جھلسادینے والی لُو کو دیکھ کر بندوں کو میدانِ محشر کی گرمی کا کسی قدر احساس ہوسکے ،اور حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کی آگ اور گرمی کی آخرت کی آگ اور گرمی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ۔ذیل میں اِس سے متعلّق کچھ آیات اور روایات ذکر کی جارہی ہیں جن کو دل کی آنکھوں سےپڑھئے اور گرمی کے موسم میں اِدھر اُدھر کے تبصروں اور تجزیوں کے بجائے اِن کا اِستحضار کیجئے ، ان شاء اللہ یہ گرمی کا موسم آپ کیلئے فکرِ آخرت کا سبب اور ذریعہ ثابت ہوگا ۔
حضرت ابوہریرہنبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں : تمہاری (دنیا کی ) آگ دوزخ کی آگ کے ستّر حصوں میں سے ایک حصہ ہے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ !یہ تو دنیا کی آگ ہی (عذاب دینے کے لئے ) کافی تھی (پھر اس سے بھی زیادہ حرارت وتپش رکھنے والی آگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟) آنحضرت ﷺ نے فرمایا : دوزخ کی آگ کو یہاں (دنیا ) کی آگ انہتر (69)حصہ بڑھا دیا گیا ہےاور ان انہتر حصوں میں سے ہر ایک حصہ تمہاری (دنیا کی) آگ کے برابر ہے۔(بخاری:3265)
حضرت نعمان بن بشیرنبی کریمﷺکا اِرشاد نقل فرماتے ہیں : دوزخیوں میں سے جو شخص سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا اس کو آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جن کے اوپر آگ کے دو تسمے ہوں گے (یعنی ان جوتیوں کے تلوے بھی آگ کے ہوں گے جو پیروں کے نیچے کے حصے میں ہوں گے اور ان کے تسمے بھی آگ کے ہوں گے جو پیروں کے اوپر کے حصے پر ہوں گے) اور ان دونوں (یعنی جوتیوں کے تلوؤں اور تسموں کی تپش وحرارت سے)اُس کا دماغ اس طرح جوش مارے گا جس طرح دیگ جوش کھاتی ہے ۔ وہ شخص (دوسرے جہنمیوں سے واقف نہ ہونے یا عذاب کی