عزت کس سے ملتی ہے؟
ایک صاحب نے آج ہی مجھے بتایا کہ میں بیس سال کا جوان ہوں، لیکن جب سے میں نے داڑھی رکھی ہے تو ستر سال کی بڑھیا بھی مجھے چچا میاں کہہ کر میرا مذاق اڑا رہی ہے تاکہ چچا میاں سن کرڈر جائے اور داڑھی منڈادے۔ میں نے اس نوجوان لڑکے سے کہا کہ ظالم! اگر ستر برس کی بڑھیا تجھ کو چچا میاں کہتی ہے، تو اس میں تیری عزت ہے یا ذلت ہے؟ تجھے تو اس عزت پر اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح آج اگر کوئی سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی برقعہ پہن لے تو اس کے خاندان والے اس کو کیا کہتے ہیں؟ اماں ذرا راستہ دے دو۔ اب وہ اٹھارہ سال کی لڑکی ڈر جاتی ہے کہ برقعہ سے تو ہمیں اماں بننا پڑا۔ ارے ظالم! تجھے اﷲ عزت دے رہا ہے کہ بڑے بڑے تجھے اماں کہہ رہے ہیں، شکر ادا کر کہ اﷲ نے تجھے عزت دی۔ کیا تو یہ چاہتی ہے کہ لوگ تجھے چھوکری کہیں؟
میرے ایک دوست، علامہ شبلی کے بھتیجے، ساٹھ سال کی عمر تھی۔ ماشاء اﷲ ان کی بڑی خوبصورت داڑھی تھی۔ وہ بس پر سوار ہوئے تو جو لڑکے بیٹھے تھے وہ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ چچا میاں! آپ میری سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ ایک صاحب ان سے دس سال بڑے ستر سال کے اپ ٹو ڈیٹ ٹائی لگائے داڑھی منڈائے ہوئے کسی اچھے دفتر میں ملازم تھے انہوں نے میرے دوست سے پوچھا کہ آپ کی کیا عمر ہے؟ انہوں نے کہا: ساٹھ سال۔تو اس نے لڑکوں سے کہا میں ان سے دس سال بڑا ہوں،تم لوگ مجھے کیوں نہیں بٹھاتے، مجھے چچا کیوں نہیں کہتے؟ تو لڑکوں نے کہا کہ تم تو بھتیجے لگ رہے ہو،چچا کہاں لگ رہے ہو، چچا تو جب لگو گے جب اتنی بڑی داڑھی رکھوگے۔
عقل پر عذاب کی علامت
ایک غضب اور ہے۔ بس کیا کہوں غضب بالائے غضب ہے کہ نیک خاندان کی لڑکی نماز روزے والی، برقعہ اوڑھنے والی، پیسے کے لالچ میں اس کے ماں باپ نے اسے امریکی تعلیم یافتہ بد دین بے نمازی مسٹر کو دے دیا۔ جب وہ برقعہ اوڑھ کر اپنے شوہر کے گھر گئی، تو شوہر نے