خلیفہ ملا مولانا جلال الدین رومی، لیکن ساری دنیا میں ان کا ڈنکا پٹ گیا۔ بیس سال سے میں اپنی تقریر پر لوگوں کا شکریہ سن رہا ہوں اور دعائیں لے رہاہوں۔بیس سال میں مجھے پہلی مرتبہ ایسا ٹیلی فون ملا کہ اپنی تقریر میں تم حسن کے جو پرخچے اڑاتے ہو اور حسن کا پوسٹ مارٹم کرتے ہو اس سے تو عورت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
حسنِ فانی کا پوسٹ مارٹم کرنا کسی کی بے حرمتی نہیں
کیا یہ عورت کی حرمت ہورہی ہے کہ وہ سڑکوں پر ننگی پھر رہی ہیں؟ میرا مقصد بے پردہ پھرنے والی عورتوں کے حسن کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے، تاکہ لوگ ان کے چکر میں پھنس کر برباد نہ ہوں۔ میں حسنِ مجازی کے پوسٹ مارٹم میں لڑکوں کو بھی شامل کرتا ہوں، بہت سے لوگوں کو نوجوان لڑکوں سے عشق بازی کا مرض ہے، ان کے گال او ر کالے بال بھی اس میں شامل ہیں۔ بوڑھا ہونے کے بعد ان جوانوں میں کیا رہے گا؟ اس پر میرا شعر ہے ؎
کمر جھک کے مثلِ کمانی ہوئی
کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی
اس شعر میں کسی کی بے حرمتی ہورہی ہے؟ میں اس عورت سے جس نے مجھے یہ فون کیا تھا کہوں گا کہ قونیہ میں مولانا رومی کی قبر پر جا کر یہی بات کہہ دے جو مجھ سے فون پر کہی کہ حسن فانی کا پوسٹ مارٹم کرنے سے عورت کی بے حرمتی ہورہی ہے۔ اب حسنِ فانی کے زوال پر مولانا رومی کا بھی شعر سنیے ؎
زلفِ جعد و مشکبار و عقل بر
آخر او دم زشت پیرِ خر
اے انسانو، اے ایمان والو! جن کی زُلف کالی ہے، گھنگھریالی ہے، مشک بار ہے، مشک کی خوشبو آرہی ہے، عقل بر ہے، عقل کو اُڑا لے جا رہی ہے، ان پر ایمان مت دو، ان پر جان مت دو۔ جب یہ کالی زلفوں والی عورتیں بڈھی ہوجائیں گی، تو ان کی چُٹیا بڈھے گدھے کی دُم معلوم ہوگی۔ یہ کس کا کلام ہے؟ اختر جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ کے فارسی شعر کا ترجمہ پیش کررہا ہے کہ خبردار! کسی کی کالی زلفوں پہ مت جانا، بڑھاپے میں اُن کی یہ چُٹیا بڈھے گدھے کی دُم معلوم ہوگی ؎