Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

3 - 19
کسبِ حلال

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
	
الحمدلله رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین، وعلی الہ وصحبہ اجمعین، ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد!

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے کسب حلال کی فضیلت اور اُس کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:”ان اطیب ما اکلتم من کسبکم“ (مشکوٰة المصابیح:242)
ترجمہ:”تمہاری سب سے زیادہ پاکیزہ روزی جو تم کھاتے ہو وہ ہے جو تمہاری اپنی کمائی ہو۔“

اس حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ و سلم نے اُس رِزق کو سب سے زیادہ پاکیزہ اور طیب فرمایا جسے انسان جائز او رقانونی ذرائع کے ذریعہ محنت کرکے حاصل کرتا ہے، چاہے وہ محنت تجارت کی شکل میں ہو، کھیتی باڑی کی شکل میں ہو، ملازمت کی شکل میں ہو یا مزدوری وغیرہ کی شکل میں۔

اسلام ایک پاکیزہ دین ہے، اس کی تعلیمات بھی پاکیزہ ہیں، اسی لیے وہ پاکیزگی کا حکم بھی دیتا ہے اور پاکیزہ روزی او رکسب حلال کی ترغیب دیتا ہے۔ چناں چہ اس سلسلہ میں اس نے جائز اور قانونی ذرائع اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ناجائز اور غیر قانونی ذرائع کے استعمال سے روکا ہے او ران ناجائز ذرائع سے حاصل شدہ روزِی کو حرام اور خبیث مال سے تعبیر کیا ہے او راس کے برے نتائج سے ڈرایا ہے۔ کسب حلال کی ترغیب دیتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”ما أکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدہ، وان نبی الله داود کان یاکل من عمل یدیہ․“(صحیح البخاری:1/287، حدیث:2068، باب کسب الرجل وعملہ بیدہ، کتب خانہ مظہری)
ترجمہ:”کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا اور الله کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔“

حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں قرآنِ کریم نے ذِکر فرمایا ہے کہ الله تعالیٰ نے اُن کے لیے لوہے کو نرم فرما دیا تھا۔ جس سے وہ زر ہیں تیارکرتے تھے جو جنگ کے وقت پہنی جاتی تھیں۔ اس سے صنعت وحرفت کی فضیلت معلوم ہوئی۔

کسب حلال اور رزق حلال کی اسلام میں اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کے لیے جس طرح ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کو بھی اس کا حکم دیا گیا ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”ان الله طیب لا یقبل الا طیبا، وان الله امر المؤمنین بما امر بہ المرسلین، فقال:﴿یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا﴾ وقال تعالی: یا ایھا الذین آمنوا کلوا من الطیبات مارزقناکم․“(صحیح مسلم:1/326، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة، ایچ ایم سعید)
ترجمہ:”بے شک الله تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور وہ پاکیزہ مال کو ہی قبول کرتا ہے اور الله تعالی نے ایمان والوں کو وہی حکم دیا ہے جس کا حکم پیغمبروں کو دیا ہے، چنا ں چہ فرمایا: اے رسول! پاک چیزوں میں سے کھاؤ او رنیک عمل کرو، مزید فرمایا: اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔“

کسب حلال کے لیے اسلام نے جن وسائل اور ذرائع کو جائز اور مشروع قرار دیا ہے، اُن ہی ذرائع کو اختیارکرنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے، جیسے تجارت، زراعت، صنعت وحرفت، ملازمت اور مزدوری وغیرہ اور ایسے ذرائع اور اسباب سے بچنا اور دور رہنا ضروری ہے جن کو شریعت نے حرام او رناجائز قرار دیا ہے اور بعض امور ایسے ہوتے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا مشتبہ ہوتا ہے، ایسے امور سے بچنے میں انسان کے دین کی حفاظت ہے اورجس نے ایسے امور سے بچنے کی کوشش نہ کی تو اس کے لیے اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس مفہوم کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:” ان الحلال بین وان الحرام بین، وبینھما امور مشتبھات، لا یعلمھن کثیر من الناس، فمن اتقی الشبھات استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام، کالراعی یرعی حول الحمی یوشک ای یرتع فیہ، الا وان لکل ملک حمی، الا وان حمی الله محارمہ․“(صحیح البخاری:52)

یعنی حلال واضح اور کھلا ہوا ہے اور حرام بھی واضح اور کھلا ہوا ہے اوران دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ایسی ہیں جو مشتبہ ہیں۔ جن کے بارے میں بہت سے لوگ شرعی حکم نہیں جانتے، لہٰذا جو شخص ان مشتبہ امور سے بچتا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا او رجوان مشتبہ امور میں پڑ گیا وہ حرام میں مبتلا ہوا۔ (پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس حقیقت کوایک مثال سے واضح فرمایا) الله تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کی مثال ایسی ہے۔ جیسے کوئی بادشاہ یا حکومت اپنے لیے ایک چرا گاہ مقرر کرکے اسے ممنوعہ علاقہ قرار دے، لہٰذا بکریاں اور جانور چرانے والوں کے لیے سلامتی اس میں ہے کہ وہ اپنے جانور سرکاری چرا گاہ سے دور چرائیں، لیکن انہوں نے یہ احتیاط نہ برتی او راپنے جانوروں کو اسی سرکاری چراگاہ کے قریب چرانے لگے تو بہت ممکن ہے کہ ان کی ذرا سی غفلت سے وہ جانور سرکاری چراگاہ میں داخل ہو جائیں اور وہ چرانے والے سرکاری گرفت میں آکر سزا کے مستحق بن جائیں۔ یہاں الله تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کو ممنوعہ علاقہ سے تشبیہ دی گئی ہے او رمشتبہ امور کی مثال اس سر زمین کی ہے جو ممنوعہ علاقہ سے ملی ہوئی ہے ۔ چوں کہ مشتبہ اور حرام چیزوں کی حدود قریب قریب ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ جو شخص مشتبہ امور میں مبتلا ہو وہ اس کی حدود سے آگے بڑھ جائے، حرام اور ممنوعہ امور کی حدود میں داخل ہو جائے۔

کسب حلال کے بارے میں ایک اور موقع پر نبی کریم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة․“(مشکوٰة المصابیح:242)

یعنی کسب حلال کی تلاش ایسا فریضہ ہے جو مسلسل باقی رہتا ہے اورجس میں کوئی انقطاع نہیں ہوتا۔

لہٰذا جس شخص کے ذمہ اپنے اپنے نفس اور دوسروں کے تعلقات کی ذمہ داری ہے اس پر یہ فرض ہے کہ کسب حلال کے ذریعہ اس ذمہ داری کو پورا کرے۔

جس طرح اسلام نے کسب حلال کی ترغیب اور حکم دیا ہے اسی طرح کسب حرام سے منع فرما کر اس کے نتائج بد سے آگاہ کیا ہے۔ان نتائج میں ایک یہ بھی ہے کہ جو گوشت حرام کھانے سے بنتا ہے وہ جنت میں نہیں جائے گا، اس کی جگہ جہنم کی آگ ہے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا یدخل الجنة لحم نبت من السحت، وکل لحم نبت من السحت کانت النار اولی بہ․“(ایضاً)
ترجمہ:”وہ گوشت جو حرام سے بنا آگ اُس کی زیادہ حق دار ہے۔“

ایک دوسری حدیث میں اس کے برے نتیجے کو اس طرح بیان فرمایا:”لایکسب عبد مال حرام فیتصدق منہ یقبل منہ، ولا ینفق منہ فیبارک لہ فیہ، ولا یترکہ خلف ظہرہ الا کان زادہ الی النار، ان الله لا یمحو السیء بسیء، ولکن یمحوا السیء بالحسن، ان الخبیث لا یمحو الخبیث“(ایضاً)
ترجمہ:”جب کوئی شخص حرام مال کماتا ہے، پھر اُس میں صدقہ کرتا ہے تو وہ صدقہ اُس سے قبول نہیں کیا جاتا اور جب اُس میں سے اپنے لیے خرچ کرتا ہے تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں دی جاتی اور اگر مرنے کے بعد حرام مال اپنے پیچھے چھوڑ کر جاتا ہے تو وہ اس کے لیے جہنم کا زادراہ بنتا ہے، الله تعالیٰ برائی کو برائی سے دور نہیں فرماتے، بلکہ برائی کو نیکی اور اچھائی سے دور فرماتے ہیں، خبیث چیز خبیث کو نہیں مٹاتی۔“

الغرض کسب حرام کے برے نتائج آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں۔

بہرحال اسلام اپنے ماننے والوں کو کسب حلال اور طیبات کی تعلیم اور ترغیب دیتا ہے او رکسب حرام او رخبیث چیزوں سے اجتناب کا حکم دیتا ہے اور یہ تنبیہ کرتا ہے کہ حلال وحرام اور طیب وخبیث یکساں نہیں ہو سکتے ، رزق حلال اور طیب چاہے مقدار میں کتنا ہی کم ہووہ اس حرام اور خبیث سے بہتر ہے جو مقدار میں زیادہ ہو۔ اس لیے عقل مند کوچاہیے کہ گندی اور حرام چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے، خواہ وہ دیکھنے میں کتنی زیادہ ، اچھی او ربھلی لگیں، ارشاد باری تعالی ہے:﴿قُل لاَّ یَسْتَوِیْ الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَکَ کَثْرَةُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُواْ اللّہَ یَا أُوْلِیْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون﴾․ (سورہ المائدہ:100)
ترجمہ:” اے پیغمبر! آپ ان سے فرما دیجیے کہ ناپاک چیز اور پاک چیز دونوں برابر نہیں، خواہ تم کو کسی ناپاک چیز کی کثرت بھلی ہی کیوں نہ معلوم ہوتی ہو ، تو اے عقل مندو! الله سے ڈرتے رہو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔“

ان احادیث کا حاصل یہ نکلا کہ اُمت اسلامیہ اور اس کا ہر فرد اس بات کا مکلف ہے کہ وہ کسب حلال اختیار کرے اور پاکیزہ روزی خود بھی کھائے اور دوسروں کو بھی کھلائے۔ الله تعالیٰ ہم سب کو کسب حلال کی توفیق دے۔

Flag Counter