Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1437ھ

ہ رسالہ

1 - 19
گھر کی ٹھنڈک

مولانا عبید اللہ خالد
	
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم اپنے آپ کو، اپنے بیوی بچوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ یہ حکم کفار کو نہیں دیا گیا، اُن ایمان والوں کو دیا جارہا ہے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسے ایک مانتے ہیں اور یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تکمیل کی جائے۔ شریعت کے مطابق زندگی گزاری جائے۔

اس آیت پر غور کیجیے اور اپنے اہل خانہ کی حالت دیکھیے تو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ آیت آج کے دَور ہی کے لیے نازل کی گئی تھی۔ قرآن کی یہ شان ہے کہ وہ اپنے نزول سے اب تک کسی بھی دور کے لیے نہایت جامع اور موثر احکام دیتا ہے، مگر یہ آیت بڑے واضح طور پر ہمارے ان گھریلو اور نجی معاملات کی طرف خوب اشارہ کررہی ہے جو انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں کہ الامان و الحفیظ!

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی آدمی جان بوجھ کر اپنی اولاد کو آگ میں ڈالنا چاہے گا؟ یقینا، وہ اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ بلکہ والدین اپنے بچوں کو معمولی سی تکلیف سے بھی دور رکھتے ہیں یا کم از کم اس کی پوری کوشش ضرور کرتے ہیں۔ یہ صرف آگ ہی نہیں ہے بلکہ جہنم کی آگ ہے جو دنیا کی آگ سے بے حساب گنا زیادہ شدید ہے۔ کیا والدین اپنی اولاد کو ایسی آگ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اپنے بچوں کو آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں؟ تو پھر، اس آیت کا کیا مطلب؟

اس آیت کا مفہوم آپ کو اس وقت بہ آسانی سمجھ آجائے گا جب آپ اپنے ارد گرد یا اپنے ہی گھر میں اولاد اور والدین، میاں اور بیوی کے درمیان تعلق پر نظر دوڑائیں گے۔ ہمارے ملنے والوں میں، ہمارے مقتدیوں میں، ایسے مسائل بڑی شد ومد کے ساتھ سننے کو ملتے ہیں کہ گھروں میں والدین اور اولاد کے درمیان شدید تنازع ہیں۔ بیوی کے لیے اپنے شوہر کو چھوڑ کر جانا اب مسئلہ نہیں رہا، حالاں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ جدائی نہایت ناپسند اور شیطان کو نہایت مرغوب ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی کی ایک بہت بڑی ذمے داری سے آنکھیں چرا لی ہیں۔ بالخصوص، گھر کا سربراہ یعنی مرد ایک شوہر کی حیثیت سے نہیں جانتا کہ ایک دین دار مسلمان شوہر کی حیثیت سے اسے اپنی بیوی کو کیسے دوزخ کی آگ سے بچانا ہے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اسے یہ ادراک ہی نہیں کہ اسے اپنے بچوں کو کیسے جہنم کی آگ سے محفوظ کرنا ہے۔ غور کیجیے کہ کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جہاں والدین اپنے بچوں کی دنیاوی تربیت، اعلیٰ ا ور معیاری تعلیم کے لیے تو کوئی کسر نہیں چھوڑتے، حتیٰ کہ ایسے اسکولوں کالجوں کا رخ کرتے ہیں ، جہاں فضا ہی دوزخ کی ہوتی ہے، اُن کے آرام کا بھرپور انتظام کرتے ہیں، انہیں پاکٹ منی بھی خوب دیتے ہیں․․․ مگر اُن کی دینی تربیت اور اسلامی شعور کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ کرنا تو دور کی بات ہے، اس بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ کتنے ہی گھرانوں میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ بچے کو اسکول سے دیر ہو تو اسے زبردستی جگایا جاتا ہے، مگر فجر کی نماز کے لیے جگاتے ہوئے بچے کی نیند کا خیال آجاتا ہے۔ بچوں کو ذاتی خرچے کے لیے تو باقاعدہ پاکٹ منی دی جاتی ہے، مگر اسے چند پیسے دے کر صدقہ کرنے کی ترغیب نہیں دی جاتی کہ اُن کا بچہ صدقہ کرنے سے آشنا ہو۔ لڑکا اگر ہوم ورک نہ کرے یا اسکول نہ جائے تو بہت برا مانا جاتا ہے، مگر وہ مسجد نہ جائے تو کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس پر مزید ظلم یہ کہ ناسمجھ بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون دے دیے گئے ہیں۔ اور جب بچے کسی واہی تباہی میں مبتلا ہوتے ہیں تو روتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں انگارے پکڑا کر اُن کے ہاتھوں کے جلنے کا گلہ․․․ چہ معنی دارد؟

یہ حرکتیں اپنے بیوی بچوں کو جہنم کی آگ کی طرف لے جانے والی ہیں۔ جب یہ کردار کسی گھر میں پلتا ہے تو اس گھر کے ماحول میں یہ تپش بڑی واضح محسوس کی جاسکتی ہے۔ آپ مسلمان ہیں، آپ کی ذمے داری ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت اس انداز سے کیجیے کہ اُن کا کردار ایسا ہو کہ جہنم کی آگ سے بچنے والے ہوں۔ جب اُن کا کردار جہنم کی ڈھال بنے گا تو گھریلو ماحول میں بھی ٹھنڈک آئے گی اور اس ٹھنڈک کی راحت آپ کو لازماً محسوس ہوگی!

Flag Counter