Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

2 - 19
شخصیت کی تعمیرمیں حج کاکردار

مفتی محمد عبدالله قاسمی
	
حج ایک عظیم الشان عبادت ہے،خالق ومخلوق کے مابین تعلق وارتباط اوردائمی وابستگی کاذریعہ ہے،مساوات اوراجتماعیت کابہترین مظہرہے،حج عشق حقیقی کی دبی ہوئی چنگاری کوشعلہ زن کرتاہے،لقائے حبیب کی شمع تمناکوفروزاں کرتاہے اوربادہ ایمان ومعرفت سے مرجھائے ہوئے قلوب کی کھیتی کو سرسبز وشاداب کرتاہے،حج وہ انقلاب انگیزعبادت ہے جوانسان کی زندگی کارخ موڑدیتاہے اوردام نفس میں گرفتارلوگوں کوآزادی کاپروانہ عطا کرتا ہے، یہ وہ سحرآفریں طلسم ہے جوسرکش اوربغاوت پسندانسان کے لیے ہاتھ کی ہتھکڑی اورپاؤں کی زنجیرثابت ہوتاہے،گناہوں اورنافرمانیوں کے دلدل سے نکال کرفرماں برداری اوراطاعت شعاری کی راہ پرڈال دیتاہے،یہ وہ مئے عشق ہے کہ جس نے اس کے جام لبریزسے قدح خواری کی وہ محبت وعرفاں کے نشہ میں سرشارہوااورچمنستان عالم کاگل سرسبدبن گیا۔

حج عشق اورمعرفت الہی کاقوی ذریعہ ہے،حج کرنے والاشخص سفیداحرام میں ملبوس ہوکرکبھی دیوانہ وارکعبة اللہ کا چکر لگاتا ہے ، کبھی بے خودہوکرحجراسودکوبوسہ دیتاہے،کبھی عشق ووارفتگی کے جذبات سے مغلوب ہوکرصفااورمروہ کے درمیان دوڑتاہے،کبھی میدان عرفات میں محبوب حقیقی کی یادمیں آنسوبہاکراپنی بے قراری اوربے چینی کااظہارکرتاہے،اس کی زبان پرصرف ایک ہی ورد:لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک، إن الحمدوالنعمة لک والملک لاشریک لک (ترجمہ )میں تیرے دربارمیں حاضرہوتاہوں،اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں حاضرہوتاہوں،تیراکوئی ہم سرنہیں۔ میں تیری بارگاہ میں حاضرہوتاہوں،بے شک ہرتعریف اورہرقسم کی نعمت اوربادشاہت تیرے ہی لیے ہے اورتیراکوئی ہم سرنہیں۔گویااس کی ہرہراداسے عشق اورمعرفت الہی کا اظہار ہوتا ہے ، اس کی حرکات وسکنات سے محبت ووارفتگی جھلکتی ہے،چناں چہ جس خوش نصیب اورخوش قسمت انسان کوحج کی توفیق نصیب ہوتی ہے اس کے دل کی کھیتی بادہ عشق سے سرسبزوشاداب ہوتی ہے،غفلت وسرمستی کے خاکسترمیں دبی ہوئی ایمان ویقین کی چنگاری شعلہ زن ہوتی ہے،مادیت اورعقل پرستی کی کثافت دورہوتی ہے،جس کی وجہ سے انسان کی زندگی کارخ بدل جاتاہے،اس کی زندگی میں صالح ا ور خوش گوارانقلاب آتاہے،وہ لذت کوشی اورخدافراموشی کوچھوڑکرآخرت کوش اورجنت کاطلب گاربن جاتاہے،گناہوں اورنافرمانیوں سے کنارہ کش ہوکرخداکافرماں برداراوراطاعت شعاربن جاتاہے۔

حج کی وجہ سے جہاں انسان کے اندردیگراخلاقی خوبیاں پیداہوتی ہیں وہیں حج کی وجہ سے تواضع وخاکساری اورعجزوانکساری کی صفت بھی پیداہوتی ہے ،حاجی کوپہلے اپنادیدہ زیب ،جاذب نظراوربیش قیمت لباس اتارکرسادہ اوربن سلے ہوئے احرام پہننے کاپابندبنایاگیا،تاکہ ظاہری آرائش وبناوٹ سے جودل میں کبرونخوت عموماپیداہوجاتی ہے اس کاازالہ کیا جائے،حالت احرام میں خوش بواورعطریات کااستعمال ممنوع قراردیاگیا ؛کیوں کہ یہ جلوہ افروزی کاوسیلہ ہے،آئینہ دیکھنے اوراپنے زلف وشانہ کوسنوارنے سے روکاگیا؛کیوں کہ یہ خودپسندی اورخودستائی کامظہرہے،کوئی بڑارئیس ہویاصاحب اقتدار،رعایااورمحکوموں کے ساتھ اعمال حج کرنے کوضروری قراردیاگیا؛تاکہ اس کے کبروغرورکاطلسم ٹوٹ جائے،طواف کے دوران لوگوں کے ہجوم میں اگرکسی کاپیرکچلاجائے یاکسی قسم کی تکلیف پہنچ جائے توصبروتحمل کامظاہرہ کرنے کی ترغیب دی گئی؛تاکہ انسان میں جو انانیت اوربڑائی کاجذبہ ہے وہ سرد پڑ جائے،گویاحج کے سارے افعال واعمال انسان کوعبدیت وبندگی کا مظہراورتواضع وانکساری کاپیکربنانے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔

حج کی وجہ سے جہاں اخلاق ورجحانات پرصالح اورخوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں حج کرنے والے شخص کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ وہ حرام مال سے پرہیزکرتاہے،حلال اورطیب مال کمانے کااہتمام کرتاہے،حرام اورغیرشرعی طریقے سے حاصل ہونے والے مال سے وہ دوراورنفوررہتاہے،جائزاورحلال طریقے سے حاصل ہونے والے مال پروہ قانع اورمطمئن رہتاہے؛کیوں کہ اللہ تبارک وتعالی نے حج جیسے عظیم الشان فریضہ کی ادائیگی کے لیے حلال مال ہونے کوضروری قراردیاہے، حضرت ابوہریرہ  فرماتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب آدمی حلال مال لے کرسفرحج کے لیے روانہ ہوتاہے اوراپنی سواری کی رکاب پرپیررکھ کرتلبیہ پڑھتاہے توآسمان سے ایک فرشتہ ندا لگاتاہے:تیرے لیے حاضری اورسعادت ہے،تیراتوشہ حلال ،تیری سواری حلال اورتیراحج مقبول اورمبرورہے،جس میں کوئی گناہ نہیں ہے اورجب آدمی حرام مال لے کرحج کے لیے نکلتاہے اورسواری کی رکاب پرپیررکھ کرتلبیہ پڑھتاہے توآسمان سے ایک فرشتہ ندالگاتاہے :تیراتوشہ حرام، تیرا خرچہ حرام اورتیراحج غیرمقبول ہے۔(المعجم الاوسط،حدیث نمبر:5228) ظاہرہے کہ جوشخص سفرحج کے لیے حلال توشہ اورطیب مال لے کرجانے کااہتمام کرے گاتواس کے دل میں نورانیت پیداہوگی،ایمان ویقین کی بیش بہاکیفیت اس کے قلب ونظرکی وسعتوں میں جاگزیں ہوگی ؛جس کی وجہ سے وہ حج کے بعد بھی حلال رزق حاصل کرنے کااہتمام کرے گااورحرام اور ناجائزذرائع آمدنی سے کنارہ کشی اختیارکرے گا۔

حج کے بابرکت اجتماع میں مسلمان بڑی تعدادمیں ایک جگہ اکھٹے ہوتے ہیں،ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرکے وہ نمازپڑھتے ہیں، یہ لوگ ایک ساتھ مل کرطواف کرتے ہیں،اس سے درحقیقت امت مسلمہ کواتحادواتفاق اوراخوت ویکجہتی کاپیغام ملتاہے،حج کے بابرکت اجتماع سے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ فروعی اختلافات کے ساتھ ہم آپس میں شِیروشکرہوکرزندگی بسرکرنے کاعزم مصمم کریں،دوسرے مکتب فکرکے لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی اورنرم خوئی سے پیش آئیں،مخالف کوبرداشت کرنے کی عادت ڈالیں،فریق مخالف کے سامنے تحمل مزاجی اوروسعت ظرفی کاثبوت دیں اورجب مشترکہ اغراض کوحاصل کرنے کی نوبت آئے توتمام مسلمان آپسی اختلافا ت کوبالائے طاق رکھ کرسیسہ پلائی ہوئی دیواربن جائیں اوراجتماعی طورپرجدوجہدکریں۔

حاجی کی ایک صفت یہ ذکرکی گئی ہے کہ وہ غبارآلودہوتاہے، اوراس کے بال بکھرے ہوئے ہوتے ہیں،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے۔”اللہ تبارک وتعالی اہل عرفات کودیکھ کرآسمان والوں پرفخرکرتے ہیں اورفرشتوں سے کہتے ہیں کہ میرے ذراان بندوں کودیکھووہ میری بارگاہ میں غبارآلوداوربکھرے بال کے ساتھ آئے ہیں“۔(صحیح ابن خزیمہ،حدیث نمبر2839)اسی وجہ سے فقہاء نے لکھاہے کہ محرم کے لیے عطریات اورخوش بوکااستعمال درست نہیں ہے اورحالت احرام میں محرم کے لیے کنگھی کرنانا جائز ہے، ظاہرہے کہ یہ ظاہری صورت اس شخص کی ہوتی ہے جوکسی بلندمقصد کادھنی ہو،اوراس کے ذہن ودماغ میں صرف مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کی فکرسمائی ہوئی ہوجس کی وجہ سے اسے اپنے ظاہرکی آرائش وزیبائش کاموقع نہیں ملتا،اس کے قلب مضطرکوتواس وقت چین اور قرار آتا ہے جب اس کے سامنے منزل مقصودجلوہ گرہوتی ہے اورخاک منزل سے اس کی چشم تمناروشن ہوتی ہے،اس سے امت مسلمہ کوایک پیغام یہ ملتاہے کہ وہ مقصدربانی کے لیے جینے کاعزم کریں،دنیا میں رہ کرآخرت کی تیاری کریں، دنیا کی دلفریب اورہوش ربا مناظرسے اپنادامن بچائے رکھیں، طاؤس ورباب کی لذتوں میں کھوکراپنی عاقبت کوخراب نہ کریں،کیوں کہ ہرمسلمان کامنزل مقصود اخروی زندگی ہے،اللہ عزوجل کی خوش نودی حاصل کرناہرمسلم کامقصود اورمطمح نظرہے۔

جہاں لوگوں کاازدحام ہوتاہے اوربڑامجمع اکھٹاہوتاہے وہاں فطری طورپرلوگوں کوایک دوسرے سے شکایت پیداہوجاتی ہے،حج کے موقع پردنیاکے مختلف علاقوں سے سمٹ کرلوگ جمع ہوتے ہیں،ہرعلاقہ کے لوگوں کی زبان اورلہجے میں کافی فرق ہوتاہے،ہرایک کے مزاج ومذاق میں بہت تفاوت ہوتاہے،جس کی وجہ سے ایک کودوسرے سے تکلیف پہنچ جانا ناگزیرہے،بعض کوبعض سے شکایت ہوجاناضروری ہے،ایسے وقت میں اگرہرشخص مزاج کے خلاف بات پیش آنے پرمشتعل ہوجائے اورانتقامی کارروائی کرنے لگے توحج کی کیف آفریں اورروح پر ور فضا متاثر ہوگی، اورتوجہ وانابت الی اللہ کے بجائے حرم مقدس میں غیظ وغضب کے شرارے بلندہوں گے اورآپسی جنگ وجدال کی نوبت آجائے گی۔ اسی لیے قرآن کریم نے حاجی کودوران حج جھگڑے اورجنگ وجدال سے دور رہنے کا پابند بنایا،زبان سے ایسی بات نکالنے سے َمنع کیاجس سے کسی کے آبگینہٴ دل کو ٹھیس پہنچے ،اللہ تبارک وتعالی کاارشادگرامی ہے:﴿الْحَجُّ أَشْہُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِیْ الْحَج﴾ (البقرة)حج کے متعین مہینے ہیں،جوشخض ان مہینوں میں حج کرے توزبان سے فحش بات نہ نکالے ،نہ گناہ کرے اور نہ جھگڑاکرے ۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی متعدداحادیث شریفہ میں اس کی تاکیدفرمائی ہے، چناں چہ آپ انے فرمایا:جوشخص بیت اللہ کاحج کرے اورزبان سے نہ فحش کلمات نکالے اورنہ گناہ کاارتکاب کرے تووہ اس طرح وطن واپس ہوتاہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیداہواہو۔(مسلم شریف،حدیث نمبر:1350) ایک روایت میں ہے:اللہ تبارک وتعالی کودوعمل سب سے زیادہ محبوب ہیں:جہاداورحج مبرور،جس میں حاجی اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے ،گناہ کاارتکاب نہ کرے اورنہ ہی کسی سے جھگڑاکرے۔(حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء :10/401)اس سے حاجی کویہ پیغام دینامقصودہے کہ جس طرح حج میں انہوں نے خلاف مزاج بات پیش آنے پرصبروتحمل سے کام لیااوردوسروں کی غلطیوں اورکوتاہیوں کو در گزر کیا، اسی طرح حج کے بعدبھی وہ عملی زندگی میں وسعت ظرفی اورفراخ دلی کاثبوت دے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پرمشتعل ہونے سے گریز کرے، دوسروں کی غلطیوں اورکوتاہیوں کو نظر اندازکرے۔

حج میں محرم کوجہاں دیگرہدایا ت دی گئی ہیں وہیں ایک ہدایت یہ بھی دی گئی ہے کہ وہ احرام کی حالت میں کسی جانورکاشکارنہ کرے،شکارکیے ہوئے جانورکواگرکوئی شخص ذبح کرناچاہتاہے تومحرم اسے چھری نہ دے؛بلکہ شکارکیے ہوئے جانورکاگوشت بطورہدیہ قبول کرنابھی محرم کے لیے ناجائز قراردیاگیاہے،یہ دراصل ایک حکم شرعی پرمبالغہ کے ساتھ عمل کرانا ہے، عام حالات میں ایک مسلمان کواس بات کاپابندبنایا گیاہے کہ وہ کسی مسلمان کو ایذا اورتکلیف نہ پہنچائے،کوئی ایساطرزعمل اختیارنہ کرے جس سے کسی کے آبگینہ دل کوٹھیس پہنچے،لیکن بحالت احرام اس حکم شرعی کا دائرہ جانوروں تک وسیع کرکے حاجی کے قوت احساس کو مہمیزکیا جاتاہے، زندگی بھر اس کواس حکم شرعی پرعمل کرنے کاخوگربنایا جاتاہے،اس عارضی اوروقتی پابندی کے ذریعہ حقیقت میں حاجی کومودت والفت ، محبت وہم دردی ،ایثار وقربانی، صبروتحمل اوراخوت ویکجہتی جیسے اوصاف عالیہ سے آراستہ کیا جاتاہے،تاکہ وہ کائنات کاایک بہترین فردثابت ہوسکے اور کائنات کی ترقی اورتمدن کی تعمیرمیں قابل قدرکرداراداکرسکے۔

لیکن اسے امت مسلمہ کی بدقسمتی اورحرماں نصیبی کہیے کہ امت کاایک بڑاطبقہ تمام عبادتوں کومحض ایک رسم کی طرح انجام دے رہاہے،آج زندگی بھرلوگ نمازپڑھتے ہیں ؛لیکن ان کی زندگی صفت صلاة پرنہیں آتی ہے،ہرسال ماہ رمضان کاروزہ رکھتے ہیں؛لیکن ان کے اخلاق وکردارمیں کسی قسم کی صالح تبدیلی نہیں آتی ہے،کچھ یہی حال حج جیسی اہم اورعظیم الشان عبادت کاہے،لوگوں نے حج کومحض تفریح اورمذہبی زیارت کاذریعہ سمجھ لیاہے، لاکھوں روپے خرچ کرکے حرم مکی میں حاضرہوتے ہیں؛لیکن حج کے تمام آداب اورواجبات کالحاظ نہیں کرتے ہیں،جس کی وجہ سے حج کے انوار وبرکات سے محروم رہ جاتے ہیں،حرم مقدس ۔جوکہ مہبط وحی الہی اورتجلیات ربانی کامنبع وسرچشمہ ہے-کی روح پروراورکیف آفریں فضاسے خاطرخواہ مستفیدنہیں ہوتے ہیں،چناں چہ جس طرح حج سے پہلے وہ غفلت شعار اورخدافراموش تھے حج کے بعدبھی ان کی زندگی کاکچھ یہی نقشہ ہوتاہے، ضرورت ہے اس بات کی کہ حجاج کرام سفرحج سے پہلے علمائے کرام سے ضروری مسائل سے آگاہی حاصل کریں،حج کے تربیتی کیمپ میں حاضرہوکرحج کے احکام سیکھیں،حرم مکی اورحرم مدنی میں اپنے اوقات کوقیمتی بنائیں،حج کے آداب ،شرائط اورواجبات کامکمل لحاظ کریں،تبھی وہ صحیح معنوں میں حج کے انواروبرکات سے متمتع اورفیض یاب ہوسکتے ہیں اوران کی زندگیوں میں خوش گواراورصالح انقلاب آسکتاہے۔

اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ حج کے انواروبرکات سے پورے عالم کومستفیدفرمائے اورہرمسلمان کوحج مقبول ومبرورکی سعادت نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین۔

Flag Counter