی طرف اس حدیث میں بھی اشارہ فرمایا گیا:”انما النساء شقائق الرجال․“(مسنداحمد:6/256، سنن ابوادؤ:1/16)

عورتیں مردوں ہی جیسی ہیں۔ مرد وعورت نہ صرف تخلیق میں یکساں ہیں، بلکہ عمل اور جزائے عمل میں بھی برابری کے درجے میں ہیں، ایسا نہیں کہ مرد کو کسی عمل کا ثواب زیادہ اور عورت کو کم ملے گا، ”جو شخص کوئی نیک کام کرے گا، مرد ہو یا عورت ہو، بشرطیکہ صاحب ایمان ہو تو ہم اس شخص کو بہترین زندگی عطا کریں گے او ران کے اچھے کاموں کے عوض میں ان کا اجردیں گے۔“ (النحل:97)

اسی لیے الله تعالیٰ نے بہت سی نیکیوں کو مرد وعورت دونوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے دونوں کے لیے مغفرت اور اجرِ کریم کا وعدہ فرمایا: ” بے شک اسلام کے کام کرنے والے مرد اور اسلام کے کام کرنے والی عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں اور فرماں برداری کرنے والے مرداور فرماں برداری کرنے والی عورتیں اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور ڈرنے والے مرد اور ڈرنے والی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور بہ کثرت خدا کو یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے الله تعالیٰ نے مغفرت او راجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ (الاحزاب:35)

عورتوں کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نے عورت کو اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اور اس کے بعد کی زندگی میں مردوں کے مساوی حقوق دیے ہیں، یہ تعلیمات قرآن کریم ، احادیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں، اور خود اسوہٴ نبی صلی الله علیہ وسلم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے محض حقوق ہی بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم او راصحابِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے ان پر عمل بھی کرایا ہے۔

اسلام سے پہلے لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی ما ردیا کرتے تھے، اسلام نے بیٹیوں کے فضائل بیان کرکے اس رسم بد کا خاتمہ کیا، بچیوں کی تعلیم وتربیت پر جنت کی بشارت دے کر لوگوں کو بچیوں کی طرف مائل کیا، یہاں تک کہ لوگوں کے دل ودماغ سے یہ خیال نکل گیا کہ بیٹیاں ان کے لیے بوجھ ہیں اور یہ کہ اس بوجھ سے انہیں پیچھا چھڑا لینا چاہیے، جس کے گھر میں بیٹی پیدا ہوتی وہ اس کی تعلیم وتربیت پر پورا دھیان دیتا، اسی لیے اسلامی تاریخ ایسی خواتین کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے علم، ادب، سیاست، تجارت، دین اور دنیا کے دوسرے شعبوں میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں، باپ کی ذمہ داری صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی پرورش کرے، بلکہ جب وہ بالغ ہو جائیں تو ان کی مرضی کا لحاظ رکھتے ہوئے اچھی جگہ پر ان کا نکاح کرنا بھی اس کے فرائض منصبی میں داخل ہے، اگرچہ وہ نکاح کے بعد باپ کے گھر سے رخصت ہو کر شوہر کے خاندان میں شامل ہو جاتی ہے، مگر باپ سے اس کا رشتہ اس کی موت سے منقطع نہیں ہوتا، بلکہ مرنے کے بعد بھی استوار رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اپنے باپ کی میراث میں حصہ پانے کی حق دار ہوتی ہے۔

نکاح میں حق مہر متعین کرکے عورت کو اعزاز بھی بخشا اور مالی اعتبار سے اس کے کم زور پہلو کو اور اٹھانے کی کوشش بھی کی، نکاح کے بعد بیوی کا یہ حق ٹھہرا کہ شوہر اس کے لیے نان نفقہ کا انتظام کرے، لباس او رمکان فراہم کرے، بشرط استطاعت خدمت گار بھی متعین کرے، شوہر کو ہدایت کی کہ وہ بیوی کی دل جوئی کرے، کیوں کہ وہ اپنا خاندان چھوڑ کر اس کے گھر آئی ہے۔

ہم سب کے مقتدا اور پیشوا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنی غیر معمولی دعوتی او رانتظامی مصروفیات کے باوجود حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو جشیوں کا تماشا دکھلاتے ہیں، خوشی کے مواقع پر ان کی سہیلیوں کو جمع ہو کر تفریحی مشاغل اختیا رکرنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کی دل جوئی کے لیے دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں، ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے مقابلے میں آگے بڑھ جاتے ہیں تو دوسری مرتبہ پیچھے بھی رہ جاتے ہیں۔

عورت صاحبِ اولاد ہوتی ہے تو اس کے بچوں کو بتلایا جاتا ہے کہ ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے، عورت باپ کے ترکے میں بھی حصہ دار ہے، شوہر کے ترکے میں بھی اس کا آٹھواں حصہ ہے اور بیٹے کے مال وراثت میں بھی شریک ہے، اس کے لیے حق ملکیت بھی ہے، وہ کاروبار بھی کرسکتی ہے، اسے ملازمت کا بھی(چند شرائط کے ساتھ) حق ہے، ایک آزاد شہری کی حیثیت سے جان، مال، عزت آبرو کی حفاظت کے ساتھ اس کو تمام شہری حقوق میسر ہیں۔

اسے مشورے دینے کا حق بھی ہے ، صلح حدیبیہ کے موقع پر حضوراکرم صلی الله علیہ وسلم نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا کے مشورے پر عمل فرماکر اس کی مثال قائم فرما دی ہے، عورت کے لیے کتنا بڑا اعزاز ہے کہ قرآن کریم کی ایک طویل سورت اس کے نام سے موسوم ہے، اس سورت میں عورت سے متعلق امور نہایت اہتمام کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں، ایک سورت مجادلہ بھی ہے، جس کا آغاز ہی اس آیت سے ہوتاہے کہ الله سات آسمانوں کے اوپر اس عورت کی بات سن رہا ہے جو الله کے نبی سے بحث کر رہی ہے اور ان سے بات چیت کر رہی ہے، قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر عورتوں سے خاص طور پر خطاب کیا گیا ہے، جو معاشرے میں ان کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم میں بعض ان خواتین کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے اپنے کردار وعمل سے تاریخ بنائی ہے، جیسے فرعون کی بیوی آسیہ، جنہوں نے باطل کے درمیان رہ کر اپنے ایمان کو سلامت رکھا، حضرت موسیٰ کی والدہ محترمہ، جنہوں نے اپنے بچے کو فرعون کی فوج کے خوف سے دریا کی لہروں کے حوالے کر دیا او رخود عزم وحوصلے کا پیکر بن کر گھر بیٹھ گئیں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ، جن کی پاک بازی کی قرآن میں گواہی دی گئی اور جنہیں یہ بشارت سنائی گئی کہ الله نے دنیا کی تمام عورتوں پر ان کو فضیلت عطا کی ہے ، ملکہٴ سبا، جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے صاحب عزم العزم پیغمبر کا خط ملنے کے بعد نہایت دانش مندی اور ہو شیاری کے ساتھ اپنی حکومت کے عمائدین کو پیغمبر علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے پر آمادہ کیا۔

حضرت ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا پر الزام تراشی کی گئی، قرآن کریم نے خود ان کی برأت کا اعلان کیا، عورت کا اس سے بڑا اعزاز کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ۔ بچے کی حفاظت کے لیے حضرت ہاجرہ رضی الله عنہا نے صفا ومروہ پہاڑیوں کے درمیان جوتگ ودو کی تھی اس کوحج وعمرہ کا حصہ بنا کر یہ واضح کر دیا کہ عورت کی قربانی ضائع نہیں جاتی، الله چاہے تو وہ اپنے جگر گوشے کے لیے کی جانے والی دوڑ دھوپ کو اس طرح بھی اعزاز بخش سکتا ہے، مرد اگر خاندان کا نگران اعلیٰ ہے تو عورت بھی گھریلو امور کا مرکز اور محور ہے، مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بیوی بچوں کی کفالت کے لیے محنت کرے تو عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اولاد کی پرورش اور شوہر کی اطاعت وفرماں برداری وشکر گزاری کے جذبات کے ساتھ خاندانی نظام کو مستحکم واستوار کرے، شوہر بیوی کے اس رشتے کو، جو نازک بھی ہے او رمستحکم بھی ، جو دل چسپ بھی ہے اورمشکل بھی، جس میں حقوق بھی ہیں اور فرائض بھی، جس میں ذمہ درایاں بھی ہیں اور مسائل بھی، قرآن کریم نے اس کو ایک جملے میں اس طرح تعبیر کیا ہے کہ اس سے بہتر کوئی تعبیر دوسری نہیں ہو سکتی، فرمایا:﴿ھن لباس لکم وانتم لباس لھن﴾․(البقرة:187)

ترجمہ:” وہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان عورتوں کا لباس ہو“۔

اس کے باوجود اگر کبھی یہ رشتہ متاثر ہونے لگے تو جدائی کے راستے بھی بند نہیں ہیں، تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو کر باقی زندگی سکون وآرام سے گزاریں، یوں نہیں کہ بادل نخواستہ اس رشتے کی تکلیف سہتے رہیں، مگر طلاق سے پہلے حَکَم کی مداخلت ، تصفیے اور صلح کے دروازے بھی کھلے رکھے گئے، کوشش یہ کی گئی ہے کہ یہ رشتہ جو خدا کے نام پر اس کے بتلائے ہوئے طریقے پر استوار ہوا تھا بکھرنے نہ پائے، لیکن صلح وصفائی کے تمام امکانات معدوم ہو جائیں تو طلاق او رخلع کے ذریعے جدائی کا راستہ بھی ہے، جو اگرچہ ناپسندیدہ ہے، مگر فرد کی مصلحتوں کے پیش نظر اسے کھلا بھی رکھا گیا ہے۔

اسلام عورتوں کو تعلیم دینے سے منع نہیں کرتا، اگر ایسا ہوتا تو مسجد نبوی میں عورتوں کے خصوصی اجتماعات کیوں منعقد ہوا کرتے تھے؟! محض اس لیے کہ مہاجر اور انصار عورتیں جمع ہو کر نبی کرم صلی الله علیہ وسلم سے تعلیم ہدایت لے سکیں، آج جو حدیثیں ہم تک پہنچی ہیں او رجن پر فقہ وشریعت کی مضبوط عمارت استوار ہے ان میں سے بے شمار روایات خواتین سے بھی مروی ہیں، کیا زیور علم سے آراستہ ہوئے بغیر وہ درسِ حدیث دے سکتی تھیں؟!

اسلام نے عورتوں کے حقوق پر اس لیے بھی بڑا زور دیا ہے کہ اسلام سے پہلے ان کی حالت بڑی خراب تھی، خود سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نصف انسانیت کی اس حالت زار کا بہ چشم خود مشاہدہ فرما چکے تھے، آپ کا دل ان کی حالت دیکھ کر کڑھتا تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے نہ صرف اپنے قول سے عورتوں کے عزت ووقار میں اضافہ کیا، بلکہ جو کچھ فرمایا اس پر عمل بھی کرکے دکھلایا، یہاں تک کہ عورتوں کو بھی سربلندی حاصل ہوگئی، حالاں کہ اس سے پہلے وہ دبی کچلی رہا کرتی تھیں۔

ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں صحابہ کرام رضی الله عنہم سے ارشاد فرمایا:”استوصوا بالنساء خیرا، فانھن عندکم عوان․“(ابن ماجہ:446)
ترجمہ:”عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو کیوں کہ وہ تمہارے پاس قیدی کی طرح ہیں۔“

قیدی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پابہ زنجیر گھر میں مقید ہیں، بلکہ یہ ایک لطیف تعبیر ہے جس کا مطلب ہے کہ عورتیں اپنی جبلت، خصلت، خلقت، فرائض اور حقوق کے اعتبار سے مردوں کی پابند رہتی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ وہ سلوک نہ ہونا چاہیے جو محکومین بلکہ قیدیوں کے ساتھ ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ عزت وتوقیر اور دل جوئی کا معاملہ ہونا چاہیے۔ ایک مرتبہ سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو عورتوں کے لیے بہتر ہوں۔“ (ابن ماجہ)

اور فرمایا:”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل وعیال کے لیے بہتر ہو۔ میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔“ (ترمذی)

ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:”جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں ،میں اور وہ قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے۔“ (شعب الایمان)

یہ تھیں وہ تعلیمات جن کے ذریعے اسلامی معاشرے میں خواتین کا معیار زندگی بلند ہوا، عورتوں نے اسلام کے سائے میں جو اعزاز واکرام پایا اگر وہ اس پر ناز کریں تو یہ ان کا حق ہے۔

الله کے دین کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی الله عنہا اس دین کی سربلندی کے لیے کھڑی ہوئیں، جس وقت مکہ کا ہر شخص آپ کے دعویٰ نبوت کی تکذیب کر رہا تھا، اس وقت حضرت خدیجہ رضی الله عنہا ہی تھیں جنہوں نے دل وجان سے آپ کی تصدیق کی اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو گئیں۔

مدنی زندگی میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو ایک عقل مند اور دانا وزیر کی حیثیت حاصل رہی، حضرت سمیہ رضی الله عنہا اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون کی حیثیت سے اپنا نام روشن کر گئیں۔

نسیبہ بنت کعب رضی الله عنہا جب غزوہ احد میں لشکر کفار کے سامنے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے دفاع کے لیے کھڑی ہوئیں تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کی بہادری کی ان الفاظ میں تحسین فرمائی”من یطیق ما تطیقین یا ام عمارة!“ اے ام عمارہ! جو کارنامہ تم نے انجام دیا وہ کس کے بس کا تھا؟ خولہ بنت الازور، ہندبنت عتبہ، صفیہ بنت عبدالمطلب اور خنساء کتنی خواتین ہیں جو دورِ جاہلیت کی نا انصافیوں او رحق تلفیوں کے دلدل سے ابھری تو بہت سے مردوں سے زیادہ باہمت اور باحوصلہ نظر آئیں، حضرت خنساء کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ان کے بھائی نے ایام جاہلیت میں وفات پائی تو انہوں نے اپنے غم ناک مرثیوں سے عرب کے ماحول میں غم واندوہ کی لہر دوڑادی ، خود بھی روئیں اور دوسروں کو بھی رلایا، لیکن اسلام لانے کے بعد ان کی بہادری کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو قادسیہ کی جنگ میں شرکت کے لیے رخصت کرتے ہوئے ثابت قدم رہنے اور جواں مردی کے ساتھ لڑنے کی وصیت کی او رجب ان کے چاروں بیٹے ماں کی ہدایت کے مطابق جواں مردی کے ساتھ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے اورماں کو بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو بے اختیار ان کی زبان سے نکلا ”الله کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ان کی شہادت کے شرف سے نوازا“۔

یوم خواتین پر خواتین کے حقوق کا رونا رونے والے کھلے دل کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں، ممکن ہے انہیں وہ راستہ مل جائے جس پر چل کر وہ خواتین کے لیے باعزت زندگی تلاش کرسکتے ہوں۔

Flag Counter