Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

5 - 19
عشرہٴ ذو الحجہ کے فضائل واحکام

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان مدظلہ
رئیس جامعہ فاروقیہ کراچی

حدیث شریف میں ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے برابر ہے، اور ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے ،خصوصاً عرفہ کے روزے اور عرفہ کے بعد والی رات کی عبادت کی بڑی فضلیت ہے۔ عرفہ کے روزے سے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور عید کی رات میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت میں دہشت سے مردہ نہیں ہو گا۔

مستحب یہ ہے کہ چاند دیکھ کر قربانی کرنے تک قربانی کرنے والا شخص بال اور ناخن نہ کٹوائے اور نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک متوسط بلند آواز میں ہرفرض نماز کے بعد خواہ مقتدی ہو یا امام یا منفرد” الله اکبر الله اکبر لا الہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد “سب کے لیے پڑھناواجب ہے، البتہ عورتیں آہستہ پڑھیں۔ عید کے دن صبح اٹھنا، غسل کرنا، مسواک کرنا،نئے یا پاک وصاف عمدہ کپڑے ( جو اپنے پاس ہوں اور شرعی وضع کے خلاف نہ ہوں) پہننا، خوشبو لگانا، عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا، اور عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں بلند آواز سے تکبیر مذکور پڑھنا مسنون ہے۔

نماز عید کی ترکیب
دل میں نماز عید کی نیت کرکے تکبیر تحریمہ کہیں، پھر ثناء پڑھیں اس کے بعد امام کے ساتھ تین تکبیریں کہیں۔ پہلی دو تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں، تیسری تکبیر میں کانوں تک ہاتھ لے جا کر باندھ لیں۔ دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین تکبیریں کہیں اور تینوں میں ہاتھ چھوڑ دیں، چوتھی تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں۔ نماز کے بعد خاموشی سے خطبہ سنیں اور راستہ بدل کر گھر واپس آجائیں۔

قربانی کی اہمیت
رسالت مآب حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ہمیشہ مدینہ طیبہ میں قربانی فرمائی ہے۔ قرآن کریم کی آیات ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ میں اور ﴿ إِنَّ صَلاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ العالَمِیْنَ ﴾ میں قربانی کا ذکر موجود ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مال دار آدمی قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے۔ اس ارشاد میں ناراضگی کا اظہار ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ ایسے آدمی کو نماز عید نہیں پڑھنی چاہئے ۔قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور قربانی کے خون کا قطرہ گرنے سے پہلے الله تعالیٰ اس کو قبول فرمالیتے ہیں اور قربانی کرنے والے کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

قربانی کا مقصد
قربانی ایک عظیم عبادت ہے، الله تعالیٰ کے پاس اس کا گوشت اور خون پہنچانا مقصد نہیں۔ بلکہ مقصود اصلی یہ ہے کہ اس پر الله تعالیٰ کا نام لیا جائے، اخلاص ومحبت کے ساتھ حکم ربی کی بجا آوری کی جائے، اگر عبادات اخلاص ومحبت سے خالی ہوں تو صرف صورت اور ڈھانچہ باقی رہ جاتا ہے، اصل روح غائب ہو جاتی ہے، اسی لیے ضروری ہے کہ الله تعالیٰ کے حکم پر اخلاص کے ساتھ عمل کیا جائے۔

قربانی کس پر واجب ہے؟
قربانی ہراُس مسلمان عاقل بالغ پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ(87گرام479 ملی گرام)سونا یاساڑھے باون تولہ (612 گرام35 ملی گرام) چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجت اصلیہ سے زائد موجود ہو خواہ یہ مال سونا،چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا رہائشی مکان سے زائد کوئی مکان ہو، قربانی کے لیے اس مال پر سال بھر کا گذرنا بھی شرط نہیں ہے۔ بچے، مجنون اور مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ قربانی مرحومین کی طرف سے بھی کی جاسکتی ہے۔ استطاعت ہو تو بہتر ہے کہ اپنے مرحوم والدین یا دیگر بزرگوں جیسے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی طرف سے قربانی کریں اس کا بڑا ثواب ہے۔ لیکن اس صورت میں اپنی طرف سے قربانی کرنا ساقط نہیں ہو گا۔ چنانچہ جن لوگوں پر قربانی واجب ہے ان کو اپنی طرف سے بھی قربانی کرناہوگی۔

چنداہم مسائل کابیان
جس شخص پر قربانی واجب نہیں تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیاتو اس پر قربانی واجب ہوگئی۔ لیکن اگر یہی جانور گم ہو جائے تو دوبارہ اس پر جانور خرید کر قربانی کرنا واجب نہیں۔

قربانی کے صرف تین دن ہیں 11,10اور12ذوالحجہ۔ دسویں ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد بارھویں ذوالحجہ کے غروب آفتاب تک کسی بھی وقت قربانی کرسکتے ہیں، چاہے دن ہو یارات لیکن دن میں کرنا افضل ہے۔

قربانی اگر کسی عذر سے رہ گئی تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔ لیکن قربانی کے دنوں میں قیمت صدقہ کرنے سے قربانی نہیں ہو گی۔

قربانی کے جانور
مندرجہ ذیل جانوروں کی قربانی جائز ہے:
اونٹ، اونٹنی، گائے، بیل، بھینس، بھینسا، بھیڑ، بکرا، بکری، دنبہ اور دنبی۔نیل گائے، ہرن، گھوڑے، خرگوش، مرغ اور بطخ وغیرہ کی قربانی جائز نہیں۔بکرا، دنبہ اور بھیڑ میں صرف ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی ہو سکتی ہے۔لیکن گائے، بھینس اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہوتا ہے۔ قربانی میں ثواب کی نیت شرط ہے۔

جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا درمیان میں سے سینگ ٹوٹ گیا ہو اس جانور کی قربانی کرنا درست ہے لیکن اگر سینگ جڑ سے اکھڑ گیاہو اور ا سکا اثر دماغ تک پہنچا ہو تو اس صورت میں ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے (شامی)۔

خصی جانور کی قربانی کا حکم
خصی جانور کی قربانی جائز بلکہ پسندیدہ ہے خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے اس کی قربانی ثابت ہے۔

حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قربانی کے دن دو مینڈھے سینگوں والے، چتکبرے، خصی ذبح فرمائے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے موٹے تازے، سینگوں والے چتکبرے، خصی خریدتے تھے۔ (اعلاء السنن ج17/255، ابن ماجہ ص232)

بکرا،بکری کا قربانی کے وقت ایک سال کا ہونا ضروری ہے،جب کہ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہو تو سال بھر سے کم بھی درست ہے اور گائے، بیل، بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ورنہ قربانی جائز نہیں ہو گی۔

جن جانوروں کی قربانی جائز نہیں
اگرجانور، اندھا،کانا، یا لنگڑا ہے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ اسی طرح ایسے مریض اور لاغر جانور کی قربانی بھی درست نہیں جو قربانی کی جگہ اپنے پَیروں پر نہ جاسکے۔ اسی طرح ایسا جانور جس کی تہائی سے زیادہ دُم یا کان کٹا ہوا ہو تو اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے اسی طرح جس جانو رکے دانت پیدائشی نہ ہوں یا اکثر ٹوٹ گئے ہوں اور چارہ نہ کھا سکتا ہو تو اس کی بھی قربانی جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اگر پیدائشی طور پر کان بالکل نہیں ہیں تو بھی قربانی جائز نہیں ہے۔

اگر جانور صحیح خریدا تھا اور پھر اس میں کوئی عیب آگیا تو اگر خریدنے والا صاحب نصاب نہیں ہے تواس کے لیے اس عیب دار جانور کی قربانی کرنا جائز ہے، لیکن خریدنے والا اگر صاحب نصاب ہے تو پھر دوسرا جانور اس کے بدلے خریدنا لازم ہے۔

قربانی کے جانور کے اگر ذبح سے پہلے بچہ پیدا ہو گیا یا ذبح کرتے وقت اس کے پیٹ سے زندہ نکل آیا تو اس کو بھی ذبح کر دینا چاہئے۔

مالدار شخص کا قربانی کا جانور اگر گم ہو جائے تو اس کی جگہ دوسرا خریدنا لازم ہے۔

بڑے جانور کی قربانی میں شریک ہونے کے شرائط
گائے، بیل، بھینس اور اونٹ میں سات آدمی مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں:
1.…تمام شرکاء مسلمان ہوں۔
2.…زیادہ سے زیادہ سات حصے دار ہوں۔
3.…سب کی آمدنی حلال ہو۔
4.… ثواب حاصل کرنے کی نیت سے شریک ہوں، اگرچہ ان کی قربانی کی جہت مختلف ہو، مثلاً، واجب قربانی، عقیقہ اور نفلی قربانی، بالفرض اگر کوئی شخص محض گوشت حاصل کرنے کی نیت سے شریک ہو گا تو سب کی قربانی درست نہیں ہو گی۔

گوشت کی تقسیم
جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں توگوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے۔ قربانی کا گوشت خود کھانا یا فریج میں اسٹاک کرنا جائز ہے مگر افضل یہ ہے کہ قربانی والے گوشت کے تین حصے کر دیئے جائیں، ایک اپنے لیے، دوسرا حصہ رشتہ داروں اور احباب کے لیے اور تیسرا حصہ صدقہ کر دیں۔

قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے۔ اسی طرح ذبح کرنے والے قصائی کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا بھی جائز نہیں۔ اجرت علیٰحدہ دی جائے۔

قربانی کی دعاء
جب جانور کو ذبح کے لیے قبلہ رولٹائیں تو یہ مسنون دعا پڑھیں:
﴿ إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَاْلأَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا أَنَا مِنَ المُشْرِکِینَ، إِنّ صَلاتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ ومَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیِْنَ ﴾

پھر﴿بِسْمِ اللهِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ﴾ کہہ کر ذبح کر یں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں: ﴿ اَللّٰھُمَّ تَقَبّلْ مِنِّيِ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ وخَلِیْلِکَ اِبْراھِیمَ عَلَیہِ السَّلاَم﴾․

اور اگر قربانی دوسرے کی طرف سے ہو تو پھرمذکورہ دعاء میں مِنّیِکی جگہ مِنْ کہہ کر ان کا نام لیں۔

کھال کے احکام
قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، لیکن فروخت کرکے قیمت کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔

اسی طرح مؤذن یا امام کو حق الخدمت کی صورت میں کھال دیناجائز نہیں ہے۔

مدارس اسلامیہ کے غریب طلبہ ان کھالوں کا بہترین مصرف ہیں۔ اس میں صدقہ کا ثواب بھی ملتا ہے او راحیائے دین کی خدمت میں بھی شرکت ہوتی ہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ مدرسین اور ملازمین کی تنخواہ میں اس کا خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔

Flag Counter